امریکی اور نیٹو افواج کی اقوام عالم میں جگ ہنسائی

پاکستان سرحدی حدود کے تحفظ اور معاشی ترقی پر توجہ مبذول کرے

پیر 27 ستمبر 2021

Americi Aur NATO Afwaj Ki Aqwam e Aalam Mein Jag Hansaai
رحمت خان وردگ
سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے قبل جب پشاور میں حکومت پاکستان نے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کو ہیڈ کوارٹر بنا کر افغانستان کے خلاف بولنے کی اجازت دی تو سبھی خاموش رہے لیکن ایئر مارشل اصغر خان نے کہا کہ یہ طرز عمل درست نہیں۔کل اگر افغانستان میں کوئی پاکستانی بیٹھ کر ملک مخالف باتیں کرے گا تو ہم سے برداشت نہیں ہوں گی۔

1979ء کے آخر میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔امریکہ نے ویتنام میں جنگ چھیڑی تھی تو سوویت یونین کی مداخلت کے باعث اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے امریکہ نے یاد رکھا اور موقع کی تلاش میں رہا کہ کہاں اور کیسے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا ہے۔

(جاری ہے)

سوویت یونین اور امریکہ دونوں سپر پاورز تھیں اور یہ باہم دست و گریباں رہتی تھیں لیکن ان دونوں کے دست و گریباں رہنے سے مسلمان ممالک قدرے امان میں تھے اور سپر پاورز کی توجہ باہمی کشمکش کی جانب ہی رہنے سے امریکہ کی توسیع پسندی قدرے کم تھی جب سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی تو امریکہ نے اسے غنیمت جانا اور کابل پر سوویت پرچم لہرائے جانے تک امریکہ نے پاکستان میں یہ تاثر عام کر دیا کہ سوویت یونین کی اگلی منزل اسلام آباد ہے اور وہ گرم پانیوں تک رسائی کے لئے ہر صورت آگے بڑھے گا اور اس کا اصل ہدف پاکستان ہی ہے۔

امریکی ڈالرز کی برسات،اسلحہ،تربیت اور پراپیگنڈہ اس قدر موٴثر ثابت ہوا کہ سوائے ولی خان اور ایئر مارشل اصغر خان کے تمام سیاسی،مذہبی لیڈرز،حکمران امریکہ کے جھانسے میں آگئے اور انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کی غلطی کر لی کہ یہ جنگ اصل میں پاکستان کی جنگ ہے لیکن اس تمام امریکی کوششوں کے پیچھے امریکہ سوویت یونین سے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا اس وقت ایئر مارشل اصغر خان مرحوم نے برملا کہا کہ سوویت یونین کا تعاقب نہ کیا جائے کیونکہ وہ واپس جا رہا ہے اور اگر ہم نے کوئی غلطی کی تو ہماری آئندہ 3 نسلیں اس کے بدترین اثرات کا شکار رہیں گی لیکن اس کی بات نہیں مانی گئی اور انہیں ”روس کا ایجنٹ“ قرار دیا گیا۔


سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد افغان عوام نے ہجرت کی اور ایران و پاکستان کا رُخ کیا۔ایران نے انہیں بارڈر کے ساتھ کیمپ بنا کر محدود علاقے تک رہائشی سہولتیں دیں جبکہ پاکستان نے ملک بھر میں انہیں کھلی رسائی دی جس کے اثرات آج سب کے سامنے ہیں جیسے ہی سوویت یونین کی سپر پاور حیثیت ختم ہوئی تو جن مجاہدین کو دنیا بھر سے امریکہ اس خطے میں لایا تھا اور ان کے سنگ طور خم بارڈر پر امریکی جرنیل کلمہ شہادت بلند کیا کرتے تھے انہیں امریکہ نے پہلے طالبان پھر القاعدہ اور اب دہشت گرد قرار دے کر ان کے لئے زمین تنگ کر دی تو دوسری طرف امریکہ نے افغانستان پر مکمل قبضہ جما لیا اور پاکستان کو بطور آلہ کار استعمال کیا جس سے پاکستان کو کم و بیش 70 ہزار سے زائد سول و عسکری شہادتوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ارب ڈالرز کا معاشی نقصان ہوا اور ساتھ ساتھ پاکستان میں اسلحہ،منشیات اور دہشت گردی کی ایسی لہر آئی کہ جس سے اب تک نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔

عالمی طور پر امریکہ کے واحد سپر پاور بن جانے کے بعد تو نقشہ ہی بدل گیا اور امریکہ نے مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے اپنے نشانے پر رکھ لیا جس کی وجہ سے آج عراق ‘شام‘لیبیا‘افغانستان سمیت کئی ممالک کی حالت قابل رحم ہے۔امریکہ اب مزید دیگر مسلم ممالک پر قبضے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے جو لوگ جنرل مشرف پر امریکی جنگ میں حصہ لینے کا الزام لگاتے ہیں دراصل وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1979ء میں امریکی جنگ میں ناصرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔


امریکہ نے اسامہ بن لادن کی تلاش کے بہانے افغانستان پر قبضہ کیا اور نیٹو افواج سے ملکر افغانستان میں ”امن“ قائم کیا حالانکہ اسامہ بن لادن کو امریکہ ہی یہاں لایا تھا اور شاید اسے اس کے ٹھکانے کا علم بھی تھا لیکن اس نے افغانستان میں اسے گرفتار کرنے کے بجائے پاکستان میں حساس علاقے میں اس کی گرفتاری کا کھیل رچایا تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔

امریکی صدر اوبامہ نے اپنی صدارتی مدت کی تکمیل سے قبل کابل کے محل میں”جشن فتح“ منایا لیکن اگلے صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد ان الفاظ میں شکست تسلیم کر لی کہ ”افغانستان میں امریکہ کی شکست کا ذمہ دار پاکستان ہے“۔امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات میں افغانستان سے امریکی انخلاء کی جو ڈیڈ لائن دی تھی صدر بائیڈن نے اسی شیڈول پر مکمل عملدرآمد کیا لیکن امریکہ‘اشرف غنی‘بھارت اور نیٹو ممالک نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے کثیر رقوم خرچ کرکے افغانستان کی 3 لاکھ فوج کو مسلح و تربیت یافتہ بنا لیا ہے اور اب یہ ملک کے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں لیکن دنیا بھر کے تمام اندازے اس وقت غلط ثابت ہو گئے جب طالبان کے ساتھ افغان فوج لڑنے کے بجائے فرار ہو گئی اور افغانستان پر قبضے کے لئے جتنی مدت کے اندازے لگائے جا رہے تھے اس کے برعکس چند دنوں میں ہی پورا افغانستان طالبان نے آزاد کرا لیا اور کابل کے بارے میں بھی تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ان تمام واقعات کے بعد دنیا بھر میں امریکہ و نیٹو افواج کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور مغربی ممالک و امریکہ اب طالبان حکومت سے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر چکے ہیں۔


وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر امریکہ کو ہوائی اڈے دینے سے انکار کر دیا۔وزیراعظم کا اعلان بالکل درست اور بروقت ہے لیکن اس پر عملی طور پر کاربند رہنا ہو گا اور کسی بھی صورت امریکہ کی بلیک میلنگ کا شکار ہونے سے بچنا ہو گا ہمیں اب ایک بار پھر 1979ء والی غلطی نہیں کرنی کیونکہ پہلی غلطی کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل پائے اور اگر خدانخواستہ دوسری غلطی کر لی گئی تو پھر ملک کا اللہ تعالیٰ ہی حافظ ہو گا اب پاکستان کو صرف اپنی سرحدی حدود کے دفاع اور تحفظ تک محدود رہ کر معاشی ترقی کی منازل طے کرنے کی جانب توجہ دینی ہو گی اور خطے یا دنیا کا ٹھیکہ دار بننے کی ضرورت نہیں۔

افغانستان کو اس کی عوام کی صوابدید پر چھوڑا جائے کہ وہ جسے چاہیں اقتدار دیں اور ہمیں اب دوسرے ممالک میں مداخلت کی پالیسی چھوڑنا ہو گی ہمیں فوری طور پر افغانستان کے ساتھ بارڈر مکمل طور پر سیل کرنا ہوں گے اور اگر خدانخواستہ افغانستان میں حالات ایک بار پھر عوام کی ہجرت کی جانب جاتے ہیں تو ہمیں مہاجرین کو بارڈر کے ساتھ کیمپوں کے مخصوص علاقے تک محدود رکھنا ہو گا نہ کہ ایک بار پھر پورا ملک ان کے حوالے کر دیا جائے اس وقت پاکستان کی افغان پالیسی کے متعلق صدر، وزیراعظم آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر خارجہ کو ہی بیان دینا چاہئے اور ان افراد کے علاوہ تمام وزراء و حکومتی عہدیداران کے اس متعلق بیان بازی پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ ایسے وزراء بھی ہیں جو معاملے کو دوسرا رنگ دے کر ملک کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Americi Aur NATO Afwaj Ki Aqwam e Aalam Mein Jag Hansaai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 September 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.