Episode 42 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 42 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

آئندہ جب انہی سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو سوچ رکھا تھا کہ اب ان سے اچھی طرح ملیں گے کیونکہ وہ بہت ملنسار تھے اور یہ اپنی ظاہر کی گئی پچھلی ملنساری کی کمی کو اس مرتبہ پورا کر دیں گے۔ لہٰذا ملاقاتِ ثانی میں فریق شرمندہ جب بہت جوش و جذبے سے ان کے گلے لگے تو انہیں محسوس ہوا کہ کوئی Horizontal چیز ان کے پیٹ میں ایک دم چبھی ہے اور یہ Blunt Trauma فوری طور پر تو سمجھ میں نہ آیا مگر جب جوش و جذبات کا طوفان تھما اور ملاقاتِ ثانی کا Climax زوال پذیر ہوا تو پتہ چلا کہ ان کا ہاتھ میرے پیٹ میں پیوست تھا۔
وہ ذہنی طور پر صرف مصافحہ کے لیے اس قدر پختہ ارادہ کر کے آئے تھے کہ حالات و واقعات دیکھ کر بھی سمجھ نہ پائے اور اپنے ارادے میں اتنی سی بھی ترمیم نہ کر پائے جتنی کہ میں نے ان سے ملاقات میں کر لی تھی یعنی کم از کم ہاتھ کا رخ تو بدل لیا تھا جس کی وجہ سے ہاتھ ان کے پہلو کے ساتھ لگا تھا پیٹ میں پیوست نہ ہوا تھا۔

(جاری ہے)


اس کا مطلب ہے کہ پچھلی ملاقات ان کو بھی یاد تھی۔
انہوں نے بھی سبق کو سیکھا تھا۔ اسی لیے تو آج میرے پیٹ پرظلم ہوا تھا۔ انہوں نے سبق کو اتنی اچھی طرح یاد رکھا کہ گردو نواح سے بے نیاز صرف اسی میں مگن تھے، شاید ان کا قصور نہ تھا کیونکہ ان کی آنکھوں نے وہی دیکھنا تھا جو کہ دماغ جانتا تھا اور آج دماغ سوائے مصافحہ کے کچھ نہ جانتا تھا۔ 
جہاں ایک شخص مصافحہ اور دوسرا معانقہ کرنا چاہتا ہو وہاں پیدا ہونے والے نتائج تو عجیب و غریب ہوتے ہی ہیں مگر معانقہ (گلے ملنا) بھی کوئی آسان کام نہیں اس کے اپنے Pros اینڈ Cons ہیں۔
بہت زیادہ Practice کے بعد ہی اس (معانقے) کے تمام Steps بخیریت پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ بغیر Practice کے ناتجربہ کاری کے ساتھ اس میں کامیابی خاصی مشکل ہے۔
پہلے تو یہی سمجھ نہیں آتی کہ شروع کس طرف سے کرنا ہے۔ دونوں کو معلوم ہے کہ اس ملاقات میں گلے ملنا ہے (معانقہ کرنا ہے)، دونوں تیار ہیں مگر آغاز کیسے اور کس طرف سے کرنا ہے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ فیصلے کا وقت کم ہوتا ہے۔
ایک اگر سوچ رہا ہے دوسرا سوچ چکا ہے تب بھی نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر دونوں کے ارادے اور عمل مخالف ہوں تو آغازِ معانقہ ٹھیک ہو جاتا ہے یعنی ایک فریق نے دائیں طرف (کندھا) اور دوسرے نے بائیں طرف (کندھا) کو پیش کیا تو دونوں فریقین ٹھیک Position میں ہوتے ہیں گردن کی جگہ کا تعین کرنا مشکل نہیں ہوتا اس وقت یہ فوری طور پر طے پا جاتا ہے۔
یہ Complete پوزیشن ہوتی ہے Lock & Key جیسی Setting ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو دونوں فریقین کے ارادے اور عمل کا نتیجہ ایک سا ہی ہو تو ٹکر ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے اکثر یہ ٹکر نہیں ہوتی کیونکہ کوئی ایک فریق کمال حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے کا ارادہ بھانپ کر اپنا ارادہ اور عمل بدل دیتا، ایسا پلک جھپکتے میں ہوتا ہے اور تکلیف و شرمندگی کو آنے سے روک دیا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے اس Complete پوزیشن میں ملنا ہی کافی ہوتا ہے۔ یہاں صرف یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ کتنی دیر بغلگیر رہنا ہے۔ دونوں میں سے جو پہلے تھک جاتا ہے وہ خود کو جدا کر لیتا ہے دوسرا بھی سمجھ جاتا ہے کہ ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔
کچھ لوگ اس پوزیشن کے بعد اس ملاقات کو مکمل نہیں سمجھتے وہ دوسرے کے گردن کے دونوں اطراف پوزیشن بدل بدل کر ملنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔
سمجھ نہیں آتا کہ کتنی مرتبہ گردن کے دونوں اطراف ملنا ہے۔ ملاقات کا اختتام کب اور کون کرے گا۔
ایک اور رواج عام ہے کہ عربوں کے طریقے سے ملا جائے یعنی چہرے پر گالوں کے اطراف پر بوسہ سمیت یا بغیر بوسہ کے۔ بعض اوقات چہرے کے ایک ہی طرف ایسا کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات، چہرے کے، دونوں اطراف یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔ یہ بھی Pre Decided نہیں ہوتا۔
فریقین عالم جذبات، وقت و انداز کے مطابق Then And there یہ فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں عموماً کم ہی لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسی ملاقات کے بعد ملاقات ختم کر کے جا کر چہرہ دھونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کر سکیں تو بے چینی سے نجات کے وقت کا انتظار کرتے ہیں تا کہ پہلی فرصت میں چہرے کو غسل دے سکیں۔
ہمارے ہاں مکس (Mix) سٹائل بھی رائج ہے یعنی لوگ پہلے گلے ملتے ہیں پھر عربی انداز پر ملاقات کا اختتام کرتے ہیں۔
اور گلے ملنا اکثر اتنا لمبا Procedure نہیں ہوتا جتنا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔ زیادہ تر یہ Partial Position والا انداز ہوتا ہے یعنی دونوں فریقین کا صرف دایاں کندھا دوسرے فریق کے دائیں کندھے کے ساتھ واجبی سا لگا ہوتا ہے اور دونوں فریقین کی گردنیں ان ملتے ہوئے کندھوں کے اطراف بارڈر بناتے ہوئے Pillars کی طرح کھڑی ہوتی ہیں۔ ضروری نہیں دایاں کندھا استعمال کیا جائے۔
صرف بایاں کندھا استعمال کر کے بھی دونوں فریقین یہ ملاقات کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد عربوں کی پیروی کی جاتی ہے یعنی چہروں کو ملاقات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ علاقوں میں مصافحہ (ہاتھ ملانے) کے بعد ہاتھ چومنے کا رواج ہے اور ضروری نہیں صرف مصافحہ کے بعد ہی ہاتھ چومے جائیں کبھی کبھی معانقہ کے بعد بھی ہاتھ چومے جاتے ہیں۔
جہاں شفقت بھری محبت کا اظہار مقصود ہوتا ہے وہاں ماتھا چوما جاتا ہے بعض رشتوں میں ملاقات کے دوران صرف کندھا تھپتھپایا جاتا ہے ایسا اکثر بڑے چھوٹوں سے ملتے ہوئے کرتے ہیں۔
ایک خاتون نے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ انہیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگوں سے ملا کیسے جائے۔ اگلے کا ارادہ کیا ہے۔ چند سیکنڈز میں اگلا صرف زبانی کلامی ملاقات کرے گا، ہاتھ ملائے گا یا گلے ملے گا۔ بعض اوقات لوگ اس قدر بچھے جا رہے ہوتے ہیں کہ عجیب سا لگتا ہے اور کبھی کبھی تو پریشانی شروع ہو جاتی ہے۔ اگلی ملاقات میں وہی لوگ اس قدر روکھائی کا مظاہرہ کرتے ہیں جامد و ساکت اکڑ کر سیدھے پیچھے ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ آنے والا یا ملنے والا سمجھتا ہے کہ مجھے دیکھ کر اسے یقینا خوشی نہیں ہوئی حالانکہ خوشی تو کسی کو بھی دیکھ کر نہیں ہوتی باقی سب اپنی ناخوشی چھپا لیتے ہیں اور یہ اپنی ناخوشی چھپانے کی بجائے ظاہر کر دیتے ہیں بلکہ اس کا اعلان کر دیتے ہیں۔
انہی لوگوں کو کوئی کام پڑ جائے تو سب کچھ بھول کر پھر فدا ہونا شروع کر دیتے ہیں اور خوش مزاجی کے سارے ریکارڈ توڑ دیتے ہیں۔ بحرحال اس خاتون نے یہ حل نکالا کہ دوسرے کو (جس سے ملاقات کرنی ہوتی) پہلی نظر پڑنے سے Observe کرنا شروع کر دیتیں اور فاصلے سے ہی اس کی Body Language سے اندازہ لگانا شروع کر دیتیں کہ کیا کرنا ہے۔ ہاتھ آگے بڑھانا ہے یا کندھا پیش کرنا ہے یا نہیں معانقہ کرتے ہوئے دائیں یا بائیں کدھر سے آغاز کرنا ہے وغیرہ وغیرہ مگر اس کے بعد پھر حالات کے سپرد کہ کتنی بار ملنا ہے کب ختم کرنا ہے بوسہ لینا ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ اتنی عرق ریزی کے بعد بھی مکمل Perfect ملاقات شاذو نادر ہی کبھی ہوتی ہے۔
جب کوشش کے باوجود بھی اس معاملے میں کامیابی کا امکان کم نظر آیا تو ان کی کوشش ہوتی کہ جب ممکن ہو سکے مہمانوں سے آنے کے فوراً بعد نہ ملا جائے بلکہ جب وہ اپنے خاطر تواضع کروانے میں مصروف ہوں ان کو دور سے ہی سلام کر دیا جائے کیونکہ ہماری قوم کے لیے کھانا چھوڑنا یا اس میں وقفہ دینا سب سے مشکل کام ہے۔ اور مہمانوں کی واپسی پر مقامِ رخصتی سے غائب ہو کر اگر گزارا ہو سکتا ہو تو اس آنکھ مچولی سے جان چھڑائی جائے۔
سب سے زیادہ Un Predictable ملاقات بچے سے ہونے والی ملاقات ہوتی ہے۔ اس کی نہ تو تیاری جا سکتی ہے اور نہ ہی دوسرے کے بارے میں اندازہ لگا کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسی ملاقات میں بے عزتی کا چانس 99% ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کی ملاقات کسی سے کرواتے ہیں اور بچے سے کہتے ہیں سلام کرو بیٹا تو وہ بیٹا جو کہ باآسانی کئی مرتبہ آپ کے ایک اشارے پر سلام کرتا تھا ایسے Behave کرتا ہے جیسے سنا ہی نہ ہو۔
آپ کے بار بار کہنے کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ماں باپ اور مہمان دونوں شرمسار ہو رہے ہیں جبکہ بچہ بے نیاز ہوتا ہے۔ ماں باپ اپنے بچے کو Cover کرنے کے لیے کہتے ہیں آج پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا ہے، ورنہ یہ تو بہت Obedient اور Friendly ہے۔ شاید اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ ماں باپ بعض اوقات تھوڑی بہت اشاروں کنایوں میں کی گئی ڈانٹ سے بھی کام نکالنا چاہتے ہیں مگر بچے ٹس سے مس نہیں ہوتے چاکلیٹ وغیرہ کا لالچ بھی بے اثر ہو جاتا ہے تو مہمان بے چارا اپنی مزید بے عزتی سے بچنے کے لیے خود ہی بچے سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ملاقات کو آگے بڑھاتا ہے۔ کبھی کبھی تو مہمان خود ہاتھ بڑھا دیتا ہے ملانے کے لیے مگر بچہ منہ بسور کر پیچھے ہٹ جاتا ہے جیسے اسے کچھ سمجھ نہ آ رہا ہو وہ جانتا ہی نہ ہو کہ سب کیا کہہ رہے ہیں۔
کبھی بھی بچوں کی Dietary Habits کو دوسروں کے سامنے خاص طور پر جب آپ کسی کے ہاں مہمان گئے ہوں یا کوئی مہمان آپ کے ہاں Invited ہو بیان نہ کریں یہ Statement تو بھولے سے بھی نہ دیں کہ یہ بچہ تو فلاں چیز کھاتا ہے فلاں نہیں اسے یہ پسند ہے وہ نہیں خاص طور پر اگر بیان کی گئی اشیاء وہاں پر موجود بھی ہوں کیونکہ بچے اسی وقت سب کے سامنے آپ کی Statement کو غلط ثابت کر کے آپ کو کہیں کا نہ چھوڑیں گے۔
بچے کا Behaviour غیر متوقع ہوتا ہے وہ نئی Situation میں نئے لوگوں کے سامنے نئے طریقے سے React اور Bahave کرتے ہیں۔ لہٰذا بچوں پر مان کر کے یقین کے ساتھ کبھی بھی دوسرے کے سامنے کچھ مت کہیں کیونکہ بچے بے عزت نہیں کرواتے بلکہ عزت ہونے نہیں دیتے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan