Episode 52 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 52 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

گاڑی
گاڑی بنیادی ضروریات میں شامل نہ تھی۔ مگر بینک کی گاڑی کی سکیموں اور لیز وغیرہ نے گاڑی کو بنیادی ضرورت بنا دیا ہے۔ معاشرے کی سوچ بدل دی ہے۔ ویسے بھی معاشرہ سہل پسندی کی طرف جا رہا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پرانی گاڑی غریب آدمی Afford نہیں کر سکتا۔ اگر غریب آدمی ہمت کر کے یا لیز پر نئی گاڑی لے بھی لے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گاڑی سے متعلق سکون کا وارنٹی کارڈ حاصل کر چکا ہے۔
گاڑی اس وقت تک نئی تھی جب تک خریدی نہیں گئی تھی اور وہ Zero میٹر تھی یعنی کسی نے چلائی بھی نہ تھی۔ جب خرید کر سڑک پر چلنا شروع ہو گئی تو نہ نئی رہی نہ Zero میٹر۔ جب میٹر کے ساتھ سے Zero ہٹ گیا اور گاڑی کے ساتھ سے نئی ہٹ گیا تو مسائل بھی شروع ہو جائیں گے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ گاڑی خرید کر کھڑی کر دیں تاکہ اس کو پرانا ہونے سے بچایا جا سکے اور خود کو مشکلات و مسائل سے۔

(جاری ہے)

مکینک کے پاس جانے سے بچنا مشکل اور ایک بار جا کر بار بار جانے سے بچنا ناممکن ہے۔ مکینک کے پاس بندہ جاتا گاڑی کی مرضی سے ہے مگر واپس مکینک کی مرضی سے آتا ہے یا کئی مزید مکینکوں کا گاہک بن جاتا ہے۔
آپ کی گاڑی کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ کر رہی ہو آپ بہت مطمئن ہوں، زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو تو آپ مکینک کے پاس گاڑی ٹھیک کروانے چلے جائیں۔
کبھی بھی یہ سوچ کر نہ جائیں کہ گاڑی کا چھوٹا سا مسئلہ ہے ٹھیک کروا لینا چاہیے کہیں بعد میں زیادہ بڑی خرابی نہ ہو جائے۔ کیونکہ یہ تو آپ کو مکینک کے پاس جانے کے بعد پتہ چلے گا کہ اس چھوٹے سے مسئلے کی انتہائی بڑی وجوہات ہیں اور اس کے علاوہ اور بہت سے سنگین مسائل گاڑی میں موجود ہیں جو کہ ہولناک خطرات کی پیشگی اطلاع دے رہے ہیں اور جن کا ٹھیک کروایا جانا ازحد ضروری ہے۔
آپ اب پچھتائیں گے کہ آپ نے مکینک کے پاس آنے کا ارادہ کیوں کیا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ آپ گاڑی کے چھوٹے سے مسئلے کے ساتھ ہی گزارا کرتے رہتے۔ اب ٹھیک کروائیں تو مصیبت نہ ٹھیک کروائیں تو پریشانی۔ سچ ہے لا علمی ہزار نعمت ہے۔
ایک صاحب نے سوچا کہ جب بھی گاڑی کا Tyre پنکچر ہو جاتا ہے تو بڑی مشکل ہوتی ہے۔ انہیں ٹائر تبدیل کرنا بہت مشکل لگتا تھا کیونکہ ٹائر تبدیل کرتے ہوئے کپڑے خراب ہوتے تھے۔
جس سے انہیں خاصی الجھن ہوتی تھی لہٰذا انہوں نے اس مسئلے کا متبادل حل سوچنا شروع کر دیا۔ پہلے تو انہوں نے گاڑی میں Tubeless ٹائر لگوائے اور دوسرا کام یہ کیا کہ مارکیٹ سے بہترین کمپنی کا ٹائروں میں ہوا بھرنے والا آلہ یعنی Tyre Inflator لے لیا۔ اس کا طریقہ استعمال یہ تھا کہ گاڑی اسٹارٹ کر کے اسے گاڑی میں لگا کر ٹائر میں ہوا بھری جائے تا کہ بغیر Damage ہوئے ٹائر مکینک تک پہنچ جائے اور پھر مکینک ٹائر اتار کر اسے ٹھیک کر کے دوبارہ لگا دے اس طرح وہ صاحب سٹپنی لگانے کی زحمت سے بچنا چاہتے تھے۔
Tire Inflator خریدنے کے بعد صاحب بہت مطمئن اور خوش کہ اب تو مسئلہ ہی نہیں بے فکر رہو۔ مگر ہوا یوں کہ صاحب کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہی نہ ہو کہ Tire Inflator استعمال کرنے کی نوبت آئے۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ یہی صاحب کسی کام سے کینٹ (Cantt) گئے۔ وہاں بہت تلاش کے بعد بھی انہیں ایسی جگہ نہ مل سکی کہ سایہ ہو اور وہ گاڑی سائے میں کھڑی کر سکیں۔ بہت کوشش کے بعد انہیں ایک دفتر کے سامنے سایہ نظر آیا اور انہوں نے گاڑی وہاں کھڑی کر دی چوکیدار نے آ کر انہیں منع کیا کہ یہاں گاڑی کھڑی نہ کریں۔
وہ صاحب گاڑی سائے سے ہٹانا نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ گرمی شدید تھی۔ چوکیدار نے دیکھا کہ اس کی بات نہیں سنی جا رہی تو اس نے کہا کہ اگر آپ نے یہاں سے گاڑی نہ ہٹائی تو سکیورٹی والے ٹائر کی ہوا نکال دیں گے۔ یہ چوکیدار کا ذاتی پلان تھا کیونکہ صاحب اس کی بات نہیں مان رہا تھا۔ چوکیدار جسے دھمکی سمجھ رہا تھا وہ تو اصل میں صاحب کے لیے خوش خبری تھی جس کے وہ منتظر تھے۔
ان صاحب نے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ ٹائر کی ہوا نکال دے گا کوئی بات نہیں میرے پاس تو Tire Inflator ہے۔ اسی غم کا علاج تو ساتھ لیے پھر رہا ہوں۔ ویسے بھی ابھی تک اسے بھی (Tire Inflator کو) چیک کر کے نہیں دیکھا۔ آج اگر چوکیدار نے ٹائر یا ٹائروں کی ہوا نکال بھی دی تو Tyre Inflator ہی استعمال کر کے دیکھ لیں گے۔
وہ صاحب جس کام سے گئے تھے وہ کام کر کے بہت تھوڑی سی دیر میں واپس آ گئے آتے ہی انہوں نے ٹائر چیک کیے۔
وہی ہوا جس کا انتظار تھا۔ پچھلے ٹائر میں سے ہوا نکالی جا چکی تھی۔ ہمیشہ ٹائر کو Flate دیکھ کر غصہ آتا تھا۔ مگر آج غصے کی بجائے مسرت ہو رہی تھ ی۔ نیک کام میں دیر کیسی؟ ان صاحب نے فوراً ہی گاڑی سے Tire Inflator نکال کر گاڑی سٹارٹ کی، اور Inflator کا پوائنٹ گاڑی میں لگے سگریٹ برنر میں لگا دیا اور ٹائر میں ہوا بھرنا شروع کر دی۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ ٹائر پر تو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا وہ تو Flate کا Flate ہی پڑا ہے۔
مزید کوشش کی، کچھ انتظار کیا مگر ٹائر کو ذرا بھی فرق نہ پڑنے دیا۔ Shock لگا کر یہ کیا ہوا۔ بحرحال دلبرداشتہ ہو کر سٹپنی لگائی اور سیدھا Puncture shop پر گئے۔ پتہ چلا کہ ٹائر میں پنکچر نہیں تھا بلکہ اس کا Valve خراب ہو گیا تھا اور Leak کر رہا تھا۔ Valve تبدیل کروا کے، سٹپنی اتروا کر ٹائر گاڑی میں لگوا کر وہ صاحب جا رہے تھے کہ اچانک ان کو گاڑی میں عجیب سی تبدیل محسوس ہوئی۔
غور کیا تو پتہ چلا کہ گاڑی Heat up ہو چکی ہے اور ٹمپریچر(Gauge) گیج کی سوئی سرخ حصے میں ہے اور گاڑی خطرناک حد تک گرم ہو گئی ہے۔ قیامت سامنے کھڑی تھی۔ فوراً ان صاحب نے گاڑی روکی۔ بونٹ کھول کر دیکھا تو گاڑی میں سے جلنے کی Smell آ رہی تھی۔ Radiator کا پانی بھاپ بن کر اڑ چکا تھا اور Bottle کا پانی Over flow کر گیا تھا۔ گاڑی ٹھنڈی کی، پانی ڈالا اور سیدھے مکینک کے پاس چلے گئے۔
میکنک نے بتایا کہ Radiator بالکل ٹھیک ہے۔ Electricition کا Problem ہے۔ Electricition بلوا لیا گیا۔
Electricition نے آ کر یہ نوید سنائی کہ Short Circut ہونے کی وجہ سے تاریں جل گئی ہیں۔ اس لیے گاڑی اتنی گرم ہو گئی تھی کہ آگ لگتے لگتے رہ گئی۔ بحر حال الیکٹریشن مکینک نے گاڑی کی Wiring اس بے دردی سے کھولنا شروع کی جیسے کوئی اپنا ایسا بے کار، پرانا کپڑا ادھیڑ رہا ہو جسے دوبارہ استعمال نہ کرنا ہو۔
بے شمار تاریں بے حسی سے کھول دی گئیں۔ دیکھنے والا پریشان کہ اسے کیسے یاد رہے گا کہ کون سی تار کہاں سے کھولی ہے۔ کل کتنی تاریں ہیں وغیرہ وغیرہ اور جس لا پرواہی سے تاروں کو الیکٹریشن Handle کر رہا ہوتا ہے گاہک کی قسمت ہی ہے کہ وہ تمام کنکشن ٹھیک لگا دے بحرحال الیکٹریشن نے نہ تو غور و عوض ہی کیا۔ نہ ہی فیصلہ کرنے میں دیر لگائی فوراً اپنی تشخیص کی۔
علاج کرنے میں بھی دیر نہ لگائی۔ تمام کنکشن اور تاریں بحال کر کے گاڑی سٹارٹ کی اور فاتحانہ انداز میں سینہ تان کر کہا لیں جی لے جائیں گاڑی بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔ صاحب نے کہا سب اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ اب آئندہ تو تنگ نہیں کرے گی۔ تو الیکٹریشن نے کمال Confidence کے ساتھ جواب دیا۔ نہیں۔ بالکل بے فکر ہو جائیں۔ صاحب نے پوچھا ہی اس لیے تھا کیونکہ وہ بے فکر ہونا چاہتے تھے۔
بحر حال صاحب اب کمال احساس تحفظ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوئے کہ چلو گاڑی کا Radiator بھی ٹھیک ہے۔ الیکٹریشن نے بھی سب ٹھیک کر دیا ہے اسکا مطلب ہے کہ اب گاڑی تنگ نہیں کرے گی یعنی واقعی بے فکری کا مقام تھا۔ الیکٹریشن کی دی جانے والی تسلی اس قدر طاقت ور تھی کہ اگلے دن انہوں نے نہ تو گاڑی کے پانی کو اور نہ ہی اس کے گرم ہونے کو خصوصی طور پر ذہن میں رکھا کہ محتاط رہنا ہے۔
نظر رکھنی ہے وغیرہ۔ اگلے دن وہ صاحب کمال بے فکری سے گاڑی لے کر نکلے، چند کلو میٹر ہی چلائی تھی کہ انہیں احساس ہوا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ گڑبڑ سی لگ رہی ہے۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ گاڑی پھر خطرناک حد تک گرم ہو چکی ہے۔ اور پانی Over flow کر گیا ہے۔ Radiator خالی ہو چکا ہے۔ صاحب نے فوراً گاڑی ٹھنڈی کی، پانی ڈالا اور سیدھے الیکٹریشن کے پاس پہنچ گئے کہ رات کو تو تم کہہ رہے تھے کہ گاڑی بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔
چیک کر لیا ہے فکر کی کوئی بات نہیں وغیرہ وغیرہ۔ آج پھر اس کی ساری تاریں کیوں پگھل رہی ہیں۔ گاڑی کی وائرنگ آدھی جل چکی ہے۔ صاحب کا خیال تھا کہ الیکٹریشن کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ وہ شرمندہ ہو گا۔ معذرت خواہ ہو گا اور اگر ان کے بس میں ہو تو وہ اس کو سخت ترین سزا دیں تاکہ وہ آئندہ کسی اور کو ایسی بے فکری کا سرٹیفکیٹ نہ دے جیسا وہ گزشتہ رات انہیں دے چکا تھا۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan