عمران خان قبل ازوقت انتخابات کی ”غلطی“کریں گے؟

اَپوزیشن اَب حکومت کو مزید وقت نہیں دے گی

منگل 16 اپریل 2019

Imran Khan qabal az-waqat intikhabaat ki ghalti karay gay
 نواز رضا
جب سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت قائم ہوئی ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
گزشتہ 9ماہ سے پاکستان تحریک انصا ف کی اعلیٰ قیادت نے جو طرز عمل اختیارکر رکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ ابھی تک ”کنٹینر“پر سوار ہے۔یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جو اپوزیشن کو ”مشتعل“کرنے کا کوئی ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی۔


وزیراعظم عمران خان صبح شام اپوزیشن کو کوستے رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی جلسہ ہو جس میں انھوں نے اپوزیشن کو چیلنج نہ کیا ہو ۔وزیراعظم عمران خان نے 9ماہ بعد ہی ”جلسہ جلسہ“کھیلنا شروع کر دیا ہے ،ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے ذہن میں قبل از وقت انتخابات کا کوئی نقشہ موجود ہے ۔

(جاری ہے)

وہ بھی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سیاسی ”غلطی“کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے گھوٹکی اور جمرود کے جلسوں میں اپوزیشن کو خوب لتاڑاہے۔
اب انھوں نے 4اپریل 2019ء کو گڑھی خدابخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی 40ویں برسی کے موقع پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر کانوٹس لیتے ہوئے انھیں ڈی چوک میں دھرنے کیلئے کنٹینر اور کھانا فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کنٹینر میں گزارکر دکھائیں ۔


وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ این آر اودوں گا نہ بلیک میل ہوں گا‘چوروں اور لٹیروں کا احتساب کرنے آیا ہوں اور احتساب کرکے رہوں گا۔
آصف زرداری اور بلاول اسلام آباد دھرنے کا شوق پورا کرلیں‘ان کیلئے کنٹینر صاف کرنے کی ہدایت کر دی ہے ‘حکومت کہیں نہیں جانے والی‘یہ لوگ جیل جانے والے ہیں اور انہیں ملک اور قوم کالوٹا ہوا پیسہ واپس کرنا ہو گا۔

عمران خان آج جس دھرنے کی مخالفت کررہے ہیں2014ء میں وہی دھرنا ان کیلئے درست تھا۔ان کا موقف ہے جو دھرنا اپنی”چوریوں اور ڈکیتیوں“پر پردہ ڈالنے کیلئے دیا جاتا ہے اسے عوام مسترد کر دیتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ لیڈروہ بنتا ہے جس نے عوامی جدوجہد کی ہو اور ماریں کھائی ہوں۔ جسے پارٹی قیادت ورثے میں ملے وہ لیڈر نہیں بن سکتا۔وزیراعظم نے کہا کہ پی پی پی کے جلسے میں لوگوں کو دوسو،پانچ سوروپے دے کر بلایا گیا جو عوامی لیڈر ہوتا ہے اس کے دھرنے اور جلسے میں عوام خود آتے ہیں جس طرح کہ پی ٹی آئی کے ڈی چوک دھرنے میں آئے تھے۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ فضل الرحمن ملین مارچ کی بات کررہے ہیں ،ان کی وکٹ الیکشن میں اڑگئی اور وہ کلین بولڈ ہوگئے،اب ان کی مثال ایسی ہے جیسے سارا دن فیلڈنگ کرنے والا کھلاڑی بیٹنگ کی باری آنے پر پہلی ہی بال پر آؤٹ ہو جائے اور پھر وکٹیں لے کر بھاگ کھڑا ہو کہ خود کھیلوں گا اور نہ ہی دوسروں کو کھیلنے دوں گا۔
مولانافضل الرحمن باری کی چکر میں ہیں جو انہیں نہیں ملنے والی۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چےئرمین بلاول بھٹوزرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 40ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک بڑا جلسہ کرکے اپنی ”سیاسی قوت“مظاہرہ کیا ہے ۔قبل ازیں بلاول بھٹوز رداری ”کاروان بھٹو“کے نام ٹرین مارچ کرکے حکومت کو اپنے سیاسی وجود کا احساس دلاچکے ہیں۔

یہی وجہ ہے اس وقت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم عمران خان کے ”اعصاب“پر سوار ہیں۔
وزیراعظم اپنے ہر جلسہ میں جہاں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہاں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر بھی خوب گرجتے برستے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی وہ مولانافضل الرحمن کے ساتھ بھی ”اظہارالفت “کرکے سیاسی ماحول میں کشیدگی پیدا کر رہے ہیں ۔

گویا وزیراعظم اپوزیشن جماعتوں سے ”چومکھی“لڑائی لڑرہے ہیں ۔بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ ”وفاقی حکومت 18ویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہے ،اگر اس کی کوشش بھی کی گئی تولات مارکر حکومت گرادیں گے۔
وزیراعظم میرے گھوٹکی میں آکر کہتے ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم کو ختم ہونا چاہیے۔“ یہ بات قابل ذکر ہے وزیراعظم ایک سانس میں آئین میں 18ویں ترمیم کے نقائص گنواتے ہیں اور این ایف سی ایوارڈ کا رونا روتے ہیں لیکن دوسرے سانس میں انہیں بر قرار رکھنے کی بات بھی کرتے ہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت 18ویں ترمیم کے تحفظ کیلئے کھڑی ہوگئی ہے اور اس سلسلے میں تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کررہی ہے ۔اپوزیشن کی تمام جماعتیں 18ویں آئینی ترمیم سے ”چھیڑ چھاڑ“کرنے والوں کے خلاف متحد ہیں ۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی وزیراعظم عمران خان پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ”اگر موجودہ وزیراعظم کو رہنے دیا گیا تو یہ ملک کو 100سال پیچھے لے جائے گا ۔

اب ہم اسے مزید وقت نہیں دے سکتے ،یہ ملک کا خانہ خراب کر دے گا،ہم ملک کی خاطر انہیں ایوانوں سے نکالیں گے ۔انہوں نے جیالوں سے کہا کہ ”تیار ہو جاؤ“وقت آگیا ہے اسلام آباد کوچ کرنے کا ۔بھائیو!تیار ہو جاؤ وقت آگیا ہے انہیں گھر بھیجنے کا ،اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔
چاہے میں جیل میں ہوں یا باہر اب ان کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے ۔کارکن صبر کریں ،بہت جلد ان کو نکالنے کی تحریک چلائیں گے“۔

آصف علی زرداری ،جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت سے لڑائی لڑنے کے موڈ میں نہیں ،اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ کھل کر حکومت کے سامنے آگئے ہیں ۔آصف علی زرداری کی مولانا فضل ارحمن سے تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنا کے پروگرام پرتبادلہ خیال ہوا ہے ۔مولانافضل الرحمن تو ڈی چوک میں دھرنا دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔

تاحال دھرنا دینے کے پروگرام کو اسلئے حتمی شکل نہیں دی جا سکی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت ”گو مگو“کی کیفیت کا شکار ہے ۔اگر عمران خان اپوزیشن کو دھرنے کیلئے ”مشتعل“کرتے رہے تو ایک دن ایسا بھی آجائے گا کہ مولانا فضل الرحمن دھرنا دینے کی کال دے دیں گے۔
جمعیت علماء اسلام (ف)سے وابستہ دینی مدارس میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ زیرتعلیم ہیں ۔

مولانا فضل الرحمن کیلئے اسلام آباد میں لاکھوں افراد اکٹھے کرنا مشکل نہیں ۔سرد ست پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کی چھ ہفتے کیلئے ضمانت منظور ہوئی ہے اور ان کی تمام تر توجہ اپنے علاج معالجہ اور عدالتی ریلیف حاصل کرنے کی طرف مرکوز ہے ۔لہٰذا پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت فی الحال حکومت کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔


نیب نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلافات میاں شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دے رکھی ہے ۔اسی طرح نیب نے پاکستان مسلم لیگ ن پر دباؤ ڈالنے کیلئے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی رہائش گا ہ پر چھاپہ مار کر خوف وہراس کی کیفیت پیدا کر دی ہے لیکن میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے طرز عمل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ بھی نیب کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ ہے ”سلیکٹڈوزیر اعظم “خود پھٹ پڑا ہے کہ پیسہ اکٹھا نہیں ہورہا ۔اگر پیسے اکٹھے نہیں ہو رہے تو اقتدار چھوڑ دو۔“انھوں نے دعویٰ کیا کہ ”18ویں ترمیم کو ختم کرنے کیلئے میرے خلاف کیسزبنائے جارہے ہیں۔“
گڑھی خدا بخش میں جہاں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے وہاں پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ نے بھی الگ جلسہ منعقد کرکے اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ غنویٰ بھٹو بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت کی جنگ میں شدت پیدا ہو گئی ہے ۔اس جلسہ کی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کی چےئرپرسن غنویٰ بھٹو نے پہلی بار کھل کر کہا ہے کہ ”جلد فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونےئر“کو سیاست کے میدان میں اتاریں گی۔انھوں نے کہا ہے ”40برسوں کے دوران چار بھٹوز کو قتل کیا گیا۔


بھٹو ایک دلیراورذہین لیڈر تھے،ہم بھٹو کے اصل وارث ہیں۔“انھوں نے دلچسپ پیرائے میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری سودے باز ہیں ،بلاول 30برس کے ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک آزاد نہیں ہوئے اور ابھی تک باپ سے جیب خرچ لیتے ہیں ۔“
جلسہ میں زرداری دور کے خاتمہ اور فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونےئر کے نعرے لگا کر غنویٰ بھٹو کا دوبارہ میدان سیاست میں آنے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کی تقسیم کا باعث بنے گا۔


وزیراعظم عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں ۔دونوں کے درمیان ایوان میں ایک بار مصافحہ تو ضرور ہوا لیکن پار لیمانی امور پر ایک بھی ملاقات نہیں ہو سکی جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دوارکان کی تقرری پر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ”بامعنی“مشاورت نہیں ہو سکی۔

وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر میں شہباز شریف سے ملاقات کرنے کیلئے تیار نہیں ۔
کسی جمہوری ملک کے یہ پہلے وزیر اعظم ہیں جو اپوزیشن کے ساتھ ملاقات کے آئینی تقاضے پورے کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیشنل ایکشن پلان پر پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو بریفنگ دینے کیلئے خط کے ذریعے دعوت دی تو اپوزیشن نے ان کی دعوت مسترد کر دی ۔

جس کے باعث نیشنل ایکشن پلان پر 28مارچ 2019ء کو دی جانے والی بریفنگ منسوخ کرنا پڑی۔قبل ازیں پار لیمانی جماعتوں کے قائد ین کو قومی سلامتی کو لاحق خطرات اور پاکستان کی دفاعی تیاریوں کے بارے میں دی جانے والی بریفنگ میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مل بیٹھنے سے گریز کیا۔
لہٰذا وزیرعظم عمران خان کے اس طرز عمل کے بعد اپوزیشن نے حکومت سے قطع تعلق کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری ،جو طنز یہ انداز میں گفتگو کرنے میں ملکہ رکھتے ہیں ،کا کہنا ہے کہ ”جب وزیراعظم اپوزیشن سے ملنا نہیں چاہتے تو وہ کیوں ان سے ملاقات پر مُصر ہے ؟“
بہر حال اپوزیشن کے رہنماؤں نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر وزیراعظم اپوزیشن سے ملنے کیلئے تیار نہیں تو وہ بھی ان سے ملاقات کیلئے نہیں مری جارہی۔


وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے معاملے پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو خط لکھا ہے ۔عمران خان نے ارکان الیکشن کمیشن کے تقررکیلئے مشاورت سے متعلق شہباز شریف کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے مشاورت کیلئے خط لکھا گیا،میرے سیکرٹری کی طرف سے لکھا گیا خط بھی آئین کی روح کے منافی نہیں تھا سیکرٹری نے میری ہدایت پر ہی آپ کو خط لکھا تھا۔


وزیراعظم کا خط موصول ہونے کے بعدمتحدہ اپوزیشن کا ایک اجلاس میاں شہباز شریف کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستا ن کے دو ارکان کی تقرری کے بارے میں موصول ہونے والے خط کے مندر جات پر بھی غور کیا گیا ۔اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کی سر براہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کی نامزدگی کیلئے اپوزیشن کی طرف سے نام کو کوئی حتمی شکل دے گی۔


پاکستان مسلم لیگ(ن)نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف
 میاں شہباز شریف سے ”بامعنی“مشاورت سے گریز کوآئین کے منافی قرار دیا۔پاکستان مسلم لیگ (ن)کی ایڈوائزری کمیٹی نے وزیرعظم عمران خان کے میاں شہباز شریف کے نام خط کا جواب تیار کر لیا ہے اور یہ ڈرافٹ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی منظور کرلیا ہے ۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے جوابی خط میں وزیراعظم کے خط پر اعتراض اٹھایا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کے ارکان کے نام پہلے بھیجے ہیں اور مشاورت بعد میں کررہے ہیں ۔

تاہم حکومتی طرز عمل پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا امکان ہے ۔اب الیکشن کمیشن کے دوارکان کی تقرری کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں پیش ہو گا۔کمیٹی میں بھی یہ معاملی حل ہونے والانہیں اور اس معاملہ پر ڈیدلاک پیدا ہو سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Imran Khan qabal az-waqat intikhabaat ki ghalti karay gay is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 April 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.