کیسا رہا سال 2020؟

جمعرات 31 دسمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

وقت وہ چیز ہے جو گزر جائے تو کبھی واپس نہیں آیا کرتا، ہم میں سے بہت سے لوگ جو  سال 2019 میں زندہ تھے لیکن 2020 میں ہمارے درمیان نہیں تھے،معاشرے میں بہت سی چیزیں جو ہمارے ساتھ موجود تھیں لیکن اب اُن کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں، بہت سے رشتے جو ہمارے ساتھ جڑے ہوئے تھے اب وہ ہم سے کوسوں دور ہیں، بہت سی اشیاء جن کا روزمرہ کی زندگی میں ہمارے ساتھ واسطہ پڑتا تھا اب ہمارے پاس نہیں، یعنی کہ ہر چیز نے آنا ہے اور پھر اُس کے جانے کا وقت بھی مقرر ہے، اِسی طرح ہماری زندگی میں بہت سے سال آئے اور گزرتے گئے، کئی سالوں میں ایسے لمحات بھی آئے جو ہماری زندگیوں کو خوشگوار بنا گئے اور کئی لمحات ہماری زندگیوں میں ایسے بھی آئے جنھوں نے ہماری زندگی کو بدل کر رکھ دیا، یہ وہ نظام ہے جو روزِ اوّل سے چلا آ رہا ہے، آج ایک اور سال کو ہم الوداع کہ چکے ہیں، یہ سال ہماری زندگیوں میں ہر طرح سے بھاری سال رہا، اِس سال میں دنیا مکمل طور پہ بدل گئی لیکن اِسی سال میں کچھ لمحات ایسے بھی آئے ہونگے جنھوں نے ہماری زندگی کو خوشگوار بنایا، ہمارے چہروں پر مسکراہٹیں بکھری ہونگی، اِس طرح اِس سال کا آخری سورج بھی اپنے اندر بہت سی خوشیاں اور غم لیے غروب ہو چکا ہے، سال 2020 میں دنیا کی سیاست میں کئی اُتار چڑھاؤ دیکھے گئے، کرونا وباء نے معمولاتِ زندگی کو بدل کر رکھ دیا، ہمارے سماج میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں، صحت و تعلیم کے میدان میں کئی کامیابیاں بھی ملیں لیکن ناکامیوں کے بھی انبار لگے ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)


تو کیسا رہا 2020 ،آئیے آپ کو سیر کرواتے ہیں ۔
سیاست کا میدان __!
پاکستان کی سیاست کے میدان  2020 میں ایسی بہت سی خبروں سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے پاکستان کی سیاست کے اصول و ضوابط کو یکسر بدل کر رکھ دیا، پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنی بہت سی پرانی روایات کو بھی برقرار رکھا، 2020 کا سال  پاکستان کی سیاست میں بہت سے سالوں کی طرح خوشگوار ثابت نہیں ہوا کیونکہ، نیب کے کیسر، مختلف پارٹیوں کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات ،حکومتی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ، اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور بہت سی کھٹی میٹھی خبریں حسبِ روایت ٹی وی اسکرینوں اور اخبارات کی زینت بنی رہیں،
سال 2020 میں مہنگائی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ رہی ،حکومتی دعووں اور وعدوں کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی دہائی بھی حکومت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہی، مہنگائی سے جہاں پاکستان کا غریب طبقہ بےحد متاثر ہوا وہی کاروباری افراد بھی کافی حد تک متاثر ہوئے کیونکہ اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچنے کی وجہ سے خریداری میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ،حکومت اور اپوزیشن کے بلند وبالا دعووں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے، اپوزیشن کی طرف سے ناجانے کئی بار حکومت گرانے کی تاریخیں دی گئیں تو دوسری طرف حکومت کے ہمنوا اپوزیشن خاص طور پر مسلم لیگ ن میں تقسیم کی باتیں بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ کرتے رہے لیکن نا حکومت رخصت ہوئی اور نہ ہی مسلم لیگ ن سے ش نکل سکی، جب حکومت ن سے ش نکالنے میں ناکام ہوئی تو بلآخر ش کو جیل میں بند کر دیا گیا۔


2020 کے ستمبر کے مہینے میں اپوزیشن کی طرف سے ایک بڑا اتحاد بن کر سامنے آیا جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا، اِس اتحاد میں پاکستان کی گیارہ چھوٹی بڑی جماعتیں موجود تھیں۔اِس اتحاد کے وجود میں آنے کے مقاصد تو کئی تھے لیکن سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ موجودہ حکومت کو کسی طریقے سے گھر بھیجا جائے کیونکہ یہ حکومت کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور جعلی مینڈیٹ سے اقتدار میں آئی ہے، اپوزیشن کے رہنماؤں کی طرف سے کئی بار ڈیڈ لائن دی گئی کہ فلاں تاریخ سے پہلے حکومت کا خاتمہ یقینی ہے لیکن نہ حکومت رخصت ہوئی اور نہ اپوزیشن اتحاد کے دعوے درست ثابت ہوئے، البتہ یہ ضرور ہوا کہ تاریخ پہ تاریخ دینے کی روایت برقرار رہی اور اب نئے سال کے پہلے مہینے کی آخری تاریخ یعنی کہ 31 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ خان صاحب استعفیٰ دے کر گھر جائیں ورنہ عوامی سمندر اسلام آباد کا رُخ کرے گا اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ اپوزیشن اتحاد اور حکومت اور اُس کے ہمنوا اپنے اپنے دعووں میں کہاں تک درست ثابت ہوتے ہیں ،سیاست میں اور بھی کئی اُتار چڑھاؤ دیکھے گئے ۔

سال 2020 میں نیب کے شکنجوں سے کئی مسلم لیگی یا دیگر پارٹیوں کے رہنما آزاد بھی ہوئے اور کچھ کو دھر لیا گیا، خواجہ برادران کئی مہینوں کی جیل کاٹنے کے بعد بلآخر رہا کیے گئے ،اِسی طرح نوازشریف صاحب کئی مہینوں کی خاموشی کے بعد بولے اور وہ باتیں کہ ڈالیں جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کیونکہ نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ کو جس طرح للکارا اِس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی، یہ سب کچھ 2020 میں ہوا یعنی کہ یہ سال سیاسی میدانوں میں بھی ہل چل پیدا کرنے کے ساتھ آج ہم سے رخصت ہو چکا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کا سلسلہ شاید نیے سال بھی برقرار رہے۔


2020 میں پاکستان کی سیاست میں ایک خوشگوار باب کا اضافہ بھی ہوا کہ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے اپنی اپنی پارٹیوں کی قیادت مکمل طور پر سنبھال لی جس کی سب سے بڑی وجہ نوازشریف کا علاج کی غرض سے لندن میں طویل قیام ، شہبازشریف ،آصف علی زرداری پر نیب کے مقدمات اور طبیعت ناسازی کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں ملتوی کرنا،
اگر سب حقائق کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سال2020میں مریم نواز اور بلاول بھٹو کی سیاسی اننگز بلندیوں پر گئیں، دونوں نے ملک بھر میں جلسے کیے، ریلیاں نکالیں، گلگت بلتستان کے الیکشن میں اپنی پارٹیوں کی نمائندگی کی، الیکشن کمپین چلائی، اور عوامی سطح پر خود کا ایک مقام بنایا، دونوں کو عوام میں پزیرائی حاصل ہوئی جس کو لے کر پی ڈی ایم اتحاد بنایا گیا اور اِس اتحاد کی چھتری تلے بھی دونوں رہنما اپنی پارٹیوں کی احسن طریقے سے نمائندگی کر رہے ہیں ۔


کورونا کا وار__
سیاست سے ذرا ہٹ کر اُس مسئلے پر بات کرتے ہیں جو 2020 کی سب سے بڑی خبر رہی جس نے پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا، دنیا میں معمولاتِ زندگی کافی حد تک متاثر بھی ہوئے، یہ 2019 کے آخری دنوں کی بات ہے جب دنیا میں آبادی کے تناسب سے سب سے بڑے ملک چین میں کرونا نامی وباء پھیلی، جو 2020 کے شروع میں ہی دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل گئی، پاکستان میں کرونا کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی میں رپورٹ ہوا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ وباء چند ہفتوں میں ہی ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی اور ہر شہر سے کیسز رپورٹ ہونے لگے، تب سے لے کر سال کے آخری دن تک پاکستان میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب اِس وباء سے کسی بھی شخص کا انتقال نہ ہوا ہو، سال 2020 میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اِس وباء کی نظر ہو چکے ہیں، لاکھوں افراد متاثر ہوئے، یعنی کہ یہ سال اِس حوالے سے ہر لحاظ سے بھاری رہا،
مہینوں تک کاروبار بند رہے، تعلیمی ادارے مارچ سے لے کر سال کے آخری دن تک بند رہے، صحت کے میدان میں کئی مسائل کا سامنا رہا، کاروبار اور روزگار بند ہونے سے لاکھوں افراد بےروزگار ہو گئے، پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی اُس میں مزید تباہی دیکھنے میں آئی، اشیاء ضرورت کی قلت کا بھی سامنا رہا، آٹے کا بحران، ادویات کا بحران، چینی کا بحران، پٹرول کا بحران، 2020 میں اِن بحرانوں سے بھی پنجہ آزمائی کی گئی یعنی کہ کرونا وباء کی آڑ میں معمولاتِ زندگی بہت بدل گئی یا کئی مسائل کا سامنا رہا، تعلیمی ادارے بند رہے۔


یہ مارچ 2020کی بات ہے، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس  کی وبا نے کھلبلی مچا دی تھی،گورمنٹ آف پاکستان کے اعلان کے بعد ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے، اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی، اور ملک بھر میں ہونے والے امتحانات بھی معطل کر دیے۔آجکل کے دور میں پاکستان کی عوام کے لئے تفریح کا واحد سہارا پی ایس ایل بھی سنسان ہو گیا، ایک طرح سے ملک بھر میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔

پاکستان کے ہر کونے میں پریشان کن صورتحال تھی کہ پتا نہیں کیا بنے گا، لیکن مارچ سے لے کر دسمبر تک ہم نے کرونا کی وباء کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، ہمارے کئی ڈاکٹرز نے جامِ شہادت نوش کیا، حکومت نے بھی کئی بہتر اقدامات بھی اُٹھائے لیکن بہت جگہوں پر لاپرواہی کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا، بحثیت قوم ہم نے بھی کرونا وباء کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ اِس دوران مشکلات میں گھرے ہم وطنوں کی مشکلات کا ازالہ بھی کیا، کئی فلاحی تنظیمیں سرگرم ہوئیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار افراد کی بڑھ چڑھ کر مدد کی گئی، یوں یہ سال اِس حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لئے ایک امتحان ثابت ہوا، بہت سے ملکوں نے اِس میں کامیابیاں بھی حاصل کیں اور بہت سے ممالک کرونا وباء سے شدید متاثر بھی ہوئے ،بہت سے قیمتی لوگ اِس دنیا سے رخصت بھی ہوئے، پاکستان میں بہت سے افراد جن کا شمار پاکستان کے عظیم سپوتوں میں ہوتا تھا وہ 2020 میں ہم سے الوداع ہوئے ۔

چاہے پشاور ہائی کورٹ کے جج سیٹھ وقار ہوں یا تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی ہوں، مفتی نعیم ہوں یا مولانا ضمیر اختر نقوی، طارق عزیز ہوں یا پاکستان کے سابق وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی یا پھر میڈیا کی پہچان ارشد وحید چودھری ہوں، یہ تمام افراد 2020 میں اِس دنیا سے چلے گئے، اِن میں سے بیشتر کرونا کی نظر ہوئے۔
کرونا وباء نے جہاں روزمرہ زندگی کی تمام ضروریات کو متاثر کیا وہیں تعلیم کا نقصان بھی ایک مسئلہ بنا رہا، کرونا وباء کے پیشِ نظر ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے چاہے وہ یونیورسٹی ہو یا کالجز، یا پھر سکولز غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیے گئے ،ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا کہ تعلیم تعلیمی اداروں سے ہٹ کر آن لائن کر دی گئی، کلاسز سے لے کر امتحانات آن لائن منعقد کیے گئے ۔

یقیناً یہ سب مجبوراً ہی کیا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسائل سے گھرے ہوئے آن لائن سسٹم نے کئی طلباء کے تعلیمی کیریئر کو داؤ پر لگا دیا ۔دور دراز کے علاقوں کے رہائشی طلباء کو بےشمار مسائل کا سامنا رہا لیکن مارچ سے لے کر سال کے آخر تک یعنی کہ دس مہینے تعلیمی نظام داؤ پر لگا رہا، جس میں کئی لوگوں نے اِس کا غلط استعمال بھی کیا لیکن کچھ لحاظ سے یہ نظام مفید بھی رہا ۔

البتہ بہت سے طلباء اِس نئے نظام یا ٹیکنالوجی سے واقف بھی ہو گئے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ2020 کا سال ہر شعبہء زندگی پر بھاری رہا جہاں کورونا نے ہر انسان اور ہر ادارے کو متاثر کیا وہیں اِس دوران مافیاز کی چاندی ہو گئی ،لوٹ مار اور ہیر پھیر کا بازار بھی گرم رہا، اِس وباء کے بعد دنیا یکسر بدل گئی ۔ کھیل کے میدان جہاں ویران ہو گئے وہیں بغیر تماشائیوں کے پاکستان سپر لیگ کے بقیہ میچز کا انعقاد بھی کیا گیا، کیونکہ پی ایس ایل ہو ہی رہا تھا تو کرونا کی وباء آ گئی جسے ملتوی کرنا پڑا اور پھر اِسی سال نومبر کے مہینے میں بقیہ میچز کروانا پڑے اور کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کراچی کنگ پی ایس ایل کا فائنل جیت گئی،
سال2020 میرا کیسا رہا! یہ تجربہ بھی قارئین کے ساتھ شیئر کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اپنے تجربات اور کامیابیوں کا تذکرہ کرنا ایک لکھاری کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے ۔


یہ سال میرے لیے بھی کسی امتحان سے کم نہ تھا کیونکہ میں یونیورسٹی کی ڈگری مکمل کرنے سے بس ایک قدم کی دوری پر تھا تو کورونا نے گھیر لیا، یونیورسٹی کو بند ہونا پڑا اور بالآخر ہماری کلاسز بھی آن لائن کر دی گئیں، آٹھواں سمسٹر تقریباً سارا آن لائن ہی گزرا، صبح اُٹھ کر کلاسز لینا اور شام تک وقفے وقفے سے مختلف کلاسز کا انتظار کرنا، یہ سب بحثیت طالب علم میرے لئے مشکل ترین تھا کیونکہ کلاس روم میں کلاسز لینا اور موبائل پر آن لائن کلاسز لینا ٹیچرز اور طالب علموں کے لئے ایک نیا تجربہ تھا، اِس سنگِ میل کو عبور کرنے میں آخرکار ہم کامیاب ہوئے اور یوں میری پولیٹیکل سائنس کی ڈگری مکمل ہو گئی، یہ سال اِس لحاظ سے میرے لئے خوشیوں بھرا سال ثابت ہوا کیونکہ میں نے اپنی سولہ سالہ تعلیم 2020 میں مکمل کر لی، یہ تو ایک خوشگوار لمحہ تھا جس کو بیان کرنا ضروری تھا لیکن اِس سے ہٹ کر یہ سال میرے صحافتی کیریئر میں بھی ایک سنگِ میل ثابت ہوا، میں نے صحافت کا باقاعدہ آغاز کیا، کئی نیوز پیپرز اور ویب سائٹس پر کالم نگاری شروع کی اور الحمدلله کالمز اور مختلف تحریروں کی سنچری مکمل کر چکا ہوں، جس کو ہر شخص نے سراہا اور یقیناً بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا !
آج یہ سال کئی یادوں اور واقعات کو اپنے اندر لیے ہم سے رخصت ہو چکا ہے ،ہر نیا سال آتا ہے اور چلا جاتا ہے لیکن کچھ سیکھنے اور سیکھانے کو ضرور ملتا ہے، ہم میں سے ہر شخص کی زندگی میں بھی ایک نیے سال کا اضافہ ہو جاتا ہے، ہم پچھلے سالوں سے سیکھ کر یا اُن میں رونما ہوئے واقعات کو لے کر آگے بڑھتے رہتے ہیں، یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور بلآخر ہماری موت پر آ کر رُک جاتا ہے ۔

مشکلات بھی آتی ہیں اور مشکل لمحات بھی ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں، اللہ کریم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ بےشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔یہ آیت ہم مسلمانوں کے لئے ایک مشعلِ راہ ہے۔2020 جیسا بھی تھا یقیناً ہم سب کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں تھا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائشوں میں ڈالتا بھی ہے اور اللہ ہی اپنے بندوں کے لیے آسانیاں عطا کرتا ہے، اِس لیے یہ امید قائم ہے کہ یہ نیا سال ہم سب کے لئے رحمتوں اور برکتوں والا سال ہوگا، ہم سب نے جس طرح 2020 میں آزمائشوں کا مقابلہ کیا، اِسی طرح یہ نیا سال ہمارے لئے خوشیوں کا پیغام لا رہا ہے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے یہ مخلوق خدا وتعالی کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :