عمران خان کاسیاسی مافیا کے خلاف آپریشن کلین اپ

موجودہ حکومت کو قائم ہوئے4 ماہ ہو چکے ہیں لیکن تاحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے

جمعہ 11 جنوری 2019

Imran Khan ka sayasi mafia ke khilaaf operation clean up

نواز رضا

موجودہ حکومت کو قائم ہوئے4 ماہ ہو چکے ہیں لیکن تاحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔ ابھی سے ہی حکومت گرانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاق میں حکومت قائم کرنے کے بعد پنجاب میں ’’شب خون‘‘ مارا اورپاکستان مسلم لیگ ن کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومتیں بنانے کے بعد سندھ پر ’’حملہ آور‘‘ ہونے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے حکومت عزائم کو بھانپتے ہوئے سندھ میں در اندازی سے روک دیا اور کہا کہ ’’ سندھ میں گورنر راج لگایا تو ایک منٹ میں اڑا دوں گا‘‘ جس کے بعد وفاقی حکومت بھیگی بلی بن گئی۔ بلاول بھٹوزرداری، اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور فاروق اے نائیک کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا سپریم کورٹ نے سخت نوٹس لیا جس وفاقی کابینہ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کئے گئے172 افراد کے نام فوری طور پر فہرست سے نہ نکالنے اور اس معاملے کو ای سی ایل جائزہ کمیٹی کوبھیجنے کا فیصلہ کیا وزیر اعظم عمران خان نے سینئر ارکان سے مشورہ کیا جس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ فوری طور پر172 افراد کے نام ای سی ایل سے نہ نکالے جائیں بلکہ ای سی ایل میں شامل172 افراد کے کیسسز کا فرداً فرداً جائزہ لے کر ان کے نام ای سی ایل سے نکالے جائیں ۔

(جاری ہے)

جس پر پوری کابینہ نے متفقہ طور پر فی الحال ای سی ایل سے کوئی نام فوری طور پر نہ نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ کو کابینہ کے فیصلے اور کارروائی کے حوالے سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ حکومت 172افراد کے نام ای سی ایل ریویو کمیٹی کو بھیجے گی جو اگلے ہفتے رپورٹ پیش کرے گی۔ سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکا ئو نٹس کیس کے سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس نیب کو بھجواتے ہوئے دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور پی پی رہنما فاروق ایچ نائیک کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے جعلی اکائونٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی، ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا لیکن اس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے عجلت میں پریس کانفرنس کر ڈالی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلاول بھٹو اور سید مراد علی شاہ کو جو ریلیف دیا گیا ہے وہ حکومت کو ’’ہضم‘‘ نہیں ہو پا رہا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ کا نام گھنائونی کرپشن میں آنا بھی ایک بڑی شرمندگی ہے، تحریک انصاف کا مراد علی شاہ کے استعفاٰ کا مطالبہ برقرار ہے، کرپشن میں ملوث90 فیصد سیاستدان جیل میں جا چکے ہیں، کرپٹ لوگوں کو سیاست کرنے کیلئے این آر او یا کرپشن کو قانونی قرار دینا پڑے گا، وزیر اعظم کا سیاسی مافیا کے خلاف آپریشن کلین اپ کامیاب ہوا ہے، فلم ٹھگز آف پاکستان میں مراد علی شاہ کا کردار اہم ہے، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ نیب جعلی اکائونٹس کیس میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ سے تفتیش کر سکے گی، جے آئی ٹی کی تمام فائنڈنگ کے تحت کیس نیب کو بھجوایا جائے گا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا ساتواں سیشن 14 جنوری2019 کو طلب کر لیا ہے۔ سینیٹ کا اجلاس بھی آئندہ چند روز میں طلب کئے جانے کا امکان ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نیب کی زیر حراست قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر آئندہ ایک سے دو روز میں جاری کردیے جائیں گے جس کے بعد14جنوری سے شروع ہونے والے اجلاس میں شرکت کیلئے میاں شہبازشریف اور خواجہ سعد رفیق کو اسلام آباد لایا جائے گا اور نیب پروڈکشن آرڈر پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ واضح رہے کہ شہبازشریف جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں اور منسٹر انکلیو میں واقع ان کی سرکاری رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے کر شہبازشریف کو وہاں رکھا گیا ہے جبکہ خواجہ سعد رفیق جسمانی ریمانڈ پر نیب لاہور کی تحویل میں ہیں اور قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی انہیں لاہور سے اسلام آباد منتقل کر دیا جائے گا اور پارلیمنٹ لارجز میں میں واقع خواجہ سعد رفیق کو الاٹ کئے گئے اپارٹمنٹ کوسب جیل قراردے دیا جائے گا ۔ گذشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے وفاقی درالحکومت اسلام آباد کا ہنگامی دورہ کیا۔ اس دوران انھوں نے24 گھنٹے میں متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے دو ملاقاتیں کیں۔ دونوں رہنمائوں نے ملکی سیاسی صورتحال اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ مولانا فضل الرحمان عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔ کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے گرینڈ الائنس بنانے کے بارے میں انھیں پرجوش جواب موصول نہیں ہوتا اور کبھی پاکستان مسلم لیگ ن مصلحتوں کا شکار نظر آتی ہے۔ جس کے باعث اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کی بیل تاحال منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں مولانا فضل الرحمان ایک ہارڈ لائن لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی سمجھوتے کی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اب بھی اکٹھی نہیں ہوئیں تو کیا سب جیل میں جا کر اکٹھے ہوں گے؟ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری کمر کس کر کراچی جا رہے تھے لیکن سپریم کورٹ کی وارننگ کے بعد انھوں نے نہ صرف اپنا دورہِ کراچی منسوخ کر دیا بلکہ سندھ میں کوئی تبدیلی لانے سے ہی منکر ہو گئے تا ہم وہ ا بات پر زور دے رہے ہیں کہ مراد علی شاہ کے خلاف چونکہ الزامات ہیں لہذا وہ از خود وزیر اعلیٰ سندھ کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ جبکہ اپوزیشن کا موقف یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان پر اسی نوعیت کے الزامات ہیں، وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان تو متعدد بار نیب میں پیش بھی ہو چکے ہیں، اگر پاکستان تحریک انصاف مراد علی شاہ کے استعفے پر زور دیتی ہے تو پہلے اسے محمود خان سے استعفاٰ طلب کر کے مثال قائم کرنی چاہیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا موقف ہے کہ سندھ میں30 ووٹوں کی اکثریت پر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے صرف 15ووٹوں کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پاکستان تحریک انصاف کے اس طرز عمل کا سخت نوٹس لیا ہے اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے تحریک انصاف کو اپنی حکومت کی ’’خیر‘‘ منانے کا مشورہ دیا ہے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمان نہ صرف موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے علاوہ اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنانے کے لئے کوشاں ہیں چونکہ وفاقی حکومت6 ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے لہذا اسے گرانا، سندھ کی حکومت گرانے سے زیادہ آسان ہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے محض پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو دبائو میں لانے کیلئے تحریک عدم اعتماد کی بات کی ہے لیکن وہ بھی تحریک عدم اعتماد لانے کے بارے مین سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت جسے پاکستان تحریک انصاف نے دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بھی موجودہ حکومت کو کام کرنے کا موقع دینا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو غلطیاں کرنے کا موقع دیا جائے، بالآخر وہ اپنے ہی بوجھ تلے دب جائے گی۔ مولانا فضل الرحمان ماضی میں مختلف تحریکوں میں پیش پیش رہے اب بھی وہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اس راہ پر چلانا چاہتے ہیں لیکن انھیں دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے خاطر خواہ ’’تعاون‘‘ نہیں مل رہا جس کی وجہ سے انھیں اپنے ایجی ٹیشن کے پروگرام کو عملی شکل دینے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے بعض ہارڈ لائنر اپوزیشن کو بار بار ایجی ٹیشن اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر اکسا رہے ہیں جس کی وجہ سے ملکی سیاسی ماحول مکدر ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ’’دوستانہ طرز عمل‘‘ اختیار کر کے انھیں اپنے قریب تر کرنے کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے لیکن اگر حکومت طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کر کے یہ سمجھتی ہے کہ اس کے لئے میدان خالی ہو گیا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Imran Khan ka sayasi mafia ke khilaaf operation clean up is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 January 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.