نیا پاکستان اور پرانے مسائل غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری

اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ افسوسناک ہے

ہفتہ 5 اکتوبر 2019

Naya Pakistan Or Purane Masail - Gurbat Mehengai Or Berozgari
 محمد ابوبکر صدیق قادری
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں گزشتہ انتخابات کے بعد آنے والی تبدیلی تاحال عوام کے لیے اپنا کچھ زیادہ خوشگوار اور تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور بالخصوص مہنگائی اور افراط زر پر قابو پانے میں حکومت کی اقتصادی ٹیم کی ناکامی نہایت مایوس کن ہے ملک بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے غریبوں کے اوسان خطا کر دئیے ہیں۔

بجلی ،گیس اور پانی کے بلوں کے بعد ادویات کی قیمت میں اضافے نے لوگوں سے جینے کے ذرائع چھیننے کی راہ ہموار کردی ہے جس سے ہر طرف سے غریب عوام کے احتجاج پر مبنی چیخے وپکار کی آوازیں سنائیں دے رہی ہیں اگر چہ تحریک انصاف کی قیادت اپنے اقتدار میں کشکول توڑنے کی دعویدار تھی اور اپنے اپوزیشن کے دور میں خود عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے عہدیدار جو آج وزیراعظم کی کابینہ کا حصہ ہیں آئی ایم ایف کے قرضوں کی بنیاد پر ہے مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے عمران خان نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ وہ خود کشی کرلیں تاہم اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کو ملک کی اقتدادی بد حالی کا ادراک ہوا اور وہ تذبذب کا شکار ہو گئی کہ وہ آئی ایم ایف سے رجوع کیے بغیر ملک معیشت کو اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کر سکتی ہے اس تذیذب میں حکومت کو اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں روپے کی قدر کم کرنا پڑی ۔

(جاری ہے)


پٹرولیم بجلی، گیس اور ادویات کے نرخ بڑھانا پڑے اور ضمنی مزاینے لا کر بعض نئے ٹیکس لا گو کرنا اور بعض مروجہ ٹیکس بڑھانا پڑے جبکہ عوام نے عمران خان کو اپنے دکھوں کا مداواسمجھ کر ان کے ساتھ اچھے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں انہیں امیدوں کے سہارے عوام نے تحریک انصاف کی جانب سے اس کے آغاز ہی میں لگنے والے مہنگائی کے جھٹکے برداشت کرلیے مگر تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے عوام کومطمئن کرنے کے لیے ایسا بڑاا قتصادی اصلاحاتی پیکیج نہ دیا جا سکا جو عوام کے غربت مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل میں انہیں عارضی یا مستقل ریلیف دینے کاباعث بن سکتا تحریک انصاف کے پہلے سال میں ملک بھر میں مہنگائی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس کی شرح 11.63فیصد تک پہنچ گئی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق اگست2018ء کے مقابلے میں اگست2019ء میں ملک بھر میں مہنگائی کی شرح5.84سے بڑھ کر11.63فیصد ہو گئی تحریک انصاف کی حکومت اپنا پہلا پارلیمانی سال مکمل کر چکی ہے حکومت کی نا اہلی سے پہلے سال میں ہی ملکی معیشت چالیس فیصد نیچے آچکی ہے اسٹیٹ بینک کی حالیہ تازہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایک سال کے دوران پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں1ارب ڈالرکا اضافہ ہوا ہے اور یہ 106ارب ڈالر پہنچ گئے ہیں گزشتہ ایک سال کے دوران قرضوں اور واجبات میں 10ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا جس کے بعد قرضے40ہزار روپے سے تجاوز کر گئے حکومت کی جانب لیے جانے والے قرضوں میں سے پرانے قرضوں اور سود کی ادائیگی پر 3126ارب روپے خرچ ہوئے لیگی دور کے قرضوں کی ادائیگی پر 905ارب روپے اضافی ادا کرنا پڑے ملک کی یہ کمزور معیشت اندرونی سیاسی استحکام اور بیرونی محاذ پر ہمارے لیے خطرات کا باعث بن رہی ہے نواز شریف اور زرداری خاندان کو عوام کی اکثریت خائن اور بد عنوان سمجھتی ہے عمران خان اور ان کے ساتھ کنٹینر سے ایوان اقتدار تک انہیں مالی کرپشن میں ملوث قرار دیتے چلے آرہے ہیں لیکن اپنے وعدوں اور دعوؤں کے مطابق لوٹ کا مال نکلوانے میں ذرا بھی کامیاب نظر نہیں آئے نیب اور دیگر اداروں کے ذریعے اگر کچھ ثابت ہے تب بھی جو معمولی رقم برآمد ہوئی بیرونی امداد کے ساتھ اس”اونٹ کے منہ میں زیرہ“کی مقدار کے برابر یہ دولت ملا کر ملک کے غریبوں کو کیا فائدہ پہنچا حکومت اپنا پورازوریہ بتانے میں صرف کررہی ہیں کہ ماضی کے تمام حکمران لٹیرے تھے صرف موجودہ ٹولے کے ارکان ہی آب زمزم سے دھلے ہوئے ہیں ان کے ہر دعوے کو تسلیم کرلیا جائے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ بر قرار رہے کہ خود انہوں نے ایک سال کے دوران نئے پاکستان کو مایوسی اور مہنگائی کے سوا کیا دیا ہے تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال گزر چکا ہے اس نے اپنے ابتدائی 100دنوں میں کار کردگی دکھانے اور اس کا جائزہ لے کر مزید بہتری لانے کا اعلان کیا تھا100دن پورے ہونے پر کوئی مثبت تو کیا وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کا قبلہ تک معلوم نہ ہو سکا نہ سمت کا تعین دکھائی دیا تحریک انصاف کی حکومت نے 50لاکھ گھر تعمیر کرنے اور ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکری دینے کا اعلان کیا تھا ابھی تک ایک گھر تعمیر نہ ہو سکا اور نہ نوکری کسی کو ملی عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس اٹھایا تھا اور انہیں واپس لانے کا وعدہ کیا تھا وہ اب تک امریکی جیل میں سڑ رہی ہیں لیکن شان رسالت مآب میں گستاخی کی مرتکب ملعونہ آسیہ بی بی کو 31اکتوبر کو جیل سے رہائی پر امریکہ اقوام متحدہ اور برطانوی وزیراعظم نے خیر مقدم کیا ہے ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ ڈالر130روپے سے 162روپے تک آگیا ہے اسٹاک ایکسچینج کئی ہزار پوائنٹ نیچے گر گیا ہے آئی ایم ایف سے بدترین شرائط پر معاہدے ہورہے ہیں سی پیک پر کام رکا ہوا ہے اور اس سے پاک چین تعلقات میں بھی دراڑ کا خدشہ ہے ریکوڈک پر خوفناک جرمانہ ہو چکا لاہور میں اور نج ٹرین پرکام رک گیا ہے حالانکہ اس پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہو گئے ہیں پشاور میں میٹروبس منصوبہ خدشات کا شکار ہے ملک میں نظام آب پاشی بدترین بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے زراعت متاثر ہوئی ہے نیب کی کارروائیوں کو اپوزیشن انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی کے خلاف حکومتی ریفرنس نے قانون کی حکمران کا پول کھول کررکھ دیا ہے مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ہر روز اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

حکومت نے اب تک تین چار بار بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بار بار بڑھائی جارہی ہیں ۔
عمران خان راہ عمل سے فرار اختیار کرکے ایک سال میں باتوں اور کابینہ کے اجلاسوں کے سوا کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے ان کی منفی تبدیلی شدید مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں ہر روز اہل وطن کا پیچھا کررہی ہے ۔سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کے نام سے جو تماشا کیا گیا عوام اسے اشرافیہ کا کھیل سمجھتے ہیں اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کو بدترین ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ قرار دیا ہارس ٹریڈنگ کوئی نئی بات نہیں سینیٹ میں ان مواقع پر برسوں سے عوام یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔

سینیٹ کا چیئرمین حاصل بز نجو بھی بن جاتے تو عوام کو ذرا برابر کوئی فائدہ نہ ہوتا کہ ان پر مسلط مہنگائی کا عذاب ٹلنے کی کوئی امید نہیں تھی اب جبکہ صادق سنجرانی جیت گئے تب بھی غریب عوام کورتی برابر فائدہ نہیں عوام کے لئے اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کون جیتا کون ہار ااہم سوال یہ ہے کہ اس اجلاس میں عوام کے ٹیکسوں سے کتنے پیسے برباد کئے گئے ان مقدس ایوانوں میں عوام کے مسائل پر کب بات ہو گی۔


درحقیقت پارلیمنٹ کے ان اونچے ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندوں نے عوامی مسائل کو حل کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی اپنی انا کی تسکین اور معاملات کے حصول میں یہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں تحریک انصاف کے بر سر اقتدار آتے وقت ملک جس معاشی بحران سے دوچار تھا ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ بحران موجود ہے فرق اگر آیا ہے تو وہ یہ ہے کہ معاشی بحران پہلے سے کئی گناہ بڑھ گیا ہے مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس بحران کے نیچے ایک ایک کر کے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لے رہے حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ معیشت کے ہر شعبے میں جمودو تعطل ،بے یقینی چھائی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک چلنے اور آگے بڑھنے کی بجائے ایک ایسی گھاٹی پر آکر جم گیا ہے جہاں ایک قدم بھی آگے بڑھانا خود کو یقینی ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Naya Pakistan Or Purane Masail - Gurbat Mehengai Or Berozgari is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 October 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.