عمران خان کا دورہ امریکہ․․․․نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟

وزیراعظم کا دورہ روس امریکی عزائم کو”متوازن“کردے گا

جمعہ 12 جولائی 2019

Imran Khan Ka Dora e America --- Nataij Kiya Ho sakte hain?
 محمد انیس الرحمن
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان ستمبر میں روسی صدر پیوٹن کی دعوت پر روس کا دورہ کریں گے۔ اس کے بالکل بر عکس جہاں تک وزیر اعظم عمرا ن خان کے دورہ امریکہ کے حوالے سے معلومات آرہی ہیں ان کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے انہیں امریکہ کے سرکاری دورے کی دعوت دی ہے ۔یہ دورہ اگر ہو جاتا ہے تو اس کے عوامل میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس وقت افغانستان میں بُری طرح پھنسا ہوا ہے اور اب امریکی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ اس خطے یعنی افغانستان میں اپنی پھنسی ہوئی جان عزت سے نہیں چھڑا سکتا۔


امریکیوں کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکہ کے علاوہ اب پاکستان کے پاس دو بڑی آپشنز ہیں یعنی روس اور چین اس لئے امریکی دباؤ کی ہوا پاکستان کے لئے بڑی حد تک نکل چکی ہے۔

(جاری ہے)

تیسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکیوں کو وزیراعظم عمران خان کے مزاج اور ان کے عزائم کا بھر پور ادراک ہو چکا ہے اس لئے صدر ٹرمپ کوئی بھی ”ہلکی بات “کہنے سے پہلے دس مرتبہ سوچیں گے بصورت دیگر دوسری جانب سے انتہائی سخت اور خلاف توقع جواب آسکتا ہے ۔

کیونکہ اب پاکستان میں نواز شریف شریف جیسا وزیراعظم تو ہے نہیں جس نے ٹرمپ کی بات سمجھنے میں چار منٹ لگا دینے ہیں اور پھر جواب دینے میں”پر چیوں“کا سہارالینا ہے۔۔۔
وہ پاکستان ادارے جنہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو دور ہ امریکہ سے قبل وہاں کی صورتحال کے حوالے سے بریف کرنا ہے وہ اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ اس وقت امریکہ مشرق وسطی کے معاملات میں انتہا کو پہنچ چکا ہے ،ایک طرف وہ ایران کو دھمکیاں لگا کر عربوں کو بے وقف بنا رہا ہے تو دوسری جانب اس نے اسرائیل کی دجالی عالمی بالادستی سے پہلے اس کی علاقائی بالادستی کا پورا بندوبست کر دیا ہے ۔

اور اس وقت تمام مغربی ممالک بشمول امریکہ اور اسرائیل اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر اسرائیل کی علاقائی بالادستی کی خاطر امریکہ اور نیٹو مل کر اسرائیل کی عسکری مدد کرتے ہوئے عربوں کی بہت سے ریاستیں اور تیل کے ذخائر ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مسلم دنیا میں سے سب سے زیادہ ردعمل کا سامنا پاکستان کی جانب سے ہو گا۔
امریکہ اور اسرائیل اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے اور مسجد اقصیٰ کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے اور اس کی جگہ صہیونی ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کوشش عالم عرب میں آتش فشاں کی صورت پیدا کر سکتی ہے۔

اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی چند روز قبل اسرائیل میں تعینات امریکی یہودی سفیر ڈیوڈ فرائڈ میں مسجداقصیٰ کے نیچے ایک اور نئی سرنگ کھودنے کا افتتاح کیا ہے جس کا مقصد ہیکل سلیمانی کی بنیادیں تلاش کرنے کے بہانے مسجد اقصیٰ کی بنیادیں ہلانا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خود امریکہ اسرائیل کے دجالی اقدامات میں برابر کا شریک ہو چکا ہے اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ امریکہ نیٹو اور اسرائیل مشرق وسطی پر اس وقت بڑا حملہ کریں گے جب عرب عوام اپنے حکمرانوں کی بے حسی پر احتجاجاباہر نکلیں گے اور اپنی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کریں گے اس وقت ”خطے میں امن کے قیام“کے نام پر امریکہ اور اس کے عالمی صہیونی دجالی اتحادی مشرق وسطی کی ریاستوں اور ان کے تیل اور گیس کے ذخائر کو ہڑپ کرنے کی خاطر اسرائیل کو وہاں بٹھادیں گے۔


روس اور چین کے پاس اس کے سوا کوئی چار انہیں رہے گا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ اور اسرائیل کے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کارروائی کا اعلان کریں لیکن اس سے پہلے نیویارک سے اقوام متحدہ کا بوریا بستر گول کردیا جائے گا بلکہ اسی طرح جس طرح 1917ء میں نیویارک سے اسرائیل کے قیام کے اعلان بالفورڈ کلریشن کا اعلان ہوتے ہی لیگ آف نیشن کو بور یابستر گول کر دیا گیاتھا۔

اس سارے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر وزیر اعظم عمران خان کو دورہ امریکہ کی تیاری کرائی جانی چاہئے اس کے علاوہ امریکی اس بات سے بھی پوری طرح با خبرہیں کہ پاک چین اقتصادی راہ داری کے ابتدائی مرحلے کی تکمیل ،پاکستان کا اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ بھر پور انداز میں روس کی جانب رجوع کرنا اور اس کے ساتھ عسکری سازوسامان کے لین دین کے معاملات ،وزیراعظم عمران خان کا آئندہ ستمبر میں متوقع دورہ روس ،افغانستان کے امن وامان کے معاملات میں پاکستان کی جانب سے مثبت کوششیں کرنا اور پاکستان کے اندر آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردی کے معاملات کا قلع قمع اور معاشی اور سیاسی دہشت گردوں کے گرد گھیر اتنگ ہونا ایسے امور ہیں جس نے بھارت اور افغانستان میں بھارت نواز اشرف غنی کو بری طرح بدحواس کردیا ہے ۔


اسی صورتحال میں زیادہ وقت حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے آخری مرتبہ اپنے مہرے زلمے خلیل زاد کے ذریعے دوحہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا اس کا کیانتیجہ نکلنا تھا وہ ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا تو دوسری جانب بھارتی سرکار نے اپنا چانکیائی چہرہ دکھاتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیاں شروع کردیں تھیں۔

بظاہر ان تمام معاملات کی وجوہات وہی نظر آتی ہیں جواوپربیان کی گئیں ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کیوں ہورہا ہے جب مشرق وسطی تغیرات کے آتش فشاں پر براجمان ہو چکا اور شمال سے جنوب تک آگ لگ چکی ہے؟
حالات کا اگر ایک اور خاص رخ سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا اس وقت امریکہ اور روس کے درمیان لڑی جانے والی بڑی پراکسی جنگ کی زد میں آچکی ہے ۔

اس جنگ میں پاکستان کی جانب سے اہم ترین کردار کسی بھی فریق کے حق میں جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے ۔یہ بات تو تواتر کے ساتھ میڈیا پر بھی آچکی کہ امریکہ نے دوبارہ عراق میں فوجیں داخل کرنے کا منصوبہ وضع کر لیا تھا لیکن عرب صحافتی ذرائع کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ روسی فوج کی کچھ یونٹیں اور جدید جنگی سازوسامان بھی شام میں داخل ہو چکا تھا۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے مخالف علاقائی عرب ملکوں نے شامی حکومت کا تختہ الٹنے کی جو حکمت عملی وضع کی تھی وہ بری طرح ناکام ہو چکی ہے بشار مخالف عرب حکومتوں کا خیال تھا کہ تیونس ،مصر اور لیبیا کی طرح عرب بہار کا دار بشار حکومت پر بھی اسی طرح کاری پڑے گا جیسے لیبیا میں ہوا لیکن اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری تھا کہ ایران کے علاوہ خود روس کا اس میں کس قدر نقصان ہو سکتا ہے اور کیا روس اپنے علاقائی مفادات کے مقابلے میں شامی حکومت کو ختم ہوتے دیکھ سکے گا؟اس سلسلے میں عراقی تجربے سے خوفزدہ عرب ملکوں کے پاس بظاہر کوئی آپشن نظر نہیں آتی تھی کہ وہ ایران نواز بشار حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے شامی عوام کی مدد کریں لیکن ایران کے علاوہ انہیں دیکھنا چاہئے تھا کہ روس اس میں کس قدر ملوث ہو سکے گا ۔


خاص طور پر ایسی صورتحال میں جبکہ شام کے شمال کی جانب یعنی یوکرین اور کرایمیا میں روس نے مداخلت کرکے امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو زبردست زک پہنچا دی تھی اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ شمال سے یہ جنگ لڑھک کر اب جنوب میں شام میں پہنچ چکی ہے ۔عربوں نے اسے صرف ایران کے بڑھتے ہوئے رسوخ کی شکل میں دیکھا تھا لیکن حقیقت میں یہ تو بڑی عالمی قوتوں کی کشمکش کا میدان تھا کیونکہ اسرائیل اور امریکہ کی خواہش تھی کہ روس مخالف حکومت کا قیام عمل میں لا کر روس کو بحیرہ روم کی جانب شام میں طرطوس کی بندرگاہ سے محروم کیا جائے تاکہ کرایمیا پرمکمل قبضے کے بعد روس مغربی یورپ اور اسرائیل کی جانب دواہم ترین بندرگاہوں کو اپنے استعمال میں لاسکے یہ حالات کا وہ رخ ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل دست بردار ہونے کو تیار نہیں اور نہ ہی روس اس سے صرف نظر کی پوزیشن میں ہے۔


امریکہ یہ سب کچھ ایک خاص مقصد کے تحت کر رہا ہے کیونکہ اس سلسلے میں سابق امریکی سیکورٹی انچارج برزنسکی اس جانب اشارہ کر چکا تھا کہ”نیو امریکن سنچری“میں امریکہ کو اپنے عالمی اقتدار کے لئے وسطی ایشیا پر مکمل اثر رسوخ حاصل کرنا ہو گا اور یہ غلبہ اب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان ایک جوہری طاقت کے طور پر موجود ہے اور افغانستان میں ایک اسلام پسند اور امریکہ مخالف حکومت قائم ہونے کے امکانات ہیں ۔


اس لئے برزنسکی کا تجزیہ موجودہ صورتحال کو مزید واضح کر دیتا ہے۔اسی برزنسکی کی کتاب”گرینڈ چیس بورڈ“میں اس قسم کے تمام منصوبے کی تفصیلات بھی درج ہیں ۔لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ قدرتی طور پر وسطی ایشیا اور افغانستان کے کھیل میں پاکستان ایک فریق بنتا جارہا ہے اور اس صورتحال میں وطن عزیز ایک ایسی محب وطن اور کرپشن سے پاک قیادت کا متقاضی تھا جو اس مرحلے میں پاکستان کے کردار کو بہترین طریقے سے ادا کر سکے اس ساری صورتحال کا سب سے اہم پہلو پاکستان کے ساتھ چین کے قریبی اقتصادی ،عوامی اورعسکری تعلقات ہیں اور چین اس وقت روس کے ساتھ عالمی معاملات خصوصاً شمالی ووسطی افریقہ اور مشرق وسطی میں ایک اہم حلیف کے طور پر ابھر ا ہے ۔

اس لئے پاکستان کے معاملات میں روس بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقوں سے قریب ہونے کی کوشش میں ہے اور غالبا یہی پاکستان کے حق میں بھی ہے۔
2000ء اور 2010ء کے درمیان پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون کی فضاسات گنا زیادہ بہتر ہوئی تھا ۔اس وقت چینی کمپنیاں پاکستان میں تقریباً 250منصوبوں میں کام کر رہی تھیں۔
جس وقت سابق چینی وزیر اعظم وین جیا بو پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کے ہمراہ 250کے قریب چینی تاجر بھی تھے۔

اس دورے کے اختتام پر دونوں ملکوں کے درمیان توانائی ،قدرتی توانائی کے ذخائر ،تجارت ،زراعت،خوراک ،اقتصادی اور بینکنگ کے شعبے میں 35بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے ۔اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے جن منصوبوں پر مشترکہ طور پر کام کرنا تھا ان میں تھر کول ،شاہراہ قراقرم کی مرمت اور توسیع ،بھاشا ڈے،،سیندک گولڈ اور کاپر منصوبہ شامل تھا اور سب سے بڑھ کر گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کا چین کو ٹھیکہ دینا شامل تھا۔


اس بات کو ذہین میں رکھا جائے کہ دنیا کے استعمال کا ساٹھ فیصد سے زیادہ تیل خلیج فارس سے گزر کر جاتا ہے اور خلیج فارس کے دہانے پر گوادر موجود ہے۔یہاں سے گزرنے والے تیل کا 80فیصد یومیا جس کی مالیت 300ملین ڈالرکے قریب ہے چین کے استعمال میں آتا ہے۔امریکی جانتے تھے کہ گوادر کے ٹھیکے کے بعد چین براہ راست اپنی تیل اور گیس کی سپلائی محفوظ بنا سکتا ہے ۔

گوادر اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ پاکستان ہے جہاں ریل اور سڑک کے ذریعے رسل ورسائل پاکستان کو توانائی کے معاملے میں ایک عالمی راہداری میں تبدیل کردیں گے ۔
اس وقت چین اپنی مجموعی کھپت کا ستر فیصد تیل مشرق وسطی براستہ خلیج فارس سے حاصل کرتا ہے ۔
2025ء تک اندازہ ہے کہ چین کی کھپت اس سے مزیددو گناہوجائے گی۔اسی لئے چین کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ وہ اپنے مغربی حصے کو توانائی کے حصول کی خاطر مزید محفوظ بنائے۔

اسی ضرورت نے چین کو خطے میں سرد کی بجائے گرم پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا ۔اس صورتحال سے پاکستان کو دو قسم کے فائدے ہونے جارہے ہیں ایک یہ کہ پاکستان کو اس عالمی توانائی گزر گاہ کے طورپر 60بلین ڈالر سالانہ حاصل ہوں گے دوسرے یہ کہ پاکستان کی حیثیت عالمی سطح پر ایک اہم توانائی کے کھلاڑیglobal energy playerکے طور پر سامنے آجا ئے گی۔
صورتحال اس وجہ سے بھی بدل چکی ہے کہ پاکستان کی عسکری ضرور ت کو پورا کرنے کے شعبے میں چین امریکی متبادل کے طورپر سامنے آیا۔

ماضی قریب میں پاک چین کے درمیان 34درمیانی مارکے بلاسٹک میزائل بنانے کے معاہدہ ہوئے ،اس کے ساتھ F-22Pفریگیٹ جنگی بحری جہاز بمع ہیلی کوپٹروں کا معاہدہ ہوا۔کے 8جیٹ ٹرینر،T-85ٹینک،F-7جنگی طیارے ،36-J10جدید ترین لڑاکاطیارے جو پاکستان میں تیار ہورہے ہیں۔
اس صورتحال نے امریکہ ،بھارت اور اسرائیلی ماہرین کو باور کرارکھا ہے کہ پاکستان ریت کی مانند تیزی کے ساتھ امریکہ کے ہاتھوں سے پھسل چکا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں کی گئیں تاکہ پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کر دیا جائے۔برزنسکی نے گرینڈ چیس بورڈ کے نام سے جو پالیسی مرتب کی تھی اس کے مطابق امریکہ کی عالمی صہیونی حاکمیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ”یوروشیا“پر اپنا ہاتھ مضبوط رکھے اس سلسلے میں جو جغرافیائی تزویراتی پالیسی بنائی گئی تھی وسطی ایشیا کے معدنی وسائل اس کی پہنچ میں ہوں، ایشیا کی سراٹھانے والی قوتوں اور ملکوں کا سرنگوں کرنے کیلئے توانائی کے آبی اور زمینی راستوں پر پورا کنٹرول قائم کیا جائے۔


عالمی صہیونی سیسہ گرواں کے اس منصوبے میں سیاسی مشیروں نے رنگ بھرے ہیں جس کے تحت ”کنٹرولڈحکومتیں“معرض وجود میں لانا شامل تھا۔مشرف کے دور میں پاکستان میں ہونے والا بدنام زمانہ این آر اواس کی سب سے بڑی مثال ہے۔مطلوبہ خطوں میں اہداف تک رسائی کیلئے”نجی فوجیں“تعینات کی گئیں اس سلسلے میں بلیک واٹر کی مثال دی جاسکتی ہے ۔اس حوالے سے امریکہ کے صہیونی حکمرانوں کے سامنے سب سے بڑا ہدف چین ہے اور چین اور امریکہ کی اس بڑی کشمکش کے درمیان پاکستان ایک بڑی عالمی راہ داری کے طور پر موجود ہے یعنی عالمی سیاست کی بساط پر پاکستان کی حیثیت ایک اہم رکن کی سی ہے۔


یہی اس کشمکش میں مرکزی کنٹرول ہے اور یہی اگلی ”عالمی جنگ“میں کسی بھی فریق کیلئے”لائف لائن“سے کم نہیں۔۔۔۔
پاکستان کی یہ حیثیت امریکہ کے نزدیک اس لئے بھی زیادہ خطر ناک ہے کہ چین کی پاکستان سے قربت اور دوسری جانب شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں روس اور چین کی قربت ہے ۔ان ہی حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحاد نیٹو کو شام میں لیبیا کی طرح براہ راست مداخلت پر مجبور کیا تھا۔

کیونکہ امریکہ اور اسرائیل روس کا ایک طرح سے شام میں سامنا کررہے ہیں دوسری جانب اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان قبائلی علاقوں کے راستے امریکہ”داعش“یا افغان فوج کے ذریعے کسی قسم کی مداخلت کرتا ہے تو شام کے بعد وسطی ایشیا میں ایک اور نیا محاذ کھل جائے گا اور امریکہ کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا تزویراتی اتحادی بھارت پاکستان کے خلاف محض اس لئے کارروائی سے مانع ہو جائے گا کہ اس میں روس اور چین براہ راست ایک فریق کی شکل اختیار کرلیں گے۔


بریز نسکی کی کتاب”دی گرینڈ چیس بورڈ“میں جو کچھ امریکہ کی بالادستی کے نام سے لکھا گیا ہے وہ درحقیقت ایک کور ہے کیونکہ کتابیں دنیا کو پڑھانے کے لئے ہوتیں ہیں لیکن امریکہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانے والے عالمی صہیونی سیسہ گردرحقیقت یہ سب کچھ اسرائیل کی دجالی عالمی بالادستی کیلئے کررہے ہیں جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی یورپ کا درجہ دوسری درجے کا رہ جائے گا۔

ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ مشرق وسطی میں مزید دجالی اقدامات میں تاخیر محض افغانستان کی صورتحال کے تحت عمل میں لائی گئی ہے ،صدر ٹرمپ نے امریکی سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کرنے اور اسے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد آگلے صدارتی الیکشن میں دوبارہ اپنی کامیابی یقینی بنانے کا جو خواب دیکھا ہے اس کی تعمیر کے بارے میں تاحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔لیکن اس تمام تمہیدکا مقصد یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جس وائٹ ہاؤس جائیں تو پوری طرح پس منظر اور پیش منظر کو نظر میں رکھ کر امریکیوں کے ساتھ معاملات کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Imran Khan Ka Dora e America --- Nataij Kiya Ho sakte hain? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 July 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.