Episode 12 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 12 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

رسم
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرو۔ ہمارے معاشرے میں سب کو یہ تو معلوم ہے کہ عیادت بہت ضروری ہے اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ مگر اس کے بارے میں دیگر معلومات نہ ہونے کی وجہ سے عیادت مسلمان بھائی کا حق ادا کرنے سے زیادہ ایک رسم رہ گئی ہے۔ کچھ صورتوں میں یہ ایک تکلیف اور کچھ موقعوں پر ایک عذاب بن جاتی ہے۔
ایسی ایسی صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ بیمار بھائی اپنے اس حق سے دستبردار ہونا ہی باعث نجات سمجھتا ہے۔ اس حق سے دستبرداری کی نوبت عیادت دار بھائی کیسے لاتا ہے۔ اس کے کئی انداز ہیں۔ سب لوگ حسب توفیق و حسب ضرورت اپنے اپنے انداز سے اس کار ہائے نمایاں کو سرانجام دیتے ہیں۔
مریض کے عیادت دار کئی قسم کے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

کچھ تو وہ ہوتے ہیں جو بیماری کی اطلاع پاتے ہی Hospital پہنچ جاتے ہیں۔

ان عیادت داروں سے مریض تو کیا ہسپتال والے بھی تنگ آ جاتے ہیں۔ اگر ہسپتال میں کوئی جان پہچان والا مل جائے جس کی بدولت Visiting hours کے علاوہ بھی آپ مل سکتے ہوں تو عیادت دار نان سٹاپ ہی چلے رہتے ہیں مریض کو آرام نہیں کرنے دیتے جیسے ہی وہ بچارا سونے لگتا ہے فوراً ہی کوئی ملنے پہنچ جاتا ہے۔ ہر ایک کو بیماری کے آغاز سے لے کر اس عیادت دار سے ملاقات تک کی ساری داستان سنانی پڑتی ہے یہ داستان اتنی مرتبہ دہرائی جاتی ہے کہ وہاں موجود دوسرے ان مریضوں کو بھی یاد ہو جاتی ہے جن کے ملاقاتی کم ہوتے ہیں یا جنہوں نے تجربے کی بناء پر اپنے رشتہ داروں کو اپنی بیماری کی اطلاع نہ دی ہو۔
وہاں لیٹے ہوئے مریضوں نے صرف سننا ہی تو ہوتا ہے اور کوئی مصروفیت تو ہوتی نہیں اس طرح عیادت دار مریض کو مریض رکھنے میں خاصی مدد کرتے ہیں۔
اگر مریض بزرگ ہوں تو ان کے بچے اپنے اپنے طور پر تسلی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہوسپٹل والوں سے مریض کی شدتِ بیماری  مدتِ علاج اور ممنکہ صحت یابی کے امکانات کے بارے میں معلومات لیتے ہیں فکر و پریشانی کا مظاہرہ کرتے ہیں بچوں میں سے ہر کوئی اپنے طور پر تسلی کرنا چاہتا ہے پہلے سے جمع شد معلومات جو کہ باقی بہن بھائی اسے فراہم کرتے ہیں۔
وہ اسے ناکافی لگتی ہیں۔ وہ خود تمام تحقیق مکمل کرتا ہے۔ اس طرح وہ ماں باپ کو خوش کرتا ہے اور بہن بھائیوں کو پریشان کیونکہ اب تک اس سلسلے میں جو کچھ بھی کیا گیا ہوتا وہ اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔
دوسری فکر جو مریض کے لواحقین کو ہوتی ہے وہ کھلانے پلانے کی ہوتی ہے کہ فلاں چیز کھلا دیں یا نہیں۔ ہر چیز کھلانے سے پہلے وہ Para medical سٹاف سے پوچھتے ہیں۔
بچے اس کو اظہار محبت سمجھتے ہیں جبکہ ڈاکٹر اور سٹاف تنگ آ جاتے ہیں ایک نے تو یہ حل نکالا کہ کسی ایک کو بھیج دیں جو پوچھنا ہے پوچھ لیں اور باقی سب ان سے معلومات لیں۔
یہ ساری محبت جو کہ اب تک دکھائی گئی ہوتی ہے علاج پر تحقیق کرکے خوراک پر تشویش کرکے جھاگ کی طرح غائب ہو جاتی ہے اگر پیسوں کی ضرورت پڑ جائے۔ گرگٹ سے بھی زیادہ تیزی سے رنگ اور رشتے بدل جاتے ہیں اگر خون دینا پڑے جائے۔
