پی ڈیم ایم کے اجزائے ترکیبی اور حکومت۔۔

بدھ 30 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

یہ مسلم لیگ ن ھے جس کی قیادت آج کل مریم نواز شریف کے پاس ہے، مگر صدر شہباز شریف صاحب برائے نام ہیں، فیصلے اور فاصلے ادھر ہی ہو رہے ہیں مریم نواز جب وزیراعظم ھاؤس میں تھیں تو سوشل میڈیا اور  ذرائع ابلاغ کو جناب عرفان صدیقی، اور دیگر "دانشوروں" کی مدد سے بھاری لفظوں اور کمزور سوچ سے ہدایات دیتی تھیں ، میاں صاحب کے لیے "سفید جھوٹ" کی پیلی پرچیاں تیار ھوتیں، بیانیے گھڑے جاتے اور اداروں کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کی "شریفانہ" کوشش کی جاتی، مریم نواز نے میاں صاحب کے گرد  نئے "طلالوں اور زبیروں کا" ایسا ریوڑ جمع کر دیا کہ جی حضور کے آوازوں سے بڑے بڑے ماہر سیاسی رہنما دنگ رہ گئے،  ایک وقت تھا جب کلثوم نواز مرحوم تحریک کی صورت میں نکلیں تھیں ، جاوید ہاشمی صاحب جیسے مدبر ان کے ساتھ تھے، محترمہ میں کریزما  تھا، درد تھا سیاسی پختگی نظر آتی تھی،  وہ خوب لڑیں، جس سے  مشرف صاحب پریشان ہو گئے تھےاور میاں صاحب  جناب صدر مملکت رفیق تارڑ صاحب کے مبارک دستخطوں سے، سرور پیلس جدہ روانہ ہوگئے محترمہ کلثوم نواز کی محنت رائیگاں گئی یا اس کا فایدہ 2008ء میں اٹھایا گیا البتہ ان کے راہ راست جاوید ہاشمی صاحب کو اتنا دور پھینک دیا گیا کہ وہ تین سال میاں صاحب کو ملنے کے لیے ترستے رہے، یہ وہی ڈر تھا جو اندر سے کمزور، بادشاہانہ اور آمرانہ سوچ رکھنے والے لوگوں میں ہوتا ہے کہ کہیں کوئی دوسرا لیڈر نہ بن جائے، مریم نواز کو بھی وزیراعظم ھاؤس میں چوھدری نثار، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر سیاستدانوں سے خطرہ تھا کہ بادشاہی چھن  جائے گی، اسی خوف اور خواہش نے ان سے ایسے ایسے کام سر زد کروائے جو میاں نواز شریف کے لیے مشکلیں کھڑی کرتے رہے، ڈان لیکس ہوں یا اس جیسے کئی واقعات مریم نواز کے مرہون منت ہیں، ایک خدائی قہر یا مکافات عمل ، جس کو ممنون حسین "خدا کی پکڑ" قرار دیتے تھے، پانامہ کی صورت میں  نازل ہوا  اس پر عمران خان کی برق رفتاری اور مستقل مزاجی کام کر گئی ، اس مقدمے میں مریم نواز نے ایسے ایسے بیانات، خطوط،  اور خطابات جاری کیے جہاں عدالتیں بھی حیرت میں ڈوب گئیں،  میاں صاحب کو حکومت چھوڑنی پڑی ، وہی دکھ، انتقام اور عمران خان سے بغض مریم نواز کی سیاست کا آغاز ھے، جس کا ہر تیر آتشیں، ہر لفظ زہر آلود اور ہر فیصلہ پستیوں میں دھکیلنے والا ھے،  آج مسلم لیگ ن میں دو بیانیے  ہیں مگر کردار سے عاری نظریات چل پڑے ہیں  محترمہ مریم نواز، بے نظیر بھٹو بننے کے خواب میں ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں ، ایک سال کی خاموشی اور این آر او میں ناکامی انہیں پی ڈی ایم کے فرنٹ پہ لے آئی۔

(جاری ہے)

لاھور جیسے مرکز میں انہیں کافی خفت اٹھانی پڑی، مریم نواز کے اندر عمران خان کا بغض اور انتقام اس قدر بڑھ گیا کہ وہ زرداری صاحب کے آستانوں تک جا پہنچی ہیں، جہاں سے ھو کر وہی تین تیر پھینکے اور  تین ادارے ھدف تنقید رہے جن میں فوج، عدلیہ اور حکومت کو  برا بھلا کہا، ٹریک ٹو مذاکرات خود ان کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں لیکن مریم نواز پھر بھی نہیں سمجھ پائیں، استعفوں پر بھی مختلف موقف اور عمل مسلم لیگ ن نواز میں موجود ہے، یہی فیصلہ وہ ایک سال پہلے کر لیتں تو کامیابی کے زیادہ امکانات تھے اب استعفوں کے بغیر کام نہیں چلے گا۔

عوام اس لیڈر کے لیے قربانی  دیتے ہیں جو ان کے لیے سوچتا اور کچھ کرتا ہے، ان کا ماضی بہترین گواہ ہوتا ہے کسی نے بھی پرکھنا ھو وہ دیکھ لے گا اچھا ہے تو اچھا ریسپانس ملے گا ورنہ وہی حال ہے کہ "بازی کوئی اور" لے جائے گا۔اب عوام سے جو کچھ کہا جاتا ہے وہ کر کے دکھانا ہوتا ہے ، ماضی کی غلطیوں سے معافی مانگنی ھوتی ھے۔ کیا مریم نواز یا میاں صاحب ایسا کریں گے؟ ا چوک یا چوراہے میں کھڑے ہو کر معافی مانگیں گے؟ دانشور تو کہتے ہیں کہ معافی تو صرف مضبوط آدمی مانگتا ہے، کیا  کوئی مضبوط ہے؟ یہی کردار عمران خان کا مقابلہ کر سکتا ہے، بیانیہ نہیں! میں جتنا عمران خان کو جانتا ہوں وہ کام کرتا ہے جس میں اجتماعی فائدہ ھو اور غلطی ہو جائے تو معافی مانگ لیتا ہے اور  گر کر  پھر کھڑا ہو جاتا ھے، پتہ نہیں یہ اچھا کرتا ہے کہ برا مگر کام کر کے دکھانا اس کی فطرت ہے فیلڈنگ تبدیل کرنا اور کون سا کھلاڑی کہاں کھیلانا ہے یہ اس کا حق ہے، اگر مریم نواز یا پی ڈی ایم ان سے مذاکرات نہیں کرے گا تو کس سے کرے گا؟ جو لیڈر اسرائیل کے ایک غیر معروف ، غیر اہم اخبار کا پیس نکال کر ٹویٹ کرے، اور حکومت پر الزام عائد کرے وہ عوام کی وزیر اعظم بن کر کیا کرے گی؟ محض بیانیے کیا کریں گے؟ ضمنی انتخابات ہوں یا سینٹ الیکشن پیپلز پارٹی الگ سوچ رکھتی ہے، ن لیگ الگ بلکہ ن لیگ کے اندر بھی دو نظریات ہیں ایسے میں حکومت گرانے کا خواب کیسا لگے گا ؟، مولانا فضل الرحمان صاحب کی پارٹی میں تو ایک بڑی بغاوت سامنے اچکی ہے، ان کا موقف بھی صرف حسد پر کھڑا ہے، جس دن عوامی مفاد پر موقف آئے گا تو عوام سوچے گی ابھی تو ایسا نہیں لگتا۔

مذھبی لبادے میں سیاست پہلے ہی عوام پسند نہیں کرتے،اور ہر الیکشن میں حصہ بقدرِ جثہ وصول کرنے والے بھی اسمبلی سے باہر ھو چکے ھیں، پیپلز پارٹی کے اصل فیصلے کرنے والے زرداری صاحب ہیں، گڑھی خدا بخش کے جلسے میں انہوں نے اپنی رونمائی تو کروائی ہیں مگر پس پردہ سنا ہے زرداری صاحب، شہباز شریف اور دیگر لوگوں کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں، سینٹ انتخابات کے بعد لانگ مارچ چلا گیا تو اپوزیشن کی سیاست ٹھنڈی پڑھ جائے گی، پی ڈی ایم اے این پی بھی شامل ہے جو کالا باغ ڈیم اور پختونخوا پر سیاست کرتی تھی دونوں ان کی مرضی کے فیصلے ھو چکے ھیں، اب یہ بھی خاندان کی پارٹی بن کر رہ گئی، یوں تو قد آور شخصیت آفتاب شیرپاؤ، اختر مینگل، ساجد میر، اور دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں مگر بے معنی اس لئے ہیں کہ عوامی قوت اور مدرسہ فورس دیکھنی ہے تو وہ بالترتیب ن لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے پاس ہے، ایک پیپلز پارٹی بڑے فائدے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے، الیکشن کے بائیکاٹ کا خمیازہ وہ پہلے بھگت چکی ہے، اس لئے اب غلطی کبھی نہیں کرے گی، مولانا فضل الرحمان کو بغاوت، نیب اور سیاسی شکت کا سامنا ھے، عوام کے لیے پی ڈی ایم میں سوائے مہنگائی کے ایشو کے علاؤہ کچھ آئے گا نہیں معاشی بہتری آرہی ہے، عالمی تجارت کے معاہدے ھو رہے ہیں اس لئے 2021ء اچھا گزرنے کی امید ہے، اور پی ڈی ایم کے غلط بیانیے نے حکومت کو اور مضبوط کر دیا ہے، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے کچھ تو بدلا ھے۔

حکومت کو مہنگائی اور باہمی اتحاد کو جوڑ کر رکھنا ھو گا، تحریکوں میں خون اور لاشیں سب ڈھونڈتے ہیں اس تصور کو ختم ہونا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :