لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اکتوبر2025ء) وفاقی
وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ انتشار خان کے لئے اپنے علاوہ کوئی چیز وقعت نہیں رکھتی، وہ خیبر پختونخوا میں
تحریک انصاف کی حکومت کو دہشت گردوں کے ساتھ معاونت کا کہہ رہا ہے، انتشار پسندوں کی خواہش ہے کہ ملک میں حالات خراب کئے جائیں، ریاستِ
پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی جگہ نہیں، ہمارے لئے
پاکستان ہر شخصیت سے مقدم ہے، ہم خیبر پختونخوا کے غیور عوام کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہفتہ کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی
وزیر اطلاعات نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے متعدد کارروائیاں کی گئیں جن کا پاک
فوج کے افسران اور جوانوں نے انتہائی جرات اور بہادری سے مقابلہ کیا، ہمارے بہادر سپاہیوں نے وطن کے دفاع میں جامِ شہادت نوش کیا۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ تحریک انتشار کو شہداء کی قربانیوں اور ملک کی سالمیت سے کوئی غرض نہیں، اسے صرف خیبر پختونخوا میں تقسیم پیدا کرنے، حالات خراب کرنے اور دہشت گردوں کو اس صوبے میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے غرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قصہ آج کا نہیں ہے، پچھلی کئی دہائیوں سے بانی چیئرمین
پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردوں کے ہمدرد اور ان کے سہولت
کار بنے رہے۔
وفاقی
وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستانی قوم واحد قوم ہے جس کے بچوں نے
دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دیں، ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ
اے پی ایس پشاور کے
شہید بچوں نے اپنے خون سے ایسی داستان رقم کی جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ انہوں نے خضدار بس حملے میں
شہید ہونے والے بچوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ جب وہ صحافیوں کے ہمراہ خضدار اور
کوئٹہ گئے تو ایک والد، جس کے تین بچے اسی واقعے میں
جاں بحق ہوئے، پوری ہمت و حوصلے کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ میری جان بھی
پاکستان کے لیے حاضر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے غیور عوام نے لازوال قربانیاں دی ہیں اور افواجِ
پاکستان، سویلین، تاجر،
ڈاکٹر، انجینئرز، بچے اور معاشرے کے ہر طبقے نے اس قربانی کی داستان میں روشن باب کا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اس قوم نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہ عزم کیا کہ دہشت گردوں کو شکست دے کر ملک سے
دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا تو پوری قوم یکجا ہوگئی۔
آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے دوران پاک
فوج، صوبائی حکومتوں اور تمام ریاستی اداروں نے اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کیں، جس کے نتیجے میں
دہشت گردی کو شکست دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسا دور تھا جب ہمارے
کرکٹ کے میدان ویران تھے، ملک کے ہر شہر میں تقریباً روز
دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے، ہمارے
علما، فوجی افسران، بچے اور عام شہری قربانیاں دے رہے تھے۔
پریڈ لین کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ریٹائرڈ فوجی، بچے اور نمازی
شہید ہوئے۔ وفاقی
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ان دہشت گردوں کا نہ کوئی دین ہے، نہ کوئی مذہب، نہ کوئی رنگ اور نہ کوئی نسل، یہ صرف تشدد، خونریزی اور خوف پھیلانے پر یقین رکھتے ہیں، ان کا کسی مذہب یا انسانی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستِ
پاکستان کلمۂ طیبہ کے نام پر معرضِ وجود آئی۔
پاکستان کا مطلب کیا ،لا الہ الا اللہ، کے نعرے پر قائم ایسی ریاست ہے جسے
دنیا ایک مضبوط اسلامی ملک کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ریاست کی مساجد، افواج اور شہریوں پر
حملہ کسی صورت جائز نہیں اور اسلام کی روح بھی اس کی قطعی اجازت نہیں دیتی۔ اس حوالے سے ملک کے جید
علما قبل ازیں فتویٰ دے چکے ہیں کہ
پاکستان کی ریاست کے خلاف کوئی
جہاد نہیں ہو سکتا۔
وفاقی
وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مساجد کو بھی نہیں بخشتے۔ تمام شہداء کی قربانیاں آج بھی زندہ ہیں، انہی کے خون کے طفیل
پاکستان ایک فلاحی ریاست بننے کی جانب گامزن ہے۔ انہوں نے کہا کہ
لاہور کی جامعہ نعیمیہ دھماکے میں ممتاز عالم دین
ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے اپنے خون سے قربانی کی ایک لازوال داستان رقم کی۔
اس وطن کی آبیاری میں علمائے کرام کا خون بھی شامل ہے۔ راولپنڈی میں
ٹریفک سگنل پر آرمی میڈیکل کور کے جنرل مشتاق کو
شہید کیا گیا۔ یہ وہ المناک واقعات ہیں جو ضربِ عضب اور ردالفساد سے قبل ملک کے چوکوں، چوراہوں، گلی محلوں اور مساجد میں رونما ہوتے تھے۔ بعد ازاں پاک
فوج کے افسران اور جوانوں نے بے مثال قربانیاں دے کر دہشت گردوں کو پسپا کیا، دشمن کو شکست دی اور ملک میں امن قائم کیا۔
یہ وہ تاریخ ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جب
دہشت گردی کا خاتمہ ہوا،
کرکٹ کے میدان دوبارہ آباد ہوئے اور
پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ
جیل میں قید ایک شخص کے نزدیک ان قربانیوں کی کوئی وقعت نہیں، اس کے نزدیک سب کچھ اس بات تک محدود ہے کہ سیاست کو کس طرح چمکایا جائے۔ ان کے پیروکار وہ لوگ ہیں جو نعرہ لگاتے ہیں ’’خان نہیں تو
پاکستان نہیں‘‘، ہم ایسی سیاست کو لعنت سمجھتے ہیں جو کسی شخصیت کی پیروی کر کے ملک کو پیچھے لے جائے اور شخصیت کو مقدم رکھے۔
کبھی کسی سیاسی جماعت نے ایسا نعرہ نہیں لگایا۔ انہوں نے کہا کہ جب محترمہ
بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو
پیپلز پارٹی کی قیادت نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر ملک کے استحکام کا پیغام دیا۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی مشکل ترین حالات میں ہمیشہ
پاکستان کی بات کی۔ بانی چیئرمین
پی ٹی آئی کے دور میں جب ہماری پوری جماعت جیلوں میں تھی،
شہباز شریف ، جو اُس وقت قائدِ حزبِ اختلاف تھے،
پارلیمنٹ کے ایوان میں کھڑے ہو کر کہہ رہے تھے کہ ہم ملک کے مفاد میں میثاقِ معیشت کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ان کی دوراندیشی تھی کہ
شہباز شریف سمجھتے تھے کہ معیشت مضبوط ہوگی تو ملک آگے بڑھے گا۔ تمام تر سیاسی انتقام اور اختلافات کے باوجود انہوں نے ہمت اور حوصلے کے ساتھ قومی مفاہمت کی بات کی، مگر انتشار خان کو یہ بات سمجھ نہ آئی کیونکہ اُس کے لیے اپنی ذات اور اپنی جماعت ہی سب کچھ تھی،
پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ بزدلی کا عالم تھا کہ فلور آف دی ہاؤس کے بعد پلوامہ واقعہ پر جب بانی چیئرمین
پی ٹی آئی کو موقف اختیار کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں کیا کروں، میں
بھارت پر
حملہ کر دوں؟ تاہم جب
بھارت للکارتا ہے تو انتشار خان پیچھے ہٹ جاتے ہیں، جب دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی باری آتی ہے تو ان کے منہ سے مذمت کے الفاظ بھی نہیں نکلتے۔
شہداء کی یاد منانے کے موقع پر نو مئی جیسے واقعات کر کے یادگاروں کو
نقصان پہنچانا اور نعرہ لگانا ’’خان نہیں تو
پاکستان نہیں‘‘ ،شخصیت کو ہر چیز سے بالا تر رکھ کر ملک کو پیچھے کھینچنے کی یہی سوچ اس پارٹی کا نصب العین بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہداء کی قربانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے بانی چیئرمین
پی ٹی آئی بین الاقوامی میڈیا پر جا کر یہ کہتے رہے کہ وقت آگیا ہے کہ
تحریک طالبان پاکستان سے صلح کی جائے، یہ اچھے لوگ ہیں، ان سے بات چیت کی جائے اور پھر انہی عناصر کو سیٹل ایریاز میں لا کر بسانے کی کوشش کی گئی۔
وفاقی
وزیر اطلاعات نے کہا کہ
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے لہو سے قربانیوں کی ایک لازوال داستان رقم کی ہے، انہی قربانیوں کے باعث ملک سے
دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں
پاکستان سے
دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوا جس کے پیچھے بے شمار لوگوں کی جدوجہد اور بہادری کارفرما تھی۔ آج بھی وہ خاندان، جن کے بیٹے اور بھائیوں نے وطن کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں نے
پاکستان کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس مملکت خداداد پر جان نچھاور کرنے والے بہادر سپوتوں کی قربانیاں ان شاء اللہ رنگ لائیں گی اور وہ دن دور نہیں جب
دہشت گردی اس ملک سے مکمل طور پر ختم ہوگی اور
دہشت گرد رسوائی اور ذلت کا سامنا کریں گے۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت آج بھی دہشت گردوں کا ساتھ دیتی اور ان کی حمایت کرتی ہے۔
اسی جماعت نے منصوبہ بندی کے تحت
دہشت گرد عناصر کو واپس لا کر آباد کیا اور جب 2017 میں
دہشت گردی کا خاتمہ ہو کر ملک میں امن بحال ہوا تو 2018 میں
خیبرپختونخوا میں تحریکِ انتشار کی حکومت نے دوبارہ ان عناصر کی سرپرستی کی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک غیرقانونی دائرے کے تحت
خیبرپختونخوا کی سابقہ انتظامیہ سمگلنگ اور غیرقانونی تجارت کو فروغ دے رہی تھی جس میں نان کسٹم پیڈ
گاڑیاں، تیل، اشیائے خوردونوش، اجناس،
منشیات، ٹمبر اور تمباکو کی اسمگلنگ شامل ہے، یہ سمگلنگ کا ایک نیٹ ورک ہے جس میں دہشت گردوں اور خیبر پختونخوا کی
تحریک انصاف کی حکومت کا گٹھ جوڑ ہے، اس سے انہیں مالی فائدہ ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ
معاشی اصلاحات کے تحت ان عناصر پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے اور ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ
دہشت گردی کو فروغ دینے میں ایک غیر دستاویزی بلیک اکانومی کارفرما ہے جس سے تحریکِ انتشار کو مالی معاونت ملتی ہے اور اسی کے بل بوتے پر ان کی سیاست پروان چڑھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ
پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں 12 سالہ حکومت نے سمگلنگ اور غیر قانونی معیشت کے نیٹ ورک سے بھرپور مالی فائدہ اٹھایا جس میں تحریکِ انتشار کے مرکزی کردار شامل رہے جنہوں نے بانی چیئرمین
پی ٹی آئی کی فنڈنگ تک کی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جب نئے
وزیراعلیٰ کے انتخاب کی باری آئی تو انہوں نے ایسے شخص کو منتخب کیا جس پر مقدمات درج ہیں اور جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ
منشیات کے
کاروبار میں ملوث ہے۔ وفاقی
وزیر اطلاعات نے کہا کہ بانیِ چیئرمین کا یہ کہنا کہ
اے این پی ختم ہو گئی، بے بنیاد ہے، حقیقت یہ ہے کہ
اے این پی نے
دہشت گردی کے خلاف ثابت قدمی دکھائی۔
میں
بشیر احمد بلور اور
شہید ہارون بلور کو سلام پیش کرتا ہوں،
اے این پی کی قربانیاں ہماری سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہی درج ہوگا۔ دوسری طرف تحریکِ انتشار نے دہشت گردوں کے ساتھ دینے میں ہی عافیت سمجھی، دہشت گردوں کو سیٹلڈ ایریاز میں لا کر بسایا، ان کے ساتھ
کاروبار اور روزمرہ کے روابط قائم کئے جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
ہم روز لاشیں اٹھا رہے ہیں، یہ اب نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کی تائید کرتا ہوں کہ اب یہ معاملہ مزید نہیں چل سکتا، اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں یا ان کے خلاف۔ وہ
دہشت گرد جو روز ہمارے شہریوں کو
شہید کر رہے ہیں، ہم روز لاشیں اٹھا رہے ہیں اور ان کا مقابلہ کر رہے ہیں مگر دوسری طرف خیبر پختونخوا میں حکومتی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم ان کی سہولت کاری کریں گے، ان کے ساتھ
کاروبار کریں گے اور سمگلنگ میں ملوث ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی،
پی ٹی آئی کا عسکری ونگ بنتا جا رہا ہے، اللہ کرے ایسا نہ ہو، مگر اس تاثر کی وجوہات غیرقانونی سرگرمیوں، سمگلنگ اور انتظامی معاملات میں پوشیدہ ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کے پی حکومت نے ٹمبر مافیا، تمباکو مافیا اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے
کاروبار کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ اربوں روپے کے ٹیکس ریونیو جو
خیبرپختونخوا کی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہونا چاہیے تھا، وہ اکٹھا کیوں نہیں ہو رہا کیونکہ وہاں ملی بھگت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نامزد
وزیراعلیٰ کے خلاف تحریکِ انصاف کے اندر سے اختلافی آوازیں شدت اختیار کر رہی ہیں کہ ہمیں یہ قابل قبول نہیں، ایک طرف شیر افضل مروت اور
علیمہ خان کا گروپ ہے اور دوسری طرف
بشری بی بی کا گروپ، جس سے پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے، ان کا اپنا ہاؤس ان آرڈر نہیں ہے، کے پی
اسمبلی میں انہیں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایسے شخص کو لانے کا مقصد واضح طور پر یہی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر موقف اختیار نہ کرے اور بزدلی دکھاتے ہوئے ان کے خلاف آپریشن نہ کر سکے۔ اب یہ نہیں چلے گا۔ ریاستِ
پاکستان کسی فرد یا جماعت کو دہشت گردوں کی حمایت کی اجازت ہرگز نہیں دے گی۔
وزیراعظم نے بھی گزشتہ روز واضح کیا کہ یا تو آپ
پاکستان کے خلاف لڑ رہے ہیں یا
پاکستان کے لیے لڑ رہے ہیں؛ یہ دو ہی کیٹیگریز ہیں، اس کے علاوہ کوئی اور گنجائش نہیں ہے کہ دہشت گردوں کو مزید پروموٹ کیا جائے۔
وفاقی
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریاستِ
پاکستان یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ دہشت گردوں کو ان شاء اللہ ہر صورت شکست دی جائے گی اور انہیں ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ عناصر کبھی
افغانستان سے آ کر حملے کرتے ہیں اور کبھی
ہندوستان کی سپورٹ سے
حملہ کرتے ہیں ، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عورتیں، بچے اور بزرگ ان حملوں میں
شہید ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ
پی ٹی آئی کے سربراہ
جیل میں بیٹھ کر بھی دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب امن خراب ہوتا ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومت دوبارہ ان کی پشت پناہی کرے تاکہ ان کے غیر قانونی
کاروبار اور سمگلنگ سے ملنے والی آمدنی برقرار رہے۔ یہ ایک منظم گٹھ جوڑ ہے جو اب نہیں چل سکتا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاک
فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے روزانہ قربانیاں دے رہے ہیں اور حکومتِ
پاکستان آخری
دہشت گرد کے خاتمے تک
چین سے نہیں بیٹھے گی۔
افواجِ
پاکستان، سول ادارے اور علمائے کرام سب ایک پیج پر ہیں،
دہشت گردی کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ترقی کر رہا ہے، معیشت بہتر ہو رہی ہے، خارجہ پالیسی کی پوری
دنیا تعریف کر رہی ہے جبکہ
جیل میں بیٹھے شخص پر 190 ملین پاؤنڈ کا میگا
کرپشن کیس ہے، وہ اپنی ذات اور مفاد کی خاطر
پاکستان کو قربان کرنا چاہتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا،
پاکستان ان شاء اللہ مزید ترقی کرے گا،
دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ
خیبرپختونخوا کی غیور عوام نے جو قربانیاں دی ہیں، انہیں رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور دہشت گردوں کو اپنے مالی و سیاسی فائدے کے لئے سپورٹ کرنے والوں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔\932