زندہ باد کے نعرے

جمعہ 8 نومبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

دریا کنارے کھڑے شخص نے دریا میں بہتا ہوا کمبل دیکھا پکڑنے کے لئے چلانگ لگا کر کمبل کو پکڑا ،توکمبل نے دبوچ لیا لوگوں نے آواز دی اگر کمبل بھاری ہے تو چھوڑ دو ڈوب جاؤ گے۔تو وہ کہنے لگا میں تو چھوڑ رہا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ۔کمبل دراصل دریائی ریچھ تھا ،
ایسی ہی صورت حال سے مولانا فضل الرحمان دوچار ہیں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے مولانا کو آگے کر کے آزادی مارچ میں اسلام آباد پہنچایا اورمولانا کو چمکانے کے لئے جوشِ خطابت میں بہت کچھ کہا مولانا نے چمک کرقومی اداروں کو رگڑ کر دھرنے کا اعلان کر دیا ، اسلام آباد تک پہچانے والے مولانا کو بند گلی میں دھکیل کر یہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے کہ ہم نہ تو ا ستعفیٰ دیں اور نہ دھرنا دیں گے اس لئے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے مولانا کے کہنے پر استعفیٰ دیا تو ہماری رہی سہی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی اور اگر قومی افراتفری میں قومی سلامتی داو پر لگی تو کالے بوٹوں والے خاموش بیٹھے تماشہ نہیں دیکھیں گے وہ جمہوریت کوایک طرف رکھ کر عمران خان کے بلے کی نسبت بوٹوں سے ٹوکریں مارمار کر ہماری ڈکیت سیاست کا بھرگس نکال دیں گے اس لئے مولانا صاحب اب پریشان ہیں واپس جاتے ہیں تو دھرنا دینے والے ماریں گے واپس نہیں جائیں گے تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر حکومت مارے گی ،،یعنی کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا والی بات ہے،عمران خان نے حکومت کے خلاف دھرنا عوام پر اعتماد کر کے دیا تھااور مولا نا نے ان پر اعتماد کیا جو خود پر بھی اعتماد نہیں کرتے مارے گئے مدرسوں کے وہ طالب علم بے چارے جن کو یہودیوں اور قادیانیوں کے خلاف بھڑکا کر ساتھ لائے تھے اپوزیشن کی دو جماعتوں نے اپنا الو سیدھا کیا اور مولانا کو اسلام آباد والوں کے رحم وکرم پر چھوڑ گئیاور مدرسوں کے طالب علم عمران خان کو یہودی ایجنٹ کا نام دے کر رانجھا راضی کر رہے ہیں لیکن پوری قوم کیابلکہ دنیا بھر میں امتِ مصطفٰے کے علم بردار عمران خان کو دین مصطفٰی کا شیدائی مانتے ہیں،
 مولانا فضل الرحمان جوشِ خطابت میں پاک فوج کے خلاف بولے تو جواب آیا کہ دھرنا اور مارچ سیاسی سرگرمیاں ہیں جس سے فوج کا بحثیتِ ادارہ کوئی لینا دینا نہیں ہم تو ملکی دفاع میں مصروف ہیں ہمارے پاس ایسے معاملات میں ملوث ہو نے اور الزام تراشیوں کا جواب دینے کے لئے وقت نہیں انتخابات میں فوج کا کوئی ذ اتی کردار نہیں ہوتا ہمارے کردار کا فیصلہ حکومت کرتی ہے ، حدود متعین کرتی ہے اور ہم حکو مت کے احکامات وہدایات کے پا پند ہوتے ہیں الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ کا فیصلہ سیاسی جماعتیں باہمی افہام و تفہیم سے کرتی ہیں اس میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوتا،
پاکستان آرمی کی اس وضاحت پر مولانا نے یو ٹرن لے لیا ہے لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے ،پاکستان اور قومی ا دارو ں سے محبت میں اہلِ قلم بھی اپنا قومی اور عوامی فرض ادا کر رہے ہیں،سوشل میڈیا پر بھی فلاسفر اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں،مولانا فضل الرحمان سے متعلق کہانیاں تو بہت ہیں ایک کا ذکر کرتا چلوں ،
مولانا کوثر نیازی اپنی تصنیف ،،،اور لا ئن کٹ گئی ،، میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مولانا مفتی محمود سے ملاقات کے لئے ان کے گھر گیا دورانِ گفتگو ایک نوجوان کمرے میں داخل ہوا تو مولانا چھپ ہو گئے،اور جب تک لڑکا کمرے میں موجود تھا ،مولانا کچھ نہ بولے ،لڑکا کمرے سے نکل گیا تو مولانابولنے لگے ،لڑکا پھر اندر آیا تو مولانا چھپ ہو گئے ،لڑکے کے جانے کے بعد میں نے مولانا سے پو چھا یہ لڑکا کون ہے جس کے کمرے میں پر آپ خاموش ہو جاتے ہیں تو مولانا نے کہا یہ میرا بیٹا فضل الرحمان ہے جو آج کل ایجنسیوں سے پیسے لیکر ان کے لئے میری مخبری کرتا ۔

(جاری ہے)


مولانا کوثر نیازی اپنے وقت کے ممتاز عالم دین اور مثالی سیاستدان تھے وہ کتاب میں ایسی غلط بیا نی تو نہیں کر سکتے اس لئے ہم مولانا فضل ا لرحمان سے کیا شکوہ کر سکتے ہیں اگر وہ پیسے لیکر اپنے والد کی مخبری کر سکتا تو پاکستان کو کیسے معاف کر سکتا ہے ، آج علامہ اقبال سے ان کی زندگی اور ان کے تحریکِ پاکستان کے کردار سے نفرت کرنے والے مولانا صاحب اقبال ڈے پر کرتار پورہ راہداری کے افتتاح پر تنقید کررہے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ عمران خان اور افواجِ
 پاکستا ن نے بھارتی سرکار کے سینے میں کس سیاسی حکمتِ عملی چھرا مارا ہے ۔

اور حکومت پاکستان اپنے اس دور رس فیصلے سے مستقبل قریب میں کون سا قومی مفاد حاصل کرے گی اگر مولانا فضل الرحمان نے اپنے مارچ اور دھرنے کے شور میں آزای ء کشمیر کی صدا کو دبانے کی کوشش کی ہے تو یہ ان کی اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کی غلط فہمی ہے
مولانا صاحب کے دھرنے سے کچھ بونے سیاستدان شور مچائے ہوئے ہیں کہ دھرنے کے دباؤ سے اپوزیشن کو ر لیف ملی ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں قومی مجرموں کی ضمانت وہ آ ئینہ ہے جس میں قوم جیل میں بیماروں کی بیماری پر سیاست کرنے والوں کے چہرے دنیا کو دکھانا چاہتی ہے میاں صاحب پہلے بھی بیمار تھے لیکن ضمانت پر رہائی کے بعد اپنے شاہی محل سے باہر کسی ہسپتال نہیں گئے تھے بلکہ کچھ دن جاتی امرا میں گزار کر بغیر علاج کے واپس جیل لائے گئے دوبارہ بیمار ہوئے تو مسلم لیگ ن کا خدا پر سے ایمان اٹھ گیا ،شور مثایا کہ اگر جیل میں میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے عدالت جانتی تھی کی میاں صاحب بیمار ہیں لیکن عدالت کو بھی بیماری پر سیاست اچھی نہیں لگی دونوں باپ بیٹی کو علاج کے لئے ضمانت پر رہائی ملی اور دونوں شاہی محل پہنچ گئے گھر میں ہسپتال بن گیا، میاں صا حب بظاہر گھر کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہوں گے مریم صفدر اور مریم اونگ زیب نرسوں کے فرائض سرانجام دیں گی اور احسن اقبال ڈاکٹر کی تجویز کردی داوئیاں بازار سے لایا کریں گے لفافہ پرست ان کی خبریں لکھیں اور سنائیں گیاور قوم لاشوں پر سیاست کرنے والوں کے بے نقاب چہرے دیکھے گی!
اسلام آباد کے دھرنے میں کل کیا ہوگا یہ توخدا جانتا ہے لیکن جو نظر آرہا ہے وہ دھرنے والوں کے لئے کچھ اچھا نظر نہیں آرہا ہے دو بڑی قومی جماعتیں مولانا سے ہاتھ کرگئیں ،آفتاب شیرپاؤ تو نا تین میں ہیں نا تیرہ میں، البتہ ، بھارتی سرکار مود ی کے یار مولانا اور ان کے ساتھ محمود اچکزئی،حاصل بزنجو،اور اسفند یار ولی کے ستارے گردش میں نظر آرہے ہیں ۔

وطن دوست کالم نگار جب قلم اٹھاتا ہے تو اس کے پیشِ نظر صرف پاکستان ہوتا ہے اس کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں لیکن وہ نظریہ پاکستان پر اپنے نظریات قربان کر دیا کرتا ہے ۔وسعت اللہ خان اپنے کالم میں لکھتا ہے
ایک سادھو نے کہا تھا کہ افغان خانہ جنگی میں سمندر پار والوں کی شہہ پر چند سکوں کے بدلے مت کودو۔ یہ تابعداری اور ڈالرانہ ہوشیاری تمھیں عشروں آٹھ آٹھ آنسو رلائے گی۔

مگر سقراطوں نے سادھو کی بات کو بڑبولا پن جانا اور ناقابلِ تلافی اقتصادی، سیاسی، سفارتی اور سماجی قیمت آج تک بیاج سمیت ادا ہو رہی ہے۔پھر سادھو نے کہا دیکھو جتنا کر لیا کافی ہے۔ اب طالبان مت بنانا یہ تمہارے ہی گلے پڑ جائیں گے۔ مگر بقراطوں نے سادھو کو ایک بار پھر جھٹک دیا اور اب پوری دنیا میں ریڑھے پر ستر ہزار لاشیں رکھ کے گاتے پھر رہے ہیں کہ دھشت گردی نے کسے سب سے زیادہ ڈسا ہم سا ہو تو سامنے آئے۔


 سادھو نے کہا کہ اب بھی گر عقل آ جائے کہ ریاست چلانا تمہارے بس کا روگ نہیں تو جیسی کیسی جمہوریت کو چلنے دینا۔ لنگڑاتے لنگڑاتے ایک دن خود ہی اپنے پاوٴں پر کھڑی ہو جائے گی۔ بیچ بیچ میں اڑنگا مت لگانا۔ مگر وہ افلاطون ہی کیا جو سادھو کی بات سن لے۔
لنگڑی جمہوریت کی راہ کھوٹی کرنے کے لیے دھرنے کی لاٹھی متعارف کروا دی گئی۔ دو ہزار تیرہ میں یہ لاٹھی طاہر القادری کے روپ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے سر پر گھمائی گئی۔

دو ہزار چودہ میں عمران خان لاٹھی بن گئے۔ دو ہزار سترہ میں خادم حسین رضوی نے خود کو اندھے کی لاٹھی کی طرح گھمایا۔کوئی حکومت بھی دھرنے کے زور پر فوری طور پر نہیں گری۔ مگر سر پر گومڑے ضرور پڑ گئے اور نقاہت مزید بڑھ گئی اور لال بھجکڑوں نے اس کمزوری کو اپنی طاقت سمجھ لیا۔پر ضروری تو نہیں کہ ہر لاٹھی ہر بار استعمال کے بعد سرکاری مال خانے میں اگلی مہم تک کے لیے جمع ہو جائے اور اسے صرف لائسنس یافتہ لٹیتھ ہی استعمال کرنے کے مجاز ہوں۔

جب ایک بار راستہ متعارف ہو گیا تو پھر تو کوئی بھی اپنی لاٹھی گھماتے ہوئے چل کے آ سکتا ہے۔ آج یہی ہو رہا ہے۔مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جو دھرنائی لٹھ بردار نسخہ کنٹرولڈ کھلاڑیوں کے ذریعے استعمال کرنے کے لیے بنایا گیا وہی نسخہ کسی نے گولڈ میڈلسٹ حکیم فضل الرحمان کو پکڑا دیا اور اب صورت یوں ہے کہ بقراط، سقراط، افلاطون سر کھجا رہے کہ بوتل سے نکلنے والے مولانا کو کیسے بوتل میں ڈالیں۔
 وسعت اللہ خان کے کالم سے مختصر اقتباس میں سمجھنے کے لئے اپوزیشن،حکومت اور فوج کے حوالے سے بہت کچھ ہے لیکن قوم کے غریب سیاسی مزدو ر اپنی اپنی قیادت کے لئے زندہ باد کے نعروں میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے!!!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :