عارف علوی کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے

منگل 4 ستمبر 2018

arif alvi ki kamyabi ke imkanaat barh gaye
نواز رضا
وزارت عظمیٰ ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات منعقد ہوچکے ہیں اب 4 ستمبر 2018ء کو صدر مملکت کے منصب کا انتخاب عمل میں لایا جارہا ہے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ’’پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن ‘‘ قائم کیا گیا جس میں جہاں عوامی مینڈیٹ پر’’ ڈاکہ‘‘ ڈالنے کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا وہاں اپوزیشن کی جماعتوں نے وزارت عظمیٰ ،سپیکر اور ڈپٹی سپیکرکے لئے مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے پر آمادگی ظاہر کی لیکن پاکستان الائنس کے فیصلوں کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی تو اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی نے ’’سولو فلائٹ‘‘ شروع کر دی اور وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا جبکہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے سپیکر کے منصب کے امیدوار سید خورشید شاہ اور ڈپٹی سپیکر کے امیدوار مولانا اسعد محمود کو ووٹ دیئے۔

(جاری ہے)

پاکستان الائنس کے قیام کے چند روز بعد ہی آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان فاصلہ قا ئم کرناشروع کر دیا ۔جب صدارتی انتخاب کے شیڈول کا اعلان ہوا تو پیپلز پارٹی نے از خود اعتزاز احسن کے نام کا بطور صدارتی امیدوار اعلان کر دیا جس کے بعد مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی جانب سے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار بنانے کی شدید مخالفت کی گئی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کا غیر معمولی اجلاس مری میں میاں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مشترکہ صدارتی امیدوار میدان میں لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کا ہی صدارتی امیدوار ہو گا اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی گئی جسے حتمی طور پر صدارتی امیدوار نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تا ہم صدارتی امیدوار کے اعلان کی ذمہ داری قومی اسمبلی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو سونپی گئی۔

پیپلز پارٹی سے کہا گیا کہ وہ صدارتی امیدوار کے لئے تین امیدواروں پر مشتمل پینل تجویزکرے جن میں سے کسی ایک امیدوار کا باضابطہ طور پر اعلان کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے آصف علی زرداری کو اعتماد میں لینے کے لئے ایک دن کی مہلت مانگی لیکن ایک روز بعد پیپلز پارٹی نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ اعتزاز احسن ہی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہوں گے جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو یہ کہہ کر کہ ہمارا صدارتی امیدوار ’’اعتزاز احسن ، اعتزاز احسن ، اعتزاز احسن‘‘ ہی ہوں گے، بات ختم کر دی۔

پیپلز پارٹی کی قیادت نے تین بار اعتزاز احسن کانام اس لئے لیا کہ ان کے پاس اور کوئی چوائس نہیں ۔ اڈیالہ جیل میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سے مسلم لیگی رہنمائوں راجہ محمد ظفر الحق، خواجہ آصف، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید کی ملاقات میں بھی میاں نواز شریف نے بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کرنے کا مشروط عندیہ دیا لیکن پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کی جگہ کسی اور امیدوار کو نامزد کرنے سے انکار کر دیا جس سے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی نامزدگی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان صدارتی امیدوار پر اختلافات کی وجہ سے ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے ۔ متحدہ مجلس عمل نے سربراہ اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پاکستان الائنس میں شامل دیگر جماعتوں نے بھی ان کی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ پیپلز پارٹی ایم ایم اے کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھی جب اسے بتایا گیا کہ مولانا فضل الرحمن تو خود صدارتی امیدوار بن گئے ہیں تو پیپلز پارٹی کو شدید ’’صدمہ‘‘ پہنچا مولانا فضل الرحمٰن نے صدارتی انتخاب میں ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے آصف علی زرداری کے پاس پہنچ گئے ہیں بہرحال دونوں رہنمائوں کی ملاقاتیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں۔

مسلم لیگ ن اپنا کوئی امیدوار لے کر میدان میں نہیں آئی لیکن اس نے مولانا فضل الرحمٰن کی پشت پر کھڑے ہونے کا بڑا سیاسی فیصلہ کر کے پیپلز پارٹی کو پریشان کن صورت حال سے دوچار کر دیا ۔ جب یہ سطور قلمبند کی جا رہی ہیں، اس وقت پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کے لئے ان کی رہائش گاہ کے چکر لگا رہی ہے۔ بظاہر ملاقات میں یہ طے پایا ہے کہ ایک روز کے اندر کوئی فیصلہ کر لیا جائے گا لیکن کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

صدر مملکت کے منصب کے لئے تحریک انصاف کے عارف علوی، متحدہ اپوزیشن کے مولانا فضل الرحمنٰ اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیں ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مشترکہ صدارتی امیدوار لانے میں ناکام ہوگئی ہیں جس سے تحریک انصاف کے عارف علوی کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 29 اگست تک مکمل کر لی گئی ہے اور 30 اگست کو امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں اور اسی روز صدارتی الیکشن کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری کردی جائے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مشترکہ صدارتی امیدوار لانے کے معاملہ ’’ڈیڈلاک ‘‘ سے پاکستان الائنس اور فری اینڈ فیئر الیکشن کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں صدارتی امیدوار کے انتخاب پر متحد نہ ہونے سے پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن کا قیام بھی ایک خواب نظر آ رہا ہے۔ صدارتی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کو’’ واک اوور‘‘ ملنے کا امکان ہے اگر اپوزیشن متحد ہوجائے تو پھر صدارتی انتخاب میں اپوزیشن حکومت کو ٹفٖ ٹائم دے سکتی ہے اگرچہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار اعتزاز احسن کی حمایت کرنے سے انکار کیا ہے لیکن اس نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی کو صدارتی امیدوار بنا دیا جائے تو مسلم لیگ (ن) اس کی حمایت کرے گی جب کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری اعتزاز احسن کا نام ڈراپ کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔

متحدہ مجلس عمل نے بھی اعتزاز احسن کا نام صدارتی امیدوار کے طور مسترد کرکے اپنے آپ کو پیپلز پارٹی سے فاصلے پر کھڑا کر دیا ہے۔ ایم ایم اے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پیپلز پارٹی کسی اور شخصیت کو نامزد کرے تو اسے قبول کر لے گی اگر مسلم لیگ(ن) بھی اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار کے طور پر قبول بھی کر لے تو ایم ایم اے ا سے قبول نہیں کرے گی اس بات کا فیصلہ ایم ایم اے کے سربراہی اجلاس میں کیا گیا ایم ایم اے کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے نوائے وقت کو بتایا کہ ایم ایم اے نے اپنے فیصلے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو آگاہ کردیا ایم ایم اے نے ملکی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے ایم ایم اے کی مرکزی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے ۔

مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا ہے اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ امیدوار کا نہ آنا اپوزیشن اتحاد کے لئے افسوس ناک بات ہے ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والے مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے ناکام مذاکرات کے بعد آٖصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے رہنمائو ں کا ہنگامی اجلاس ’’زرداری ہائوس‘‘ میں طلب کر لیا جو رات گئے جاری رہا ۔

پیپلز پارٹی نے میاں شہباز شریف کو صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لئے تین ناموں پر مشتمل پینل نہیں دیا پیپلز پارٹی کی قیادت چوہدری اعتزاز احسن کو ہی صدارتی امیدوار بنانے پر بضد ہے ۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ موجودہ صورت حال میں خاصے مایوس دکھائی دیتے ہیں انہوں نے مشترکہ صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے معاملہ پر آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف سے الگ الگ ٹیلیفون پر بھی بات کی آصف علی زرداری اعتزاز احسن کا نام واپس لینے پر آمادہ ہوئے اور نہ ہی میاں شہباز شریف نے اپنے موقف میں لچک پیدا پیدا کی ۔

آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو راضی کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمان کو ٹاسک دیا اس دوران آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی رہنمائوں کی کانفرنس کال پر مشاورت بھی بے سود رہی ہے۔ پیپلز پارٹی رہنمائوں نے مولانا فضل الرحمان سے دو بار ملاقات کیں لیکن یہ ملاقات بھی بے سود رہی ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ہمیں ماضی کی تلخیوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا، ملک کو اعتزاز احسن جیسے چہرے کی ضرورت ہے، امید ہے مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں ہماری اس بات کو سمجھیں ۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ صدراتی انتخاب کے لئے نمبرز پورے ہیں اور پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار عارف علوی ہی صدر مملکت ہوں گے۔ اڈیالہ جیل میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد سینیٹر پرویز رشید نے اعتزاز احسن کی حمایت کو نواز شریف سے معافی مانگنے پر مشروط کر دیا۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پرویز رشید کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے جس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے علاوہ کوئی اور امیدوار نامزد کر دے تو مسلم لیگ ن کے ارکان کو انھیں ووٹ دینے پر تیار ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پرویز رشید کی انفرادی رائے پر مجھے تعجب ہوا ہے پرویز رشید دانشور اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ہیں پرویز رشید کے مطالبے میں کچھ جاگیر دارانہ روش عیاں تھی سر دست یہ بات کہی جا سکتی کہ اپوزیشن مشترکہ صدارتی امیدوار کھڑا کرنے میں ناکام ہو گئی ۔ تحریک انصاف با آسانی اپنا امیدوار کامیاب کرا لے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

arif alvi ki kamyabi ke imkanaat barh gaye is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 September 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.