بڑی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے․․․․․

اپوزیشن کی ہوا نکل گئی؟ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ”نئی قیادت“نتائج اخذ کرنے میں ناکام

جمعہ 21 جون 2019

Bari Giraftariyon Ka Silsala Shoro Hone KO Hai
 محمد انیس الرحمن
گرشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے چےئرمین بلاول زرداری اور ن لیگ کی رہنما مریم نواز کے درمیان جاتی امرالاہور میں ملاقات ہوئی لیکن اس ملاقات کے کیا نتائج نکلے اس پر کوئی بھی رائے دینے سے قاصر ہے ۔اس سارے منظر نامے میں سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ شہباز شریف اس ملاقات میں نظر نہیں آئے بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ وہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ عوام دشمن بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عملی طور پر تاحال سارے معاملات نواز شریف اور زرداری ہی طے کررہے ہیں لیکن چونکہ مریم نواز اور بلاول چونکہ ابھی”باہر “ہیں اس لئے ان کی جانب سے ”لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ“نامی سر گرمیاں جاری ہیں۔
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرداری اور نواز کے یہ سیاسی ورثہ کس طرح بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔

(جاری ہے)

یہ اگر پارلیمنٹ میں اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو حکومت سادہ اکثریت سے اس بجٹ کو منظور کر وا لیتی ہے اگر حکومتی ارکان کو توڑ کر پلڑا پوزیشن کی جانب کرتے ہیں تو اس طرح ان ہاؤس تبدیلی کی وجہ سے عمران حکومت ختم ہوتی ہے اس سے پہلے اگر عمران پارلیمنٹ توڑ دیتے ہیں تو نئے انتخابات ۔

۔۔۔جس کا کوئی امکان ہی نہیں ہے کیونکہ ریاست کی جانب سے احتساب کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ تھمنا نہیں ایسے حالات میں کس کو انتخابات لڑنے کی اجازت ہوگی یہ بات سب کو سمجھ آتی ہے ۔
کیونکہ اگر دو ہفتوں کے دوران مزید بڑی گرفتاریاں ہونے جارہی ہیں ان حالات کے تناظر میں نواز، شہباز اور مریم ایک ہی پیج پر ہیں اس لئے بلاول زرداری کی جاتی عمرامیں انٹری محض ایک سیاسی خانہ پوری سمجھی جارہی ہے یعنی ایک بے مقصد ملاقات یہی وجہ تھی اس ملاقات میں شہباز شریف شریک نہ ہوئے،اصل نکتہ یہ ہے کہ ن لیگ کی حکمت عملی کیا ہے دوسری جانب بلاول زرداری نے پیپلزپارٹی کی نمائندگی کی لیکن پیپلز پارٹی کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو گی۔

۔۔؟اس ملاقات کے نتیجے میں نہ تو کوئی تحریک چلنے جارہی ہے ،ایک آل پارٹی کانفرنس کاسن رہے تھے اس کے بھی امکان دور دور تک نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے ایک بہت بڑی ذمہ داری لی تھی کہ عید الفطر کے بعد وہ ایک آل پارٹی کا نفرنس کا انعقاد کرنے کے بعد بڑا احتجاج کروں گا یہ بات انہوں نے کسی پریس کانفرنس میں نہیں کہی تھی بلکہ جس وقت انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت موجود تھی یہ ایک افطار پارٹی تھی جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ عید کے بعد ایک بھر پور احتجاجی تحریک چلائی جائے گی لیکن اب چونکہ عید الفطر کو بھی گزرے خاصا وقت ہو چکا ہے تو وہ احتجاجی تحریک کہاں گئی جس کا مولانا نے اعلان کیا تھا؟اور اگر وہ احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے تو انہیں اس کا اعلان ہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔


یہ وجہ ہے کہ اپوزیشن کے حکومت کے خلاف تمام معاملات ٹھس ہو گئے ہیں اور صرف ملاقاتیں ہی باقی رہ گئی ہیں ۔ایک جگہ سے دوسر ی جگہ ایک سیاستدان کی دوسرے سے ملاقات لیکن آگے کرنا کیا ہے اس بارے میں کسی کے علم میں کچھ نہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے مقاصد کے سامنے ایک بڑا ڈیڈلاک آگیا ہے ،اس سارے تناظر میں پاکستان عوام کا کیا رویہ ہے ۔

کیا عوامی سطح پر ان تمام معاملات کو دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے ؟کیا مہنگائی کے باوجود عوام حکومت مخالف تحریک میں دلچسپی رکھتی ہے ؟ایسا ہمیں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان عوام سخت مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے لیکن اس کی وجوہات ان کے سامنے واضح ہیں کہ اس کا اصل ذمہ دار کون ہے ،سابقہ حکمرانوں کی کرپشن اور ملکی دولت کی لوٹ مار سے پوری عوام واقف ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عمران خان کو حکومت سنبھالے سال نہیں بلکہ مہینے ہوئے ہیں انہیں جو معیشت اور سابقہ حکومتوں سے ورثے میں ملی ہے وہ تقریباً تباہ حال تھی دس برسوں کے دوران اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک پہنچادےئے گئے تھے ،اس لئے بلاول مریم ملاقات پاکستانی عوام کے لئے یاک غیر تعلق قسم کی ملاقات تھی جس میں عوام کو کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن سیاسی قیادتوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اپنا کھیل کیسے جاری رکھیں حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کی ملاقاتیں عوام کے نزدیک مذاق بن چکی ہیں اس سے بہتر تھا کہ یہ ملاقات ہوتی ہی نہ تو شاید کچھ بھرم رہ جاتا کیونکہ اس ملاقات میں یہی بات کی گئی کہ احتجاج کیا جائے گا لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں تھی احتجاج کی یہ کال تو کئی مہینے پہلے بھی دی گئی تھی لیکن ہوا کیا۔

۔۔
اس سارے معالمے میں سب سے قابل رحم صورتحال دونوں جماعتوں کی دوسرے نمبر پر سینئر قیادت کی ہوتی ہے کہ وہ دونون ان رواتی سیاستدانوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں ۔قمر زمان کا ئرہ کو لے لیں پیپلز پارٹی کے بہترین سیاستدان میں سنجدیہ حلقوں میں انہیں پسند کیا جاتا ہے لیکن کیا کریں بلاول کی بے وجہ ہنسیوں کے سامنے وہ خاموش کھڑے رہتے ہیں یہی حال سینئر رہنما اعتزاز احسن اور دیگر کا ہے ،یہی صورتحال یقینا ن لیگ کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق اور دیگر کی مریم نواز کے سامنے ہو گی ۔


ان کی ساری زندگی مسلم لیگ میں سیاست کرتے گزر گئی اس دوران وہ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر متمکن رہے لیکن آج کوئی انہیں جانتا نہیں کہ وہ ن لیگ کے چےئرمین ہونے کے باوجود کہاں ہیں۔
پاکستان میں خاندانوں کی سیاست بڑے بڑے سیاسی آسمان کھاگئی ۔کسی میں کوئی صلاحیت ہو یا نہ ہو لیکن چونکہ وہ فلاں لیڈر کا بیٹا یا بیٹی ہے اس لئے وہ پارٹی رہنما ہے استغفراللہ جدید دنیا میں یہ اٹھارویں صدی کا سیاسی نظام ہے جس نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے ۔


بد قسمتی سے ہم جس خطے کے باسی ہیں وہ اس لعنت میں روز اول سے مبتلا ہے ۔یہاں پارٹی لیڈر کا بیٹا یا بیٹی ہی پارٹی کی قیادت کر سکتے ہیں ،یہاں اگر کوئی پیر ہے تو اس کا بیٹا ہی گدی نشین بنے گا ،یہاں کوئی عالم دین ہے تو اس کا بیٹا ہی اس کی علمی وراثت کا جانشین ہو گا ۔یہ کیسا نظام ہے ؟یہ دنیا میں رہنے کا کون سا طریقہ ہے ؟مسلمانوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہ نسبتوں اور سیاسی وراثتوں کے بھنور میں روزاول سے پھنس گئے اور اس چکر میں پڑ کر ساری دنیا کو اپنے اوپر مسلط کر لیا۔

معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستانی سیاست میں میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی طوربھی درباری کردار سے کم نہیں ۔
ایک اینکر کسی سیاستدان کا طبلہ بجاتا ہے تو دوسرا کسی اور کا حقیقت کیا ہے اور کس کے بارے میں کیا کہنے کا حق بنتا ہے اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ۔یوں پاکستانی سیاست کم دربار اکبرکا نظارہ زیادہ پیش کرتی ہے ۔

ایک مرتبہ ملک کے معروف سیاستدان بابر اعوان صاحب سے ملاقات ہوئی اس زمانے میں موصوف سابق صدرزرداری کی پیپلز پارٹی کا حصہ ہوا کرتے تھے اور زرداری کے کیسیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ خاصے دھڑلے سے جایا کرتے تھے ۔گفتگو کے دوران جس وقت بلاول کا ذکر آیا تو ان کا کہنا تھا ”آپ نے دیکھا کہ بلاول کی گفتگو کا انداز۔۔۔ہے نہ محترمہ بے نظیر شہید کارنگ “میرے پاس ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ تھا سوائے حیرت سے انہیں تکنے کے ۔


ان حقائق کو سامنے رکھ کر سوچا جائے کہ کیا یہ سیاسی ورثہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بھی ایسے مسائل جوان کے بڑوں نے اس ملک اور قوم کے لئے کھڑے کئے ہوں ،اس وقت وطن عزیز کو داخلی اورخارجی سیکورٹی کے حوالے سے جو چیلنجز درپے ہیں کیا یہ ان سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟کیا پاکستانی عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ امریکہ کی جانب سے شروع کی جانے والی نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف “اس خطے کا رخ کئے ہوئے ہے۔

امریکہ افغانستان سے شرافت سے نکلنے کے لئے تیار نہیں وہ جاتے جاتے پاکستان کو اپنی شکست کا ذمہ دار کہہ کرا سے سبق سکھانا چاہتا ہے امریکہ کی اس ذہنی کیفیت سے بھارت ،اسرائیل اور افغانستان میں بیٹھے پاکستان دشمن عناصر مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں۔
افغانستان میں افغان طالبان کا مقابلہ کرنے کے لئے داعش کو خاموشی سے وہاں داخل کیا جارہا ہے تاکہ افغا نستان سوویت یونین کی تحلیل کے بعد کے خانہ جنگی والے افغانستان کا منظر پیش کر سکے امریکہ اس بات سے بھی خبر دار ہے کہ افغانستان میں لائے جانے والی داعش کا مدار صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ پاکستان اور خطے میں چینی اور روسی مفاد کے خلاف تک بڑھایا جا سکے گا۔

بھارت میں ہندو انتہا پسند حکومت کا اعیادہ کرانے کا بنیادی مقصد یہی ہے وہاں مسلمانوں کے خلاف جان بوجھ کر نفرت کو ہوا دی جارہی ہے ۔
معاملہ صرف بھارت تک محدود نہیں ہے بلکہ اب سری لنکا کی موجودہ حکومت کے متعلق بھی یہ حقائق سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں کہ وہاں ہونے والے دھماکوں میں وہاں کی حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ تھا تاکہ مسلمانوں کے خلاف یہاں بھی بڑے پیمانے میں کریک داؤن شروع کیا جا سکے۔

یہ وہ صورتحال ہے جس میں امریکہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لئے جنوبی ایشیا اور جنوبی مشرق ایشیا میں آگ کا نیاکھیل شروع کر چکا ہے تاکہ یہاں کی تمام امریکی مخالف قوتوں کو یہاں مصروف رکھ کر مشرق وسطی میں اسرائیل کی عالمی صہیونی دجالی سیادت کا اعلان کیا جا سکے اس حوالے سے اہم ترین عرب حکومتیں پہلے ہی امریکہ اور اسرائیل کی جیب میں جا چکے ہیں ۔


ان حالات میں پاکستان میں کیسی محبت وطن قیادت ہونی چاہئے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ،ان آنے والے تشویشناک حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ان سیاستدانوں سے ملک اور قوم کی لوٹی ہوئی رقم نکلوائی جائے جو باہر کے بینکوں میں پڑی ہے کیونکہ موجودہ معیشت کے سہارے پاکستان ان کے حالات کا سامنا کرنے سے قاصر ہے ۔اس کے بعد ان ملک دشمن کرپٹ سیاستدانوں اور ان کی اولادوں کو جیلوں میں ڈال کر انہیں قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں اس کے علاوہ غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کی غرض سے ملکی دفاعی اداروں کے خلاف زبان درازی کرنے والے سیاسی عناصر کو لگام دی جائے ۔

سیاسی اور میڈیا کے شعبے میں کڑا احتساب کرکے گزشتہ دو دہائیوں کا حساب کیا جائے اسی صورت میں پاکستان آنے والے کڑے حالات کا مقابلہ کر سکے گا۔
سندھ میں حکومتی عناصر کی گرفتاری سے صوبائی پارلیمان میں بڑی تبدیلی کا امکان نظر آنے لگا ہے کیونکہ آنے والے وقت میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت دیگر اہم ارکان نیب کے ریڈار میں آچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیاسی عناصر کی گرفتاری کے ساتھ ہی میڈیا کی اہم شخصیات کے گرد گھیراتنگ کردیا جائے گا۔یہ تمام کام ریاستی ادارے کسی بھی سیاسی وابستگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انجام دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bari Giraftariyon Ka Silsala Shoro Hone KO Hai is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 June 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.