پورے ملک میں لاڑکانہ الیکشن کی گونج

بدھ 23 اکتوبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

لاڑکانہ میں صوبائی نشست پرنتائج کی گونج پورے ملک میں سنائی دی گئی ۔ حالانکہ 2018ء کے الیکشن میں بھی اس نشست پر پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما نثارکھوڑو کی بیٹی ندا کھوڑو کو معظم عباسی نے شکست دی تھی، لیکن اس مرتبہ ٹائمنگ پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت کے حوالے سے مختلف نوعیت کی ہے۔ چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے خاص طور پر لاڑکانہ میں انتخابی مہم چلائی۔

پی پی پی کے وزراء بھی بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن معظم عباسی اور جے یو آئی ف سندھ کے صدر راشد سومرو نے پیپلز پارٹی کو دن میں تارے دکھائے دیئے۔
لاڑکانہ کا عباسی خاندان، پیپلز پارٹی کے بانی افراد میں شمار ہوتا ہے۔ محترمہ ڈاکٹر اشرف عباسی، ذوالفقار علی بھٹو کی قریبی ساتھی تھیں، شانہ بشانہ قربانیاں دینے میں ان کا ثانی کوئی نہیں وہ محترمہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی قابل بھروسہ ساتھی تھیں۔

(جاری ہے)

لیکن آصف علی زرداری نے اس خاندان کو پیپلز پارٹی سے دور کردیا۔
معظم عباسی ، ڈاکٹر اشرف عباسی کے پوتے اور ان کے بڑے بیٹے منور عباسی کے بیٹے ہیں، ڈاکٹر اشرف عباسی کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر صفدر عباسی اور ان کی بیگم ناہید عباسی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے عتاب کا شکار بھی رہے۔ حالانکہ دونوں محترمہ بینظیر بھٹو کے انتہائی قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے۔


لاڑکانہ کی مقامی سیاست میں وہاں کی شیخ برادری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جبکہ جے یو آئی (ف) نے علامہ راشدسومرو کی قیادت میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔ علامہ راشد سومرو کے والد خالد سومروبھی انتہائی اثرورسوخ کی حامل شخصیت تھی۔ ان کا مدرسہ بہت اہمیت کا حامل ہے جبکہ سومرو سندھ کا قدیمی حکمران خاندان ہونے کے ناطے بااثر خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔


لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی نے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بہت تنقید کاسامنا کیا کیونکہ علامہ راشد سومرو اپنے سیاسی بیانات اور ٹی وی شوز میں یہ بات اٹھاچکے ہیں کہ لاڑکانہ کو ماڈل ضلع بنانے کے لیے جو رقوم مختص کی گئیں وہ کرپشن کی نظر ہوگئی۔ اسی طرح سندھ بھر میں ترقیاتی فنڈز کا استعمال درست طریقے سے نہیں ہوا۔
لاڑکانہ کی سطح پر پیپلز پارٹی مخالف لاڑکانہ اتحاد وجود رکھتا ہے، جس کا بھرپور اظہار الیکشن کے موقع پر ہوا۔

اسی اتحاد میں جی ڈی اے اور تحریک انصاف کی حمایت موجود ہے۔ پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمن کی طرف سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی، شیخ برادری بھی ان سے راضی نہ ہوسکی اور بالاخر الیکشن کے نتائج نے کئی سوالات کو جنم دیا۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اندرون سندھ مشکل سے دوچار کردیا۔ صوبہ سندھ ایک عرصہ سے آصف علی زرداری ، سابق صدر کی ہمیشرہ محترمہ فریال تالپور کی سیاسی بصیرت اور لیاقت کے بل بوتے پر چلایا جارہا ہے۔

وہ خود بھی لاڑکانہ سے انتخاب میں حصہ لے چکی ہیں۔ علامہ راشد سومرو نے بلاول بھٹو زرداری کو بھی بہت ٹف ٹائم دیا تھا۔ اور اب معظم عباسی نے دوسری مرتبہ دیوار سے لگادیا، نثار کھوڑو کے گھر کے قریب پولنگ اسٹیشن سے بھی پی پی پی کو شکست سے دوچار کردیا۔
اس الیکشن کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی تھی ، یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا 18 اکتوبر کا کراچی میں جلسہ وہ اہمیت حاصل نہ کرسکا جس کی ان کو توقع تھی۔

سانحہ کارساز کی 12ویں برسی تھی۔ اسی سانحہ میں اپنی جان کے نذرانے پیش کرنے والے پی پی پی کے کارکنوں کی کس حد تک داد رسی ہوئی ہے، یہ ایک الگ داستان ہے۔ کئی کارکنوں کے بہت زیادہ تحفظات ہیں۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے موقع غنیمت جانتے ہوئے معظم عباسی کو وزیراعظم عمران خان سے ملوانے کے لیے کراچی مدعو کرلیا۔ وزیر اعظم سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے )کے وفد نے بھی ملاقات کی ہے ۔

وفد میں سینیٹر مظفر حسین شاہ، ممبر قومی اسمبلی غوث بخش مہر، ممبران سندھ صوبائی اسمبلی سائرہ بانو، علی نواز شاہ، عبدالرزاق، علی غلام، علی گوہر خان مہر، عارف مصطفی جتوئی، حسنین علی مرزا، محمد رفیق، محمد راشد شاہ، محمد شہریار خان مہر، نند کمار گوکھانی، نصرت سحر عباسی، شمس الدین، وریام فقیر اور نو منتخب ممبر سندھ اسمبلی معظم عباسی شامل تھے ۔

ملاقات میں گورنر سندھ عمران اسماعیل ، وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی، وزیر منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار، وزیر بحری امور سید علی زیدی، وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا، معاون خصوصی ندیم بابر اور ممبر قومی اسمبلی اسد عمر بھی موجود تھے ۔جی ڈی اے کے وفد نے اپنے حلقوں میں درپیش مسائل سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ وزیر اعظم نے وفد کو یقین دہانی کرائی کہ”احساس“ اور”صحت انصاف“ پروگرامز کو اندرون سندھ تک وسعت دی جائے گی۔


وزیراعظم عمران خان ایک سال کے دوران چوتھی مرتبہ کراچی تشریف لائے ہیں۔ لیکن کراچی کے مسائل جوں کے توں نہیں بلکہ پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ وفاق کی مدد سے چلنے والے منصوبے ایک طرح سے ٹھپ پڑے ہیں۔ صاف پانی کا K4 منصوبہ، ٹرانسپورٹ کے منصوبے، کچرا کنڈی کی صفائی الغرض کراچی کی گاڑی ابھی تک اسٹیشن سے چل نہیں پائی۔
پیپلزپارٹی ماضی میں شکوہ کرتی رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کراچی آتے ہیں مگر وزیراعلی مراد علی شاہ کو ملاقات کیلئے نہیں بلاتے،پی پی کے ترجمان مرتضی وہاب نے کہا کہ وزیراعظم اس لیئے ملنا نہیں چاہتے کہ وہ جانتے ہیں کہ سید مراد علی شاہ سندھ کا مقدمہ پیش کریں گے، جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔

جس پر پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی نے کہاکہ اگر مراد علی شاہ کو بلایا اور مراد علی شاہ نہیں آئے تو وزیراعظم کی بے عزتی ہوگی۔ مشیر کے جواب پر فردوس شمیم نے کہاکہ وزیراعلی کو ملنا ہے تو خط لکھیں، جس پر مرتضی وہاب نے کہا کہ لگتا ہے کہ وزیراعظم وزیراعلی کے سوالوں کا جواب دینے سے کترا رہے ہیں۔
وزیراعظم سے ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی کی سربراہی میں ایم کیوایم پاکستان کے وفد نے بھی ،ملاقات کی اورفواد چوہدری کے بیان پر تحفظات وزیراعظم کے سامنے رکھ دئیے اور پارٹی دفاترکی واپسی، لاپتہ کارکنان کی بازیابی کا مطالبہ دہرایاہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جس بنیاد پر اس حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی ان مسائل پر بات ہوئی ہے۔وفد نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ بلدیاتی اداروں کو براہ راست فنڈز کی فراہمی پر سے ریڈ ٹیپ کا خاتمہ کیا جائے ۔ وزیراعظم عمران خان نے وفد کو یقین دلایا کہ صوبہ سندھ کے معاشی حالات کرپشن کی وجہ سے ابتر ہوئے ہیں ۔کراچی کے مسائل کو حل کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن عوامی فلاح و بہبودکو مد نظر رکھتے ہوئے وفاق اپنے وسائل کے مطابق شہرکے مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

وزیر اعظم نے وفاقی وزرا کو ہدایت کی کہ وہ کراچی کے ممبران اسمبلی سے رابطے مزید بڑھائیں۔ جبکہ میئر کراچی نے بلدیاتی اختیارات، آرٹیکل 140 اے کے اطلاق کا مطالبہ کیا اور کہا کراچی اور حیدرآباد کے لیے ترقیاتی پیکج جلد جاری کیا جائے۔
تاجر اتحاد تنظیمیں 29 اور30 اکتوبر کو ہڑتال کے لیے پرتول رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ جے یو آئی ف کا 31 اکتوبر کا احتجاج اور مارچ بھی اژدھا بن کے حکومت کو ڈرا رہا ہے۔


اس تمام صورتحال کا ملک کی اقتصادی صورتحال پر برااثر پڑرہا ہے۔ صوبہ سندھ کے مسائل اپنی جگہ لیکن شہر کراچی اس وقت سب کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں
وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی کو مکمل صاف کرنے کا اعلان کیا تھا، چندہ جمع کیا اور پھر منظر سے غائب ہوگئے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم بھی ایسی کوشش کرچکی تھی۔ پھر میئر کراچی وسیم اختر میدان میں اترے اور اچانک واپس چل دیئے۔

سندھ حکومت نے ایک ماہ میں سب کچھ اچھا کرنے کا نعرہ لگایا، ابھی تازہ اطلاعات کے مطابق ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے شہر صاف کرنے کی کوشش بھی رائیگاں چلی گئی ہیں، کروڑوں روپے کے فنڈز بھی ختم ہوگئے ہیں لیکن 25 فیصد صفائی بھی ممکن نہیں ہوئی۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کراچی کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کے لیے کیا یہ سیاسی پارٹیاں مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔

میرا خیال ہے کہ مکمل ناکامی سے پہلے سید مصطفی کمال کو ایک مرتبہ آزمالینے میں کوئی ہرج نہیں۔ جو ذمہ داری اسے میئر کراچی نے انجانے میں دی تھی، اسے تینوں پارٹیاں مل کر باہوش و حواس دے دیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی کارکردگی کی لاج رکھتے ہوئے کوئی نیا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہوجائیں۔
سندھ حکومت، سندھ پولیس سے بھی نالاں ہے، آئی جی سندھ سید کلیم امام بھی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو کھٹکتے ہیں۔

لیکن اسٹریٹ کرائمز کے اضافے نے عوام کو بے حد پریشان کررکھا ہے۔
ڈی جی رینجرز میجر جنرل عمر بخاری نے چہلم امام حسین علیہ السلام پر سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا اور اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لیے نئے عزم کا اظہار کیا۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے عوام کے لیے کوئی ریلیف لانے کا باعث بنتے ہیں یا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :