Episode 18 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 18 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

دل
خالق کائنات نے انسانی جسم میں بہت سے اعضاء بنائے جیسے جگر ، دل ، پتہ ، گردے وغیرہ دل انسان کے سینے میں مسلسل حرکت میں ایک عضو ہے۔ جو کہ بغیر Rest کئے جانفشانی سے اپنا کام کر رہا ہے اس قدر جہد مسلسل کے باوجود بھی دل خاصا بد نام رہتاہے۔ گفتگو کا ، طعنوں ، حتیٰ کہ اشتہاروں تک کا موضوع بنا رہتا ہے۔ الزام تراشیوں کی زد میں رہتا ہے۔
 مثلاً لوگ کہتے ہیں فلاں کام کرنے کو دل نہیں چاہا، دل بچارے کا قصور ہوتا نہیں لوگ کام چور خود ہوتے ہیں۔ الزام دل کو دے دیتے ہیں۔ دل کا استعمال بھی (یعنی کاروبار حیات چلانے کیلئے دل کا ٹھیک طرح سے کام کرنا انتہائی ضروری ہے) سب سے زیادہ ، زندگی کیلئے ناگزیر جو ہوا اور تنقید بھی بے دریغ۔ ٹھیک ٹھاک سمجھدار لوگ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ مہمان کیلئے جگہ گھر میں نہیں دل میں ہونی چاہئے۔

(جاری ہے)

دل کی Anatomy جتنی بھی اچھی طرح پڑھی جائے کہیں کوئی خالی جگہ مہمانوں کیلئے مختص کی گئی نظر نہیں آئی جہاں مہمانوں کے قیام و طعام کا خاطرہ خواہ انتظام ہو، نہ ہی کسی کو کسی کے دل میں بیٹھا دیکھا گیا۔
دل کو بے جا تذکرے کا نشانہ شاعر بہت زیادہ بناتے ہیں۔ مثلاً اس شعر میں دیکھیں۔
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
یہ گواہی دے رہا ہے کہ دل جل رہا تھا جوکہ اچانک بجھ گیا اس بات پر اعتراض یہ اٹھتا ہے کہ Physiology میں کہیں بھی جلتے ہوئے دل کی Physiology نہیں پڑھائی جاتی اور نہ ہی Pharmacology میں ایسی Drugs پڑھائی جاتی ہیں جن کا استعمال جلے ہوئے دل کا علاج کرنے کیلئے کیا جاتا ہو بے شمار قسم کی Burn injuries ہیں مگر کہیں بھی Heart burn injuries نہیں پڑھائی جاتیں۔
اگر آپ ہسپتالوں میں جائیں تو ایک وارڈ کے باہر لکھا ہوتا ہے۔ ”جلے ہوئے مریضوں کا وارڈ“ کہیں بھی یہ نہیں لکھا پایا گیا ”دل جلے مریضوں کا وارڈ۔“
ایک شاعر صاحب کمال حاکمانہ طبیعت کے مالک ہیں کچھ ایسا حکم دے رہے ہیں۔
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
آنکھوں دیکھا حال ہے کہ دل مردہ تو دور کی بات تھوڑا بہت تیز یا سست  بیمار یا بڑا ہو جائے تو دل کا مالک گوں نا گوں مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
مگر شاعر صاحب ہیں کہ اس کو دوبارہ زندہ ہونے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ کوئی بچارا دل مردہ ہونے کے بعد زندہ ہی نہیں بچے گا کہ حضرت شاعر کا حکم بجا لائے شک پڑتا ہے کہ شاید شاعر کے پاس اس دور میں Cardiac Treatment کا کوئی ایسا انتظام تھا جس سے Cardiac arrest کے بعد بھی دل کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا تھا۔ جانے دیجئے شاعر بھی خطا کا پتلا ہے جوش شاعری میں کہہ گیا اور اپنے ہی بیان پر ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کر سکا اور ایک اور جگہ عرض کرنے لگا۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
ثابت ہوا کہ شاعر نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ زندگی صرف زندہ دل سے ہی عبارت ہے۔مزید پرانے شعراء کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آئی۔
لے آئیں گے بازار سے دل و جان اور
ماشاء اللہ… ماشاء اللہ کیا ترقی یافتہ دور تھا بھئی کہ دل بازار میں بکا کرتے تھے۔ یہاں آج اس دور میں بصورت ضرورت گر دے دو دو ہونے کے باوجود ڈھونڈنا مشکل ہے۔
اس دور میں دل صرف ایک ہونے کے باوجود بھی بازار میں باآسانی دستیاب تھے اور ہاں دوسری حیرت کی بات یہ کہ ضرور اس دور میں Heart transplant کا کوئی آسان اور سستا طریقہ ہوگا تب ہی دل خریدنے اور بیچنے کا فائدہ ہو سکتا تھا ورنہ تو صرف دل اور وقت کا ضیا ع ہوتا۔ صدا افسوس کیسا اچھا دور گزر گیا اور کیسا کمال علم و ہنر ضائع کر دیا گیا ورنہ آج کی نسل ہاتھوں میں موبائل فون کی بجائے دل لئے پھر رہی ہوتی۔
ایک فوک سنگر کا ایک گانا بہت مشہور ہے جس میں وہ فرماتے نہیں بلکہ گاتے ہیں۔
دل لگایا تھا دل لگی کیلئے
بن گیا روگ زندگی زندگی کیلئے
ظاہر یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک خاص مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے دل کا استعمال کیا مگر وہ خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکے اور ان کی یہ Attempt ضائع ہو گئی۔ کرنے کچھ چلے تھے ہو کچھ گیا۔ اصل میں پہلی مرتبہ ایسا کیا گیا ناتجربہ کاری اور قسمت کا ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے مگر ستم بالائے ستم یہ کہ ہمت ہار بیٹھے اور روگ لگا لیا۔
ان کا طریقہ واردات ہی یقینا غلط ہو گا۔ کیونکہ کہا جاتا ہے۔
No one plans to fail but one fails to plan
لیکن دوستانہ اور ہمدردانہ مشورہ یہ ہے کہ انہیں چیونٹی کی طرح Try Try again پر عمل کرنا چاہئے اور ہاں یہ بھی کہ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
دلوں کے معاملات شاید ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے بدلتے رہتے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارے ایک قومی ہیرو کا دل ہے۔
جتنا Dynamic دل انہوں نے پایا کم لوگ ہی اتنے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ پہلے پہل تو یہ دل کرکٹ کی محبت سے سرشار تھا اور انجام محبت پر قوم کو ورلڈ کپ ملا۔ پھر (ماں) والدہ کی محبت میں غرق اس دل سے Hospital بنانے کی ٹھان لی۔ جذبہ مادر و مدد سے over loaded یہ دل hospital بنانے کی تگ ودو میں کبھی پاکستان میں کبھی یہاں کبھی وہاں دن رات کام کر رہا تھا اور اس معاملے سے Retire نہ ہوا تھا کہ اچانک یہ سات سمندر پار ایک غیر ملکی خاتون کو جا لگا اور شادی ہو گئی واہ بھئی! کیا Range ہے اور کتنا بڑا Catchment area ہے اس دل کا۔
اتنی Range تو بھارت کے زمین سے زمین پر مار کرنے والے پرتھوی اور اگنی میزائل کی بھی نہیں۔ اتنا بڑا Field of offect تو کسی چیز کا بھی دنیا میں نہیں بچارے مقناطیس کا Magnetic field تو دور کی بات۔ مگر کیا کہئے کہ ان کا دل ان خاتون کے ہاں زیادہ دیر قیام نہیں کر سکا اور جس طاقت سے اسے خاتون کی طرف پھینکا گیا تھا اس سے دوگنی طاقت کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا۔
وقت ضائع کرنے کی عادت نہ تھی انہوں نے اسے قوم کی خدمت کیلئے وقف کر دیا کیونکہ کسی اور استعمال کے قابل یہ رہا نہ تھا۔
سنا ہے کہ Recharge شدہ یہ دل قوم کے نوجوانوں کے نام کر دیا گیا ہے۔
اب حال دیکھتے ہیں ایک فلمی ہیرو کے دل کا۔ اس بچارے دل کی بھی کیا پوچھتے ہیں۔ ہیرو دل ہتھیلی پر لئے پھرتا ہے جہاں ہدایت کار کا اشارہ ہوا وہیں اس کا Projectile ہیروئن کو دے مارا (گیند کی طرح) کیونکہ ایسا اکثر گانا گانے کے دوران کرنا ہوتا ہے ہیرو کی قسمت کہ ہیروئن دل Catch کر لے کیونکہ پاکستانی قوم (ٹیم) میں Catch drop کرنے کی بیماری خطرناک حد تک موجود ہے اصل میں ہیرو اور ہیروئن کے دل کا Conducting system پروڈیوسر اور مصنف ہوتا ہے ان کے اشاروں پر ہیرو کے دل حرکت کرتے ہیں اور ان کی پسند کی ہیروئن پر ہی یہ Projectile مارا جاتا ہے اور یہ عمل ایک ہی دن میں کئی بار دہرایا جاتا ہے۔
دل کسی کا مرضی کسی کی بحرحال یہ کونسا مستقل دے دیا جاتا ہے۔ شارٹ ختم ہوتے ہی واپس مل جاتا ہے تاکہ دوسری فلم کی دوسری ہیروئن کو Catch کرایا جا سکے۔ اگر اس طرح کام نہ چلے تو دل کو نذرانے کے طور پر ہیروئن کے قدموں میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ واحد قسم کا نذرانہ ہے جس کی اس قدر بے حرمتی کی جاتی ہے کہ قدموں میں ڈال دیا جائے۔
مگر عام زندگی میں دل کے لین دین کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔
کہا جاتا ہے فلاں کو دل دے دیا یعنیhand over کر دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ محبوب کے پاس دو دل ہو گئے اور دل دینے والا بغیر دل کے گزارا کر رہا ہوتا ہے۔ اس قدر حالت ایثار کو محبت و عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے کامیاب انجام کے طور پر شادی ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد دل دینے والے کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور اسے اپنی بے وقوقی سمجھتا ہے اور وہ محبوب جو کہ شادی سے پہلے دو دو دلوں پر حاکم تھا اب محبوب نہیں ظالم نظر آتا ہے تو غلطی کی اصلاح کی خاطر دیا ہوا دل واپس لے لیا جاتا ہے۔
اس سے فوراً ہی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اسی کا نام دل کی دنیا سے نکل کر حقیقی زندگی میں آنا ہے یعنی شادی شدہ زندگی میں جس میں دونوں اپنے اپنے دل سنبھال کر انہیں تھوڑا سا دبا کر Compromise کرتے ہوئے نباہ کرتے ہیں اور عزم مصمم کر لیتے ہیں کہ آئندہ ایک دوسرے کو کچھ بھی نہ دیں گے۔
دل کی بیماریاں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ ان کے علاج کے ہسپتال الگ بنا دیئے جاتے ہیں ایک دل کے ہسپتال میں موجود مسجد کا نام ”مسجد اہل دل“ ہے ایک صاحب اپنے دوست سے جو کہ اس ہسپتال میں زیر علاج تھا ملنے گئے نماز کا وقت ہو گیا۔
مذکورہ بالا مسجد میں نماز پڑھنے گئے حد درجے کے وہمی تھے۔ بغیر نماز پڑھے فوراً ہی لوٹ آئے جن صاحب کی عیادت کو گئے تھے ان کو کہنے لگے وہ مسجد تو مریضوں کیلئے ہے نہ ہی میں دل کا مریض ہوں اور نہ ہی آئندہ بننا چاہتا ہوں وہ صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کوئی اچھوت کی بیماریاں تھوڑی ہیں۔ خوف کی انتہا ہے۔
غور کیجئے کہ مسجد کا نام (صرف نام میں ”دل“ شامل ہونے کی وجہ سے) Terrorist کا کام کر رہا ہے۔
اب تو اشتہاری کمپنیاں بھی گھی کے ڈبے بیچنے کیلئے دل کا استعمال کرتی ہیں کوئی کہتا ہے کہ فلاں بناسپتی استعمال کریں کیونکہ یہ ”دل کا معاملہ“ ہے۔ کوئی یہ کہہ کر اپنی پراڈکٹ بیچنا چاہتا ہے ”آپ کا دل بہت قیمتی ہے“ کبھی کوئی یہ نہیں کہتا سنا گیا کہ آپ کا ”جگر بہت قیمتی ہے“ یا دماغ کا معاملہ ہے حالانکہ دماغ  جگر اور گردوں کا بھی انسانی زندگی میں خاصا اہم کردار ہے۔
مگر کبھی کچھ ایسا سننے میں نہیں آیا کہ ”جگر فلاں جگہ جانے کو نہیں چاہتا ہے“ یا ”میرے گردے نہیں مانتے“ یا یہ کہ فلاں بڑا ”دماغ پھینک ہے“ ہر محاورے کی تان اسی بچارے دل پر ہی ٹوٹتی ہے۔
اشتہاری کمپنیوں نے کیا استعمال کیا دل کا marketing purposes کیلئے کہ بنکوں کو بھی نئی سوجھی ایک کامیاب بنک نے حال ہی میں اپنے customer helpung attitude اور بہترین customer services کو ثابت کرنے کیلئے یہ سلوگن بنایا ”ہم اکاؤنٹ کھولتے ہیں آپ کے ”دل“ میں۔
“ اب شدید بے چینی پائی جاتی ہے اس Bank کے Account Holders میں اس دن سے کیونکہ بچاروں کے دل پر ہر وقت ڈاکے کا خطرہ اور دوسرا دل کے over loaded ہو کر بیمار پڑ جانے کا ڈر ہے کیونکہ دل بچارا تو پہلے ہی خواہشات  جذبات و احساسات کے بوجھ تلے دبا تھا اب یہ نئی ذمہ داری۔
آپ نے بہت سی Games (کھیلوں) کے نام سنے ہوں گے مگر کبھی بھی Heart game کے بارے میں نہیں سنا ہوگا اس کے باوجود روز کئی لوگ دل ہار جاتے ہیں۔
یہ ہار بغیر کھیل اور میچ کے ہوتی ہے دل نہ ہوا تاش کا پتہ ہوا جو ہار دیا گیا۔ اور ہار کو دیکھنے والے تماشائیوں کی تعداد بہت ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ ہوتا ہے اگر کوئی دل پر لے لے کسی بھی صورت کچھ بھی دل پر لے لیا جائے تو زیادہ تر Cases میں دل کا مالک سیدھا ہسپتال پہنچتا جو اس شخص نے دل پر لیا ہوتا ہے ہسپتال والے اسے مختلف طریقوں سے اتارتے ہیں خود وہ صحت سے جاتا ہے اور جیب پیسوں سے خالی ہو جاتی ہے۔
ایک اور طریقہ واردات جو کہ دل کیلئے ہی صرف استعمال ہوتا ہے وہ ہے ”دل توڑنا۔“
لوگوں کو صرف یہ پتا ہوتا ہے کہ ان کا دل کس کس نے کس کس طرح توڑا مگر کسی کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس نے خود اب تک کتنے دل کتنی شدت سے توڑے۔ ایک قسم اور ہے لوگوں کی جو کہ ہر وقت ”دل ٹوٹنے“ سے بچانے کی احتیاطی تدابیر کرتے رہے ہیں۔ مثلاً اگر وہ مجھے وہ جواب دے گا تو میرا دل ٹوٹ جائے گا اس لئے میں اس سے نہیں پوچھوں گا۔
دوسرا احسان وہ ہر وقت یہ جتلاتے نظر آتے ہیں کہ ایسا کرنے سے فلاں کا دل ٹوٹ جائے گا۔ یعنی کہ ایسے لوگ اس طرح ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ Heart security guards ہیں۔ بیک وقت اپنے اور دوسروں کے دل کی حفاظت کا ٹھیکہ اٹھائے ہوئے ہیں۔
ٹوٹا ہوا دل کبھی بھی کسی کو Repair نہیں کروانا پڑا نہ اپنا نہ ہی کسی اور کا اسی لئے تو کبھی نہ ہی ایسی ورکشاپ نظر آئی  نہ ادارے  نہ کوئی ویکسین  نہ کوئی ہسپتال جہاں Heart repair ہوتا ہو نہ کبھی کوئی ایسا Plastic سرجن سننے میں آیا جس کی Speciality کا نامReconstnution of broken hearts ہو۔
معلوم ہوتا ہے کہ شاید قدرت نے کوئی Auto repair سسٹم انسان کے دل میں رکھا ہے۔ جس کے تحت Broken heart خود ہی Repair ہو کر دوبارہ ٹوٹنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ اتنے دل ٹوٹنے کے باوجود بھی کبھی کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی کبھی کسی ڈاکٹر نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے کسی کے دل پر Scar marks دیکھے ہیں۔
بازار جا کر دیکھیں تو کیا چیز ہے جو آپ کو دل کی شکل میں بنی ہوئی نظر نہیں آتی تکیے  کشن  locket  چاکلیٹ حتی کہ غبارے تک۔
تو ذرا غور کریں کہ کیا کوئی خاص بات ہے دل میں یا صرف شور ہی شور ہے۔ دل اہم ہے مگر ہم نے اس کی اہمیت بدل دی ہے۔ اس کو استعمالِ دنیا اور معاملاتِ زندگانی میں الجھا دیا ہے۔ اس کو جذبات کے کاروبار میں Invest کر دیا اور اس کی قدر گنوا دی۔ دل اگر تصدیق نہ کرے تو صرف زبان کے کہنے سے آپ مسلمان نہیں۔ دل ہدایت یافتہ نہ ہو تو دنیا و آخرت کا سکون نہیں۔ ہدایت کے بعد بھی اگر دل ٹیڑھا ہو جائے تو نجات نہیں لہٰذا اپنے اپنے دل کو بعد از ہدایت ٹیڑھا ہونے سے بچانا ہی اصل کام ہے۔
اس مشکل کام کو کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کے دلوں کو اپنے حملوں سے اور اپنے دل کو شیطان کے حملوں سے بچائیں کیونکہ انسانی دل شیطان کی پسندیدہ ترین رہائش گاہ ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan