Episode 23 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 23 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

اگر سب کا مستقبل بے خطر ہے تو قوم کا مستقبل کیوں خطرے میں ہے۔ جو شخص اپنی تقدیر سنوارنے کا قابل عمل نسخہ بیان کرتا ہے ایسا نسخہ کہ فرد کی تو کیا افراد و اقوام کی تقدیر بدل جائے اس کے یوم پیدائش پر اس کا نسخہ بتانے کی (اس نسخے کو زبان زد عام کرنے کی) بجائے آپ کے چینلز لوگوں کو پتھروں کے ٹکڑوں پر ٹرخا کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں اور لوگوں کا آج اور کل دونوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

حب الوطنی سے لبریز ایک host سال کے 364 دن پاکستان  ملک  وطن کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں مگر زبانی جمع تفریق کا یہ کھیل آسان اور جب اقبال ڈے پر ان کے چینل سے Morning show کا آغاز ہوا تو وہی ڈھاک کے تین پاٹ یعنی پروگرام روز مرہ معمولات کے مطابق صرف پروگرام کے شروع میں ذرا سا ذکر ایسے کر دیا جیسے حکومت کی تعریف (جو کہ صرف دکھانے کے لیے کی جاتی ہے دل سے نہیں)۔

(جاری ہے)

دوڑتے بھاگتے آکر پروگرام شروع کر دیتے ہیں بغیر کسی تیاری کے آتے ہیں۔ چینل والوں نے بس اتنی ہی تیاری کی ہوتی ہے کہ کارڈ پر چند معلومات لکھ دی ہوتی ہیں۔ ایک سوال جس کا مقصد کوئی معلومات پہنچانا نہیں (کیونکہ سوال اس قدر بچگانہ ہوتا ہے) بلکہ کالز اور Messages کے ذریعے پیسے کمانا ہوتا ہے تیار کیا ہوتا ہے۔
ایک کارڈ پر اقبال کے چند اشعار لکھ کر Host کو دیئے جاتے ہیں جو کہ وہ پروگرام کے دوران Live پڑھتا ہے اور اس قدر غلط پڑھتا ہے کہ شعر کا Fracture تو ہوتا ہی ہوتا ہے، اقبال کی روح بھی تڑپ جاتی ہو گی۔
نہ انہیں اعراب کا علم، نہ پڑھنے کا شعور اردو کے شعر ایسے پڑھتے ہیں، جیسے مریخ کی زبان یعنی ادائیگی الفاظ کا ہنر بھی جاتا رہا۔
شعر کا مفہوم تو کب کا رخصت ہو گیا وہ تو اس کا معلوم  اس کا ظاہر، اس حلیہ و چہرہ بھی مسخ کر دیتے ہیں۔ تو سامع اقبال کے اشعار کے ظاہر و باطن دونوں سے محروم ہو گیا۔
یہ انتہائی شرمناک بات ہے حالانکہ اگر وہ Host پروگرام شروع کرنے سے پہلے ہی ایک مرتبہ اشعار کو پڑھ لے اگر اتنا بھی وقت نہیں تو دوران بریک (وقفہ میں) ہی ایک مرتبہ پڑھ لے۔
نہ پڑھ سکتا ہو تو کسی سے پوچھ لے۔ پھر بھی کوئی صورت نہ نکلتی ہو تو وہ اشعار نہ پڑھے جنہیں پڑھنا مشکل ہو رہا ہو۔ صرف ان اشعار کو ہی جنہیں وہ روانی سے ادا کر سکے  پڑھ لے، سنا دے تاکہ اس کی جہالت کا، شعر کی حرمت کا اور قوم کی اقدار و وقار کا پردہ رہ جائے مگر اس سب کیلئے احساس ذمہ داری ہونا ضروری ہے جو کہ نہ تو آج کل کے Host میں ہے نہ ہی چینلز میں۔
Live پروگرام کے دوران Host زندگی میں پہلی مرتبہ ان اشعار کو جیسے کیسے Live پڑھ رہا ہوتا ہے۔ Host ،چینل سب ہی داد کے مستحق ہیں اس قدر عجلت اور دیدہ دلیری پر۔
یہ آپ نے حال دیکھا ان چینلز کا جو کہ Valantine's day کی جگہ Valantine's week مناتے ہیں جو کہ ہر ماہ شادی ویک مناتے ہیں ایک چینل پر شادی ویک ختم ہوتا ہے تو دوسرے پر شروع ہوجاتا ہے۔
اب نظر ڈالتے ہیں ان چند چینلز پر جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور اقبال ڈے مناتے ہیں۔
قومی ٹی وی پر ایک ادارے کے سربراہ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں وہ تقریباً 65,60 برس کے ہیں۔ فلسفہ خودی اس قدر مشکل بیان کر رہے ہیں کہ لگتا ہے اقبال سے غلطی ہو گئی کہ اقبال نے اس قدر پیچیدہ تصور پیش کیا خدا جانے اس زمانے کے لوگوں نے کیسے سمجھا کیسے ہضم کیا۔ دوسرے صاحب جو کہ بڑھاپے میں قدم رکھے ہوئے ہیں وہ کوئی صوفیانہ انداز کی خودی پر بحث کر رہے ہیں۔
بہت کوشش کی سمجھنے کی مگر سمجھ نہ آئی تو چینل بدل دیا۔ اس چینل پر سکالر صاحب بیان فرما رہے تھے اور وہ خودی کو دین کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔ اسی پروگرام میں بیٹھے بیٹھے دوسرے صاحبِ علم کی خودی پر تقریر سنی جوکہ اس کا ناطہ پہلے ازلی معاملات کے ساتھ جوڑ رہے تھے فرشتوں کو بیچ میں لا رہے تھے۔ اشرف المخلوقات کی باتیں کر رہے تھے۔ ذہن مزید الجھ گیا تو چینل بدل دیا اس تبدیل شدہ چینل پر موجود صاحبِ حکمت خودی کو شعور و لاشعور میں تقسیم کر رہے تھے۔
معاملہ مزید گھمبیر ہو گیا سمجھ نہ آتا تھا کہ خودی کیا ہے ہر چینل کی ہر فرد کی اپنی اپنی خودی اور سب کی ایک دوسرے سے مشکل سے مشکل خودی ہے تو پھر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ خودی کی اس قدر Variety اتنے Version کب وجود میں آئے اور سب کے سب ایسے کیوں ہیں کہ لگتا ہے مشین لینگوئج ہے جو کہ صرف مشین سمجھ سکتی ہے یا بنانے والا عوام الناس نہیں۔
یقین نہ آتا تھا کہ ایک عالمگیر شخصیت اتنی الجھن پیدا کر گئی کہ ایک چینل پر صاحبِ شعور کو فلسفہ خودی کا ذکر کرتے سنا یعنی خودی مشکل تو تھی ہی ناممکن بھی ہو گئی فلسفہ کب کسی کے پلے پڑا ہے رہی سہی کسر ان صاحب نے آخری کیل ٹھونک کر پوری کر دی یعنی امیدِ پہنچ (خودی تک) ختم ہو گئی۔
پھر کوئی ذکر کر رہا ہے اقبال کے شاہین کا سننے والا سوچتا ہے کہ اقبال کا شاہین کیا ہے؟ کیا انہوں نے شاہین پال رکھا تھا؟ عقاب اور شاہین میں کیا فرق ہے؟ قوم کو کہاں فرصت کہ فرق پتہ کرے۔ اقبال نے شاہین ہی کیوں چنا کوئی اور پرندہ کیوں پسند نہ آیا؟ بحرحال وہ یہ سوچ کر عقل و ذہن کے دروازے بند کر لیتے ہیں کہ ان کی پسند کہ انہیں شاہین پسند آیا۔
پسند تو اپنی اپنی ہوتی ہے اس کی کوئی وجہ تھوڑی ہوتی ہے۔
یہ بھی ذکر سنا کہ کوئی انسانِ کامل بھی تھا اقبال کے ہاں۔ وہ کون تھا کیسا تھا۔ کسی کو نہیں معلوم جبکہ سپرمین کو آپ کا بچہ بچہ جانتا ہے اور اقبال کے انسانِ کامل کو آپ کے بڑے اور نوجوان بھی نہیں جانتے صرف وہ بزرگ جانتے ہوں گے جن کی اب کوئی نہیں سنتا حتیٰ کہ گھر کے نوکر بھی نہیں سنتے۔
مرد مومن کا ذکر ہی بے کار ہے کوئی مومن کے بارے میں حتیٰ کہ مومن کی تعریف نہیں جانتا مرد مومن کی خصوصیات کیا جانے گا۔ مرد مومن کی ضرورت کو کیا سمجھے گا۔
پھر اقبال اور سیاست کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے کہ سیاست دین سے علیحدہ ہو تو چنگیزی رہ جاتی ہے۔ یہ سن کر ایک صاحب کلمہ شکر ادا کر رہے تھے کہ یہ واحد کام ہے جو کہ اقبال کے Concept کے مطابق اس ملک میں ہو رہا ہے یعنی اسمبلی پیروں  مخدوموں  گدی نشینوں سے بھری پڑی ہے۔
دین اور سیاست کے اس قدر حسین امتزاج کو تو کبھی اقبال نے بھی نہ سوچا ہوگا۔
غور کریں کہ ایسا کیوں ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ صرف اقبال ڈے پر کسی ایک آدھ چینل پر کسی عمر رسیدہ بزرگ سے ہم اقبال کا شاہین  انسان کامل  مرد مومن  خودی اور تصور ریاست کا صرف اور صرف ذکر سنتے ہیں اور مکمل طور پر سنتے بھی نہیں بزرگ شخصیت کی ایک آدھ بات سن کر بے زار ہو جاتے ہیں اور چینل بدل دیتے ہیں۔
کسی بھی چینل پر آپ کو نوجوان  جوان اور بچے اقبال کے بارے میں بات کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ کیونکہ وہ اقبال کی ان ساری جہتوں کے بارے میں نہیں جانتے جبکہ اقبال کا سارا خطاب تھا ہی نوجوان کیلئے کیونکہ کل اسی کو سب سنبھالنا ہے۔ اقبال نے بچوں کیلئے نظمیں لکھیں جن کا مقصد بچوں کو بہلانا نہیں تھا بلکہ بامقصد نظموں کے ذریعے بچوں کی ذہنی سطح پر رہ کر ان کی دلچسپی کی مثالیں دے کر انہیں سمجھانا  سکھانا اور ان کی شخصیت سازی کرنا منظور تھا۔
مثلاً پہاڑ اور گلہری  دعا وغیرہ وغیرہ کیونکہ انہی بچوں نے نوجوان و شاہین اور مرد مومن بن کر تقدیر بدلنی ہے۔ آج آپ کے بچے نظمیں یاد کر رہے ہیں  گا رہے ہیں  مگر بے مقصد  بے ثمر ہر بچے کو Baba baba black sheep
اور اس طرح کی بہت سی نظمیں سکول جانے سے پہلے ہی یا سکول جاتے ہی سکھا دی جاتی ہیں مگر اقبال کی نظموں میں سے صرف ”دعا“ کچھ سکولوں میں Morning assembly میں سب بچے مجبوراً پڑھتے ہیں۔
بچوں کو سب کچھ سکھایا جا سکتا ہے۔ Baba baba black sheep سکھائی جا سکتی ہے تو اقبال کی بامقصد نظمیں کیوں نہیں سکھائی جا سکتیں۔ یہ نظمیں کیوں نرسری میں Rhymes شامل نہیں کی جاتیں بچے کیوں انہیں Piano وغیرہ پر play نہیں کرتے ان کی دھنیں کیوں نہیں بناتے۔ ان نظموں کے کیوں انگریزی ترجمے کرکے انگریزی کی کتابوں میں شامل نہیں کئے جاتے تاکہ یہی بچے بڑے ہو کر اقبال کے نوجوان بنیں۔
ہر نسل تمام ذمہ داری نوجوانوں پر (اگلی نسل میں آنے والے نوجوانوں پر) ڈال کر فارغ ہو جاتی ہے۔ چوتھی نسل جوان ہو چکی مگر اقبال کا شاہین  اقبال کا نوجوان‘ مرد مومن آج تک کوئی نسل نہیں بن سکی۔ کیونکہ ہر نسل اس کام کو خود کرنے سے معذور۔ اسی لئے آج تک وہ نوجوان نسل سامنے نہیں آئی جو ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہو۔ یہی وجہ ہے جتنا آپ کی پہلی نسل اقبال کو جانتی سمجھتی تھی اتنا دوسری نہ جانتی تھی اور جتنا دوسری جانتی تھی تیسری اس سے بھی ناواقف تھی اور حال یہ ہے کہ چوتھی نسل تک صرف اور صرف نام پہنچا ہے۔
جس کو چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اقبال اس کی قوم سے چھیننے کی بجائے لوٹا دیں یہ بہت آسان کام ہے۔ اقبال کے خیالات و نظریات کے ساتھ فلسفہ کا لفظ لگا کر اس کو No go area نہ بنائیں۔ اقبال کا پیغام و کلام آسان تھا اس وقت کے کم پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں آ گیا تھا تو آج کے پڑھے لکھے ذہین شہری کی سمجھ میں کیوں نہ آئے گا۔ اسے آسان فہم زود ہضم بنا کر پیش کریں۔
قابل عمل اقبال کو ناقابل سمجھ نہ بنائیں اقبال نے خودی کا پیغام دیا۔ مختلف پروگرامز میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے اندر خودی پیدا کریں نوجوان وہیں ٹھٹھک جاتا ہے کہ یہ تو لذت دنیا چھوڑ کر عذاب گلے ڈالنے والی بات ہے جبکہ اقبال نے خودی کو بلند کرنے کا کہا ہے۔ خودی پیدا کرنے کی بات نہیں کی۔ خودی تو انسان کے اندر اللہ نے رکھ دی ہے۔ اقبال تو اس پیدا شدہ  ودیعت شدہ خودی کو تن آور درخت بنانے کی بات کرتا ہے۔
اس خودی کے درخت کی آبیاری کا نسخہ بیان کرتا ہے۔
اس درخت کی بلندی کے‘ مضبوطی کے‘ فوائد بیان کرتا ہے۔ اس درخت کے لذیذ پھل کی طرف رغبت دلاتا ہے۔ بچے سے نوجوان ہونے تک جب آپ اقبال کو عمر کے ہر حصے میں بچوں کو سکھاتے جائیں گے تو نوجوان و جوان بن کر یہ خودی کے درخت کی ساری کی ساری شاخوں سے واقف ہوتے چلے جائیں گے۔ ان کو خودی کی مختلف قسموں میں الجھانے کا مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔
ہر نوجوان خودی کی قوس قزح کے ہر رنگ سے واقف ہوگا۔ اس کے تمام Shades کو جانتا ہوگا۔ اس کی ہر ٹہنی اور ہر ٹہنی پر لگنے والے پھل سے اور اس پھل کی لذت سے آشنا ہوگا۔ آپ نوجوان نسل کو بتائیں کہ خودی کی بلندی کا پیغام دینے والا خود اپنے مکان میں جو کہ اس نے 10 سالہ بیٹے کے نام کر دیا تھا رہنے کا کرایہ اپنے بیٹے کو ادا کرتا تھا۔ انتقال سے چند روز پہلے بھی وہ اپنے بیٹے جس کی عمر اس وقت چودہ سال تھی کو آئندہ ماہ کا کریہ ادا کر چکے تھے۔
کس قدر خود داری تھی اس شخصیت میں۔ یہ Recipe ہے شخصیت سازی کی۔
نوجوان نسل کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ قائداعظم نے علامہ اقبال کے بارے میں کہا تھا کہ میں نے اس سے زیادہ اچھا رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا یہ سیاستدان ہیں اور میں ان کی قیادت میں سپاہی ہوں۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan