نواز رضااسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت پر رہائی کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر جاتی امرا میں مقیم ہیں۔ میاں نواز شریف بیگم کلثوم نواز کی وفات کے پر بے حد افسردہ ہیں اور وہ اپنا زیادہ وقت اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ گذار رہے ہیں۔ انہوں نے بیگم کلثوم نواز کے چہلم تک اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کر رکھی ہیں ۔
وہ کوئی سیاسی بیان دے رہے ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی اجتماع میں شرکت کر رہے ہیں۔ تاہم وہ بیگم کلثوم کی وفات پر تعزیت کے لئے آنے والی چیدہ چیدہ سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور تعزیت کے لئے آنے والوں سے بار بار اپنی بہادر اہلیہ کا ذکر کر کے اپنے دل کا بوجھ کم کرنے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
(جاری ہے)
اب تک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی ، پاکستان مسلم لیگ(ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین ، ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ، پیر صاحب پگارا ، آفتاب شیر پائو سمیت متعدد سیاسی رہنماان سے ملاقاتیں کر چکے ہیں تاحال ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو تین روز کی حاضری سے استثنا ء دے دیا ہے ۔تاہم وہ آج احتساب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں وہ حالت غم میں کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لینا چاہتے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں میاں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نوازشریف کلثوم نواز کے چہلم تک سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں کریں گے ۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ امیدیں دم توڑ گئی ہیں ، تبدیلی کے دعوے دار حکومت نے عوام پر مہنگائی کا بم گرایا ، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منی بجٹ کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں گے ۔اجلاس میں مسلم لیگ (ن) نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کیلئے ارکان نامزد کردیے ۔
مسلم لیگ(ن) کی طرف سے احسن اقبال ، مرتضیٰ جاوید عباسی رانا ثناء اللہ اور رانا تنویر حسین پارلیمانی کمیٹی کیلئے نامزد کئے گئے ۔ تاحال سپیکر نے پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کا اعلان نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی نے منی بجٹ اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کردیا۔ پیر کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف پہلی بار اپنے چیمبر میں رونق افروز ہوئے، اس موقع پر ان کی مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی کے ارکان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
میاں شہباز شریف نے نوائے وقت کے استفسار پر بتایا کہ وہ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بن رہے ہیں، تا ہم انھوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ اپنی مصروفیات کے باعث پبلک اکائونٹس کمیٹی کے کسی رکن کو بھی قائم مقام چیئرمین کی ذمہ داری سونپ سکتے ہیں لیکن اب حکومت کی طرف سے اپوزیشن لیڈر کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے ۔
قومی اسمبلی میں میاں محمد شہباز شریف نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے پہلا خطاب شاندار اور جامع تھا۔ انھیں پہلی بار قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنے جوہر خطابت دکھانے کا موقع ملا ہے۔ انھوں نے کم و بیش ایک گھنٹہ تک فی البدیہ تقریر کی۔ انھوں نے وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسد عمر کے پیش کردہ منی بجٹ کو مسترد کر دیا اور اسد عمر کو مہنگائی کا ’’بم‘‘ پھینکنے پر آڑے ہاتھوں لیا۔
اگرچہ میاں شہباز شریف کبھی وزیرخزانہ نہیں رہے لیکن ان کی تقریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مالی امور پر انھیں بھرپور دسترس حاصل ہے ۔ انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت تشکیل دینے اور اتفاق رائے سے اس پر دستخط کرنے کی پیش کش کی۔ انھوں نے کہا کہ پوری قوم کو اس بات کا علم ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ عام انتخابات میں دھاندلی کی پیدا وار ہے۔
ان کے ان ریمارکس پر حکومتی بینچوں کو سانپ سونگھ گیا، کسی نے صدائے احتجاج بلند کی اور نہ ہی کوئی شور شرابا کیا گیا۔ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن کا قیام قابل تحسین ہے لیکن ہم جو پارلیمان میں بیٹھے ہیں۔ وہ 2018 کے انتخابات کے نتائج کو دوام بخشنے کے لئے نہیں بلکہ جمہوریت کے فروغ اور اس کی شمع کو جلائے رکھنے کے لئے آئے۔
حزب اختلاف دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے ساتھ پورا تعاون کرے گی۔ عام انتخابات میں الف لیلی کی داستانیں سنا کر ہوائی قلعے تعمیر کئے گئے، سبز باغ دکھائے گئے، آج تبدیلی کے لئے جن لوگوں نے ووٹ دیا تھا وہ پریشان ہیں۔ نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے ملک میں میرٹ اور صرف میرٹ قائم کرنے کا نعرہ لگایا تھا مگر آج شومئی قسمت سے ذاتی دوستوں ،خدمت گار ’’امپورٹڈ‘‘ مشیر ہی ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں بھرپور انداز میں سی پیک کا دفاع کیا اور سی پیک کے لئے دیوار چین کی مانند ڈٹ جانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انھوں نے پاک چین دوستی کے درپے عناصر کو خوب لتاڑا۔ انھوں نے چین کے وزیر خارجہ کا پاکستان آمد پر بے رخی کے ساتھ استقبال کی نشاندہی کی اور کہا کہ ہم پاک چین دوستی میں کوئی دراڑ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت بر سر اقتدار آئی تو اس نے سب سے پہلا کام بجلی گیس کے نرخ بڑھانے کا کیا جبکہ مسلم لیگ نے پانچ سال میں گیس کی قیمت نہیں بڑھائی تھی۔ 2013 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تھی تو ہر طرف لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی تھی مگر میاں نواز شریف کی حکومت نے سیاسی عزم کے ساتھ فیصلہ کیا۔ مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی قربانیوں کے نتیجے میں آج ملک سے دہشتگردی کا کافی حد تک خاتمہ ہو چکا ہے۔
ہماری حکومت نے نان فائلرز کا ناطقہ بند کیا تھا، لیکن موجودہ حکومت نے ٹیکس چوروں کا راستہ کھول دیا، اب نان فائلرز ’’گھنگرو‘‘ باندھ کر پراپرٹی اور گاڑی خرید سکتے ہیں۔ یہ نئے پاکستان کی تبدیلی ہے۔ ’’ایمانداری ہار گئی اور بے ایمانی جیت گئی‘‘۔ 2013 میں گردشی قرضہ پانچ سو تین ارب روپے تھا اور بجلی کی پیداوار 13 ہزار میگاواٹ تھی، جب اکتیس مئی 2018 کو مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو گردشی قرضہ 496 ارب تھا لیکن بجلی کی پیداوار 21 ہزار میگاواٹ ہو چکی تھی۔
منی بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کو 575 ارب روپے کر دیا گیا۔ سی پیک کے منصوبوں پر بھی کٹ لگایا گیا ہے یہ 30 فیصد کٹوتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلے پائے جاتے ہیں جنھیں کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تین چار روز قبل مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق نے پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
گو کہ یہ ملاقات قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں رنر اپ کے فارمولہ پر تعاون کے سلسلے میں تھی۔ تاہم دونوں جماعتوں کی قیادت نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کے خلاف تعاون کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں جماعتوں کی قیادت نے اس بارے میں تعاون کرنے پر اصولی طور پر اتفاق رائے کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ساتھ ہونے والے ’’سلوک‘‘ کا انتظار کر رہی ہے۔
اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی ’’فکس اپ‘‘ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر متحدہ اپوزیشن کا قیام عمل میں آ جائے گا لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حکومت اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے پیپلز پارٹی سے سودے بازی کر سکتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں متحدہ اپوزیشن کا قیام عمل میں آ گیا تو موجودہ حکومت کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