زیادہ تر Cases میں مریض کا Hospital stay تو کم ہی ہوتا ہے۔ مریض کے گھر پہنچنے تک اس کی بیماری کی اطلاع دور دور تک پھیل جاتی ہے اب لوگ مریض کے گھر اس کی عیادت کو جاتے ہیں۔ یہ لوگ عیادت دار نہیں بلکہ مہمان ہوتے ہیں وجہٴ ملاقات تو عیادت ہی Label کی جاتی ہے مگر مریض کے لواحقین کو ان کی خاطر مدارات کرنے  ان کو وقت دینے  ان کے مشورے سننے اور دیگر کئی مصروفیات جو کہ ان عیادت داروں کے آنے سے پیدا ہوتی ہیں کے باعث یہ لوگ بیمار کی بیماری سے زیادہ بڑی مصیبت لگتے ہیں۔
کیونکہ لواحقین تو وہی چند لوگ ہیں جن کو مریض کی دیکھ بھال بھی کرنی ہے اور عیادت دار کی مہمان نوازی بھی۔ دوسرے مہمان نوازی کے اخراجات تیمارداروں کی معاشی کمر توڑ دیتے ہیں اور مہمان نوازی کی مشقت ان کی حقیقی کمر توڑ دیتی ہے۔
بیماری اگر طویل ہو جائے تو تیمارداری بھی طویل ہو جاتی ہے۔ ایک خاتون خانہ کا دایاں بازو Fracture ہو گیا۔ گھر میں کوئی بھی نہ تھا جو کہ گھر داری سنبھال سکتا۔
بچوں نے بمشکل معاملات زندگی و تیماری داری سنبھالے۔ Fracture کہاں جلد ٹھیک ہونے والا تھا۔ بچے تنگ آ گئے۔ مہمان نوازی کے menu کو short list کرکے صرف cold drink کے گلاس تک محدود کرکے سمجھا کہ شاید کچھ آسانی ہو جائے گی مگر آنے والے زیادہ تر تیمار داروں نے dyspepsia اور Gastritis کے باعث soft drink پینے سے انکار کیا تو نئی مشکل سامنے آئی۔ بچوں نے ساتھ کولر میں لیموں پانی بنا کر رکھ دیا اور Disposable glass رکھ دیئے۔
مگر پھر کیا تھا نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا لوگوں نے Sugar کی شکایت کرنا شروع کر دی۔ بچوں نے پھیکی چائے بنا کر اور مختلف طرح کے Biscuits جار میں ڈال کر ماں کے پاس رکھ دیئے تاکہ ماں جانے اور مہمان جانے مگر مصیبت اکیلے نہیں آتی۔ آنے والوں میں سے کوئی چائے نہ پیتا تھا کسی کو Ulcer کی شکایت تھی۔ آخر کار اس کے بچوں نے دروازے پر جا کر عیادت داروں سے کہنا شروع کر دیا کہ امی نانو کے گھر گئی ہیں اور ٹھیک ہونے کے بعد ہی آئیں گی۔
عیادت دار مریض سے اس کے مرض کی  اس کی دلجوئی کی بات کم کرتے ہیں جبکہ اپنی مصروفیات کی اور ان مذکورہ مصروفیات میں سے جس مشکل سے انہوں نے مریض کی عیادت کیلئے وقت نکالا ہوتا ہے اس کی داستان زیادہ سناتے ہیں۔ مقصد دلجوئی سے زیادہ احسان نظر آتا ہے جبکہ مریض دل ہی دل میں ان کے آنے کو کوس رہا ہوتا ہے کیونکہ اسے بیماری اور عیادت داری دونوں ہی تکلیف دے رہی ہوتی ہیں۔
پہلے وہ صرف بیماری کی تکلیف میں مبتلا تھا اب عیادت داری کی تکلیف کا اضافہ ہو گیا۔
کچھ عیادت دار تو ماشاء اللہ پورے خاندان یعنی بچوں سمیت تشریف لاتے ہیں۔ حالانکہ بچوں کا عیادت میں کیا کام۔ الٹا مریض کے گھر شور شرابہ اور ماحول کی خرابی کا انتظام ہو جاتا ہے۔ جب مریض کے گھر میں کئی عیادت دار بمعہ اہل و عیال آئے ہوتے ہیں تو ایک together Get کا سماں ہوتا ہے۔
مثلاً خاندان کے بزرگ والدہ یا والد میں سے کوئی ایک بیمار ہو جائے تو تمام بہن بھائی بمعہ اہل و عیال والدہ یا والد کی عیادت کو پہنچ جاتے ہیں اور جس بچارے کے ساتھ والدین رہ رہے ہوتے ہیں وہ سب کے قیام و طعام کے انتظام سے عاجز آ جاتا ہے جبکہ سب کے بچے اس موقع پر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کتنا مزہ آتا ہے جب دادا یا دادو میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کھیلتے ہیں۔
بزرگ والدین میں سے کوئی نہ کوئی ایک تو وقفے وقفے سے بیمار رہتا ہے کیونکہ بڑھاپا اور بیماری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ والدین کو بیمار ہوتے ہی ان بچوں کی یاد ستانے لگتی ہے۔ جو قریب نہ ہوں جبکہ جو ساتھ رہ رہے ہوں۔ خدمت کر رہے ہوں اور تیمار داری کر رہے ہوں ان سے شکوے شکایات ہوتے ہیں اور جو دور رہ رہے ہوں ان کیلئے والدین تڑپتے ہیں انہیں بلاتے ہیں اور رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اس ساری صورتحال سے بچے بہت خوش ہوتے ہیں ان کو اکٹھے رہنے اور کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ان کی مختلف طرح کی settings چل رہی ہوتی ہے کہیں گڑیا کی شادی تک ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ گڑیا کی شادی سے پہلے کی تقریبات کرتے ہوئے ہی بچوں کو اپنے گھر واپس جانا پڑا تو وہ پریشان تھے کہ شادی اب کب ہو گی تو ان میں سے ایک نے کہا کہ اگلی بار جو بھی بیمار ہوگا ہم لوگ آئیں گے تو شادی کر لیں گے۔
دوسرے بچے نے جواب دیا پتہ نہیں اگلی بار یہ لوگ کتنے عرصے بعد بیمار ہوں سننے والے بچوں میں ایک جھٹ سے بولا کہ دعا کرنا جلدی جلدی ان دونوں میں کوئی بیمار ہو اور ہم شادی مکمل کر لیں۔ گڑیا کی مالکن نے کہا کہ اللہ کرے آج ہی ان دونوں میں سے کسی کی طبیعت دوبارہ خراب ہو جائے اور ہم لوگ رک جائیں۔
جب دور رہنے والے بچے ملنے آتے ہیں تو ان کا دل والدین کی محبت سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے وہ اس کا اظہار والدین کی گزشتہ اور حالیہ خدمت جو کہ والدین کے ساتھ مستقلاً قیام پذیر اولاد کر رہی ہوتی ہے کی Monitoring کرکے کرتے ہیں۔
مثلاً وہ والدین کی صحت کیلئے پریشانی کا اٹھتے بیٹھتے اظہار کرتے ہیں ان کو والدین ہمیشہ پہلے سے زیادہ کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ والدین کی خدمت  انداز تیمار داری پر عدم اطمینان کا شکار نظر آتے ہیں۔ علاج کے سلسلے میں تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ فلاں ہسپتال میں کیوں لے کر گئے فلاں جگہ کیوں نہ لے کر گئے۔ فلاں ڈاکٹر سے علاج کروانا چاہئے تھا فلاں کا تجربہ زیادہ تھا۔
فلاں وقت فلاں چیز کیوں نہیں کھلائی جاتی۔ فلاں وقت چہل قدمی کیوں نہیں کروائی جاتی۔ فلاں جگہ کیوں لٹا رکھا ہے۔ پکا ہوا صحیح نہیں ہوتا۔ ان کی پسند کی اشیاء نہیں بناتے اسی لئے کمزور ہو گئے ہیں۔ رنگ پیلا ہو گیا ہے۔ وزن گر رہا ہے۔ غرض کہ وہ کسی بھی طرح کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ جبکہ دوسری طرف میزبان جس کی ہمت جواب دے چکی ہوتی ہے اس نے کہا کہ والد صاحب کی عمر بڑھ رہی ہے۔
بیماری کی شدت زیادہ ہو رہی ہے۔ اب یہ جوانی کی طرف تو مائل نہیں ہونگے کہ ان کی صحت بہتر ہو جائے گی۔ رنگ سرخ ہوگا اور یہ پہلوان بن جائیں گے۔ میزبان نے مشورہ دیا کہ اگر آپ مطمئن نہیں ہیں تو انہیں اپنے ساتھ لے جائیں آپ زیادہ بہتر خیال رکھ لیں۔ یہ سن کر اعتراضات کرنے والے کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے وہ اپنے تمام الفاظ واپس لینے کو تیار ہوتاہے۔
مگر وقت کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ نئے بہانے تراش کر اپنی جان چھڑواتے ہیں اور جب تک بزرگ مریض صحت یاب نہ ہو جائے ان کے گھر سے نہیں جاتے کہ کہیں ساتھ نہ لے جانا پڑ جائے۔ اس دوران مہمان کے عہدے پر فائز اس شخص کی بیوی باقی رشتہ داروں کے ہاں خیر سگالی ملاقاتیں کرتی ہے۔ خریداری جیسی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے اور تمام سیرو تفریح کرکے عین کھانے کے وقت تمام کام نمٹا کر بیمار کے گھر آ پہنچتی ہے یا آ ٹپکتی ہے۔ تاکہ رسماً بھی میزبان خاتون کی مدد کیلئے ہلنا نہ پڑ جائے۔
خود خدمت کرنا مشکل ہے اور دوسرے کی خدمت کو monitor کرنا آسان ہے۔ میزبان بیمار اور عیادت دار دونوں سے تنگ آ جاتا ہے اور سوچتا ہے یہ کیسا ثواب ہے جو دوسرے کیلئے عذاب ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan