ٹرمپ کا متنازع دور صدارت

یورپ‘افریقہ اور ایشیائی ممالک کا چین کی طرف جھکاؤ واشنگٹن کیلئے درد سر بن چکا ہے

ہفتہ 14 نومبر 2020

Trump ka mutnazeya dor e sadarat
محبوب احمد
امریکی انتخابات 2020ء میں جوبائیڈن کی کامیابی پر جہاں دنیا بھر کے حکمرانوں کی طرف سے مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے تووہیں ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے پاناما سکینڈل میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرح”مجھے کیوں نکالا“کی گردان دہرا رہے ہیں۔کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز جیسا رہا ہے؟مخالفین کی تنقید اپنی جگہ لیکن اگر ان کے متنازعہ دور صدارت کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ امریکہ کیلئے زہر قاتل ثابت ہوا ہے۔

دنیا بھر کی طرح امریکہ میں بھی اب جمہوریت کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جمہوریت جن عوامل سے شدید نقصان سے دو چار ہوئی ہے ان میں سب سے اہم امریکہ کا بدلتا ہوا رویہ ہے کیونکہ رواں سال ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ نے جس تیزی کے ساتھ خود کو عالمی منظر نامے سے دور کیا اس کی مثال گزشتہ کئی عشروں میں دکھائی نہیں دیتی۔

(جاری ہے)

ٹرمپ کی طرف سے اب صدارتی انتخابات 2020ء کے دوران ووٹوں کی گنتی میں مبینہ”دھاندلی“اور نتائج پر سوالیہ نشان لگانے کے بعد عالمی سطح پر امریکی جمہوریت پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔


صدارتی انتخاب کی تاریخ میں ویسے تو یہ 10 مرتبہ ہو چکا ہے کہ کوئی صدر اپنے پہلی مدت صدارت کے بعد ہی شکست سے دو چار ہوا لیکن حالیہ دور میں ایسا چوتھی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی امریکی صدر پہلی مدت صدارت کے بعد ہی ہار گیا ہو۔صدر ٹرمپ مجموعی طور پر 11 ویں اور حالیہ دور میں چوتھے ایسے صدر بن چکے ہیں،قبل ازیں ایسا 1992ء میں ہوا تھا جب بل کلنٹن نے جارج ایچ ڈبلیو بش (سینیئر)کو پہلی مدت صدارت کے بعد شکست دی تھی۔

افغانستان اور عراق میں 2 طویل جنگوں اور عالمی معاشی بحران نے امریکی عوام کو بین الاقوامی معاہدوں اور جمہوری اقدار کے فروغ سے قدرے بیزار کر دیا ہے۔ٹرمپ نے ہمیشہ سے ہی یکطرفہ فیصلوں کو ترجیح دیتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے،اگر دیکھا جائے تو سابق صدر اوباما اور یورپی ممالک کو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے پر اتفاق کرنے میں برسوں لگے لیکن ٹرمپ نے سعودی عرب اور اسرائیل کے اعتراضات کے باعث امریکہ کو یک طرفہ طور پر ہی اس سمجھوتے سے آناً فاناً علیحدہ کردیا،امریکی کمپنیوں سے اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق انہوں نے اقتدار میں آتے ہی کرہ ارض کی بقاء اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق تاریخی پیرس معاہدے سے امریکہ کو الگ کرنے کے احکامات جاری کئے۔


افغانستان میں جنگ ختم کرکے امریکی افواج کو نکالنے کا وعدہ بھی ایفاء نہ ہو سکا۔ٹرمپ نے مشرق و سطیٰ میں فلسطین اسرائیل تنازع سے متعلق برسوں کی امریکی پالیسی کو لپیٹ کر سابق امریکی صدر کے برعکس نیتن یا ہو حکومت کی کھلے عام حمایت کی،یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یہاں منتقل کیا۔اسرائیل کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے عرب ممالک کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دی گئی جس سے متحدہ عرب امارات ،بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ روابط قائم کرنے کا اعلان کیا۔


ٹرمپ کا شمار اقوام متحدہ کے بڑے ناقدین میں بھی ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے پہلے امریکہ کو اس عالمی ادارے کی انسانی حقوق کمیٹی سے الگ کرکے تعلیمی،سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسیف سے امریکہ کو نکالا۔ ”کورونا“ وباء نے جب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ”ڈبلیو ایچ او“پر بھی الزامات اور تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے اس عالمی ادارے کی فنڈنگ روکنے کا اعلان کر دیا،الغرض انہوں نے عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کی فنڈنگ کم کرکے نیٹو اتحاد چھوڑنے کی دھمکی بھی دی جس سے امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں سرد مہری دیکھنے کو ملی۔

یاد رہے کہ شام میں ٹرمپ نے گزشتہ برس کردوں کی حفاظت پر مامور امریکی فوجی نکالنے کا حکم دیا جس کے بعد وہاں ترکی کو مزید جگہ ملی اور روس کا اثر پھیل گیا لیکن اب امریکی نئے صدر جوبائیڈن کی روس سے متعلق پالیسی زیادہ سخت ہو گی۔امریکہ کے حالیہ انتخابات کے نتائج پاکستان کے لئے کتنے اہم ہیں؟یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی اقتدار پر براجمان ہوا اس نے امریکی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے ہمیشہ”ڈومور“کا مطالبہ کیا۔


پاکستان کی چین سے دیرینہ قربت ،بھارت کا عناد،افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی،سعودیہ ایران چپقلش اور دنیا کے لئے دروازے کھولتی اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل یہ سب ایسے معاملات ہیں کہ امریکہ ان میں اپنے مفادات کو ہی مقدم رکھے گا کیونکہ ماضی میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد جو بھی امریکی صدر منتخب ہو کر آیا اس نے پاکستان کی خطے میں قیام امن کے لئے دی جانے والی لازوال قربانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کئے۔

ٹرمپ کے دور صدارت کا بھی اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح امریکہ نے بھارت کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں ہر ممکن سپورٹ کیا،مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے ظلم و ستم پر کیسے آنکھیں بند کئے رکھیں،فلسطین میں یہودی آباد کاری کیلئے کیسے راستے ہموار کرتے ہوئے یروشلم میں امریکی سفارتخانے کو منتقل کیا حتیٰ کہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعد ہی مسلم ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ بھی بند کر دیا گیا۔


دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔عالمی افق پر اقتدار کو طوالت دینے کا امریکی منصوبہ اب سوویت یونین کی طرح بکھر چکا ہے۔2016ء میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ میں علیحدگی پسند تحریکوں کا زور اس قدر شدت اختیار کر گیا تھا کہ خود کو ”سپر پاور“ کہلانے والے امریکہ کیلئے اب اپنا وجود برقرار رکھنا آئے دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ 25 سے زائد امریکی ریاستوں نے متحدہ امریکہ سے علیحدگی کی درخواست دے رکھی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ پالیسیوں کے اثرات امریکی ریاستوں پر ہی نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک پر بھی پڑے ہیں،گزشتہ عشروں سے امریکہ بیرونی ممالک سے سرمائے کے حصول اور دوسروں کو منافع ادا کرنے کے ذریعے اپنی معیشت چلانے میں کامیاب رہا ہے تاہم پیدا ہونے والے رخنے سے اب یہ ملک جمود کے خطرناک دور میں داخل ہوتا جا رہا ہے۔

امریکہ کا اقتصادی تسلط اب روز بروز ختم ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب معاشی سدھار میں ایک لمبا عرصہ لگے گا کیونکہ اس کے ذمہ قرضے اربوں میں نہیں بلکہ کھربوں میں ہیں اور یہ قرضے ماضی کی نسبت بہت خطرناک اور امریکی زوال کی ایک بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔سرمایہ داری کے تضادات بہت گہرے ہو چکے ہیں کیونکہ ہر ملنے والی مہلت آنے والے برے دنوں کو محض ملتوی کرتی ہے لیکن اس سے وقت آنے پر ٹکر مزید بھیانک ہو گی۔

لاطینی امریکہ کے ممالک ارجنٹینا،برازیل،میکسیکو،چلی اور پیرو بھی سیاسی اور معاشی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔امریکی مالیاتی بحران کے بعد یورپ کو بھی
 خاصے مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یورپ میں قرضوں کے بحران،اقتصادی مفادات پر مبنی ریاستوں کے اتحاد پر کافی اثر پڑا اور اس کے نتیجے میں یورو زون کے بیشتر ممالک میں سیاسی بحران امڈ آیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی حکومتیں تبدیل ہوئیں۔

امریکہ اور یورپی ممالک کے معاشی بحران اور مہنگائی کی بڑھتی شرح نے ان ممالک کو عام اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافے جیسے سخت معاشی اقدامات انجام دینے پر مجبور کر دیا ہے۔امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 10 جبکہ یورپی یونین میں 11 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں خوفناک اضافے کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عوام گھر،گاڑی حتیٰ کہ ضروریات زندگی کی عام اشیاء کی خریداری بھی قرضے کی رقوم سے کرنے پر مجبور ہیں۔


دنیا بھر میں جمہوریت مخالف رجحانات کے پھیلاؤ سے بنیادی حقوق،معیشت اور سیکورٹی خطرات لاحق ہونے سے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی غیر محفوظ اور عدم استحکام کو شکار ہوئے ہیں۔امریکی صدارتی انتخابات میں یہ پہلی مرتبہ”دھاندلی“اور ”فراڈ“کا نعرہ بلند نہیں بلکہ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔فاتح کے لئے سب سے طویل انتظار کا ریکارڈ 1876ء کے انتخاب کو حاصل ہے جس میں حتمی نتائج کیلئے 4ماہ لگے تھے حالانکہ یہ انتخاب 7 نومبر کو ہوا لیکن نتیجہ 2 مارچ 1877ء کو سامنے آیا تھا جس میں ایک کمیٹی نے ردرفورڈ ہیز کو ایک الیکٹورل کالج ووٹ سے فاتح قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ 2000ء کے انتخاب میں بھی امریکیوں کو صدارتی انتخاب کا نتیجہ جاننے میں 35 روز لگے تھے اور اس کے نتائج کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا جب جارج بش فاتح قرار پائے تھے۔7 نومبر کو پولنگ کے اختتام کے بعد جب گنتی کا عمل شروع ہوا تو ایل گور مجموعی طور پر ووٹوں کے اعتبار سے بش سے آگے تھے لیکن الیکٹورل کالج ووٹوں کے اعتبار سے معاملہ فلوریڈا کے نتائج پر منحصر تھا کیونکہ دونوں کے درمیان یہیں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔

دنیا بھر کے میں ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں اب حالیہ انتخابات کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ بظاہر امریکی نظام حکومت زوال پذیر ہے اور یہ حالات ایک آئینی بحران میں بدل سکتے ہیں جو کہ تشویشناک ہے۔ٹرمپ کے ہار نہ ماننے سے امریکہ میں ایک شدید تنازع‘جنم لے چکا ہے جس نے امریکی نظام جمہوریت کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Trump ka mutnazeya dor e sadarat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 November 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.