ہو کیا رہا ہے؟

جمعہ 27 دسمبر 2019

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

ملکی سیاست کی طرف اگر نظر دوڑاتا جاؤں تو ایک طرف ایک ادارہ نیب کرپشن کے ملزمان کو گرفتار کرتا ہے انکے خلاف ریفرنسز بناتا ہے تو دوسری طرف عدالتیں انھیں ضمانتیں فراہم کرتی ہیں۔ نیب بذات خود 2002 میں اس وقت کے صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے بنایا تھا جس کا کام ہی کرپشن کی روک تھام اور کرپٹ لوگوں کو پکڑنا تھا۔بدقسمتی سے یہ ادارہ عرصہ دراز سے غیر فعال نظر آتا تھا۔

گزشتہ دور حکومت میں نواز شریف اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نی ملکر موجودہ چیئرمین نیب کو تعینات کیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جب سے نیب کی کمان سنبھالی ہے ادارہ کافی متحرک نظر آتا ہے۔
وہ  پاناما کا ہنگامہ تھا یا میاں صاحب کی مقدمات، شہباز شریف کی گرفتاری تھی یا حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری، مریم صفدر تھیں یا کپٹین صفدر کی گرفتاری۔

(جاری ہے)

الغرض سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، سید خورشید شاہ، آصف زرداری و فریال تالپور کی گرفتاریاں بھی نیب کے فارم میں آنے کی بعد سے ہیں۔ اسی طرح شرجیل انعام میمن کی گرفتاری سے لے کر حالیہ احسن اقبال کی گرفتاری و انکوائری تک نیب کافی متحرک نظر آتی ہے۔ دوسری جانب مقدمات یافتہ احباب خواہ وہ نواز شریف ہیں یا آصف زرداری، فریال تالپور ہیں یا شہباز شریف، حمزہ شہباز ہیں یا کپٹن صفدر الغرض مفتاح اسماعیل، شرجیل انعام میمن سب ضمانت پر رہا ہوکر اپنے اپنے گھروں میں سکونت اختیار کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے غریب جھوٹے مقدمے یا چند ہزار روپوں کے لیے جیل میں بند ہو جاے تو اسے اپنی بقیہ زندگی اسی جیل میں گزارنی ہوتی ہے۔


اگر نیب کے مقدمات کی جانب دیکھوں تو 98 فیصد مقدمات و گرفتاریاں اپوزیشن کی نظر آتی ہیں بی۔آر۔ٹی پشاور کو سال ہا سال ہی گئے مگر کوئی پرسان حال نہیں۔اسی طرح خیبر پختونخواہ نیب مکمل سوتی نظر آتی ہے۔
ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کی مدت ملازمت کا مقدمہ چلتا ہے تو دوسری جانب جنرل (ر) مشرف کو 5 مرتبہ پھانسی اور اگر موت کی صورت میں لاش گھسیٹ کر ڈی چوک پر 3 دن کے لیے لٹکانے کا حکم آتا ہے۔

بے شک مشرف صاحب کے کیس کے پیراگراف نمبر 66 سے پوری قوم و علما میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آتا ہے ایسے میں پاک فوج ملک کو ادارے سے مقدم جان کے اداروں کے ٹکراؤ سے بچاؤ کی کوشش کرتی ہے کیونکہ دوسری جانب دشمن ملک بھارت، پاکستان کو اندرونی سطح پر کمزور کر کہ حملہ کرنا چاہتا تھا۔گزشتہ چند دنوں سے ایل۔اؤ۔سی پر بھارت بلا اشتعال فائرنگ کر رہا ہے تو کہیں سرحدی باڑ کو ہٹا رہا ہے۔

کشمیر میں کرفیو میں کم و بیش 145 روز گزر گئے ہیں ذرائع مواصلات تاحال بند ہیں۔ ایسے میں بھارت نے متنازعہ شہریت بل پاس کر کہ اپنے اندرونی معاملات کو مکمل طور پر خراب کر رکھا ہے آسام و دہلی و دیگر ریاستوں میں آزادی و مودی سرکار کے خلاف احتجاج دن بدن تقویت پکڑتے جارہے ہیں جوکہ ایک تحریک بن چکی ہے۔ کانگرس خود اس بل کی مخالفت میں دھرنا دیے بیٹھی ہے۔

ایسے میں مودی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور ملک میں انارکی پھیلا کر اسکا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ پاکستانی سرحد پر ایڈونچر کرنا چاہتا ہے۔مگر ملکی دفاعی ادارے مکمل طور پر فعال ہیں جو کہ منہ توڑ جواب سرحد پر دے بھی رہے ہیں گزشتہ 48 گھنٹوں سے ذرائع کے مطابق وقا" فا وقتا" فائرنگ کا تبادلہ ہورہا ہے، ایسے میں ملکی سیاسی، مذہبی جماعتوں کو ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئیے اور بجاے انتشار کے قوم میں وحدت لانی چاہئیے۔

بے شک پاک فوج ہر قسم کی مشکل وقت میں دشمن کو منہ توڑ جواب دیتی رہی ہے۔1965 و 1971 کی جنگ میں اپنے سے عددی اعتبار سے بڑی فوج کو ناکوں چنے چبواے تھے اور دشمن کے کی سرحد میں گھس کر اسے جواب دیا تھا مگر 1965 کی جنگ میں یا 1971 کی جنگ میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ ملک کی وحدت کی ایک بے مثال داستان ملتی ہے۔پاک فوج کے پیچھے اگر قوم کا بچہ بچہ سربکف تیار ہو تو فوج 3 گناہ دشمن کو کیسے چنے نا چبواے۔

یہ وہ فوج ہے جس نے 1979 میں حرم مکہ معظمہ کی حفاظت اپنے ذمہ لی تو جو فوج اللہ‎ کے گھر کی محافظ ہو کیسے ممکن ہے کہ اللہ‎ رب العزت اس فوج کیمائے گھر پر دشمن کے جھنڈے گاڑنے دے؟ وہ ملک جو بنا ہی خدا کے نام سے ہو اور جسکا مالک و سربراه خود رب کعبہ آپ ہو اس ملک کو بھلا کیسے آنچ آسکتی ہے ۔ مگر حکم خدا وندی کو اپناتے ہوے ہمیں ہر وقت دشمن سے مقابلہ کے لیے تیار رہنا چاہئیے اور جذبہ ایمانی و شہادت کے جذبہ سے بھرپور ہونا چاہئیے، بہر حال وحدت و یکجہتی ملک و قوم دونوں کی ضرورت ہے۔ شائد بھارت فروری 2019 کی چاے بھول چکا ہے جو سرحد پر اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے کر رہا ہے اس بار رد عمل بھی سخت ہوگا اور چاۓ بھی کڑک ملے گی۔ اللہ‎ پاک پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :