Episode 19 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 19 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

شوہر اور ہیرو
ایک خاتون کی شادی یعنی Arrange marriage ہوئی خاتون کو علم تھا کہ اس کا شوہر تھوڑا سا اصول پرست ہے یہ وہ واحد علم تھا جو اسے اپنے ہونے والے شوہر کے بارے میں شادی سے پہلے موصول ہوا تھا کیونکہ شادی آج کل کی شادیوں جیسی نہ تھی بلکہ پرانے زمانے کی Arrange marriages جیسی تھی بہت کم وقت میں طے ہوئی اور فوراً ہی منعقد ہو گئی۔ ایک دوسرے کے بارے میں جان پہچان  تبادلہٴ معلومات وغیرہ نہ ہو سکا۔
شادی ہو گئی زندگی شروع ہوئی رواں دواں ہوئی مگر جانے کیا چیز تھی جو نہ تھی۔ لوگوں کے سوالوں کے جواب نہ مل پاتے۔ تم خوش ہو تمہارے ساتھ شوہر کا رویہ کیا ہے۔ تمہارا خیال رکھتا ہے۔ تم سے محبت کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بیوی کا خیال تھا کہ شوہر صاحب چونکہ تھوڑے سے اصول پرست ہیں اس لئے حالات ایسے ہیں آہستہ آہستہ وقت گزرے گا تو حالات بہتر ہو جائیں گے اور پھر تمام سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے۔

(جاری ہے)

بیوی صبر سے انتظار کرتی رہی مگر صاحب کی شخصیت اس قدر مضبوط قلعہ ثابت ہو رہی تھی کہ بیوی کے ٹوٹنے کا ڈر پیدا ہو گیا۔ جب وہ ٹکرا ٹکرا کر تھک گئی تو خود کو بکھرنے سے بچانے کیلئے اس نے سوچا کہ انتظار کرنے کی بجائے کچھ کیا جائے کیونکہ مسئلہ تو اس کو تھا شوہر تو مطمئن تھے یا نظر آتے تھے۔
بیوی نے سوچ بچار شروع کی تو اسے خیال آیا کہ زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ قمیض کا بٹن لگاتے ہوئے کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جذبات کی two way traffic کام کرتی ہے۔
ہزاروں کہانیوں بے شمار فلموں اور لاتعداد ڈراموں میں یہی نسخہ کارآمد رہا اور یہ آج تک کام کر رہا ہے۔ زمانہ ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ مگر جب کھڈی پر کپڑا بننا جاتا تھا تب بھی بٹن لگانا محبوب تک پہنچنے کا راستہ تھا اور آج کے کمپیوٹرائزڈ دور میں بھی اسی طرح قابل عمل و اثر اور مجرب نسخہ ہے۔
 آج بھی عوام کے دلوں پر راج کرنے والی کہانیوں میں موجود ہے۔
سائنس کی اس قدر ترقی بھی بٹن لگانے والے Romance کو Replace نہ کر سکی آج مشین سے بٹن لگتا ہے تب بھی ٹوٹ جائے تو محبوب کے ہاتھ سے لگتا ہے یا لگانے والا لگوانے والے کا محبوب بن جاتا ہے اس عمل کے دوران (اگر وہ پہلے سے محبوب نہ ہو تو)۔ غور طلب بات یہ کہ ہمیشہ ایک بٹن لگانا ہی کافی ہوتا ہے دوسرا بٹن لگانے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ یہ نسخہ کم خرچ بالا نشین ہے۔
سب سے کم محنت اور وقت میں اثر کرنے والا یہی نسخہ سب سے پہلے آزمانے کا ارادہ کر لیا۔
ابھی تک کوئی بھی بٹن خود سے نہ ٹوٹا تھا تو روشن امید تھی اور انتظار تھا کہ اگر بٹن ٹوٹ جائے اور بیوی اسے لگائے تو شاید اس قلعے میں کوئی سوراخ ہو جائے بہت انتظار کے بعد خود ہی بٹن توڑنے کا فیصلہ کر لیا مگر اگلے دن شوہر نے اس بٹن کے ٹوٹنے کو نوٹ ہی نہ کیا کیونکہ وہ بٹن صرف ٹائی لگانے کیلئے استعمال ہوتا تھا جو کہ اس دن شوہر نے لگانی نہ تھی۔
اسی لئے اس کا دھیان اس واردات کی طرف نہ گیا۔ شوہر کے جاتے ہی فوراً دوسری shirt کا بٹن توڑ دیا مگر شام کو شوہر واپسی پر نئی shirt خرید کر لائے اور اگلے دن وہی پہن کر چلے گئے اس سے اگلے روز ”جمعہ“ تھا لہٰذا نماز جمعہ کے حساب سے Dress up ہوئے اور ٹوٹے بٹنوں والی قیمض اس دن بھی وار محبت نہ کر سکی۔ اس کے بعد چھٹی کا دن آ گیا اور نسخہ استعمال ہی نہ ہوا۔
اگر استعمال ہو کر ناکام ہو جاتا تو دوسرے نسخے پر غور کیا جاتا۔ بحرحال کوشش جاری رکھی بٹن بازو کا توڑا گیا تھا وہ قیمض پہن کر بازو اوپر کرکے چلے گئے یہ نہ کہا کہ بٹن لگا دو مگر بیوی نے دیکھا کہ انہوں نے تھوڑا سا غصہ ضرور کیا تھا جس کی اسے سمجھ نہ آئی۔ پھر بیوی نے سوچا کہ بازو کا بٹن کام نہیں کرنے والا کسی main جگہ کا بٹن توڑنا پڑے گا۔
 جب دوبارہ واردات کی گئی shirt شوہر نے پہنی اور بٹن کی عدم موجودگی کی صورت میں جب بیوی نے بٹن لگانے آفر کی تو شوہر نے کہا دوسرا بٹن تو matching کا نہ ہوگا اس لئے برا لگے گا۔
پھر اگلی بار بیوی نے کارنامہ اس طرح کیا یعنی بٹن اس طرح توڑا کہ لٹکتا ہوا قیمض کے ساتھ چھوڑ دیا بیوی انتظار میں تھی کہ بس اب وہ مطلوبہ لمحے آنے والے ہیں جن کا اتنے دنوں سے انتظار تھا جبکہ دوسری طرف shirt دیکھتے ہی شوہر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اس نے shirt پھینکی اور کہا کیا مصیبت ہے روز روز کی۔ دوسری shirt پہنی اور ساتھ ساتھ جو کہا وہ یہ تھا۔
”تنگ آ گیا ہوں میں آج خبر لیتا ہوں اس الو کے پٹھے کی  اتنی لاپرواہی تو اس نے کبھی نہ کی تھی۔ میں Extra payment کرتا ہوں اس کو پہلے سارے بٹن لگائے مضبوطی کے ساتھ پھر دھلائی کرے اور اگر دوران دھلائی بٹن ٹوٹ جائے تو اس بٹن کو لگائے ورنہ market سے ویسا ہی بٹن لاکر لگائے۔ (اگر Extra بٹن shirt کے ساتھ موجود نہ ہو) پھر استری کرے۔ مگر اس کا دماغ ہے کہ مسلسل ہی کام کرنا چھوڑتا جا رہا ہے۔
یہ سننا تھا کہ بیوی کے اوسان خطا ہو گئے یہ تو گنگا ہی الٹی بہہ گئی اس طرح سارا بھانڈا پھوٹنے کا ڈر پیدا ہو گیا تو بیوی نے بہانا بنایا کہ اس کے پاس نیا لڑکا آیا ہے شاید اس لئے ایسا ہوا میں اس مرتبہ اس کو اچھی طرح پوچھ کر سمجھا دوں گی۔ بیوی کو اب وجہ سمجھ آئی کہ آج تک کوئی بٹن کیوں نہ ٹوٹا تھا۔
یہ نسخہ تو پھل دیئے بغیر ہی مرجھا گیا پھر سوچا کہ تخریب کاری کرنے کی بجائے شوہر کو اپنی طرف متوجہ کرکے متاثر کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔
تحقیق کی کہ مردوں کو عورتوں کے کس قسم کے بال اچھے لگتے ہیں۔ میڈیا پر زیادہ تر شوہروں کو بیویوں کے Hair اور Hair style کو نوٹ کرتے دکھایا جاتا ہے۔ اور یہی ابتدائے Romance کا مرحلہ ہوتا ہے۔ مشکل تو یہ بھی نہیں روزانہ ایک نئی طرح کا سٹائل آزمانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے زیادہ شہرہ آفاق سٹائل سے ابتدا کی یعنی بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنایا۔ پن موٹی بڑی بہت نمایاں کرکے لگائی کہ حسب روایت اگر ان کا دل stimulate ہو جائے اور وہ پن کھولنا چاہیں تو انہیں مشکل نہ ہو۔
بیوی سارا دن جوڑا بنا کر پھرتی رہی۔ جس کی وجہ سے گردن میں درد شروع ہو گیا مگر اس دن شوہر کو بہت دیر ہو گئی آنے میں اور تھکے ہوئے شوہر کو بہت دیر سے گھر پہنچنے پر بالوں کے سٹائل کا فرق بالکل بھی متاثر نہ کر سکا۔ بیوی نے سوچا شاید زیادہ تھکے ہوئے تھے اس لئے دھیان نہ دیا۔ دوسرے دن بیوی نے سوچا کہ پورا دن یہ سٹائل بنا کر پھرنے سے بہتر ہے کہ شوہر کے آنے سے کچھ دیر پہلے مذکورہ بال بنا لئے جائیں۔
کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ سارا دن uneasy رہنے کی مگر ہونا کیا تھا اس دن شوہر وقت مقررہ سے پہلے ہی گھر آ گئے اور تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ہمت نہ ہاری اگلا دن چھٹی کا تھا یہی سٹائل آزمایا گیا مگر لاحاصل ذرہ برابر اثر نہ ہوا۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ  وقت کی کمی، غور نہ کیا وغیرہ وغیرہ سب بہلاوے بھی بے جواز تھے۔ سوائے گردن کی اکڑن کے اور کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
ایک سٹائل اگر سارا دن نظروں کے سامنے رہا مگر بے اثر رہا تو اس کا مطلب تھا کہ یا تو سٹائل طاقتور نہیں یا دوسری پارٹی کی مضبوطی زیادہ ہے۔
نقص سٹائل میں سمجھ آیا تو اس کو بدل دیا گیا کیونکہ یہی وہ واحد چیز تھی جس کو بدلا جا سکتا تھا۔ بالوں کو کھلا چھوڑ کر آزمایا کہ شاید ان کا حسن وار کر جائے۔ تمام وقت کان تعریف سننے کے منتظر اور نظریں ان کی نظروں اور تاثرات کی چوکیداری کرنے میں لگی رہیں مگر بے ثمر۔
پھر سوچا کہ شاید صرف کھلے بالوں کی خوبصورتی اثر نہ کرے کیوں نہ ان کو straightner سے straight کر لیا جائے خوب محنت کی گئی بیوی مسلسل انتظار کر رہی تھی تعریف اور تاثرات کا کہ اچانک شوہر نے کہا تم کیا اتنی گرمی میں بال کھول کر پھر رہی ہو۔ کس قدر گرمی ہے آج تمہیں دیکھ کر مجھے گرمی لگ رہی ہے۔ تمہیں نہیں لگ رہی (ساتھ ہی سوال بھی کر دیا)
کیوں مجھے کیوں نہیں لگ رہی؟ (بیوی کے منہ سے بے ساختہ نکلا)
آپ نے یہ کیوں کہا؟
اگر گرمی لگ رہی ہوتی تو تم بال بکھیر کر نہ پھر رہی ہوتی۔
(فوراً جواب آیا)
اگلے روز بیوی اٹھتے ہی بالوں کا اچھا سا اونچا سا (موسم کی مطابقت سے) جوڑا بنا رہی تھی۔ (لاشعوری طور پر پچھلے دن کی مکالمہ بازی کے نتیجے میں یہی ذہن میں آیا) کہ شوہر کمرے میں آیا اور کہنے لگا میں اتنی دیر سے باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں اور تم یہاں بالوں کو آسمان میں چڑھانے میں مصروف ہو۔ بجلی گری صبح صبح کہ یہ ادا بھی گئی۔
بیوی نے کچھ خاموشی سے بغیر کچھ آزمائے دن گزارے پھر اسے خیال آیا کہ کیوں نہ بالوں کا رنگ بدل لیا جائے۔ شاید بلکہ یقینا اچھا اثر پڑے گا رنگ بدل لیا گیا مگر اثر ناپید۔ ذہن پر زور دیا تو یقین ہوا کہ نظر تو ان کی بالکل ٹھیک ہے۔ ساری غلط فہمی دور ہو گئی جب انہوں نے ایک دن کہا کہ کیا ہوا ہے اچانک بوڑھی عورتوں جیسی لگنے لگی ہو یہ اثر ہوگا، اس محنت کا پھل اتنا کڑوا ہوگا بیوی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ بیوی کا دل چاہتا تھا کہ سرپھاڑ دے اپنے سر پر تو بالوں کی کھیتی دن بہ دن کم ہو رہی ہے اور دوسروں پر نخرے آرہے ہیں۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan