Episode 57 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 57 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

BA میں نمایاں پوزیشن لینے کے بعد وہ (زیتون ملک) پنجاب یونیورسٹی میں MA میں داخلہ لیتی ہے تو سلمیٰ اس سے پوچھتی ہے۔
اب پھر عربی خدا کی پناہ
زیتون
ہاں اب میں عربی ہی پڑھنا چاہتی ہوں۔ ایک عجیب سی کشش ہے اس زبان میں جو مجھے جکڑے ہوئے ہے۔ میں جتنا اس کو پڑھتی ہوں اتنا ہی زیادہ شوق پیدا ہوتا ہے اسے مزید پڑھنے کا۔
سلمیٰ
یعنی تمہیں Arabic Addiction ہو گئی ہے۔
زیتون
میں قرآن کو سمجھنے کیلئے ایسا کرنا چاہتی ہوں
سلمیٰ
تو اب یہ نیا شوق پیدا ہوا ہے
زیتون
نیا تو نہیں
یہ شوق تو بہت پہلے پیدا ہونا چاہیے تھا مگر دیر ہو گئی
سلمیٰ
اچھا بابا تم کرو نئے تجربات۔ میں تو MA انگریزی کروں گی یعنی Modern Language میں ماسٹرز۔

(جاری ہے)

کچھ تو بندہ زمانے کے ساتھ چلے۔
زیتون
اچھا تو اب زبانوں کا بھی زمانہ اور فیشن ہوتا ہے۔
اچھا یہ تو بتاؤ کہ تمہاری یہ انگریزی زبان کتنا عرصہ فیشن میں In رہے گی۔
(زیتون نے بحث کو شوخی میں بدلنا چاہا)
سلمیٰ
اب فضول باتیں مت کرو
#…#…#
پنجاب یونیورسٹی میں زیتون MA میں ٹاپ کرتی ہے۔ اسے وہیں اس یونیورسٹی میں Arabic میں M Phil میں ایڈمیشن مل جاتا ہے۔
#…#…#
زیتون کا M Phil مکمل ہونے والا ہوتا ہے۔ سعودی گورنمنٹ عربی میں Ph.D کے لیے دو سکالر شپ دیتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی والے ٹاپ کرنے والے دو طالب علموں کے نام بھیج دیتے ہیں (ان میں ایک نام زیتون کا ہوتا ہے)
زیتون ملک کا نام Ph.D کے لیے Select ہو جاتا ہے۔ انٹرویو کی Call آ جاتی ہے۔
#…#…#
زیتون ملک انٹرویو دینے جاتی ہے۔ انٹرویو لینے والا زیتون ملک کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے۔
وہ کہتا ہے۔ (عربی بولتے ہوئے)
یہ تو عورت ہے! (اس کے تاثرات حیران کن ہوتے ہیں)
کیا یہی زیتون ملک ہے؟
میں ہی زیتون ملک ہوں (زیتون نے تصدیق کی)
مگر یہ سکالر شپ تو صرف مردوں کے لیے یعنی مرد طالب علموں کے لیے ہیں ہمارے ہاں تو زیتون مردوں کا نام ہوتا ہے۔
اس لیے غلط فہمی کی وجہ سے آپ کا نام Select ہو گیا ہے۔ آپ کی جگہ کسی مرد طالب علم کو بھیجنا ہو گا آپ کی یونیورسٹی والوں کو!
(زیتون ملک کو پہلی بار اپنے نام کا فائدہ ہوا۔ جس نام پر وہ شرمندہ ہوتی تھی۔ آج وہی اس کے لیے کامیابی کی سیڑھی بن کر سامنے کھڑا تھا)
زیتون نے کہا
”مگر میں تو Ph.D کرنا چاہتی ہوں“
”میرا Selection ہو گیا ہے۔
”انٹرویو لینے والے صاحب نے بتایا۔“
”مگر سعودی قوانین کے مطابق کوئی عورت یہ سکالر شپ لینے کی اہل نہیں“
”زیتون“
”اس میں میرا کیا قصور ہے“
ان صاحب سے جواب ملا
”ایسا Selectionکسی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ جائیں۔ یہ ممکن نہیں۔“
#…#…#
زیتون جا کر یونیورسٹی انتظامیہ کو بتاتی ہے۔وہ اس Case کو Take up کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کے Deen سے بات کی جاتی ہے۔ وہ سعودی گورنمنٹ سے بات کرتے ہیں کہ زیتون ملک Toper ہے۔ اس کا حق سب سے زیادہ بنتا ہے کہ اس کو Ph.D کے لیے سکالر شپ دیا جائے۔ آپ اپنے قوانین کے تحت اس کو Accomodate کریں۔
#…#…#
سعودی قوانین کے مطابق زیتون ملک صرف محرم کے ساتھ ہی Phی کرنے جا سکتی تھی۔ Phd کرنا بھی ضروری، شوق انتہا کو پہنچ گیا مگر محرم کہاں سے آئے۔
شادی فی الفور نہیں ہو سکتی تھی۔ زیتون کو پڑھائی کی اجازت دیتے ہوئے اس کے والد نے اس کی دوسری بہن جو صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکی تھی کی شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کر دی تھی۔ نہ فوری طور پر کوئی رشتہ دستیاب تھا نہ رقم موجود تھی کہ شادی کر دی جائے کیونکہ ابا بہن کی شادی پر رقم خرچ کر چکے تھے۔ ابا اس لیے ساتھ نہیں جا سکتے تھے کہ پیچھے چھوٹی بہن اور امی کا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔
لہٰذا محرم کا انتظام بھی ناممکن ہو گیا۔
#…#…#
زیتون کا تعلیمی ریکارڈ اور شوق دیکھتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ بھی زیتون کا ساتھ دے رہی تھی اور ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ اب جب کہ Selection (بے شک ریکارڈ کی غلطی یا نام کی غلط فہمی کی بدولت ہی سہی) ہو ہی گیا ہے تو سعودی گورنمنٹ کو Back out نہ کرنے دیا جائے۔ بحرحال بہت کوشش کے بعد سعودی گورنمنٹ کے قوانین میں مزید ایک چیز جو موجود تھی اس کا پتہ چل گیا۔
یہ پتہ لگ جانے پر جسکی گنجائش قانون میں موجود تھی اس کی اجازت لے لی گئی۔ یہ چیز، یہ گنجائش، یہ قانون ”حق کفالت“ تھا۔ یعنی اللہ نے زیتون کے لیے ایک اور راہ کھول دی۔
حق کفالت کے تحت دو ذمہ دار عہدیداران اگر زیتون ملک کے کفیل ہوں تو وہ Phd کرنے سعودیہ جا سکتی تھی۔ ایک کفیل سعودی عرب میں ہونا ضروری تھا جبکہ دوسرا کفیل پاکستان میں۔
اب نئی مشکل کفیل ڈھونڈنے کی تھی۔ مگر اللہ جب کوئی چیز عطا کرنا چاہے تو راستے بھی بنا دیتا ہے۔ بحرحال ایک اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی شخصیت کے اعلیٰ عہدے پر فائز بھائی نے زیتون ملک کا کفیل بننے کی حامی بھر لی۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں کفیل کا انتظام کر لیا اور وہ انتظام یہ تھا کہ سعودی سفیر نے خود کفالت کرنے کی حامی بھر لی۔
آخرکار زیتون ملک کو فل برائٹ سکالر شپ پر سعودی عرب جانے کی اجازت مل گئی۔
اب مرحلہ تھا اسلام آباد جا کر ویزا لگوانے کا۔ نہ تو والد صاحب کو پتہ کہ اسلام آباد کہاں ہے نہ وہاں کوئی رشتہ دار نہ کوئی جان پہچان والا۔ اگر جائیں تو کہاں، کس کے پاس، زیتون کے والد گاؤں میں پتہ کرتے ہیں۔ گاؤں کے ایک سکول ماسٹر کی لڑکی (بیٹی) کی شادی لاہور میں ہوئی تھی اس کی نند اسلام آباد میں رہتی تھی۔
کوشش بسیار کر کے اس نند کا ایڈریس لیا گیا۔ اس کے گھر جا کر اسلام آباد سے ویزا لگوایا گیا۔
آخرکار زیتون ملک محرم کے بغیر، کفیل کے زیر کفالت Phd کرنے فل برائٹ سکالر شپ پر سعودی عرب جانے والی پہلی خاتون سعودی عرب پہنچ جاتی ہے۔ سعودی عرب میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ اس کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ رہائش، خوراک، اخراجاتِ سفر تمام انتظام سعودی گورنمنٹ کی طرف سے تھا۔
اس کے علاوہ ہر چار ماہ بعد پاکستان کا Return Ticket مفت، ہر ماہ عمرہ کرنے کی اور ہر سال حج کرنے کی اجازت مفت۔ زیتون کی خوشی کی انتہا نہ تھی یہ سب پا کر۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ اتنی سہولیات اور مراعات کے ساتھ Phd کرنے جائے گی۔ سعودی گورنمنٹ Arabic میں Phd کرنے والوں کو خصوصی پروٹوکول دیتی ہے مثلاً
زیتون کو خانہ کعبہ کھول کر اندر سے دکھایا جاتا ہے۔
اس کے سامنے خانہ کعبہ کی چابی منگوائی جاتی ہے، خانہ کعبہ کھولا جاتا ہے۔ اس کو اندر سے دکھایا جاتا ہے۔ زیتون کو سمجھ نہیں آتا کس طرح شکر ادا کرے اتنی نعمتوں کا۔ کہ جو چیز صرف سربراہان مملکت کو دیکھنا نصیب ہوتی ہے آج زیتون کو بھی نصیب تھی اور وہ بھی اس پروٹوکول کے ساتھ۔ وہ اللہ کے گھر کو خصوصی مہمان کی حیثیت سے اندر سے دیکھ رہی تھی۔
صرف یہی نہیں اسے مدینہ منورہ بھی لے جایا گیا۔ روضہٴ رسول کھول کر اندر سے دکھایا گیا۔ اسے اپنی قسمت پر یقین نہ آتا تھا۔ مگر یہ سب سچ تھا بلکہ اس کی نظروں کے سامنے موجود اٹل حقیقت…… آج یہ سب میڈیم سکینہ کی بدولت تھا جن کا رویہ مجھے یہاں لے آیا۔
زیتون کے والدین نے بھی حج کیا۔ زیتون کی پڑھائی پر سب سے زیادہ نالاں ہونے والی اس کی ماں سب سے زیادہ خوش تھی۔ ہر وقت زیتون کے لیے دعا گو رہتی تھی۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan