Episode 50 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 50 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

نیا سلسلہ جو رواج پا چکا ہے وہ شو کا کوئی ٹاپک رکھنے کا ہے۔ یہ کام اس انداز سے کیا جاتا ہے کہ فضول کا شوشہ لگتا ہے۔ ٹاپک کے مطابق عوام سے SMS کرنے کو کہا جاتا ہے عوام کو کال کرنے کی دعوت دی جاتی ہے، وہاں موجود لوگوں کی فوج سے پوچھا جاتا ہے وغیرہ اس کے علاوہ مہمان بھی Topic کے حساب سے بلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ کوشش بہت بری ہوتی ہے بلائے گئے مہمانوں کا علم و شعور، کسی کی Approch، کسی کا اندازِ بیان اس قابل نہیں ہوتا کہ ان سے یہ کام لیا جاتا۔
مگر اکثر یہ کوشش اچھی اور کبھی کبھار تو بہت اچھی ہوتی ہے۔ مگر اس اچھی اور بہت کوشش کے ساتھ Host پروگرام کے دوران کیا سلوک کرتا ہے صرف دیکھا ہی جائے تو بہترہے ورنہ بیان کرنا تو خاصا مشکل ہے۔ پروگرام کا Host جو کہ بظاہر عاجز بننے کی کوشش کرتا مگر عاجز ہوتا نہیں اس کے الفاظ و انداز اس کا فخر ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے جیسے با کمال Show تو اور کوئی نہیں کرتا اور تاثر یہ دیتے ہیں کہ جیسے پہاڑ توڑ رہے ہوں۔

(جاری ہے)

ترس آتا ہے ان لوگوں پر کیونکہ انتہائی سنجیدہ Topic پر بھی پروگرام کا حشر نشر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ عوام کچھ سیکھ کر اٹھنے کے بجائے الجھ کر اٹھتے ہیں۔ پہلا مسئلہ، یہ کہ پروگرام کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا کہ آج کم از کم کیا Message، کیا Information، کیا Technique عوام تک ضرور پہنچانی ہے۔ زیادہ سے زیادہ بولنے والے اکٹھے کر لینا، زیادہ لوگوں کو بولنے کا موقع دینا کوئی مقصد، کوئی کامیابی نہیں اس سے حاصل کچھ نہیں دوسرا یہ کہ پروگرام کا زیادہ وقت فضول بحث میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔
مثلاً فضول مہمان جو کہ مجمع بڑھانے کے لیے بلائے گئے ہوتے ہیں جو Topic پر دسترس تو کیا معلومات بھی نہیں رکھتے ان سے اِدھر اُدھر کی بے کار گفتگو کر کے قیمتی وقت ضائع کر دیا جاتا ہے۔ پھر وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہانیاں سن سن کر فضول کے ٹھٹھے مار مار کر بڑا اور اچھا موقع ہاتھ سے نکال دیا جاتا ہے۔ Host کی اپنی معلومات کم ہوتی ہیں کیونکہ وہ تیاری تھوڑا ہی کر کے آتے ہیں اور عمومی طور پر وہ اتنے اہل علم و شعور نہیں ہوتے کہ بغیر تیاری کے موثر انداز میں جامع روشنی ڈال سکیں اپنے Topic پر۔
ویسے بھی Morning Show کی نوکری تو Part time جاب کی طرح کی جاتی ہے۔ معلومات کی تنگی کے علاوہ صبر ککی کمی اور تمیز کا فقدان زیادہ بڑی خامیاں ہیں۔ اگر Host کا اپنا سخت نقطہٴ نظر ہو تو وہ Expert کو بات بھی نہیں کرنے دیتا۔ اچھا Host ہونے کے لیے دوسرے کو سنجیدگی سے سننا بھی ضروری ہے۔ دوسرے کو بولنے کا موقع دینے کی عادت ہونا بھی ضروری ہے۔ انتہائی صورتحال جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ Expert مہمان جو کہ Scholar ہیں حلیم طبیعت کے مالک ہیں۔
انتہائی اہم موزوں پر سنجیدہ بات بتا رہے ہیں۔ Host کے نزدیک اس شخص کی بات عوام تک پہنچنا اہم نہیں ہوتا وہ نہ تو دھیان سے سنتا ہے نہ سننے دیتا ہے۔ مہمان بول رہا ہے یہ اسے ٹوک رہے ہیں۔ اختلاف رائے پر دوران گفتگو بے لگام بے تحاشہ، بلاوجہ ہنس رہے ہیں۔ لگتا یوں ہے پروگرام عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے کر رہے ہیں۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ جب Expert تک بات پہنچتی ہے تو وقت بہت کم رہ چکا ہوتا ہے۔
Expert کی باتیں جو کہ دھیان سے سنی جانی چاہئیں اور بار بار دہرائی جانی چاہئیں ہوتی ہیں ان کو آخر میں جلدی جلدی عوام کی طرف بغیر نشانہ لیے (یعنی غیر موثر انداز میں) پھینکا جاتا ہے کوئی Catch کر سکتا ہے کرے ورنہ کوئی ضروری نہیں والا Attitude ہوتا ہے اس صورت میں Host مسلسل شور مچاتا ہے اتنا وقت رہ گیا۔ اس کا اپنا دھیان تو Expert کی بات کی طرف ہوتا نہیں وہ اوروں کا دھیان بھی مرکوز نہیں ہونے دیتا کیونکہ اسے کہیں Winner کا Announcement کرنا ہوتا ہے کہیں SMS کی بات کرنی ہوتی ہے کہیں کسی Sponser کا پیغام سنانا ہوتا ہے۔
کہیں خود Closing کرنی ہوتی ہے Show کی۔ ڈائریکٹر، کان، ٹیلی فون، کالز، زبان اور مہمان کے درمیان جنگِ مسلسل ہوتی ہے کبھی کوئی غلط بات ہو جاتی ہے کبھی ٹھیک بات نکل جاتی ہے مگر پروا کوئی نہیں ہوتی۔
تیسرا اندازِ گفتگو ماہرین کے ساتھ Host کا جو دیکھنے میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ Expert بات شروع کرتا ہے تو Host اپنے خیالات کا اظہار شروع کر دیتا ہے وہ زبردستی Host سے بولنے کی باری واپس نہ کرنے کے لیے چھین لیتا ہے۔
جب Host تھک جاتا ہے Expert پھر بات شروع کرتا ہے تو کال آ جاتی ہے۔ کال پر Host تبصرہ کرتا ہے ماحول و معاملہ اصل ٹاپک سے ہٹ جاتے ہیں۔ اس کے بعد کالر کی بات پر موجود مہمانوں میں سے کوئی دوسرا تبادلہ خیال شروع کر دیتا ہے۔ پھر جب یاد آتا ہے کہ Expert بات کر رہے تھے تو ان کو دعوت کلام دی جاتی ہے۔ ادھر وہ شروع ہوئے ادھر Break کا وقت آ گیا۔ Break سے واپس آ کر سارے کام مثلاً فون نمبر بتانے کا، Sms کا طریقہ بتانے کا، Sponser کا اناؤنسمنٹ کرنے کا وغیرہ وغیرہ نمٹا کر پھر Expert بات کرنا شروع کرتا ہے تو بٹھائے گئے Comedian کوئی چٹکلہ بے سرو پاسا چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر Expert گفتگو سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے تو Host کو یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ باقی مہمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے انہیں بھی موقع دیا جانا چاہیے ان سے کسی بات پر جو کہ Expert بتا رہا ہوتا ہے Comments مانگ لیتا ہے۔ اب یہ سارا Expertکے حافظے اور حوصلے کا امتحان ہے۔ Expert بات کر رہا ہوتا ہے Host اگر اس سے Agreeنہ کرتا ہو تو وہ ناگواری کے اتاثرات کا برملا اظہار اسی وقت کرتا ہے۔
بے زاری سے Hold کی گئی بے تکی کال کی طرف لپکتا ہے۔ کال سے فارغ ہو کر Director کا اگلا حکم بجا لاتا ہے۔ Expert جو کہ ایک جملہ کئی کئی مرتبہ شروع کر کے رک چکا ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر ہمت کر کے شروع کرتا ہے اب وہ بات مکمل کرتا ہے تاکہ جان چھڑا سکے وہ اس کوشش میں مصروف ہوتا ہے اکثر کامیاب ہو جاتا ہے۔ خود کو گفتگو سے، اپنی ہی ماہرانہ رائے سے چھڑا لیتا ہے مگر شاذو ناذر ہی اس دوران کوئی دوسرا بے وقوف بولنے لگتا ہے پھر Host اپنا حصہ ڈالتا ہے باقی لوگ بھی پیچھے نہیں رہتے۔
ہوتا یوں ہے کہ سارے اکٹھے بول رہے ہوتے ہیں کوئی بھی سن نہیں رہا ہوتا۔ ناظرین جو سننے بیٹھے تھے۔ Expert کے الفاظ کے منتظر تھے۔ مایوس ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کیوں ہر کوئی بے وقوفی کرتا ہے؟ کیوں سب بچے بن جاتے ہیں؟ بلکہ شاید بچے بھی ایسی بچگانہ حرکتیں نہیں کرتے جیسی یہ بڑے کرتے ہیں۔
Expert کو اپنی بات مکمل کرنے میں 10 منٹ سے آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے اور اس کی بات کے اتنے ٹکڑے ہو چکے ہوتے ہیں کہ مفہوم سمجھ نہیں آتا۔
پھر اس بات کا اثر کہاں سے ہو گا۔ حالانکہ بات بہت قیمتی تھی۔ سننے والوں کے لیے بہت فائدہ من تھی۔ اگر اس بات کو انہماک سے سننے دیا جاتا اور اس کو دوسرے کے دماغ میں Register ہونے دیا جاتا تو Show کا مقصد پورا ہو جاتا مگر اس سب کے لیے شعور و سنجیدگی کی جس کم از کم مقدار کا ہونا ضروری ہے وہ وہاں موجود لوگوں (سوائے Expert کے) میں سے کسی کے پاس نہیں ہوتی اسی لیے سنجیدگی کے ماحول کی جگہ مچھلی مارکیٹ بنی ہوتی ہے بلکہ مچھلی مارکیٹ میں بھی شاید بیچنے اور خریدنے والے کی گفتگو ممکن ہوتی ہو یہاں تو گفتگو ہی ممکن نہیں ہوتی۔
”گوئیم مشکل“ کا سماں ہوتا ہے۔
طرز عمل سارے چینلز کا تقلید ہے کہ کوئی ایک بے وقوفی کرتا ہے تو دوسرا اس سے بڑی کرتا ہے جو کام آج ایک چینل پر ہو رہا ہے کل وہ دوسرے پر ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے Ideas چوری کرتے ہیں۔ Copy کرتے ہیں۔ Viewers کو انعام کا لالچ دیا جاتا ہے کبھی کبھی تو Gift مانگ رہے ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو (لوگ فون پر) منتیں کر رہے ہوتے ہیں۔
یہاں تک ہے کہ Host کے پہنے ہوئے کپڑے تک مانگ لیتے ہیں اور تو اور سونے پر سہاگہ یہ کہ Host بتاتا کہ اس نے تو خود مانگے کے ادھار کے، کپڑے وقتی طور پر پہنے ہوئے ہیں جو کہ Show کے بعد اسے واپس کرنے ہوتے ہیں کیونکہ ان Shows کو Advertising Stage کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے لفظ (چاہے جتنے بھی بے تکے کیوں نہ ہوں) نوٹوں سے خریدے گئے ہوتے ہیں۔ کپڑے مانگے کے، خیالات جعلی (ڈائریکٹر اور چینل Owner کے) بے عمل و بے اثر ہوتے ہیں یعنی سر اپنا دماغ کسی اور کا، زبان اپنی لفظ کسی اور کا، جسم اپنا کپڑا کسی اور کا۔
سارا اشتہار ہی اشتہار ہوتا ہے بے بسی ہی بے بسی ہوتی ہے۔ عرصے سے ہونے والے ان سارے معاملات اور عوامل سے عوام کی ذہنی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے بلکہ لے جائی گئی ہے اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ عوام یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ لٹریسی بڑھ رہی ہے شعور کم ہو رہا ہے تعلیم پھیل گئی ہے علم اٹھ گیا ہے۔ معلومات ہی معلومات ہی مگر شعور اڑ گیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، Mind science کے ایک ماہر نے ایک Show میں بتایا کہ میں جس Show میں جاتا ہوں اس کی Rating بڑھ جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام Mind Science کو سننا چاہتی ہے۔ اس میں دلچسپی لیتی ہے اس کو اپنی زندگی میں داخل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ہے عوام کی ذہنی سطح۔ جب آپ تمام پروگرامز، پست ترین سطح کے دکھائیں گے تو عوام ان ہی میں سے کوئی ایک دیکھے گی۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی بہتر Choice نہیں ہو گی۔ تو عوام کو تو ایسے امتحان میں ڈالا گیا ہے کہ جیسے آپ کسی سے پوچھیں کہ آپ سانس اندر لینا چاہیں گے یا باہر یعنی جب آپ دو میں سے کوئی بھی ایک بات ڈراپ نہ کر سکتے ہوں۔ بغیر اچھی چیز مہیا کیے یعنی اچھا اور معیاری Show عوام کو دئیے بغیر آپ عوام پر Rating کا الزام لگا کر بغیر مکمل تحقیق کے رائج الوقت Shows پر اطمینان کی مہر کیسے ثبت کر سکتے ہیں۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan