انسانوں کا پیدا کردہ بحران۔۔۔۔شدید خطرہ

منگل 16 مارچ 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

حالات کی سنگینی کا کسی کو احساس تک نہیں، ھم کہاں جا رہے ہیں، انجام کیا ہوگا؟ سب بے خبر سیاست اور منافرت کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، پاکستان کے سابق حکمرانوں نے اس طرف نہ سوچا اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کی، سب کچھ سیاست کی نذر ہو گیا، جمہوریت ہو یا آمریت پاکستان کے مستقبل کی کسی نے فکر نہیں کی،
حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ پانی کی شدید قلت ،  پاکستان کا دنیا میں تیسرا نمبر ھے،  آئی ایم ایف، اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2025ء تک یہ قلت اتنی شدید ہو جائے گی کہ قحط سالی سے انسانوں کی زندگیاں تباہ ھو جائیں گی،  اور 2030ء تک تو تباہی کا منظر دیکھنے کے قابل نہیں ہو گا، وجوہات اور اسباب صرف انسان ہیں اور ان کی وجہ سے چرند پرند، جانور اور انسان سب خطرے میں ہیں، پاکستان میں پانی محفوظ کرنے کے دو ہی بڑے ذخیرے ہیں جن میں ایک تربیلا اور دوسرا منگلا ڈیم ھے، کالا باغ ڈیم تو سالہا سال کی منافرت، تعصب اور سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا،  
    پاکستان میں بڑھتی ہوئی ابادی، ماحولیاتی تبدیلیوں اور ناقص منصوبہ بندی سے حالات روز بروز سنگینی کی طرف بڑھ رہے ہیں، حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہیں، بھارت آبی جارحیت کے ذریعے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں اڑا چکا ہے، 2007ء تک بھارت دریائے سندھ سے کارگل کے مقام پر کئی سرنگیں نکال کر پانی اپنی طرف موڑ چکا ہے، جہلم پر کئی ڈیم بنا دئیے، چناب سوکھ کر مٹی بن چکا ہے، نہری نظام اور پانی کی تقسیم کا عمل بوسیدہ ہو چکا، پانی کی کمی کی وجہ سے پیداواری صلاحیت ختم ہو رہی ہے، بائیس کروڑ کی ابادی میں سے آٹھ کروڑ سے زیادہ ایسے لوگ ہی  جو سرے سے پانی سے محروم ہیں، پاکستان میں ہر سال بیس ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ھے، اسے محفوظ کرنے کا کوئی ذخیرہ نہیں ہے، پاکستان کو دریاؤں اور بارشوں سے سالانہ تقریباً 115 ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوتا ہے، اس پانی کا 93 فیصد زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے،   بوسیدہ نظام کی وجہ سے ترسیل کے دوران 70 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ھے، 90 فیصد علاقوں کا زیر زمین پانی استعمال کے قابل نہیں ، جنوبی پنجاب اور بارانی علاقوں میں صرف 10 فیصد زیر زمین پانی رہ گیا ھے، کراچی کی آدھی سے زیادہ ابادی پانی سے محروم ھے، اسی طرح باقی بڑے شہر  وں اور گنجان علاقے کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے،
  ماحولیاتی الودگی میں لاھور کا دنیا میں پہلا نمبر، پھر کراچی، راولپنڈی اور فیصل آباد ہیں اس پر بھی احساس جاگتا ہے اور نہ کوئی تحریک بیدار ہوتی ہے ، موجودہ حکومت سے پہلے نہ کسی نے درخت لگانے کا سوچا اور نہ ماحولیاتی الودگی ختم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی ہوئی، آج صورتحال سنگین تر ہو چکی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں نے تمام فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا ھوا ھے، گلیشیر پگھلنے کی صورتحال بھی خطرناک ھو چکی ھے، نہ پانی محفوظ کرنے کے ذخائر ہیں اور نہ ہی کسی حلقے میں سنجیدگی دکھائی دیتی ہے، بھاشا ڈیم کی تعمیر پر 2030ء تک قلت میں 33 فیصد کمی لانے کی باتیں ہوئی تھیں مگر صرف سپریم کورٹ کے نوٹس اور موجودہ حکومت نے پہلی دفعہ 14 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کا دیا میر بھاشا ڈیم کا باقاعدہ آغاز کیا ہے دوسری طرف درخت لگانے کا۔

(جاری ہے)

ایک بڑا ٹارگٹ رکھا گیا ہے، جس سے کسی بہتری کی توقع ہے مگر فی الوقت پانی کی شدید قلت اور مستقبل قریب میں" پاک سر زمین" خشک ھونے کا اندیشہ ہے،عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف تیس دن تک استعمال کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کا انتظام ہے، انڈیا کے پاس 200 دن تک، اور مصر کے پاس 1000 دن تک پانی محفوظ کرنے کا انتظام ھے، دیکھا جائے تو یہ بحران انسانوں کا ہی پیدا کردہ ہے، سب سے بڑا سبب ابادی کا تیز رفتار بڑھنا ھے، انسان، انسان کے جنگل میں کئی کھو گیا ہے، دوسرا انفرادی اور اجتماعی سطح پر آلودگی پھیلانا ہے جس کا ہمیں بالکل احساس نہیں ہے، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا  ہے، سب اداروں کو معلوم ہے، پھر سستی ، اور بڑی کوتاہی ہے
 آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی، پانی سے زرعی پیداوار، سستی بجلی، اور سب سے بڑھ کر انسانی زندگی کی بقا جڑی ہے، حکومتیں بڑے ذخائر نہیں بناسکتیں تو چھوٹے ڈیمز، اور ماحولیاتی الودگی کے خاتمے کے لیے تو اقدامات کر سکتی ھے، بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس منعقدہ فرانس میں میاں نواز شریف چند لکھی ہوئی چٹیں پڑھ کر آ گئے تھے، امریکہ صدر ٹرمپ نے معاہدے سے منہ پھیر لیا تھا، تاہم نئی  حکومت نے دوبارہ امریکہ کو عالمی ماحولیاتی معاہدوں کا حصہ بنا دیا، پاکستان میں عمران خان نے ماحول کے تحفظ کے لیے بڑا قدم اٹھایا، دنیا ان کی تعریف کر رہی ہے مگر یہاں درخت لگانے، ماحول کو صاف رکھنے اور مستقبل کا کسی کو یقین نہیں۔

اور نہ اس طرف سوچا جا رہا ہے، ایک سماجی تحرک ضروری ہے، دنیا پانی پر عالمی جنگوں کے خطرات دیکھ رہی ہے، ھم پوری قوم سوئے ہوئے ہیں، حکومت، عوام اور اداروں کو جاگنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :