ایم کیو ایم میں پھر بغاوت

پیر 5 نومبر 2018

MQM mein phir baghaawat
شہزاد چغتائی
سابق صدر آصف علی کی جانب سے سیاست کاجارحانہ انداز اپنانے کے بعد سندھ میں گورنر راج کی افواہوں نے جنم لیا ہے بعض تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ صوبہ جنوری میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے محروم ہوجائے گا۔ سندھ میں گورنر راج لگے گا یا پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت بنے گی لیکن زمینی حقائق بہت مختلف اور افواہوں اڑانے والوں کیلئے تلخ ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے گورنر راج نافذ ہونے کی تردید کی ہے۔ دوسری جانب عمران خان جانتے ہیں کہ سندھ میں گورنر راج لگا تو ان کی حکومت بھی جائے گی نواز شریف دور میں سندھ میں گورنر راج لگا تو گورنر راج وفاق کو بھی لے ڈوبا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس وقت کے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ کو ہٹایا تو وہ خود بھی برطرف کردیئے۔

(جاری ہے)

اس لئے عمران خان کسی صورت میں نہیں چاہیں گے کہ گورنر راج کا سایہ اسلام آباد پر پڑے سندھ میں حکمراں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی طاقت بہت زیادہ ہے اورحالیہ ضمنی الیکشن کے بعد ایوان میں ارکان کی تعداد 99ہوگئی ہے جہاں تک فارورڈ بلاک کے افسانہ کا تعلق ہے تو فارورڈ بلاک کی کہانی 10سال سے دہرائی جارہی ہے۔جب بھی کابینہ کی تشکیل ہوتی ہے تو اس کے بطن سے ایک ناراض گروپ جنم لیتا ہے جن کو وزارت نہیں ملتی وہ بھی ناراض رہتے ہیں اورجن کو نوٹ کمانے والے قلمدان ملتے ہیں۔

ان سے بھی ارکان اسمبلی خفا ہوجاتے ہیں۔ وفاق پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا لیکن سندھ میں زرداری ڈٹے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے حلقے کہتے ہیں کہ سابق صدر نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے اوروہ کسی بھی صورتحال کیلئے تیار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آصف علی زرداری جیل سے خوفزدہ نہیں۔سابق صدر نے کہا کہ میں گرفتار ہوا تو نئی بات نہیں ہوگی۔سیاسی حلقوں کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف سابق صدر سے ملاقات سے گریزاں ہیں۔

جیسے آصف علی زرداری نے 2018ء کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا اب نواز شریف ان کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں۔ خود پیپلز پارٹی کے حلقے اورآصف علی زرداری کے دست راست اعتراف کرتے ہیں آصف زرداری اورنواز شریف کے درمیان اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔دونوں جماعتوں میں اختلاف کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس بار پیپلز پارٹی کی باری تھی لیکن مسلم لیگ(ن) نے باری لینے میں ساتھ نہیں دیا بلکہ خود باری لینے کی کوشش کی لیکن درمیان میں عمران خان کودپڑے۔

پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور عمران خان کو یقین ہے کہ عمران خان ٹرم پوری نہیں کرسکیں گے جس پر تحریک انصاف کے حلقے کہتے ہیں کہ یہ ہی عمران خان کی کامیابی کا راز ہے۔ اپوزیشن کی صفوں میں بہت زیادہ مایوسی پائی جاتی ہے۔ہفتہ کو آصف علی زرداری کی پریس کانفرنس اس بات کی غماز تھی کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ خطروں کے کھلاڑی اورمرد بحران کا خطاب ان سے اب چھن چکا ہے۔

کیونکہ اب ان کے سرپر جنرل کیانی کا دست شفقت نہیں۔اس دوران سابق صدر آصف علی زرداری کو تلخ صورتحال کا سامنا ہے ۔نواز شریف کو 2018ء کے بعد پیپلز پارٹی کے کردار پر تحفظات ہیں ان کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی مدد بغیر عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما بھی دونوں کی ملاقات کے خلاف ہیں۔ان دنوں یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ ملک کے طاقتور ترین خاندانوں کی آئندہ نسلوں کی بقاء کی جنگ کون لڑ رہا ہے اورمائنس فارمولے کون تیار کررہا ہے۔

سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مائنس فارمولے درحقیقت حکمراں خاندانوں کے مفاد میں ہیں۔ جن کا مقصد ان خاندانوں کی نئی نسل کے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہے الطاف حسین اور نواز شریف مائنس ہوچکے ہیں۔ آصف علی زرداری اورمولانا فضل الرحمن فائدے میں ہیں۔ ان کے صاحبزادگان کی سیاسی تربیت مکمل ہوگئی ہے۔ لیکن مریم نواز کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کو سب سے زیادہ قلق اس بات کا ہی ہے کہ ان کی صاحبزادی کو پہلے نااہل قرار دیا گیا اور پھر جیل میںڈ الا گیا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کب باہر نکلیں گے یہ سوال بڑی شدومدسے کیاجارہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب تمام نگاہیں رائے ونڈ پر لگی ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ(ن) نے کسی کی جنگ نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے نواز شریف جب سڑکوں پر آئیںگے تو عوام کیلئے نکلیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ مستقبل مریم نواز شریف اوربلاول بھٹو کا ہے۔ادھر ایم کیو ایم کے اندر ایک بار پھر بغاوت ہوگئی اورڈاکٹر فاروق ستار دوبارہ میدان میں آگئے اورانہوں نے 22رکنی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔

رابطہ کمیٹی نے ڈاکٹر فاروق ستار کا استعفیٰ منظورکرلیا بلکہ الگ کمیٹی بنانے پرشوکاز نوٹس جاری کردیا۔ایم کیو ایم کے اندر نئی لڑائی شروع ہونے کے بعد خیال کیاجارہا ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات بھی ہار جائے گی اور نیا میئر پی ٹی آئی کا ہوگا دوسری جانب پی ٹی آئی نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

MQM mein phir baghaawat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.