
آزادی سے آزادی مارچ تک
جمعرات 7 نومبر 2019

ریحان محمد
72 سال پہلے انگریز سامراج سے آزادی اور دو قومی نظریہ کے تحت ہندووں سے مذہب رہین سہن رسم و رواج عقاید کے مختلف ہونے کی بنا پر علیحدگی اختیار کی تھی۔اور اپنے لیے علیحدہ آزادانہ جداگانہ تشخص کے لیے وطن بڑی تگ و دو سے حاصل کیآ۔ جس میں ہم سب برابر ہوں گے برابر کے حقوق حاصل ہونگے۔ نہ سندھی نہ بلوچی نہ پنجانی نہ پٹھان بلکہ سب پاکستانی ہوں گے۔مذہب عقائد کے نام پر آزاد کراے گے ملک میں ایک بیانیہ پاکستان سیکولر ریاست کا بھی ہے۔اور آج تک ہم طہ نہیں کر سکے پاکستان مذہبی ریاست ہے یا سیکولر ریاست ہے۔ انگریزوں اور ہندووں سے آزاردی لینے کے بعد اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں سے آزادی کے لیے ان کے خلاف آزادی مارچ کی مہم وقتاً فووقتاً جاری رہتی ہے۔
اس غلامی سے عوام کو آزاد کرانے کے لیے وطن عزیز میں جس پارٹی کی بھی حکومت آے اپوزیشن سب سے پہلے دھاندلی زدہ حکومت کا واویلہ کرے گی۔پھر کسی دشمن ملک کا ایجنٹ کہے گی۔ اور غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کا الزام لگاے گی۔ملک اور قوم کو غلام بنانے کی سازش کا الزام لگاے گی ۔اپوزیشن عوام کو سبز باغ دیکھا کر اپنے ساتھ ملا کر حکومت کو گرانے میں متحرک ہو گی۔اس وقت عوام کی اکثریت اپوزیشن کو نجات دہندہ سمجھ رہی ہوتی ہے۔اس کو اپنا مسیحا قرار دیتی ہے ۔غلام بننے سےبچنے پر آزادی کا محافظ سمجھتی ہے ۔پھر جیسے ہی حکومت کے خاتمے کے بعد حسب اختلاف اقتدار میں آتی ہے وہ بھی دشمن ملک کے ایجنڈے کی جماعت بن جاتی ہے۔اورغدار وطن کا ٹائٹل سج جاتا ہے۔کل کا مسیحا آج کا ناسور بن جاتا ہے۔اور پھر کل کی قاتل غدار چور حکمران جماعت حسب اختلاف میں آ کر قوم کی مسیحا نجات دہندہ بن جاے گی۔اس آزادی اورغلامی کے کھیل میں عوام اور سیاسی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔72 سال گذرنے کے بعد بھی آزادی اور غلامی کے جال سے نہیں نکلے۔ہماری حکومتوں میں صرف علی بابا بدلتا ہے چالیس چور ہمیشہ حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔اور آزادی کی تحریکیں مارچ ہمیشہ علی بابا کے خلاف سر گرم ہوتی ہیں۔
ایوب خان کے خلاف تحریک ہو
1977 کی تحریک زولفقار علی بھٹو کے خلاف
جنرل ضیا کا اسلامی نظام کا نعرہ اور سیاست دانوں کو کوڑے مارے سیاسی انتقام کا نشانہ
1992 کا پیپلز پارٹی کا مارچ نواز شریف کے خلاف
1995 کا جماعت اسلامی کا مارچ بینظیر بھٹو کے خلاف
1999 کا مشرف کا ملک گیر احتساب کا نعرہ نواز شریف کا احتساب
2013 کا پاکستان عوامی تحریک کا نظام بدلو کا دھرنا
2014 کا پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا انصاف اور حکومت گراو دھرنا کون بھول سکتا ہے۔جس میں خان صاحب نے عوام کو سول نافرمانی پی ٹی وی پہ حملہ کو اکسایہ۔پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی۔غلط زبان استعمال کی۔
ان سب مارچ دھرنوں تحریکوں کا محور عوام کی آزادی خودمختاری تھی۔ان سب انقلابی آزادی مارچ دھرنوں کا ایندھن عوام ہی بنی۔اور عوام کے ھاتھ کچھ بھی نہ آیا الٹا اپنے ھاتھ مذید کٹوا لیے۔
اس وقت وطن عزیز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔یہ وہی تحریک انصاف ہے جس نے ملک اور عوام کو بوسیدہ نظام سے جاگیردرانہ نظام سے سرمایہ کارانہ نظام سے آزاد کرانے کے لیے بائیس سال جدوجہد کی ہے۔آج حکومت میں آنے کے بعد یہ بھی اسی راستے پر چل رہی ہیں ان کی بھی وہی روش ہے پچھلی جتنی بھی حکمران جماعتیں آئیں ہیں۔عوام کے مفاد کے لیے ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے کوی قابل زکر اقدامات نہیں کر سکی ہے۔عوام کوریاست مدینہ کا ٹکٹ دیکھا۔کر کوفے کا ٹکٹ دے دیا ہے۔عوام غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل میں مزید دھنس گے ہیں۔اوپر سے لے کر نیچے ہر ادارہ پوری معیشت تباھی کا شکار ہے ۔ مقافات عمل کہے یا قانون قدرت یا اتفاق کہے جو کچھ تحریک انصاف گزشتہ حکومتوں کے خلاف کرتی رہی ہے اب وہ خود اسی عمل سے گزر رہی ہے۔جو بیجا آج کاٹ رہی ہے۔
آج کل جمعیت علما اسلام اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کا مل کر مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ حکومت کے خلاف پورے زور و شور سے جاری ہے۔طریقہ وہی پرانا مقصد وہی پرانا عوام کی آزادی۔ملک کی خودمختاری ۔آزادی مارچ کا ایجنڈا کہے یا اصولی فیصلہ دھاندلی زدہ حکومت اور سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان کا استعفی اور ملک میں نیے شفاف انتخابات کا فوری اعلان کیا جاے۔اپنے دھواں دار روایتی خطاب تقریروں میں وزیراعظم کو غیر ملکی ایجنٹ یہودی اور قادیانی قرار دیا یے۔ملک و قوم کی آزادی کو خطرہ ہے۔سالمیت کو خطرہ ہے۔مقبوضہ کشمیر پرحالیہ انڈین قبضہ کو عمران خان کی حکومت انڈیا اور امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کی مشترکہ کاوش قرار دی جا رہی ہے۔
دوسری طرف حکومتی سطح پر بھی بیان بازی کا سلسلہ بہت افسوس ناک ہے۔وزیراعظم سے لے کر پارٹی کا ہر رکن مولانا کے آزادی مارچ پر طنز تنقید کر رہا ہے اس کا تمسخر ارا رہا ہے۔عمران خان اپنے ہر خطاب ہر تقریر میں مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل اور انڈین ایجنٹ کہتے ہیں۔جمعیت علما اسلام کے رکن حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کر کے پاکستانی شہریت سے بھی خارج کر دیا۔اور ان کو افغانی شہری اور دہشت گرد تنظیم کا ساتھی قرار دیا۔نادرا کے ریکارڈ سے پتہ چلتا یے حافظ صاحب کے والد صوبہ بلوچستان کے شہر میں سکول ٹیچر تھے۔حافظ صاحب کا بیٹا پاک فوج میں یے۔سول سوسائٹی اور دیگر ملک کے معتبر لوگوں کی گواہی اداروں کی کلیرنس سے پاکستانی شہریت بحال ہوگی ۔اسی طرح جماعت کے ایک اور سنیر رکن کو بغیر کسی ٹھوس ثابوت کے آزادی مارچ سے پہلے گرفتار کیا۔بعد ازاں کسی دباو کے تحت چھور بھی دیا۔اس سارے طریقہ کار سے یہ تاثر مل رہا ہے حکومت وقت اقتدار کےنشہ میں بہت غرور اور تکبر میں ہے۔اپنے سوا سب غدار وطن ہیں۔
حکومت تکبر اور غرور میں ہے کہ اپوزیشن کی سب جماعتیں مل کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے اتحاد کی باہمی یک جہتی کی طاقت کا یقین کہ حکومت کا استعفی کوی مسلہ نہیں ہے۔چشم نظر یہی کہہ رہی ہے کہ ایک نے اپنے غرور و تکبر سے اور دوسرے نے اپنی خوش فہمی سے مارے جانا ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ 72 سال گزارنے کے بعد بھی اپنے محب وطن ہونے اپنی وفاداری کا سرٹیفیکیٹ دینا پڑ رہا ہے۔اور سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر بغیر کسی شواہد کے غیر مذہب ہونے کے غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔دائرہ اسلام سے خارج کر رہے ہیں۔قوم کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔یہ تو پہلے ہی بھٹکی ہوی بے سمت قوم ہے ۔جسے آج تک اپنی منزل کا ہی نہیں پتہ۔نہ اسے آزادی کی پہچان رہی ہے اور نہ غلامی کی۔آزادی تھوری سے بھی ملتی ہے تو اس کا غلط استعمال کرے گی۔غلامی کا طوق تو ہر وقت گلے میں سجانے کو تیار ہے۔ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ہاے صد افسوس ہماری سوچ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں پر خود تبدیل ہونا نہیں چاہتے۔سیاست دانوں کے ذاتی مقاصد کے چنگل سے آزاد ہونا پڑے گا۔ہمیں کسی مسیحا کے بغیر اپنے نظام کو خود بدلنا ہو گا ۔اپنے لیے خود ہی مسیحا بننا ہو گا۔کسی کے انتظار کے بجاے خود آگے بڑھنا ہو گا۔ہم نے یہ بات خود تلاش کرنی ہے ہمیں بار بار آزادی سے غلامی میں کون دکھیلتا ہے بار بار آزادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ہمیں یہ بھی طہ کرنا ہے ہمیں کسی دھرنے تحریک آزادی مارچ کا حصہ نہیں بننا۔اور نہ ہی کسی تحریک آزادی مارچ کی ضرورت ہے ۔ہمیں اپنی آزادی خود حاصل کرنی ہے ۔آپنے آپ کو خود آزاد کرانا ہے۔اس نظام کو آزاد کرانا ہے ,۔آزاد پاکستان ہمارا خواب نہیں ہماری تعبیر ہونی چاہیے۔ہم آزاد ہیں کا بلندو بانگ نعرہ لگا سکیں۔
(جاری ہے)
ہم سب کسی نہ کسی حثیت سے آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کبھی یہ غلامی IMF,اور ورلڈ بنک کے قرضوں کی صورت میں ہے۔اور کبھی ملکی سیاسی حالات، دہشت گردی، خانہ جنگی، انتہا پسندی ،سرحدوں پر جنگی محاز ،کشیدگی، جنگیں، در اندازی اور قدرتی آفات ،وغیرہ شامل ہیں ۔وطن عزیز میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لاکھوں کا مقروض ہے۔قرضوں کے بوجھ نے ہماری کمر چورا چورا کر دی ہے۔یہ وہ اسباب ہیں جن کے دباو ڈر خوف اور غیر یقینی صورت حال نے قوم کی آزادی چھین لی ہے اس کی جگہ ڈر اور خوف نے لے لی ہے۔آزاد ہوتے ہوےبھی آزاد نہیں ۔اس پہ ستم یہ ہمیں حکمران بھی ایسے ملے جنھوں نے قوم کو معاشی لحاظ کے ساتھ زہنی طور پر بھی غلام بناے رکھا ہے۔اس غلامی سے عوام کو آزاد کرانے کے لیے وطن عزیز میں جس پارٹی کی بھی حکومت آے اپوزیشن سب سے پہلے دھاندلی زدہ حکومت کا واویلہ کرے گی۔پھر کسی دشمن ملک کا ایجنٹ کہے گی۔ اور غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کا الزام لگاے گی۔ملک اور قوم کو غلام بنانے کی سازش کا الزام لگاے گی ۔اپوزیشن عوام کو سبز باغ دیکھا کر اپنے ساتھ ملا کر حکومت کو گرانے میں متحرک ہو گی۔اس وقت عوام کی اکثریت اپوزیشن کو نجات دہندہ سمجھ رہی ہوتی ہے۔اس کو اپنا مسیحا قرار دیتی ہے ۔غلام بننے سےبچنے پر آزادی کا محافظ سمجھتی ہے ۔پھر جیسے ہی حکومت کے خاتمے کے بعد حسب اختلاف اقتدار میں آتی ہے وہ بھی دشمن ملک کے ایجنڈے کی جماعت بن جاتی ہے۔اورغدار وطن کا ٹائٹل سج جاتا ہے۔کل کا مسیحا آج کا ناسور بن جاتا ہے۔اور پھر کل کی قاتل غدار چور حکمران جماعت حسب اختلاف میں آ کر قوم کی مسیحا نجات دہندہ بن جاے گی۔اس آزادی اورغلامی کے کھیل میں عوام اور سیاسی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔72 سال گذرنے کے بعد بھی آزادی اور غلامی کے جال سے نہیں نکلے۔ہماری حکومتوں میں صرف علی بابا بدلتا ہے چالیس چور ہمیشہ حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔اور آزادی کی تحریکیں مارچ ہمیشہ علی بابا کے خلاف سر گرم ہوتی ہیں۔
ایوب خان کے خلاف تحریک ہو
1977 کی تحریک زولفقار علی بھٹو کے خلاف
جنرل ضیا کا اسلامی نظام کا نعرہ اور سیاست دانوں کو کوڑے مارے سیاسی انتقام کا نشانہ
1992 کا پیپلز پارٹی کا مارچ نواز شریف کے خلاف
1995 کا جماعت اسلامی کا مارچ بینظیر بھٹو کے خلاف
1999 کا مشرف کا ملک گیر احتساب کا نعرہ نواز شریف کا احتساب
2013 کا پاکستان عوامی تحریک کا نظام بدلو کا دھرنا
2014 کا پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا انصاف اور حکومت گراو دھرنا کون بھول سکتا ہے۔جس میں خان صاحب نے عوام کو سول نافرمانی پی ٹی وی پہ حملہ کو اکسایہ۔پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی۔غلط زبان استعمال کی۔
ان سب مارچ دھرنوں تحریکوں کا محور عوام کی آزادی خودمختاری تھی۔ان سب انقلابی آزادی مارچ دھرنوں کا ایندھن عوام ہی بنی۔اور عوام کے ھاتھ کچھ بھی نہ آیا الٹا اپنے ھاتھ مذید کٹوا لیے۔
اس وقت وطن عزیز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔یہ وہی تحریک انصاف ہے جس نے ملک اور عوام کو بوسیدہ نظام سے جاگیردرانہ نظام سے سرمایہ کارانہ نظام سے آزاد کرانے کے لیے بائیس سال جدوجہد کی ہے۔آج حکومت میں آنے کے بعد یہ بھی اسی راستے پر چل رہی ہیں ان کی بھی وہی روش ہے پچھلی جتنی بھی حکمران جماعتیں آئیں ہیں۔عوام کے مفاد کے لیے ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے کوی قابل زکر اقدامات نہیں کر سکی ہے۔عوام کوریاست مدینہ کا ٹکٹ دیکھا۔کر کوفے کا ٹکٹ دے دیا ہے۔عوام غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل میں مزید دھنس گے ہیں۔اوپر سے لے کر نیچے ہر ادارہ پوری معیشت تباھی کا شکار ہے ۔ مقافات عمل کہے یا قانون قدرت یا اتفاق کہے جو کچھ تحریک انصاف گزشتہ حکومتوں کے خلاف کرتی رہی ہے اب وہ خود اسی عمل سے گزر رہی ہے۔جو بیجا آج کاٹ رہی ہے۔
آج کل جمعیت علما اسلام اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کا مل کر مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ حکومت کے خلاف پورے زور و شور سے جاری ہے۔طریقہ وہی پرانا مقصد وہی پرانا عوام کی آزادی۔ملک کی خودمختاری ۔آزادی مارچ کا ایجنڈا کہے یا اصولی فیصلہ دھاندلی زدہ حکومت اور سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان کا استعفی اور ملک میں نیے شفاف انتخابات کا فوری اعلان کیا جاے۔اپنے دھواں دار روایتی خطاب تقریروں میں وزیراعظم کو غیر ملکی ایجنٹ یہودی اور قادیانی قرار دیا یے۔ملک و قوم کی آزادی کو خطرہ ہے۔سالمیت کو خطرہ ہے۔مقبوضہ کشمیر پرحالیہ انڈین قبضہ کو عمران خان کی حکومت انڈیا اور امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کی مشترکہ کاوش قرار دی جا رہی ہے۔
دوسری طرف حکومتی سطح پر بھی بیان بازی کا سلسلہ بہت افسوس ناک ہے۔وزیراعظم سے لے کر پارٹی کا ہر رکن مولانا کے آزادی مارچ پر طنز تنقید کر رہا ہے اس کا تمسخر ارا رہا ہے۔عمران خان اپنے ہر خطاب ہر تقریر میں مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل اور انڈین ایجنٹ کہتے ہیں۔جمعیت علما اسلام کے رکن حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کر کے پاکستانی شہریت سے بھی خارج کر دیا۔اور ان کو افغانی شہری اور دہشت گرد تنظیم کا ساتھی قرار دیا۔نادرا کے ریکارڈ سے پتہ چلتا یے حافظ صاحب کے والد صوبہ بلوچستان کے شہر میں سکول ٹیچر تھے۔حافظ صاحب کا بیٹا پاک فوج میں یے۔سول سوسائٹی اور دیگر ملک کے معتبر لوگوں کی گواہی اداروں کی کلیرنس سے پاکستانی شہریت بحال ہوگی ۔اسی طرح جماعت کے ایک اور سنیر رکن کو بغیر کسی ٹھوس ثابوت کے آزادی مارچ سے پہلے گرفتار کیا۔بعد ازاں کسی دباو کے تحت چھور بھی دیا۔اس سارے طریقہ کار سے یہ تاثر مل رہا ہے حکومت وقت اقتدار کےنشہ میں بہت غرور اور تکبر میں ہے۔اپنے سوا سب غدار وطن ہیں۔
حکومت تکبر اور غرور میں ہے کہ اپوزیشن کی سب جماعتیں مل کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے اتحاد کی باہمی یک جہتی کی طاقت کا یقین کہ حکومت کا استعفی کوی مسلہ نہیں ہے۔چشم نظر یہی کہہ رہی ہے کہ ایک نے اپنے غرور و تکبر سے اور دوسرے نے اپنی خوش فہمی سے مارے جانا ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ 72 سال گزارنے کے بعد بھی اپنے محب وطن ہونے اپنی وفاداری کا سرٹیفیکیٹ دینا پڑ رہا ہے۔اور سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر بغیر کسی شواہد کے غیر مذہب ہونے کے غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔دائرہ اسلام سے خارج کر رہے ہیں۔قوم کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔یہ تو پہلے ہی بھٹکی ہوی بے سمت قوم ہے ۔جسے آج تک اپنی منزل کا ہی نہیں پتہ۔نہ اسے آزادی کی پہچان رہی ہے اور نہ غلامی کی۔آزادی تھوری سے بھی ملتی ہے تو اس کا غلط استعمال کرے گی۔غلامی کا طوق تو ہر وقت گلے میں سجانے کو تیار ہے۔ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ہاے صد افسوس ہماری سوچ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں پر خود تبدیل ہونا نہیں چاہتے۔سیاست دانوں کے ذاتی مقاصد کے چنگل سے آزاد ہونا پڑے گا۔ہمیں کسی مسیحا کے بغیر اپنے نظام کو خود بدلنا ہو گا ۔اپنے لیے خود ہی مسیحا بننا ہو گا۔کسی کے انتظار کے بجاے خود آگے بڑھنا ہو گا۔ہم نے یہ بات خود تلاش کرنی ہے ہمیں بار بار آزادی سے غلامی میں کون دکھیلتا ہے بار بار آزادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ہمیں یہ بھی طہ کرنا ہے ہمیں کسی دھرنے تحریک آزادی مارچ کا حصہ نہیں بننا۔اور نہ ہی کسی تحریک آزادی مارچ کی ضرورت ہے ۔ہمیں اپنی آزادی خود حاصل کرنی ہے ۔آپنے آپ کو خود آزاد کرانا ہے۔اس نظام کو آزاد کرانا ہے ,۔آزاد پاکستان ہمارا خواب نہیں ہماری تعبیر ہونی چاہیے۔ہم آزاد ہیں کا بلندو بانگ نعرہ لگا سکیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پاکستانبھارتامریکہحملہدہشت گردمیاں نواز شریفعمران خانمقبوضہ کشمیرپیٹرولبلوچستانپاکستان تحریک انصافوزیراعظمدھرنادنیامولانا فضل الرحمنیہودیفوجبینظیر بھٹوپیپلز پارٹیکھیلجماعت اسلامیجمعیتنادرامسئلہ کشمیرعلماپارلیمنٹسول سوسائٹیپاکستان عوامی تحریکپی ٹی آئی لانگ مارچقاتلچورڈونلڈ ٹرمپکاربنکریکارڈعام انتخابات 2018
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.