Episode 47 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 47 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

مارننگ شوز
(Morning Shows)
دن کا رات میں بدلنا اور رات کا دن میں تبدیل ہونا اللہ کی نشانیوں میں سے ہے جب رات دن میں بدلتی ہے تو بہت سے کام ایسے ہیں جو کہ ہر صبح ہر گھر میں ہر جگہ ہو رہے ہوتے ہیں جنہیں روز مرہ کی روٹین سے کسی بھی طرح نکالا نہیں جا سکتا۔ جن کے بغیر صبح کے ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جن کا وجود صبح کے ساتھ لازم و ملزم ہے۔
ایسا ہی ایک کام مارننگ شو دیکھنے کا ہے۔ یہ کام اتنا عام اتنا ضروری اور اتنا مقبول ہے کہ اتنے گھنٹے کی Morning نہیں ہوتی جتنے Morning shows ہوتے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اتنی تنگی وقت کے باوجود Viewer صرف چینل تبدیل کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ بمشکل چند منٹ فی چینل آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چینل پر Morning Show ہو رہا ہے جن چینلز کی دو، تین یا اس س بھی زیادہ Types ہیں وہ اپنے سب چینلز پر الگ الگ لوگوں کے Morning shows روزانہ On Air کرتے ہیں اور تو اور چینلز والے مالکان حضرات ہی یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ ایک ہی نیٹ ورک کے 2,3 چینلز پر Morning Shows کروانے سے بہتر تھا کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی چینل پر Show کروا لیا جاتا اور Show کی بہتری کے لیے کوشش نہیں عمل کیا جاتا تاکہ اس کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا مگر معیار اور بہتری تو کسی کی منزل ہی نہ تھی۔

(جاری ہے)

جو منزلِ مقصود ہے اس تک ہر راستے سے ہر قیمت پر پہنچا جا رہا ہے۔
کسی کی مارننگ Health ہے تو کسی کی مسکرا رہی ہے (جیسے باقی سب کی Morning کے تو وہ آنسو پونچھ کر تولیے نچوڑتے رہے ہوں) کسی کی صبح حسین ہے کسی کا سویرا سروں میں الجھا ہوا ہے۔ کوئی پاکستان کو اٹھا رہا ہوتا تو کوئی جگا رہا ہوتا ہے۔ کسی کی Morning کسی کے ساتھ ہے تو کسی کی Good ہے۔ جتنے چینلز ہیں اتنی ہی قسم کی Morning ہے۔
یوں کہیے Viewers کے لیے Morning Shows کا بوفے موجود ہے۔ جتنا چاہیں جہاں سے مرضی چکھ لیں۔ جو مرضی کر لیں لیکن آخر میں محسوس ہو گا کے سوائے ایک آدھ ڈش کے سب ہی ایک جیسی تھیں۔ اور لگتا تھا کہ کسی اناڑی نے بنائی ہیں۔ صرف ڈش کی Presentation اور گارنیشنگ ہی اچھی ہے ذائقہ کوئی نہیں لذت نام کو نہیں۔
Host کون ہے کتنا تجربہ کار ہے کتنے عرصے سے یہ کام کر رہا ہے سب کچھ اثر ڈالتا ہے۔
زیادہ تر Host ماضی یا حال کے اداکار ہیں۔ اور وہ صرف اور صرف اداکاری کے سہارے Hosting چلانا چاہتے ہیں۔ جس کا انجام قابلِ ذکر نہیں قابل تردید اور قابل تغیر ہے۔
ایک چینل جو کہ ہر طریقے سے Host ڈھونڈ کر تھک گیا تھا جس نے Trial کی بنیاد پر بھی لوگوں سے Hosting کروا کے دیکھی مگر ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تنگ آ کر ایک اداکارہ (جن میں صرف ایک خوبی نمایاں تھی کہ والدین کا تعلق، سسرال کا تعلق اور خود اپنا تعلق ٹیلی ویژن، فن اداکاری اور شوبز سے تھا) کو اپنے مارننگ شو کی Hosting کے لیے منتخب کیا۔
وہ پہلی مرتبہ یہ کام کر رہی تھیں انہوں نے تیاری کرنے کے بجائے ایک ایسی خاتون (جنہوں نے مارننگ شو کرنے کی بنیاد ڈالی تھی اور Hosting کی شکل کو تبدیل کرتے کرتے یہاں تک پہنچا دیا تھا جہاں سے اس کی بہتری کے امکان ختم ہو گئے) کی Hosting کو اپنا Ideal بنا کر خود کو ان کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ خود کو ختم کرنا اور پھر ڈھالنا ایک ایسا عمل ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ ہی ناکامی ہوتا ہے۔
انہوں نے ان کو صرف Copy نہیں بلکہ Copy paste کیا۔ وہ اتنی Practice کر کے اپنے Show کا آغاز کرنے آتی کہ ناظرین کو لگتا تھا شکل کسی کی ادائیں کسی دوسرے کی اور آواز کسی اور کی ہے۔ وہ بے قاعدہ بے رخے بازو گھما گھما کر بلاوجہ کی کرتب سازی کرتیں۔ ہونٹوں کو بھی اسی طرح حرکت دیتیں جیسے وہ اپنے نہیں ان کے ہونٹ استعمال کر رہی ہیں۔ چہرہ اور گالیں بھی آڑی ترچھی ہلا ہلا کر، چلا اور بنا کر وہ سارا وقت عجیب سا تماشا کرتیں اور بلا وجہ Hyper ٹون میں شو کریں جیسے کوئی پیچھے لگا ہوا ہو۔
خواہ مخواہ کی خوشی اور جذباتیت۔ سب کچھ اتنا غیر فطری اور نازیبا لگتا کہ شک گزرتا کہ شاید ان کو Euphoria ہو گیا ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ کچھ ایسا ہی ان کے ساتھ بھی ہوا وہ زیادہ عرصہ دوسرے کا خول اپنے اوپر چڑھا نہ سکیں شاید گھر جا کر منہ میں درد ہوتا ہو، گالیں اکڑ جاتی ہوں اور بازوؤں کے پٹھے کھنچ جاتے ہوں۔ جو بھی ہوتا ہو ان کو مجبوراً یا دانستہ واپس اپنے آپ پر آنا پڑا اور یہی ان کا حاظرین پر بڑا احسان تھا کہ کوا ہنس کی چال چھوڑ کر اپنی چلنے لگ گیا۔
قومی ادارے پر Show کرنے والے بھی اس معیار کے نہیں جو کہ اس ادارے کا وقار تھا۔ وہاں بھی اداکارہ کو بٹھا دیا گیا ہے ملک میں متعلقہ لوگوں کی اتنی کمی ہو گئی ہے کہ کہیں بھی ایسا Host نظر نہیں آتا جو واقعی Host ہو یعنی معیار پر پورا اترتا ہوا۔ افسوس کہ قومی ادارہ بھی دوسرے اداروں جیسا ہو گیا ہے یہ بھی اپنی الگ پہچان برقرار نہ رکھ سکا۔ کہاں یہ کہ اس کا معیار ایسا ہونا چاہیے تھا کہ سب اس کو Copy کرتے۔
یہاں بٹھائی جانے والی اداکارہ کی گردن اور کندھوں کی حرکات و سکنات عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ وہ اور ان سے زیادہ ان کی گردن سر اور کندھے ہر وقت ہر روز بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔ ایک بات کرنے میں لا تعداد مرتبہ ان کی گردن کو جھٹکا لگتا ہے، کندھا اٹھتا ہے۔ ان کی گردن کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی کھنچاؤ کا شکار رہتی ہے۔ نہ سر کو کہیں سکون سے رہنے دیتی ہے نہ کندھوں کا بے جا اندر باہر، اوپر نیچے کا تناؤ کم ہونے دیتی ہے۔
سب دیکھ کر تاثر ملتا ہے جیسے کٹھ پتلی سے Hosting کروائی جا رہی ہے صرف دوڑیں کھنچنے والا نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ کبھی کبھی تو ان کی Movementsدیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ان کی گردن پر کوئی Insect یا نا معلوم چیز چل رہی ہے اور یہ Live پروگرام کرنے کی وجہ سے مجبوراً ایسی حرکتیں کر رہی ہیں تا کہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ہونے والی خارش کا احساس کم سے کم ہو مگر جب Break سے واپس آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
بار بار اور روز روز جاری رہتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی Insect کا کوئی قصور نہیں۔ خواہ مخواہ ہی Insect پر تہمت لگائی یہ تو ان کی Routine کی Movements ہیں۔ لگتا ہے شاید ان کا اس پر بس نہیں اختیار نہیں یا کسی نے ان کو بتایا نہیں کہ اس طرح کتنا برا لگتا ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ اگر انسان مسلسل ان کو کچھ دیر بغیر ٹیک کے یعنی بغیر Back کی Support کے کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے پروگرام کرتے دیکھ لے تو بلا تاخیر شک گزرتا ہے کہ شاید ان کو کوئی Nurological disorder تو نہیں۔
Language کا معاملہ Body Language سے بھی زیادہ خراب ہے سمجھا یہ جاتا ہے اور دکھائی اور سنائی بھی یہی دیتا ہے کہ صرف بولنا مقصد ہے۔ بے دھڑک، بے لگام، بے مقصد بولا جاتا ہے۔ کیا بول رہے ہیں کیسے بول رہے ہیں کون سی زبان بول رہے ہیں کسی کو نہیں پتہ۔ Fractured Urdu کسی اور زبان کے لہجے میں بولتے بولتے اچانک پنجابی کی ایسی بات ایسے انداز سے ایسے موقع پر کر دیتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ Host نے کہا ہے۔
کیا اس کو اس طرح کہنا چاہیے تھا۔ کیا یہ مناسب ہے۔ پھر رعب ڈالنے کے لیے انگریزی تو وقتاً فوقتاً ناظرین کو سنائی ہی جاتی ہے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کہاں کس ملک میں کتنا وقت کیوں گزارا یعنی جو پراڈکٹ آپ اپنی سکرین پر ملاحظہ فرما رہے ہیں جو آپ کے کانوں میں جانے کیا کیا کچھ گھول رہی ہے آپ کو کتنے کلچر کس کس Ratio میں Mix کر کے پیش کر رہی ہے کہاں کہاں سے تیار ہو کر، کشید ہو کر آپ تک پہنچی ہے۔
کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی برگر کھا رہا ہو لسی کے ساتھ اور اس کھانے کا اختتام پان کھا کر کرے۔ Guest سے بات کرتے ہوئے Frank نہیں Over Frank اندازِ گفتگو اپنایا جاتا ہے جسمیں بے اختیار اور بے تکلف ہنسنا عین مناسب سمجھا جاتا ہے بحر حال مختصراً یہ کہ لگتا ہے جیسے کوئی چھچھورا بچہ ٹی وی پر آ کر Morning Show کر رہا ہے۔
مرد اداکاروں نے بھی Hosting کی دنیا میں قدم نہیں دونوں اقدام رکھے ہوئے ہیں۔
مرد Hostنیا نیا Hosting شروع کرے تو سنبھل کر کرتا ہے۔ چار دن چل جائے تو Relax ہو جاتا ہے پرانا ہو جائے تو بے باک ہو جاتا ہے بہت پرانا ہو جائے تو بدتمیز ہو جاتا ہے، بے زار اور بے کار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے وہ بہت زیادہ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ بات نہیں سنتا سب سے بری بات بے عزتی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ اسٹیج تک آنے تک اداکار چینل کو اور چینل اداکار کو بری طرح چمٹ چکے ہوتے ہیں اوردونوں کے درمیان بجلی کی طرح Rating دوڑ رہی ہوتی ہے۔ بجلی بند ہو جائے تو چپکی ہوئی چیزیں جدا ہوتی ہیں اب صرف Rating ہی ان کو جدا کر سکتی ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan