Episode 44 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 44 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

بچت کے دشمن
امیر ہو کر امیروں جیسی زندگی گزارنا معمولی بات ہے۔ غریب غربت کی زندگی نہیں گزارے گا تو کیا کرے گا مجبوری ہے۔ گزارنی پڑتی ہے۔ مڈل کلاس اگر مڈل کلاس بن کر رہے تو ٹھیک ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غریب اگر امیر ہو جائے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں امیر اگر غریب ہو جائے تو مشکل ہوتی ہے۔ لوئر مڈل کلاس اگر اپر مڈل کلائس جیسی زندگی گزارے تو بہت مشکل ہے اور سفید پوش کی زندگی ہر طرح مشکل ہوتی ہے جب آپ اپنی حیثیت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو بآسانی گزر جاتی ہے مگر جب آپ اپنی حیثیت سے بڑھ کر زندگی گزارنا شروع کر دیں تو پھر آپ چاہیں بھی توا پنی حیثیت پرواپس نہیں جا سکتے کیونکہ زمانہ آپ کو ایسا کرنے نہیں دیتا۔
جس زمانے کو آپ نے پہلے دھوکا دیا ہوتا ہے بعد میں وہی آپ کے لیے مصیبت بن جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایک صاحب مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک سرکاری ادارے میں اچھی نوکری مل گئی۔ یہ ادارہ ملک کے ان اداروں میں سے تھا جن کے نچلے طبقے کی تنخواہیں بھی ملک کے دوسرے اداروں کے افسر طبقے سے زیادہ تھیں۔ لہٰذا ان صاحب کی تنخواہ بھی ٹھیک ٹھاک تھی۔ امیروں والی زندگی کے جتنے لوازمات زمانے کو نظر آتے تھے وہ تو فوراً اپنا لیے۔
بڑی نئی گاڑی لی۔ کیونکہ گاڑی تو سب دیکھتے ہیں۔ زندگی لوگوں کے حساب سے امیروں والی گزر رہی تھی۔ والدین بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں کندھوں پر تھیں۔ ان کو پورا کرنے میں آمدن کا اچھا خاصا حصہ نکل جاتا بچت نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ نہ ہی بچوں میں سے کوئی اتنا ہونہار نکلا کہ کچھ پڑھ لیتے اور زندگی بہتر نہ سہی کم از کم جیسی تھی ویسی ہی گزارتے رہتے۔
مہنگائی بڑھتی ہے اور بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ واحد چیز ہے جو کہ ہمیشہ صرف بڑھتی ہے اور اپنی مرضی کی مقدار سے اپنی مرضی کے وقت بڑھ جاتی ہے۔ یہ (مہنگائی) کسی کے مطابق نہیں چلتی مگر سب اس کے مطابق چلتے ہیں۔ گھر، بجٹ اور زندگی کو Adjust کرتے ہیں۔ زندگی پر دو چیزیں اثر کرتی ہیں۔ آمدن اور اخراجات۔ اگر آمدن بڑھ جائے تو مہنگائی کے باوجود فرق نہیں پڑتا۔
Life Style برقرار رہتا ہے۔ اگر آمدن نہ بڑھے تو مہنگائی کے طوفان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی چیز Life Style ہے۔ آمدن بڑھانا تو مشکل ہے جبکہ اخراجات میں کمی پر اپنا اختیار ہوتا ہے لہٰذا اخراجات میں کمی کر کے مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کرنا عقل مندی نہیں مجبوری ہے۔
اس مہنگائی سے یہ صاحب بھی متاثر ہوئے۔ پٹرول کی قیمت بہت بڑھ گئی۔ گاڑی بڑی شاندار رکھی ہوئی تھی۔
لہٰذا گاڑی کا استعمال مہنگا ترین ہو گیا۔ آمدن بڑھانے پر اختیار نہ تھا۔ کنجوسی مزید کر نہ سکتے تھے۔ کیونکہ پہلے ہی بہت زیادہ کر رہے تھے۔
بجٹ کئی مرتبہ بار بار بنا کر جب کسی بھی طرح آمدن و اخراجات قابو نہ آ رہے تھے تو سوچا کہ مجھے سادگی اپنا لینی چاہیے۔ کیا ضرورت ہے گاڑی استعمال کرنے کی۔ گھر کے پاس سے Public Transport مل جاتی ہے اور عین دفتر کے دروازے پر اتار دیتی ہے۔
اس کا کرایہ بھی انتہائی مناسب ہے اور اچھی Transport Service ہے جس کو دفتر آنے جانے کے لیے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔ اس طرح بجٹ کی بگڑی شکل کے سنور جانے کی صورت پیدا ہوتی نظر آئی۔ لہٰذا Door Step پر ملنے والی Transport Service کو Avail کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اگلے دن انتہائی اطمینان کے ساتھ تیار ہو کر Public Transport میں سوار ہونے کے لیے Stop پر جا کر کھڑے ہو گئے۔
سٹاپ پر کھڑا دیکھ کر کئی دوستوں نے گاڑی روکی Lift دینے کے لیے ہر ایک نے وجہ پوچھی کہ یہاں کیوں کھڑے ہو۔ جھوٹ بولا کہ گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ یہ سن کر فوراً جواب ملا کہ گاڑی خراب ہو گئی تھی تو مجھے فون کر دیتے میں یہیں سے گزرتا ہوں سٹاپ پر آ کر کھڑے ہونے کی کیا تک تھی۔
بحر حال Lift کے لیے بغیر گزارا نہ تھا۔ Lift لے کر دفتر پہنچ گئے۔ آج کے دن کا آغاز جھوٹ سے ہوا۔
واپسی کے وقت بھی وہی صاحب آ گئے کہ میرے ساتھ چلو۔ اور کہنے لگے کہ میں تو اپنی Seat سے جلدی اٹھا ہوں کہ کہیں تم صبح کی طرح بس سٹاپ پر جا کر نہ کھڑے ہو جاؤ۔ یعنی ایک اور احسان۔
عجیب سی شرمندگی محسوس ہوئی۔ مگر پھر سوچا کہ کل میں وقت مقررہ سے جلدی گھر سے نکلوں گا۔ یہ مجھے سٹاپ پر کھڑے ہوئے نہ دیکھ سکیں۔ یعنی Plan میں تبدیلی کر دی گئی۔
تاکہ احسان سے بچا جا سکے اور بچت کا پردہ بھی رہ جائے۔
اگلے دن روز مرہ کے وقت سے پہلے ہی آ کر سٹاپ پر کھڑے ہو گئے تاکہ دوست احباب سے آمنا سامنا نہ ہو۔ خیر Public Transport میں سوار ہو گئے۔ سوار کیا ہوئے شکار ہو گئے۔ اس Public Transport میں کئی Subordinates سوار تھے جو کہ روزانہ یہ سروس استعمال کرتے تھے۔ ایک ہلکی سی ندامت کا سامنا کرنا پڑا ان سب کو وہاں دیکھ کر۔
توقع ہی غلط تھی۔ یہاں تو ان سب کو ہونا ہی تھا کیونکہ Public Transport تھی کسی کی Personal نہیں۔ اپنی ندامت چھپاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں حیرت دیکھی۔ یہ حیرت اب پریشانی میں بدل چکی تھی اس لیے پوچھا گیا۔
صاحب! آج آپ یہاں
کیا ہوا؟
خیریت ہے؟
گاڑی پر نہیں گئے آج
صاحب سوچنے میں مصروف اور Subordinate تحقیق میں۔ وہ اندازے لگاتے جاتے اور صاحب سے سوال کرتے جاتے۔
سچ بولنا نہ تھا۔ جھوٹ گھڑنے میں دیر لگی مگر جواب دیا کہ گاڑی کی گھر والوں کو ضرورت تھی۔ (صاحب کا خیال تھا کہ اس ایک جھوٹ سے مزید سوالوں سے جان چھوٹ جائے گی)
مگر سننے والوں کو صاحب کے بس میں سوار ہونے کی یہ وجہ مناسب نہ لگی تو انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا۔
”سر جی فلاں صاحب کے ساتھ چلے جاتے ان کا راستہ بھی آپ کے والا ہی ہے۔
صاحب کا خیال تھا کہ تحقیق پر معاملہ ختم ہو گیا مگر یہاں تو تجویز بھی آ گئی۔ اب اس تجویز پر کیا کیا جائے کیونکہ کہنے والے کی بات میں وزن بھی تھا اور سچی بھی تھی۔ وہ تو صاحب کے غم میں گھلا جا رہا تھا اور صاحب کو تکلیف سے بچنے کے طریقے بتا رہا تھا۔ مگر اس کی تجویز کا ناقبل عمل ثابت کرنا ضروری تھا ورنہ تو وہ یہ سمجھتا کہ وہ صاحب سے زیادہ عقل مند ہے۔
”میں ضرور ان کے ساتھ چلا جاتا اگر وہ چھٹیوں پر نہ ہوتے۔“
اپنی عزت بچانے کے لیے یہ جھوٹ بولا ورنہ اگر میں کہتا کہ ان سے رابطہ نہیں ہو سکا تو وہ سمجھتے کہ کسی دوست نے مجھے لفٹ نہیں کروائی۔ لہٰذا کوئی بھی ایسا بہانہ جو کہ دوسروں کی بے رخی کی ذرا بھی جھلک ظاہر کرتا نامنظور تھا۔ اس جھوٹ میں مکمل عزت چھپی تھی۔ مگر پھر خیال آیا کہ یہ نہ ہو بس سے اترتے ہی وہ چھٹی والے صاحب کہیں ان لوگوں (Subordinates) کے سامنے ہی نظر نہ آ جائیں اور میرا جھوٹ پکڑا جائے۔
یہ نئی فکر شروع ہو گئی عزت بچاتے بچاتے خود زیادہ بڑی بے عزتی کا انتظام کر لیا۔ اب یہی پریشانی تنگ کر رہی تھی کہ اگلا سٹاپ آ گیا۔ اس سٹاپ سے مزید Subordinates سوار ہوئے۔ چڑھتے ہی پہلا Reaction ان کا بھی وہی تھا جو ہونا چاہیے تھا۔ پہلے حیرت پھر سوال پھر تجاویز اور صاحب جھوٹ بولنے میں مصروف۔ اب عالم یہ تھا کہ صاحب نئے سوار ہونے والے Subordinates کے انٹرویو سے فارغ ہوئے نہ ہوتے کہ اگلا سٹاپ آ جاتا اور مزید لوگ سوار ہو جاتے۔
پھر وہی ترتیب دہرائی جاتی۔ Subordinates ایسے ظاہر کرتے جیسے چاند زمین پر اتر آیا ہو۔ اور وہ چاند کی اس ناقدری پر پریشان ہوں اور اسبابِ زوال پر غور کر رہے ہوں جبکہ صاحب کے کندھے کا بایاں فرشتہ آج بہت مصروف تھا۔ وہ آج لکھتا ہی جاتا تھا جیسے ہی کام نمٹا کر فارغ ہوتا اگلا سٹاپ آ جاتا پھر اور لکھنا پڑتا۔ بحرحال فرشتے سے Over Time کروانے کے چکر میں صاحب بھول ہی گئے کہ بس میں صرف سوار ہی نہیں ہونا ہوتا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے۔
کرایہ نکالا اور دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو کئی لوگ بیک وقت بولے کہ صاحب ہو گیا ہے کرایہ رہنے دیں۔ صاحب نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کرایے کی طرف دیکھا تو وہ ایک فرد کا تھا۔ صاحب ابھی تک تو دل ہی دل میں شرمندہ تھے۔ جھوٹ بولنے پر مگر اب سب کے سامنے شرمندہ تھے بچت کرنے پر۔
شرمندگی میں غرق تھے۔ کرایہ دیا بھی اس Subordinates نے تھا جس نے صاحب کو بس میں سوار ہوتے ہی دیکھ کر اٹھ کر فوراً اپنی جگہ خالی کر کے صاحب کو اپنی جگہ بٹھایا تھا۔
کئی احسان جمع ہو گئے جگہ دینے کا، عزت دینے کا اور کرایہ دینے کا وغیرہ وغیرہ۔ کئی جھوٹ جمع ہو گئے۔ خاصے بوجھ کے نیچے دبا یہ شخص سوچ رہا تھا کہ جن صاحب کی چھٹی کے لیے جھوٹ بولا ہے وہ ان سب کے سامنے نظر نہ آئے بس جھوٹ کا پردہ رہ جائے۔ اس تشویش میں مبتلا تھے کہ دفتر آ گیا۔ کوئی چاہ رہا ہے صاحب پہلے اتریں کوئی اتر کر انتظار کر رہا ہے کہ صاحب کے ساتھ چلیں۔
مگر صاحب یہی سوچ رہا ہے کہ کیا ہو سکتا ہے؟ بظاہر تو صاحب کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔ کوئی بوجھ نہ تھا جسے دوسرے اٹھانے میں مدد کرتے مگر ان Subordinates کو کیا پتہ جو وزن صاحب کے پاس آج تھا وہ اس سے پہلے کبھی ساتھ نہ لیا تھا۔ احسان، جھوٹ، شرمندگی اور مزید ندامت کا ڈر ایسے سامان تھے جو دوسروں سے اٹھوائے نہ جا سکتے تھ ے۔ لہٰذا گاڑی میں بیٹھے رہنے سے توگزارا نہ تھا لہٰذا تمام وزن کے ساتھ اترے اور اترتے ہی نظروں نے اردگرد کا جائزہ لیا کہ کون کون مجھے نظر آ رہا ہے اور کس کس کو میں نظر آ رہا ہوں۔
آنکھیں دیکھ سب کو رہی تھیں مگر لا شعوری طور پر ڈھونڈ ان چھٹی والے صاحب کو رہی تھیں جان میں جان آئی وہ صاحب کہیں دکھائی نہ دئیے اور دل میں دعا تھی کہ دفتر کے اندر پہنچ جانے تک ان سے آنا سامنا بھی نہ ہو ایسے میں آواز آئی۔
آپ آج کدھر؟
گاڑی کہاں ہے؟
ٹھیک تو ہے
سب خیریت ہے نا
یعنی ایک نووارد شخص کھڑا پوچھ رہا تھا۔
جبکہ یہ صاحب سوچ رہے تھے پھر جھوٹ کی گردان کا وقت آ گیا۔ بحر حال جواب تو ان کو دینا تھا۔ خاطر جمع کرتے ہوئے کہا۔
ہاں خیریت ہے

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan