مشرق وسطیٰ پر اجارہ داری کیلئے نئی صف بندی

چین کی بڑھتی فوجی واقتصادی طاقت کو روکنے کیلئے امریکہ اتحادی ممالک کو مزید نوازے گا

جمعہ 4 دسمبر 2020

Mashriq e Vusta Per Ajaradari K Liye Naayi Saaf Bandi
محبوب احمد
امریکہ کا ”مشرق وسطیٰ امن پلان“ جسے صدی کا ایک بڑا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے حقیقت میں صہیونیوں کو نوازنے کا ایک ڈھونگ ہے جسے کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ٹرمپ نے بڑھ چڑھ کر اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کیا اور پوری دنیا کے اعتراضات اور فلسطینیوں کے شدید احتجاج کے باوجود 2017ء میں امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کیا گیا تھا۔

دہائیوں تک اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے عرب ممالک اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ وہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے پر ہی صہیونی حکومت سے تعلقات قائم کریں گے لیکن اب حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کیونکہ اسے امریکی دباؤ کہیں یا پھر کچھ اور عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے لئے حامی بھر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

سعودی عرب نے 2002ء میں ”عرب امن منصوبے“ کی تجویز دی تھی کہ اگر اسرائیل فلسطین کو ریاستی حیثیت دیتا ہے اور 1967ء میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضے میں لی گئی زمین سے مکمل انخلاء کرتا ہے تو اس کے بدلے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آسکتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران نیتن یاہو کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے مبینہ ملاقات نے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔


پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی برادری پر واضح کیا ہے کہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا۔ایک طرف مشرق و سطیٰ پر اجارہ داری کیلئے نئی صف بندی کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ میں جمہوری بحران کے ساتھ ساتھ اب ایک قانونی طوفان بھی پیدا ہو رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں فلسطین اسرائیل تنازع سے متعلق برسوں کی امریکی پالیسی کو لپیٹ کر سابق امریکی صدور کے برعکس نیتن یاہو حکومت کی کھلے عام حمایت کی،ان کے دور صدارت میں امریکہ نے بھارت کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں ہر ممکن سپورٹ کیا،مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے ظلم وستم پر آنکھیں بند کئے رکھیں،فلسطین میں یہودی آباد کاری کیلئے راستے ہموار کرتے ہوئے یروشلم میں امریکی سفارتخانے کو منتقل کیا گیا،یاد رہے کہ انہوں نے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعد ہی مسلم ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ بھی بند کر دیا تھا۔

اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ ٹرمپ کا متنازعہ دور صدارت واشنگٹن کیلئے زہر قاتل ثابت ہوا ہے۔
امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات اور اس کے نتیجے میں آنے والے نئے چہروں سے امریکہ کی فارن پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی اندرونی و بیرونی پالیسیاں جس کو وہاں کی ٹاپ یونیورسیٹیاں مرتب کرتی ہیں میں ایک تسلسل ہے تاہم دونوں پارٹیوں کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔

ٹرمپ کی رخصتی کے بعد اب امریکہ کو اندرونی سطح پر خانہ جنگی چین اور روس کا بڑھتا ہوا اتحاد اور اثر روسوخ،دہشت گردی کے خلاف اقدامات،سنچری ڈیل کے تحت عرب‘اسرائیل معاہدے اور ایران پر پابندیوں جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔ایشیاء میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی و اقتصادی طاقت کو روکنے اور اسے زمین اور سمندری طور پر محدود کرنے کے لئے امریکہ اپنے اتحادیوں کی سپورٹ جاری رکھے گا جس میں سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہی ہوتا نظرا ٓرہا ہے۔

امریکہ نے ماضی میں بھارت کے ساتھ کچھ ایسے ملٹری معاہدے بھی کئے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔امریکن تھنک ٹینک کے نزدیک بھارت چین کے سپر پاور بننے کے راستے میں امریکہ کا ایک بہترین اتحادی ثابت ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ مستقبل قریب میں اپنی جدید ٹیکنالوجی بھارت میں منتقل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے تاکہ خطے کے مکمل کنٹرول کو سنبھالا جا سکے۔

مودی ٹرمپ دوستی کی آڑ میں ہی بھارت نے گزشتہ برس کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تھی۔امریکہ پاکستان کو مزید چین کے قریب جانے سے روکنے کیلئے اور افغانستان سے اپنی فوجوں کی محفوظ واپسی کے لئے اسلام آباد پر اپنا دباوٴ برقرار رکھے گا اور اسی لئے آنے والے برس میں بھی پاکستان ”FATF“ کی گرے لسٹ سے نکلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت سخت دباؤ میں ہے۔

ٹرمپ سرکار افغانستان سے اپنی تقریباً 8 ہزار فوج کا مکمل انخلاء چاہتی تھی تاہم نئی قیادت نے افغانستان،عراق اور شام میں دہشت گردی کی روک تھام کے آدھی فوج رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ امریکہ مزید 4 سال تک افغانستان ہی میں رہے گا۔
ٹرمپ اور ان کی ریئل اسٹیٹ کمپنی”دی ٹرمپ آرگنائزیشن“ کے لئے سب سے خطرناک چیز نیو یارک میں وسیع پیمانے پر جرائم کی تحقیقات کا شروع ہونا ہے کیونکہ ان کے خلاف پہلے سے کئی مقدمات درج ہیں جن میں خاندان کے کسی فرد یا ملازم پر بدعنوانی سے لے کر جنسی ہراسانی کے الزامات لگے ہوئے ہیں۔

امریکی صدر کو دوران صدارت ہر قسم کے مقدمات خواہ وہ فوجداری نوعیت کے ہوں یا دیوانی استثنیٰ حاصل ہوتی ہے۔ٹرمپ کو انتخابات 2020ء کے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ جو استثنیٰ انہیں حاصل ہے وہ 20 جنوری 2021ء کے بعد ان کے پاس نہیں رہے گا لہٰذا تمام مراعات ختم ہونے کے ساتھ ایک عام شہری کی حیثیت سے انہیں مقدمات دوبارہ کھلنے پر خود ہی وکلاء اور استغاثہ سے نمٹنا پڑے گا۔

”کرونا“وباء نے جب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو ”ڈبلیو ایچ او“ پر الزامات اور تنقید کے نشتر چلائے گئے۔ٹرمپ نے عالمی ادارے کی فنڈنگ روکنے کا اعلان کرکے عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کی فنڈنگ کم کرکے نیٹو اتحاد چھوڑنے کی دھمکی بھی دی ان کا شمار اقوام متحدہ کے بڑے ناقدین میں بھی ہوتاہے۔کاروباری ریکارڈ میں ردو بدل نیویارک کے قوانین میں چھوٹا جرم ہے جس کے ثابت ہونے پر ایک سال قید کی سزا ہو سکتی ہے لیکن یہ اس وقت ایک سنگین جرم میں بدل جاتا ہے جب اسے کسی دوسرے جرم سے جوڑا جائے جیسا کہ ٹیکس فراڈ،سنگین جرائم کے مقدمات کو لمبے عرصے بعد بھی چلایا جا سکتا ہے اور ان میں مجرم قرار پانے والے کو لمبی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

ٹیکس اور بینک فراڈ کی تحقیقات ٹرمپ کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ نیویارک میں ٹیکس فراڈ کی کئی قسمیں سنگین جرائم کے زمرے میں آتی ہیں اور ان پر لمبی قید کی سزائیں سنائے جانے کا امکان بھی موجود ہے انہیں اپنے ٹیکس کے گواشوراوں کے حوالے سے وفاقی جج کے فیصلے کو ختم کرانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا جہاں حتمی فیصلے کا امکان ہے۔

ٹرمپ پر جنسی گجروی کے حوالے سے بہت سے الزامات اور مقدمات ہیں جن میں ان کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ 2016ء میں جب یہ صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شریک ہوئے تو بہت سی خواتین نے ان پر الزامات عائد کئے جبکہ کئی نے مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ٹرمپ کے خلاف انتخابی مہم کی فنڈنگ کے قوانین کی خلاف ورزی پر بھی مقدمہ بن سکتا ہے اسی قانون کے تحت ان کے وکیل مائیکل کو ہن کو 2018ء میں 3 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ٹرمپ کے مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ پالیسیوں کے اثرات امریکی ریاستوں پر ہی نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک پر بھی پڑے ہیں،گزشتہ عشروں سے امریکہ بیرونی ممالک سے سرمائے کے حصول اور دوسروں کو منافع ادا کرنے کے ذریعے اپنی معیشت چلانے میں کامیاب رہا ہے تاہم پیدا ہونے والے رخنے سے اب یہ ملک جمود کے خطرناک دور میں داخل ہو چکا ہے۔امریکا کا اقتصادی تسلط اب روز بروز ختم ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب معاشی سدھار میں ایک لمبا عرصہ لگے گا کیونکہ اس کے ذمہ قرضے اربوں میں نہیں بلکہ کھربوں میں ہیں اور یہ قرضے ماضی کی نسبت بہت خطرناک اور امریکی زوال کی ایک بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mashriq e Vusta Per Ajaradari K Liye Naayi Saaf Bandi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.