Episode 27 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 27 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

نام میں کیا رکھا ہے
آپ نے بہت سی طرح کے لوگ دیکھے ہونگے بہت سے لوگوں کے بارے میں سنا ہو گا مثلاً لاوارث ، لا دین ، لاولد، بے دین ، مگر کبھی بھی ”بے نام“ نہیں سنا ہوگا۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو کہ ہر انسان کے پاس ہوتی ہے اس کی کوالٹی مختلف ہو سکتی ہے۔ اسے یہ کہاں سے کیوں ملی یہ اہم نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ سب کو یہ دولت مفت ملتی ہے بغیر محنت کے ملتی ہے اور یہ وہ ناقابل استعمال خزانہ ہے جسے کوئی چوری نہیں کرتا۔
نام پیدا کرنا مشکل ترین کام ہے مگر نام رکھنا آسان ترین۔ کیونکہ یہ دوسرے کا رکھنا ہوتا ہے جبکہ ”نام“ خود اپنا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جو کہ ایک محنت طلب کام ہے۔ اس میں کامیابی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی بعض اوقات بہت محنت کے بعد بھی نام پیدا نہیں ہوتا مگر انسان فوت ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

”نام رکھنا“ مختلف لوگوں کیلئے مختلف طرح کے حالات میں ایک مختلف سا کام ہے۔
کچھ لوگ بہت عرق ریزی کرتے ہیں بہت Unique سا نام رکھنے کیلئے جو کبھی کسی نے پہلے نہ رکھا ہو۔ اس Uniqueness کی کوشش میں وہ نام کے معانی سے بے نیازہو جاتے ہیں کیونکہ ایک نام اتنے سارے Criterion پر بیک وقت پورا نہیں اتر سکتا۔ اسی وجہ سے آج کل ایسے ایسے نام سننے میں آتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ایسے نام کئی قسم کے مسائل پیدا کرتے ہیں زیادہ تر تو یہی پتہ نہیں چلتا کہ بچہ لڑکا ہے یا لڑکی کیونکہ نام جو Unique رکھا گیا ہوتا ہے۔
دوسرے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کس زبان کا لفظ ہے۔ تیسرے یہ کہ لکھا کیسے جائے گا اور لکھ بھی لیا تو پڑھا کیسے جائے گا۔ اتنے سارے مسائل سے تنگ آ کر Birth record کرنے والے Union council کے عملے نے یہ حل نکالا کہ بچے کا نام‘ والد کا نام‘ تاریخ پیدائش وغیرہ Written from میں ان کے پاس لائی جائے تاکہ انہیں اندراج کرنے میں مسئلہ نہ ہو۔ انفرادیت کے اس چکر میں لوگوں نے ایسے نام بھی رکھے جن کا مطلب ہوا‘ لوہا  سیپی وغیرہ تھے۔
ایک مرتبہ ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جن کی دو بیٹیاں تھی ان کے نام شین اور اشل وغیرہ تھے۔ سنتے ہی تو یوں لگا جیسے اس بچی کا نام شین یعنی حروف تہجہی والا ”ش“ ہے مگر والدہ سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ حروف تہجہی والا شین نہیں بلکہ کسی اور ملک کی کسی اور زبان کے الفاظ ہیں۔ کس قدر مشکل اٹھانی پڑتی ہے لوگوں کو منفرد نام رکھنے کیلئے ملک اور زبان بھی بدلنے پڑتے ہیں۔
یعنی غیر ملک کی غیر زبان کی خدمات حاصل کرکے شوق پورا کیا گیا۔
اس کے برعکس کچھ نام ناقابل یقین حد تک لاپروائی سے رکھے جاتے ہیں مثلاً دھماکہ خان  جس روز پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے ایک پاکستانی نے خوش ہو کر اپنے اس روز پیدا ہونے والے بیٹے کا نام ”دھماکہ خان“ رکھا۔ اسی طرح ایک خاتون کا نام ”خط بی بی“ تھا حالانکہ وہ اچھی خاصی خاتون تھی کہیں سے بھی ان پر خط کی کسی بھی طرح کی مماثلث کا گمان تک نہ گزرتا تھا۔
نہ تو وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھی اور نہ ہی خط کا مطلب و مقصد سمجھتی تھی۔
ایک ایسی بھی عورت سے کئی بار ملاقات ہوئی جس کا نام ”غنڈو“ تھا۔ گالیوں کے طور پر استعمال ہونے والے الفاظ کا اس قدر احسن استعمال سمجھ سے باہر ہے۔ مگر یہ خاتون (غنڈو) اس قدر سادہ اور معصوم تھی کہ ان کو ان کے فائدے کی بات سمجھانا بھی جوئے شیر لانا تھا۔ یہاں تک مشکل اٹھانی پڑتی کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ ان کا نام ”غنڈو“ ہے تو یہ حال ہے اگر کوئی اور نام ہوتا تو کس قدر مشکل ہوتی ان کے اہل خانہ کو۔
اللہ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔ اس نام کے رکھے جانے میں پنہاں بہتری واضح نظر آتی تھی۔ اللہ کو ضرور اپنی باقی مخلوق پر ترس آیا ہوگا جن کو ان کے ساتھ گزارا کرنا تھا۔
کچھ نام بچارے بہت متنازعہ ہوتے ہیں۔ خالی نام سے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ نام کا اہلکار کون ہے؟ کوئی مرد یا عورت؟ ایسے ناموں کو Asexual/Genderless نام کہا جاتا ہے۔ ان ناموں کے آپ کو مرد بھی ملیں گے اور عورتیں بھی۔
شاید ایسا تھا کہ ان لوگوں کے والدین کو یہ نام پسند تھے یا رکھنے کا ارادہ تھا پھر جب بچہ پیدا ہوا تو یہ نہ دیکھا کہ بچہ کیا پیدا ہوا ہے؟ (لڑکا یا لڑکی) بس فوراً پیدا شدہ بچے کا پسندیدہ نام رکھ دیا۔ ایسے نام کے حامل افراد مضبوط قوت ارادی کے والدین کی اولاد معلوم ہوتے ہیں جنہوں نے بچے کی جنس دیکھ کر بھی نام رکھنے کا (سوچا ہوا) ارادہ نہ بدلا۔
بچہ ضائع کر دیا مگر نام نہیں۔ ایسے ناموں کی مثال نسیم  مصباح  طلعت وغیرہ ہیں۔
بعض نام ایک علاقے میں مردوں کیلئے اور دوسرے کسی علاقے میں عورتوں کیلئے استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ ”فردوس“ نام صوبہ پنجاب میں عورتوں کیلئے اور خیبر پختونخوا میں مردوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
کبھی کبھار کوئی مردانہ نام عورت کا یا زنانہ نام مرد کا رکھ دیا جاتا ہے (یعنی مقبول زمانہ وہ نام مرد یا عورت کیلئے مخصوص ہوتا ہے۔
مگر اس کے برعکس رکھ دیا جاتا ہے۔)
مثلاً آنکھوں دیکھا حال ہے کہ ایک شادی کی تقریب تھی جس میں صاحب خانہ نے اپنے سمدھی صاحب کو جن کا نام ”کوثر“ (کیونکہ یہ نام عام طور پر عورتوں کا رکھا جاتا ہے) تھا آواز دے کر بلایا۔ تقریب شادی کی تھی اس میں ”کوثر“ نام کی متعدد خواتین شریک تھیں۔ کوثر! نامی صاحب نے (جن کو آواز دی گئی تھی) سننے میں، متوجہ ہونے میں دیر کر دی۔
مگر اسی اثناء میں وہاں موجود کوثر نامی تمام عورتوں نے ان صاحب کی طرف دیکھا کسی کی آنکھوں میں حیرت تھی‘ کسی کی میں ہیبت  کسی کی میں غضب  کسی کی میں قہر مگر خیریت کہیں نہ تھی۔ ابھی یہ سب تاثرات ان عورتوں کی آنکھوں میں ہی تھے  زبانیں  دانتوں کی قید میں تھی مگر ایکشن کی تیاری کر رہی تھیں کہ ان صاحب کو فوراً احساس ہو گیا اور انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دوبارہ کہا ”کوثر صاحب“ کہاں ہیں آپ؟ کمال حکمت کا مظاہرہ کیا گیا کوثر کے ساتھ صاحب لگا کر۔
اس طرح مخاطب کرنے سے وہ ان عورتوں کے زبان کے وار سے خود کو محفوظ کر پائے۔ ورنہ کچھ دیر کیلئے تو عزت‘ وقار سب کچھ داؤ پر لگ گیا تھا۔ مگر فوراً سنبھل لئے ورنہ شادی کا گھر حیرت کدہ اور اکھاڑہ بن جاتا۔
دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی نام کو سابقے اور لاحقے لگا کر مرد و زن دونوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
بی بی اور بیگم لگا کر ایک نام کو عورت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو محمد‘ جان اور صاحب لگا کر اسی نام کو مرد کیلئے۔
استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً ارشاد بی بی  ارشاد بیگم عورتوں کیلئے اور محمد ارشاد وغیرہ مردوں کیلئے امتیاز اور شمشاد وغیرہ بھی یونہی Misuse اور use ہوتے رہتے ہیں۔ نام رکھنے والوں کے options کے اس قدر محدود ہو جانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
امیر ہونے کے بہت سے طریقے آپ نے سنے ہونگے مگر ایک طریقہ ایسا ہے کہ جس کا انتظام آپ خود نہیں بلکہ دوسرے آپ کیلئے کرتے ہیں تاکہ آپ اس کے زیر اثر امیر ہو سکیں یعنی نام ایسا رکھا جاتا ہے کہ اس کے زیر اثر بچہ امیر ہو جائے۔
یہ سب حاصل کرنے کیلئے، یہ خواب پورا کرنے کیلئے بچے کے نام کے ساتھ ”زر“ لگا دیا جاتا ہے جیسا کہ زر ولی  زربخت  زریاب اور اگر زر ملکیت میں لینے کی فوری خواہش ہو تو زر ملوک نام رکھا جاتا ہے۔ بحرحال جس کی جیسی تمنا ہوتی ہے ویسے ہی وہ اس Prefix کا استعمال کرتا ہے۔ زربخت میں چاہئے یا ملکیت دونوں کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اسPrefix یعنی ”زر“ کو Financial surity bond کہنا عین مناسب ہے۔
مگر کچھ لوگ اپنی مال کی خواہش کو اشاروں، کنایوں میں ظاہر کرنے کی بجائے براہ راست کرنسی کے نام پر بچے کا نام رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً ٹکا خان  ہزار خان  روپی بی بی وغیرہ۔ یہ Pure financial names ہیں جبکہ جن لوگوں کو بے حساب کتاب روپیہ پیسہ چاہئے ہوتا ہے وہ ٹکا  روپیہ اور ہزار کے چکروں میں بھی پڑنا نہیں چاہتے بلکہ نام ”دولت خان“ ”دولت ملک“ رکھتے ہیں یعنی کسی بھی Postfix کے ساتھ ”دولت“ کا لفظ لگا کر نام رکھ کر دولت کے آنے کا انتظار شروع کر دیا جاتا ہے۔
ایک ایسے شخص کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا نام دولت تھا مگر وہ بہت غریب تھا شاید اس کے پاس پیسے کے علاوہ اور بہت سی دولتیں ہوں۔ والدین سوچتے ہیں کہ ہماری زندگی تو مشکل کٹی بچے کی بہتر ہونی چاہیے۔ بچے کی زندگی میں مالی آسودگی لانے کا پہلا انتظام اس کے پیدا ہوتے ہی ناموں کی Financial category میں سے اس کا نام رکھ کر والدین اپنی پہلی ذمہ اری بھی Futur insurance کے ساتھ پوری کرتے ہیں۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan