پاکستان دُشمنوں کا خاتمہ ، قومی یک جہتی کے ساتھ

ففتھ جنریشن واراگلے مَر حلے میں داخل بد امنی کی فضا ملکی سلامتی کےلئے خطرناک ہو سکتی ہے

ہفتہ 17 نومبر 2018

Pakistan dushmanon ka khtama qaumi yak jehti ke sath
 خالد بیگ
بھارتی وزیراعظم نریندرہ مودی کی 2015ء میں پاک چین تجارتی راہداری منصوبے کو ناکامی سے دو چار کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کی دھمکی ہویا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا چین کی گوادر تک رسائی کو روکنے کے لیے یہ کہنا کہ ”چین نے سری لنکا کی بندر گاہ پر قبضہ کر لیا،اسے گوادر بندرگاہ پر تسلط قائم نہیں کرنے دیں گے “سب خِطے میں پاکستان کے خلاف جاری سازشوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔

پاکستان کیخلاف دشمنوں کی سازشوں کا یہ سلسلہ نیا نہیں ۔
چند برس پہلے تک کراچی کو دُنیا میں سب سے زیادہ خطر ناک شہر کا درجہ دیا جاتا تھا جہاں روزانہ آٹھ سے دس افراد بنا کسی وجہ کے قتل کر دےئے جاتے ،اچانک کسی گلی سے چند خود کا راسلحہ بردار نکلتے ،گولیاں بر سا تے ،اندھا دُھند فائرنگ کی زد میں آکر کچھ لوگ جان کی بازی ہار جاتے ،کچھ زخمی ہوتے ،ٹی وی چینلز پر ”بریکنگ نیوز“کے ذریعے کراچی میں گرائی گئی لاشوں کی تفصیلات سے ناظرین کو آگاہی ہوتی ۔

(جاری ہے)

لوگ
 دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے اور زندگی پہلے کی طرح رواں دواں رہتی ۔
بالکل جنگل کی طرح جہاں خونخوار جانور بھوک مٹانے کے لیے جب کسی معصوم جانور پر جھپٹتے تو تھوڑی دیر کے لیے وہاں ماحول میں افراتفری پھیلتی لیکن ان کے کسی ساتھی کے شکار بن جانے کے بعد ہر طرف یوں سکون پھیل جاتا جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔
اسی طرح کراچی میں انسانی جانوں سے کھیلنے والوں ،بھاری تاوان کیلئے دولت مند افراد کو اغواء کرکے ان سے بھاری رقوم لوٹنے والوں ،تاجروں سے بھتّہ کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں سے لے کر معروف شخصیات کو ”ٹارگٹ کِلنگ “کا نشانہ بنانے والوں تک کراچی کے عام شہری سے لے کر صدر ،وزیراعظم اور عدالتوں کے معزز جج صاحبان تک سب جانتے تھے کہ یہ تمام فساد ایک لسانی جماعت کے بانی کا پھیلایا ہوا ہے جو لندن سے کراچی میں بدامنی کو کنٹرول کرتا ہے ،قتل وغارت گری کراتا ہے اور خوف کی اس فضا کو اپنی جماعت کی کراچی پر حکمرانی کیلئے استعمال کرتا ہے ۔


ٹی وی چینل کی سکرین بنا کسی قیمت کے اس کی تقاریر کے لیے مختص تھی ۔وہ رات گئے جب جی کرتا اپنی تقریر کا آغاز کرتا ،تمام ٹی وی چینل جاری پروگرام روک کر تقریر نشر کرتے ۔دکھایا جاتا کہ کراچی میں ہزاروں افراد ،مرد وخواتین اور بچے وبوڑھے سر جھکائے انتہائی موٴدبانہ انداز سے اپنے لیڈر کی تقریر سُنتے پائے جاتے ۔
وہ کسی کے خلاف نازیبا القابات کا استعمال کرتا ،روبوٹ کی طرح زمین پر ہاتھ باندھے سر جھکا ئے ہزاروں کا مجمع یک زبان ہو کر اس کی ہاں میں ہاں ملاتا۔

کراچی میں اس جماعت کی مقامی لیڈر شپ ”بے شک “کہہ کر اخلاق سے گرے ہوئے جملوں کی توثیق کرتی ۔یہ تقریر کئی گھنٹوں تک جاری رہتی ،کیا بے بسی اور دہشت تھی جو کراچی پر مسلط تھی ۔
سب جانتے تھے کہ بھارت انہیں کراچی کی پاکستان سے علیٰحد گی کیلئے استعمال کررہا ہے ۔دبے دبے لفظوں میں ہر باشعور پاکستانی یہ بات کرتا لیکن مصلحتوں نے سب کے منہ پر تالے لگا رکھے تھے کیونکہ صرف بھارت ہی نہیں چند دیگر ممالک بھی انکی سر پر ستی کرنیوالوں میں شامل تھے اور کراچی کو قوم پر ستی کے نام پر بدامنی کا شکار رکھ کر پاکستان سے اپنے مفادات کے مطابق سودے بازی چاہتے تھے ۔


یہی دور تھا جب بلوچستان میں بلوچ عوام کے حقوق کے نام پر وہ بلوچ سردار علیٰحد گی کیلئے سر گرم تھے جنہوں نے صدیوں سے بلوچستان کے عوام کو قبائلی گرفت میں رکھ کر سرداری نظام کی قید میں جکڑ رکھا تھا۔اپنے سردار کی اجازت کے بغیر وہاں کا غریب شہری سانس بھی نہیں لے سکتا تھا،انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ تعلیم انہیں آگاہی دیتی اور وہ سردار کی غلامی سے انکار کر دیتے۔

انہیں پسماندہ رکھنا بلوچ سرداروں کی سماجی ضرورت تھی ۔
حکومتوں سے علاقائی ترقی کیلئے ملنے والی ساری امداد سرداروں کے ذاتی خزانے میں منتقل ہوجاتی ،یہی بلوچ سردار پاکستان کو بلوچوں کی پس ماندگی کا ذمّہ دار قرار دے کر بلوچ نوجوانوں کے چند ٹکے دے کر انہیں مسافر بردار ریل گاڑیوں اور بسوں میں ٹائم بم دھما کے کرنے ،ریل کی پٹڑیاں اکھا ڑ کر ریل گاڑیوں کے سینکڑوں مسافروں کی زندگیوں سے کھیلنے اور سرکاری وعسکری تنصیبات پر حملوں کے لئے استعمال کرتے ۔


بلوچ عوام کو پڑھایا جاتا کہ ان کی پاکستان سے علیٰحدگی کیلئے جنگ بلوچستان کیلئے ترقی کی راہیں کھول دے گی ۔اس کے برعکس پاکستان کے قبائلی اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں نفاذ اسلام کے نام پر دہشت گردوں نے اپنے محفوط ٹھکانے بنا کر پورے ملک کو خود کش دھماکوں کا ہدف بنا رکھا تھا۔ آئے روز پاکستان کے بڑے شہروں میں عوامی مقامات کو خود کش دھماکوں کا نشانہ بنایا جاتا۔


ہسپتال ،تعلیمی ادارے ،کچہریاں ،پبلک پارک ،مساجد ،چرچ یہاں تک کہ بازار بھی دہشت گردوں کے نشانے پر تھے ۔وہ نفاذ اسلام کے نام پر جناز گاہوں کو بھی نشانہ بنا رہے تھے ۔تا ہم کراچی میں خونریزی ہو ،بلوچستان میں نام نہاد علیٰحدگی پسند سرداروں کی طرف سے برپا بدامنی یا تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے جاری دہشت گردی اس سب کے لیے جدید خود کا راسلحہ سے لے کر خود کش دھما کوں کیلئے وافر تعداد میں بارود کی فراہمی کے پیچھے بھارت تھا جسے دیگر پاکستان دشمن ممالک کی مدد وتائید حاصل تھی ۔


امریکہ بھی خِطے میں اپنے مفادات اور افغانستان میں اپنے مستقل قیام کو ممکن بنانے کیلئے بھارت کے ساتھ تھا ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بھارت افغانساتان کو پاکستان کے خلاف دوسرے محاذ کے طور پر استعمال کرتا ۔
امریکہ پاکستا ن کو افغانستان میں اس کیلئے جنگ لڑنے کے لیے 2001ء سے مجبور کرتا چلا آرہا تھا ۔مقامی سطح پر اسے شمالی اتحاد کی مضبوط حمایت حاصل تھی لیکن پشتون اکثریت پر قابو پانا صدیوں پرانے اختلافات کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔

شمالی اتحاد کی حمایت سے امریکہ نے افغانستان میں کردار ادا کرنے کے لیے بھارت کو اجازت دی تو اس کی ایک وجہ تو پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا تھا جبکہ بھارتی حکمران تو سیع پسند انہ عزائم کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر آگے بڑھانا چاہتے تھے ۔
ان کی منزل ”ویر چکر “(بھارت کے جھنڈے پر بنا ہوا پہیہ )یعنی اکھنڈ بھارت کی تکمیل تھا جسے بھارت کیلئے اپنی مغربی سرحد سے بطور ہدف حاصل کرنا پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد ممکن نہیں رہا تھا ۔

افغانستان کی شکل میں بھارت کے ہاتھ سُنہری موقع لگ گیا جسے اس نے پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا ،کراچی کووہ تین دہائیوں سے ایک لسانی جماعت کے بانی کے ذریعے بدترین بدامنی کا شکار کئے ہوئے تھا۔
2001ء سے پہلے اس کی پوری کوشش رہی کہ وہ کراچی کو جناح پور کے نام پر پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ہو جائے تا ہم 2001ء کے بعد اسے موقع مل گیا کہ وہ بلوچستان کی علیٰحدگی کو بھی اپنے اہداف کا حصہ بنا سکے ۔

بھارت کیلئے امریکی حمایت کی دوسری اور انتہائی اہم وجہ 2002ء میں صدر مشرف کا چین کیساتھ گوادر کے ساحل پر جدید بندرگارہ کی تعمیر کا معاہدہ تھا جس کی درخواست چین کی طرف سے آئی تھی ۔
امریکہ جو نصف صدی سے چین کے درپے تھا اور بھارت کو اس کیخلاف تیار کررہا تھا چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت سے پریشان تھا۔گوادر میں بندر گاہ اور کاشغر سے گوادر تک راہداری منصوبہ کی تفصیلات 2003ء میں منظر عام پر آتے ہی بلوچستان میں علیٰحدگی پسندوں اور سرحد (خیبر پختونخوا)کے علاوہ قبائلی علاقوں میں پر تشدد کارروائیوں کا آغاز ہو گیا ۔


بلوچستان میں پھر بھی امن وامان کی ابتر صورتحال کے باوجود حالات کنٹرول میں تھے جبکہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے مشرقی سرحد سے فوری طور پر فوج کا بڑا حصّہ وہاں منتقل کرنا ممکن نہیں تھا ۔بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان امریکی Do Moreمطالبہ اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی استعداد کے تدارک کیلئے فوج وہاں بھیجے تاکہ نئی دہلی میں پارلیمنٹ پر حملہ یا ممبئی حملوں جیسے دہشت گردی کے خود ساختہ واقعات کو جواز بنا کر پاکستان پر حملہ آور ہو سکے ۔

پاکستان کے خلاف اس عرصہ میں بہت سے محاذوں پر جنگ جاری تھی ۔
دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے پاکستان کی معیشت تباہ کردی تھی ۔پاکستان میں کھیل کے میدان ویران کر دےئے گئے تھے ۔مخصوص نظریات کے حامل بھارت دوست دانشوروں نے ”امن کی آشا“کے نام پر بھارت کو پُرامن ملک اور پاکستان کا دوست ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا ۔ثقافتی و سیاسی وفود کے تبادلوں کا دور دورہ تھا ۔


بھارت نہایت خوبصورتی سے پاکستانی عوام کو منافقانہ دوستی کی آڑ میں بیوقوف بنانے میں مصروف تھا۔ ایک طرف حکومتی سطح پر خیر سگالی کا تعلق برقرار رکھے ہوئے تھا تو دوسری طرف پاک فوج پر بھارت سمیت دیگر ہمسایہ ملکوں میں دہشت گردی کرانے ‘دہشت گردوں کو قبائلی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے اور انہیں تربیت و اسلحہ فراہم کرنے جیسے الزامات لگائے جارہے جس میں افغان حکمران بھی اس کے ترجمان بنے ہوئے تھے۔


ہم بطور قوم اس مشکل دور سے گزر آئے ہیں غالباً اس لئے ہماری قوم کو یاد نہیں کہ ”بلیک واٹر “نامی تنظیم کے ہزاروں ایجنٹ پاکستان میں کیا کرتے رہے تھے ۔امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کتنے پاکستان دشمن افراد کو پاکستان میں داخلے کے لئے سکیورٹی اداروں کی سکروٹنی کے بغیر پاکستان آنے کے لئے ویزوں کی سہولت فراہم کی تھی ۔پاکستان کے ایٹمی اثاثے انکا اصل ہدف تھے ۔

علاوہ ازیں وہ دہشت گردوں کیلئے بھی سہولت کا کردار ادا کر رہے تھے ۔
ہر طرح کے حربوں ،عالمی سطح پر جاری پروپیگنڈہ اور بے پناہ جانی نقصان کے باوجود پاک فوج ‘آئی ایس آئی اور سکیورٹی کے دیگر ادارے نہ پاک چین تجارتی راہداری منصوبے سے پیچھے ہٹنے کو تیا ر تھے نہ ہی امریکی مقاصد کے خطے میں سیاسی مقاصد کا حصہ بننے کیلئے راضی تھے ۔
بلیک واٹر کی آمد کو پاکستان میں ایٹمی اثاثوں کی کھوج اور ان تک ضرورت کے وقت امریکی کمانڈوز کی رسائی کو ممکن بنانا بھی بتایا گیا جبکہ بہت سی این جی اوز کو بھی اس طرح کا ٹاسک سونپا گیا حالانکہ ملک بھر میں پھیلائی گئی این جی اوز کا مقصد پاکستانی معاشرے میں لسانیت وفرقہ واریت جیسے فتنوں کو ہوادے کر انتشار برپا کرنا اور تحریک طالبان پاکستان جیسی بھارت کی طرف سے تیار کی گئی دہشت گردتنظیموں کو افغان جہاد میں پاک فوج کی معاونت سے تیار کئے گئے مجاہدین قرار دے کر پاکستانی عوام میں پاک فوج کیخلاف بدگمانیاں پیدا کرنا تھا۔


عوام کو 2014ء میں بھارتی خفیہ ادارے کی سربراہی سے سبکدوش ہونے کے بعد اجیت کمار دوول کی اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب کے دوران نیودہلی میں پاکستان کے خلاف تقریر کے وہ حصے یاد ہوں گے جس میں وہ انتہائی وثوق کیساتھ انکشاف کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنیوالے تحریک طالبان پاکستان والے بھارت کے لے پالک ہیں ۔وہ اطلاع دیتا ہے کہ بھارت کو طالبان کا نام لے کر ڈرایا جاتا رہا کہ اگر طالبان پاکستان میں کامیاب ہو گئے تو اس کے بعد بھارت کی باری ہے ۔


اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں کارروائیوں کیلئے بھارت جتنے پیسے طالبان کو ادا کرتا ہے ،پاکستان دے ہی نہیں سکتا۔وہ فخر یہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کر دیا، پاکستان میں امن وامان کو برباد کر دیا،پاکستان کی سیاست کو کرپٹ کر دیا۔بھارت نے پاکستان کو ”جارحانہ دفاعی پالیسی “ کے ذریعے دبوچ لیا ہے ۔


اگر ممبئی دھماکوں جیسا آئندہ کوئی وقوعہ بھارت میں ہوا تو بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر دیا جائے گا۔اجیت کمار دو ول ہوا میں باتیں نہیں کررہا تھا ،افسانہ یا کسی فلم کا سکرپٹ نہیں سنا رہا تھا،وہ نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا اقرار کر رہا تھا بلکہ پاکستان کوتوڑنے کی دھمکیاں بھی دے رہا تھا ۔
اجیت کمار دوول کا مذکورہ اقرار جرم اور بھارت کے پاکستان کے خلاف گھناؤ نے انکشافات کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے باوجود ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اس پر پورا پروگرام تو ایک طرف ایک لفظ تک کہنا گوارا نہیں کیا۔

اگر اس وقت ہمارے میڈیا نے اپنا موٴثر کردار ادا کیا ہوتا اور بھارت کی کھل کر مذمت کی ہوتی تو بھارتی حکمرانوں کو ہمارے ملک میں بر سر اقتدار اہم شخصیات کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی جرأت نہ ہوتی ۔
اجیت کمار دوول بھی پاگل نہیں تھا،نہ ہی وہ نشے کی حالت میں تھا بلکہ پاکستان کے داخلی حالات کی وجہ سے وہ حد سے زیادہ خوداعتمادی کاشکار تھا کیونکہ پاکستان کے خلاف بھارت کی برپا کی گئی ”فورتھ جنریشن وار “کامیابی سے ہمکنار ہو کر ”ففتھ جنریشن وار “کے دائرے میں داخل ہورہی تھی ۔

اجیت کمار دوول اور اس کے حکمرانوں کویقین تھا کہ پاکستان جلد بھارتی شرائط پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گا۔
اس کی بڑی کامیابی پاکستان حکمرانوں سے دوستی گانٹھ کر انہیں بھارت کیخلاف بے اثر کرنے کی ترکیب تھی جو خاصی کار گر ثابت ہوئی تھی لیکن پاک فوج نے جس طرح کراچی سے لے کر پشاور اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں بھر پور جوانی کارروائی کرتے ہوئے بھارت اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں کے پروردہ دہشت گردوں کا صفایا کیا پوری دُنیا اس پر حیران تھی ۔


یہ جنگ آسان نہیں تھی ،پاکستانی عوام نے اس کیلئے پاک فوج کا ہر طرح سے ساتھ دیا حالانکہ بھارت ‘افغانستان اور بنگلہ دیش پاک فوج کو دہشت گردوں کی سر پر ستی کا الزام لگا کر پوری دنیا میں بد نام اور بے تو قیر کرنے کے درپے تھے مگر اپنی عوام کے اس پر اعتماد نے پاک فوج کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حوصلوں کو بلند رکھایوں پاک فوج نے قربانیوں کی ایک نئی داستان رقم کردی۔

”کمپنی کمانڈر “لے کر ”بریگیڈ کمانڈر“تک اور اس سے بھی اوپر ڈویژن کی سطح پر دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں پاک فوج افسران نے آگے رہ کر اپنی سپاہ کی قیادت کی ،یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں افسران کی شہادتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔
جب کمانڈر ملک کی سلامتی اور اپنی قوم کے تحفظ کے لئے مرمٹنے پر تیار ہوتو پھر باقی فوج کس طرح پیچھے رہ سکتی ہے ۔

نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ملک کے اندر سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا چکا ہے ۔جنگ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر وترقی کاکام تیز کیساتھ جاری ہے ۔تو کیا ہمارا دشمن جو شکست پر زخم چاٹ رہا ہے آرام سے بیٹھا رہے گا؟ہر گزنہیں وہ اب کسی اور انداز سے حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گالیکن اس کیلئے پاکستان میں بد نظمی وانتشار ضروری ہے جس کا نظار اگزشتہ دنوں آسیہ نامی مسیحی خاتون پر 2009ء سے چلنے والے توہین رسالت کے مقدمہ کا سپریم کورٹ سے آنیوالے فیصلے کے بعد پوری دنیا نے دیکھا۔


حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک ،ان کی حرمت وناموس پر ہر مسلمان اپنی جان ومال سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے ۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر یقین کے بنا تو ہم مسلمانوں کا ایمان بھی مکمل نہیں لیکن بد قسمتی سے سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ آنے کے بعد جس انداز سے تین روز تک پورے ملک کو یر غمال بنا کر بڑی شاہراہوں پر سفر کرنیوالے مسافروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،بسیں اور گاڑیاں جلائی گئیں ،توڑ پھوڑ کی گئی اور موٹر سائیکلیں آگ کی نظر کی گئیں ۔

یہ سب دیکھ کر دُنیا بھر میں ہر مسلمان شرمندہ تھا کہ ایک عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر ملک بھر میں بدامنی کی ایسی فضا برپا کر دی گئی تھی جس میں ذرہ سا مزید اضافہ ملکی سلامتی کیلئے انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتا تھا۔
علاوہ ازیں پاک فوج کی قیادت سے متعلق جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا اور معزز جسٹس صاحبان کے بارے میں جس طرح کے جملے ادا کئے گئے اس نے پاکستان دشمنوں کے لئے بھی نئی سوچ کی راہ استوار کر دی کہ پاکستان میں فسادوانتشار کیلئے زمین ابھی بھی زرخیز ہے جہاں کوئی بھی مسئلہ ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر نکل کر قومی املاک کو تباہ کرنے ”لوٹنے اور عوام کو قومی سطح پر یرغمال بنائے جانے کا سبب بن سکتا ہے ۔

اس موقع پر ملک میں امن وامان کے قیام کے لئے فوج کو طلب کرنا آخری حل ہے ۔
اب ذرا سوچئے کہ فوج کے سپہ سالار کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ان حالات میں اگر فوج کو طلب کرنے کی ضرورت پڑے تو فساد کیا رنگ اختیار کر سکتا ہے ۔بھارت پاکستان کے دونوں اطراف موجود ہے ‘وہی پاکستان کا ایک دشمن نہیں ‘دیگر بہت سی ریاستیں بھی پاکستان کے درپے ہیں ۔
ایسے میں پاکستان میں بسنے والے ہر طبقہ اور ہر طرح کا نظریہ رکھنے والے پاکستانیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ انتظامی معاملات ہوں یا عدالتی فیصلے ،ان پر اعتراضات کے لئے آئین پاکستان اور سب سے بڑھ کر اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے رہنمائی حاصل کریں ‘ویسے بھی فتنہ وفساد دشمنوں کو پاکستان اور پاکستانی عوام کے خلاف تباہی کو دعوت دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan dushmanon ka khtama qaumi yak jehti ke sath is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.