بلاول بھٹو اور قوم کا حافظہ

منگل 10 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

بلاول بھٹو فرماتے ہیں کہ”تحریک انصاف کی حکومت کو وراثت میں مشکل معاشی حالات ملے“جنابِ بلاول بھٹو زرداری شائد یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ پاکستانی قوم کی یادداشت اور حافظہ کمزور ہے، ساری قوم پاگل ہے یا پھر بھنگ پی کر سوئی ہوئی ہے جسے ماضی کا کچھ یاد اتا پتا۔ 
جناب کے سابقہ سنہری اور شاندار دورِ حکومت میں افراط زر اوسطاً اٹھارہ سے پچیس فیصد تک رہی اور روپے کی قدر میں پینتالیس فیصد کمی واقع ہوئی۔

حالانکہ اس وقت سرکلر ڈیٹ اسی ارب روپے تھا اور پچاس ارب روپے ادا کر کے لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر قابو پا کر معیشت کا پہیہ چلایا جا سکتا تھا لیکن عوام کی فلاح اور سہولت کے لیئے اگر ایسا نیک کام کیا گیا ہوتا تو جو مال ہڑپ کیا گیا تھا اس بابت ابھی تک نیب میں میگا کرپشن کے کیس نہ چل رہے ہوتے۔

(جاری ہے)

یہ بھی یاد رہے اسی سنہری دور میں یعنی دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک گردشی قرضہ دو سو اٹھائیس ملین سے پانچ سو بلین جا پہنچا تھا۔

 
ان ہی کے دوسرے وزیرِا عظم راجہ پرویز اشرف کے طفیل چالیس سے پچاس ارب روپے رینٹل پاور کمپنیوں کے کرپشن کی نذر ہو گئے لیکن اندھیروں میں ڈوبے ملک میں ایک میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہ کی جا سکی۔ اسی باعث عوام کو بائیس بائیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑا اور گیس کی قلت، دہشت گردی، مہنگائی، امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث ملک کے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو گئیں۔

ان ہی کے سنہری دورِ حکومت میں چھہ ہزار ارب روپے کے قرضے بڑھ کر بارہ ہزار ارب تک پہنچ گئے تھے۔ 
جنابِ بلاول قوم کو یہ حقیقت بھی کیوں نہیں بتانے کی ہمت کرتے کہ ان کے وزیرِا عظم یوسف رضا گیلانی کو ان کے والدِ محترم اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں مبینہ بدعنوانی کا مقدمہ بحال کروانے کے لیئے سپریم کورٹ کی متعدد بار ہدایت کے باوجود سوئس حکام کو خط نا لکھنے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا تھا،جس پر ان کے وزیرِا عظم کو قربانی کا بکرا بننا پڑا تھا۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد یوسف رضا گیلانی دوسرے وزیر اعظم تھے جو طویل عرصہ یعنی چار سال ایک ماہ ایک دن تک وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہے،اس لیئے یہ تاویل بھی نہیں دی جا سکتی کہ ان کے مذکورہ وزیرِا عظم کو کام نہیں کرنے دیا گیا یا ان کے راستے میں نواز شریف کی طرح روڑے اٹکائے گئے تھے۔
کسے یاد نہیں کہ دو ہزار تیرہ میں ن لیگ کو دہشت گردی کا شکار اور اندھیروں میں ڈوبا ہوا پاکستان ملا اور پھر ملک کو روشنیاں دینے اور امن بحال کرنے میں اربوں روپے صرف ہوئے۔

دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی اور آپریشن ضربِ عضب کی مد میں ہر سال سو ارب روپے دفاعی اداروں کو دیئے جاتے رہے۔ نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک لفظ بھی ان کے سنہری دورِ حکومت کے حوالے سے ادا نہیں کیا اور نہ ہی یہ رنڈی رونا رویا کہ ہ میں خزانہ خالی ملا، اندھیروں میں ڈوبا اور دہشت گردی کا شکار ملک ملا یا وراثت میں مشکل معاشی حالات ملے، بلکہ ان کی سابقہ حکومت پر کسی قسم کی تنقید کیئے بغیر پوری تندہی سے ملک بھر میں تعمیر اور ترقی کے نئے دور کا آغاز کیا۔

جس کے باعث آج جنابِ بلاول کا صوبہ سندھ اور کراچی شہر روشنیوں سے جگمگا رہا ہے، بوریوں میں بند لاشیں نہیں مل رہیں اور ٹارگٹ کلکنگ کا بازار بھی گرم نہیں۔ اس کے باوجود کہ صرف ایک سال بعد ہی یعنی دو ہزار چودہ میں اگلوں نے نواز شریف کے خلاف پارلیمنٹ اور وزیرِ اعظم آفس کے سامنے ڈی چوک میں عمران خان کا کنٹینر کھڑا کروا دیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ نواز شریف کی حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا جائے۔

عدالتوں سے ن لیگی منصوبوں کے خلاف سٹے آرڈر لینے، مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ملک بھر میں اربوں روپے کے جو میگا منصوبے لگائے گئے آج وہ خود اپنا آپ بتا رہے ہیں۔
 جہاں تک جنابِ بلاول بھٹو کی جانب سے وزیرِا عظم عمران خان کی وکالت کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ ”تحریک انصاف کی حکومت کو وراثت میں مشکل معاشی حالات ملے“ تو عرض ہے کہ اگر نواز شریف کے دورِ حکومت میں مہنگائی کی شرح محض دو فیصد،شرح سود چھہ فیصداور پانچ اشاریہ نو فیصد جی ڈی پی تھی،آئی ایم ایف کو ستّر ارب ڈالرز واپس کر کے خیر آباد کہا جا چکا تھا،اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر چوبیس ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکے تھے تو کیا یہ ایسے حقائق اس بات کا کھلا ثبوت نہیں کہ عمران خان کو جب حکومت ملی وہ پیپلز پارٹی جیسی حکومت نہیں تھی؟ بلکہ ایک ان کے حوالے ایک خوشحال پاکستان کیا گیا تھا جس کا موجودہ ناکام حکومت نے تیا پانچہ کر کے رکھ دیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کی ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور کاروبار روک دیئے گئے۔

 
آج بھی عمران خان جن منصوبوں کے افتتاح کر رہے ہیں وہ تمام نواز حکومت کے ہی لگائے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں خاکسار دس فروری کے اپنے کالم”تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو“ میں تفصیل سے ان تمام کھربوں روپے کے اہم منصوبہ جات کو تفصیل سے بیان کر چکا ہے جو ن لیگ کے دورِ حکومت میں لگائے گئے، ان پر کس قدر لاگت آئی اور وہ تمام پیسے کہاں کہاں اور کس مد میں خرچ کیئے گئے۔

لہذا پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ”تحریک انصاف کی حکومت کو وراثت میں مشکل معاشی حالات ملے۔ 
بالفاظِ دیگر اگر ملک کنگال ہوتا یا بقول بلاول زرداری معیشت حالت خراب تھے تو مذکورہ تمام تر منصو بے کیسے لگتے اور اخراجات کہاں سے ہوتے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ جناب ِ بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کا بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور پنجاب سے بسترا بوریا گول ہونے کے بعد اب صوبہِ سندھ میں ان کی پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کے باعث اگلے انتخابات میں اگر دھڑن تختہ ہونے والا ہے تو انہیں عمران خان کی وکالت اور نواز شریف کی سابقہ حکومت پر تنقید کرنے کے بجائے اپنی پارٹی کے امور اور سندھ حکومت کی کارکردگی پر توجہ زیادہ مرکوز کرنی چاہیئے نہ کہ عمران خان کی طرح اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں پر بے جا اور بے بنیاد تنقید۔

بالخصوص صوبہِ سندھ میں فاروق ستار کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کی خبروں کے بعد انہیں ن لیگ پر تنقید کے بجائے اپنی رہی سہی پارٹی کو بچانے کی ضرورت ہے۔ با خبر ذرائع کے مطابق چکوال سے سردار غلام عباس اور فاروق ستار کی ن لیگ میں با ضابطہ شمولیت کے فوری بعد پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ کی معروف شخصیات کی ن لیگ میں شمولیت کنفرم ہو چکی ہے۔ 
بلاول بھٹو ابھی تک لگی لپٹی کے بغیر دو ٹوک اور منافقت سے پاک بات کرتے آئے ہیں اور یہی ان کی وجہِ مقبولیت بھی رہی ہے لیکن اب کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ وہ بھی عمران خان کے بے جا اور بے بنیاد تنقید کرنے کے نقشِ قدم پر چل نکلے ہیں۔

بلاول بھٹو کو ایسے لب ولہجہ اور پالیسی کا نتیجہ عمران خان کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر بخوبی ہو جانا چاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :