اسرائیل کے ساتھ ’ ’نارملائزیشن “ محدود آپشنزاور وقت

ہفتہ 15 اگست 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو مشکل وقت میں اکٹھا کرنے کے بجائے مزید تقسیم کردیا ہے اور اس تقسیم کے اثرات پوری دنیا بالخصوص امریکا‘ چین تعلقات پر کئی ہفتوں سے دیکھے جارہے تھے لیکن اب یہ اثرات جنوبی ایشیا بلکہ امریکی اصطلاح میں انڈوپیسفک کہلانے والے پورے خطے پر نمایاں ہوکر سامنے آرہے ہیں. ادھر متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اعلان اور سعودی عرب کے بدلے رویئے سے پاکستان کی پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے سعودی‘اماراتی اور کویت سمیت ریاض کے زیراثر عرب ممالک میں بڑی تعداد میں پاکستانی لیبر موجود ہے اور انہی بنیادوں پر عرب اسلام آباد کو بلیک میل کرتے آئے ہیں .

سعودی عرب کی جانب سے حال ہی ”ناراضگی“ کا اظہار اور معاشی دباؤ بڑھانے کے لیے وقت سے پہلے قرض کی رقم واپس مانگنا اور موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی بند کرنے کے پیچھے سالوں سے عربوں اور اسرائیل کی بیک ڈور ڈپلومیسی کارفرماہے اسلامی دنیا میں چونکہ فوجی طاقت کے لحاظ سے پاکستان سب سے طاقتور ملک ہے اور دنیا اسلام کی واحد ایٹمی سپرپاور ہے لہذا اسرائیل ہمیشہ اس سے خائف رہا ہے .

دنیا میں اپنا وجود برقراررکھنے کے لیے فوجی طاقت کے ساتھ معاشی طور پر مظبوط ہونا بھی ضروری ہے یہ افغان سوویت وار میں ثابت ہوچکا ہے اسلام آباد کے لیے لازم ہے کہ وہ عربوں کی بلیک میلنگ سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے تو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کالونیل بیوروکریٹک سسٹم کو ختم کرئے اور ملک کو چلانے کے لیے فوری طور پر ایک نیا نظام مرتب کیا جائے جوکہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے بس کی بات نظر نہیں آرہا.

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ‘بیوروکریسی اور اشرافیہ دو سو سال پرانے اس فرسودہ نظام کو اس لیے تحفظ فراہم کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے لیے سود مند ہے لہذا تمام تر وسائل ہوتے ہوئے بھی معاشی خودمختاری کا خواب ابھی شرمند تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا پاکستان میں ریکوڈیک منصوبہ ہویاتیل وگیس نکالنے کے پراجیکٹس 72سالوں میں ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے والے منصوبے ہمیشہ بیوروکریسی کے سرخ فیتے کی نظر ہوتے نظر آئے ہیں .

سیاست‘بیوروکریسی ‘اعلی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں چند خاندانوں کا ”راج“چلا آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کا کار ہوکر ملک سے باہر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جس کا تقریبا ہر دوسرا شہری بیرون ملک جاکر بسنے کے خواب دیکھتا ہے جس کی بنیادی وجہ کرپشن‘اقربہ پروری‘اشرافیہ کا راج اور غیرمستحکم پالیسیاں ہیں ‘حال ہی میں عالمی غنڈوں کے بلیک میلنگ کے لیے بنائے گئے اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے جو پالیسیاں اپنائی ہیں ان سے تحریک انصاف کے منشور کے تحت بیرون ملک سے سرمایہ کاری کیا آنی تھی پاکستانی سرمایہ کار بیرون ممالک بھاگ گئے ہیں .

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری آج بنگلہ دیش‘چین‘سری لنکااور برما منتقل ہوچکی ہے کیونکہ مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے لے آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے معاشی منیجر مختلف امیرکی شہریت رکھنے والوں اور غریب ممالک کوقرضوں کی دلدل میں پھنسانے والے اداروں کے ایجنٹ ”درآمد“کرکے ملکی معاشیات ان کے حوالے کردیں جنہوں نے ایسی معاشی پالیسیاں بنائیں جس سے آج پاکستانی شہری کے لیے معمولی بنک اکاؤنٹ تک کھلوانا تقریبا ناممکن ہوچکا ہے‘انہی پالیسیوں کی وجہ سے بجلی اور گیس سمیت دیگر یوٹیلٹی کی قیمتیں آج پورے براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں .

ان پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ کار اپنی انڈسٹری اور سرمایہ اٹھاکرپاکستان سے بھاگ گیا موجودہ حکمرانوں کا مکمل انحصار بھی ان ”درآمد شدہ“معاشی منیجروں اور وزیروں ‘مشیروں پر ہے جو چیف جسٹس آف پاکستان کے بقول خالی بریف کیس لے کر پاکستان آتے ہیں اور جب جاتے ہیں تو سوٹ کیس ”بھر“کر . پاکستان کے لیے فوری طور پر آزدانہ پالیسیاں بنانا ممکن نہیں اس لیے ہم سعودی عرب اور امارات سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے بلیک میلنگ اور دباؤ کا شکار ہیں ہمارے پاس آپشن محدود ہیں ایک آپشن تو یہ ہے کہ ہم ریاض‘ابوظہی کی خواہش پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ایبل نارمل سے نارمل پر لے آئیں یا پھر اپنی لیبر اور ہنر مندوں کے لیے افریقہ یا کوئی دوسری مارکیٹ تلاش کریں اس کے ساتھ ساتھ تیل کے لیے عربوں پر انحصار کرنے کی بجائے ایران سے تیل درآمد کریں مگر اس کے لیے ہمیں عربوں کے ساتھ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت بھی مول لینا ہوگی جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے .

چین ‘ترکی‘روس ‘ایران اور پاکستان کا بلاک ابھی بہت دور کی باتیں ہیں فوری طور پر ہمارے پاس تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عربوں کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے لہذا یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ چاہے سفارتی تعلقات قائم نہ کرئے مگر اندورن خانہ مشرف دور کے دور حکومت کے دوران ترکی میں شروع ہونے والے پاک اسرائیل مذکرات کو بحال کردیا جائے جوکہ 2008میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی حکومت اور 2013میں قائم ہونے والی مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں بھی کسی نہ کسی سطح پر جاری رہے .

عرب ملک جن خدشات کی بنا پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں ان میں ایک بھی عنصر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کے طے کردہ مسلمہ اصولی موقف سے انحراف کا جوازتو نہیں بن سکتا مگر” زمینی حقائق“ اسلام آباد کو مجبور کرسکتے ہیں‘پاکستان کے تحفظات وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان سے ابھر کر سامنے آئے جس میں انہوں نے کہا کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاوٴ کی پالیسی نہ کھیلے، کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں وزیرِاعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں.

شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں جس کی سالمیت اور خود مختاری کی خاطر ہر پاکستانی لڑ مرنے کے لیے تیار ہے لیکن ساتھ وہ آپ سے یہ تقاضا بھی کررہے ہیں کہ آپ بھی وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں جس کی امت مسلمہ کو آپ سے توقع ہے. اس بیان کے ساتھ ہی یہ خبریں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کو نومبر 2018ء میں ایک معاہدے کے تحت دیے گئے 3 ارب ڈالر نقد میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لیے اور پاکستان نے چین سے رقم قرض لے کر سعودی عرب کو لوٹا دی ہے اس کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بقایا 2 ارب ڈالر بھی واپس کرنا ہوں گے اور ادھار تیل کی سہولت کا معاہدہ بھی مئی میں ختم ہوچکا ہے اور پاکستان اس معاہدے کی تجدید چاہتا ہے لیکن ریاض کی جانب سے کوئی جواب نہیں مل رہا.

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان اور ان اطلاعات کے بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پہلی بار پست ترین سطح پر چلے گئے ہیں اور شاید دونوں ملکوں کا بھائی چارہ داؤ پر لگ چکا ہے‘سوشل میڈیا کے انقلابی اس صورتحال کو اپنے انداز سے بیان کر رہے ہیں اور شاہ محمود کے بیان کو پاکستان کی پہلی آزاد خارجہ پالیسی کی طرف پہلا قدم بتا رہے ہیں.

تاہم صورتحال سوشل میڈیاکے ”انقلابیوں“کے جذبات سے مختلف ہے پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاویدباجوہ 16اگست کو سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہورہے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ آتا ہے تو پاک فوج کے سربراہ ہی ریاض اور اسلا م آباد کے درمیان تعلقات کومعمول پر لانے کے لیے کردار اداکرتے آئے ہیں چاہے وہ جنرل راحیل شریف ہوں یا موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ.

لیکن ملکوں کے تعلقات کو جذباتی انداز سے دیکھنا اور سمجھنا بنیادی غلطی ہے اؤل تو پاکستان اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے تعلقات پہلی بار تناؤ کا شکار نہیں ہوئے اور اس تناوٴ کو باقی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور پیشرفت سے الگ رکھ کر دیکھنا ناسمجھی ہوگی جہاں تک پہلی آزاد خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو پالیسیاں وقت کے ساتھ تشکیل پاتی ہیں اور اسی اعتبار سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں کبھی بھی حکومتوں کی تبدیلی مستقل ریاستی پالیسی پر اثرانداز نہیں ہوتی.

2010ء میں وکی لیکس نے امریکی سفارتی مراسلے شائع کیے تھے اور انکشاف ہوا تھا کہ اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ پاکستان کے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو شدید ناپسند کرتے ہیں اور ان کے لیے کرپٹ کا لقب استعمال کرتے ہیں سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں ایران سے قربت سعودی شاہوں کے مزاج کو ناگوار تھی تب بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گرم جوشی پہلے جیسی نہیں تھی‘صورتحال اس حد تک خراب ہوچکی تھی کہ شاہ عبداللہ نے پاکستان میں فوجی حکومت کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا درحقیقت یہ ناپسندیدگی دو حکمرانوں کے درمیان معاملہ تھا اور ریاستوں کی پالیسی نہیں بدلی تھی پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی حکمرانوں کے درمیان معاملات پرانی ڈگر پر آگئے تھے اور سعودی عرب نے قرض کے بجائے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ یا گرانٹ دی تھی.

تحریک انصاف کی حکومت بنی تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ان کے سعودی روابط کمزور ہیں اور شاید انہیں کچھ مدد نہ مل پائے لیکن 3 ارب ڈالر قرض کے ساتھ 3 ارب ڈالر ادھار تیل مل گیا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ نومبر 2018ء سے اگست 2020ء کے دوران ایسا کیا ہوا کہ پہلی بار پاکستان کے وزیرِ خارجہ کو سعودی عرب کے خلاف سرِعام بولنا پڑا؟ان وجوہات میں سب سے بڑی وجہ پاک ایران تعلقات میں گرمجوشی سرفہرست ہے‘اس کے علاوہ دسمبر 2019ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کشمکش کی کہانی سامنے آئی جب کوالالمپور میں ہونے والی 5 ملکی سربراہ کانفرنس سے پاکستان سعودی دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا کوالالمپور میں پاکستان، ترکی، قطر اور ایران کے سربراہان کو بلایا گیا تھا اور اس اجلاس کو او آئی سی کے متبادل پلیٹ فارم کی تشکیل کی جانب پیشرفت سمجھا جارہا تھا پاکستانی وزیراعظم نے کوالمپور سربراہ کانفرنس میں عدم شرکت پر سعودی دباؤ کو بیان کردیا جس پر ریاض نے سخت ناپسندیدگی کا اظہارکیایہی وجہ ہے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان اور بھارت کے دوران اعلان کردہ سعودی سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سے بھارت کے لیے اعلان کردہ کئی منصوبوں پر عمل شروع ہوچکا ہے اور متحدہ امارات نے بھی بھارت کے لیے سعودی عرب سرمایہ کاری میں بھاری حصہ ڈالنے کا فوری اعلان کیا تھا مگر پاکستان میں یہ منصوبے ابھی تک کاغذوں پر موجود معاہدوں کی حد تک محدود ہیں.

پاکستان پر سعودی دباؤ کی کہانی ترک صدر رجب طیب اردگان کی زبانی سامنے آئی تھی اور پھر تفصیل نکلتی چلی گئی اس ممکنہ اتحاد کو واشنگٹن میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا تھا اور مالی مسائل کے شکار پاکستان کو سعودی عرب کا دباؤسہنا پڑا. عرب خلیجی ریاستیں قدامت پسند شاہی نظام پر کھڑی ہیں جبکہ گیس کی دولت سے مالا مال قطر، مسلم آبادی والا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا، یورپی یونین میں شمولیت سے بیزار جدید ترکی اور مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت پاکستان خود کو مسلم دنیا میں قائدانہ کردار کے ساتھ دیکھتے ہیں ترکی اور قطر کا اتحاد نیا نہیں لیکن عرب دنیا نے جب قطر کا مقاطعہ کیا تو ترکی کھل کر قطر کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس اتحاد کو زیادہ موثر انداز سے دیکھا اور سمجھا گیاقطر اور ایران کے گیس ذخائر سانجھے ہیں اور ان کا تعلق بھی اٹوٹ سمجھا جاتا ہے عرب دنیا کی طرف سے مقاطعہ کے اعلان سے پہلے بھی قطر اور ایران کے تعلقات پرجوش رہے ہیں قطر عرب بادشاہتوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہے، جبکہ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے ہی اچھے نہیں اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ترکی نے سی آئی اے سمیت کئی دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سعودی قونصل خانے کی ٹیپس تک رسائی دے کر جو زک پہنچائی تھی وہ بھی ابھی تک سعودی یادداشت سے محو نہیں ہوئی.

مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات میں ترکی کا اپنا ایک کردار رہا ہے شام اور لیبیا میں ترکی اب بھی متحرک کھلاڑی ہے اور عرب بادشاہتوں کے مقابل کھڑا ہے شام میں ترکی اگرچہ روس کے مقابل ہے لیکن روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم خرید چکا ہے آنے والے دنوں میں ترکی روس سے جدید لڑاکا طیارے سخوئی ففٹی سیون بھی خرید سکتا ہے، جس کے لیے اسے امریکا ایک طرح سے خود مجبور کر رہا ہے اور ترکی کو روس کی طرف دھکیل رہا ہے کشمیر اور فلسطین پر ترکی کا موقف ڈھکا چھپا یا معذرت خواہانہ نہیں اسی وجہ سے وہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بگاڑ چکا ہے پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ تقریباً تمام روابط توڑ چکا ہے اور امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ایک ڈھکوسلا ثابت ہوچکی ہے.

لداخ میں چین بھارت تصادم کے بعد امریکا کھل کر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور چین کے مقابلے میں اسے خطے میں بھارت کی زیادہ ضرورت ہے، یوں برسوں سے اتار چڑھاؤ کے شکار اتحادی اسلام آباد اور واشنگٹن میں پہلے جیسی قربت نہیں رہی اور امریکا افغانستان سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کی جس قدر مدد چاہتا تھا وہ پوری ہوچکی ہے‘امریکا جلد سے جلد افغانستان سے پیچھا چھڑانے کے چکر میں ہے اور اسلام آباد کی طرف سے روس افغان جنگ کے بعد تنہا چھوڑ دیے جانے کے شکوؤں کو خاطر میں لانے کے موڈ میں نہیں.

پاک امریکا تعلقات میں سعودی عرب ایک اہم عنصر تھا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ذاتی دوستی اور قربت کے باوجود واشنگٹن کے تعلقات ریاض کے ساتھ زیادہ گرم جوش نہیں امریکی عدالت سعودی ولی عہد کو سابق سعودی انٹیلی جنس عہدیدار سعد الجبری کے مبینہ قتل منصوبے پر سمن جاری کرچکی ہے اس سے پہلے امریکا سعودی عرب سے پیٹریاٹ میزائل بھی واپس منگوا چکا ہے‘امریکی سی آئی اے کی سربراہ، جو ترکی میں امریکی سفیر بھی رہ چکی ہیں اور ترک زبان بھی جانتی ہیں، وہ سعودی ولی عہد کی بجائے سعد الجبری کی طرف دار ہیں.

اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں تو امریکا سعودی عرب تعلقات مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے کیونکہ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن جمال خاشقجی کیس میں سعودی حکام کو سبق سکھانے کے بیانات دے چکے ہیں حال ہی میں چین ایران اسٹریٹجک معاہدے اور 400 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی خبریں شائع ہوئی ہیں جو خطے میں ایک اور بڑی تبدیلی ہے ایران امریکی دباؤ اور پابندیوں کا شکار ہے ایسے حالات میں اگر چین پورے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہ بھی کرے تو چین کی طرف سے رقم کا سہارا اور ڈالر سے ہٹ کر تیل کی خریداری کا معاہدہ پابندیوں میں جکڑے تہران کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں اس معاہدے کی خاطر ایران اپنے پرانے دوست نئی دہلی کو بھی بھلا کر آگے بڑھ رہا ہے، یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے.

امریکا چین کشیدگی اور دو کیمپوں میں تقسیم ہوتی دنیا بھی نئے امکانات کے در وا کر رہی ہے چین مشرق وسطیٰ میں بیک بنچر کا کردار چھوڑ کر متحرک ہونے کا اشارہ دے چکا ہے شام کے ساتھ اس سال مارچ میں ہونے والا اقتصادی تعاون کا معاہدہ اس کا ثبوت ہے امریکا خطے میں سیکیورٹی کا ضامن ہونے کے کردار سے خود دستبردار ہو رہا ہے اور سعودی عرب سے سیکیورٹی کے بدلے مزید رقوم کا تقاضا کرتا آرہا ہے.

کورونا وائرس کی وبا اور تیل قیمتوں میں کمی کے سبب دباؤ کے شکار خلیجی ممالک تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں، وہ موجودہ معاشی حالات میں ایران کے ساتھ تصادم کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور ناقابل اعتماد امریکا کی خاطر اپنی معیشت کو داوٴ پر نہیں لگا سکتے جبکہ اسرائیل اور امریکا سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں ایران کے ساتھ مسلح تصادم ان کے حق میں جاتا ہے اس لیے وہ عربوں کو بھی ایران کے خلاف بھڑکا رہے ہیں امریکا حسب سابق خواہش مند ہے اس جنگ پر عرب پیسہ خرچ کریں اور فائدہ واشنگٹن اٹھائے تاہم تیل کی قیمتوں کے اتارچڑھاؤ اور عالمی اقتصادی بحران نے عربوں کی کمر توڑ کررکھ دی ہے وہ اس جنگ کو ٹالنا کی کوشش کررہے ہیں.

اس جنگ کے شروع ہونے سے چین ‘روس اور ترکی بھی خاموش نہیں رہیں گے لہذا اس علاقائی تنازع کے تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہونے کے قومی امکانات ہیں کئی خلیجی ملک چین کی طرف سے ایران کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدوں اور ضمانت کو قبول کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں عدم جارحیت کے معاہدوں اور مشرق وسطیٰ کی سیکورٹی کے نئے ڈیزائن پر چین اور روس ہم خیال ہیں خطے میں بنتے نئے اتحاد موجودہ پاک سعودی کشمکش کی وجہ بن رہے ہیں پاکستان کی اپنی معاشی اور سیکورٹی ضروریات ہیں، اور سعودی عرب اس وقت کئی طرح کے مسائل سے نمٹ رہا ہے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے.

خراب صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی ٹیکس فری کہلانے والا ملک اس وقت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرچکا ہے محصولات کی مد میں اس کی آمدن 22 فیصد کم ہوئی ہے پھر سعودی عرب تیل کی دولت پر مستقل انحصار ختم کرکے نئے شعبوں کی تلاش میں ہے اور کبھی ملازمتیں نہ کرنے والے سعودی شہریوں کو ملازمت کے لیے مواقع فراہم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں.

پاک سعودی بھائی چارہ ختم ہونے اور انقلابی خارجہ پالیسی کے دعوے کرنے والے ابھی محتاط رہیں، کیونکہ مستقل طور پر امریکی کیمپ میں رہنے والوں کو کیمپ چھوڑنا پڑسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی گرفت سے چھٹکارا ناممکن ہوجائے یاد رہے کہ دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی میں ابھی کئی مہرے بڑھائے جائیں گے اور کئی بڑھا کر واپس کھینچ لئے جائیں گے.

اسرائیل اور عرب ممالک ان دنوں تعلقات میں گرم جوشی لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں پہلا مرحلہ تعلقات کا قیام، پھر ان کو معمول پر رکھنے اور بعد میں گرم جوشی لانے کا ہوتا ہے لیکن خطے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت دیکھ کر لگتا ہے کہ سب سے آخری مرحلہ پہلے طے ہو گیا ہے. اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران تقاریر، بیانات اور کانفرنسوں میں کئے جانے والے اظہار خیال پر معمولی سا غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس حوالے سے خاصے پرجوش تھے۔

(جاری ہے)

ان کی خوشی دیدنی تھی، جو چھپائے نہیں، چھپتی تھی‘ان کے بیانات میں ایک دعویٰ جھلک رہا تھا وہ دعویٰ اور اقرار نامہ یہ تھا کہ یہ درست ہے کہ ان کی حکومت نظریاتی انتہا پسند ہے، اس حکومت نے غیرمعمولی طور پر مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں میں توسیع بھی کی ہے، وہ مقبوضہ عرب علاقوں کو یہودیانے کے عمل کے بھی ذمہ دار ہیں، وہ فلسطینی ریاست کے مجوزہ قیام کے بھی سخت ترین مخالف سہی، ان سب کے باوجود اسرائیل اس خطے میں سفارتی اور سیاسی تنہائی سے دوچار ہے.

اب عرب ملکوں کے ساتھ تزویراتی تعلق داری کا عمل جاری ہونا چاہیے ان ملکوں سے بھی سفارتی تعلقات کی بات ہونی چاہیے، جن سے ایسا کوئی تعلق کل تک نہیں تھا کیا یہ تعلقات بڑھتے بڑھتے اس نہج پر یک دم آ گئے ایسا ہر گز نہیں!ان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے زمین ہموار کرنے کی خاطر امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے ایک غیرمعمولی اقدام اٹھاتے ہوئے گذشتہ دنوں اسرائیل کے کثیر الاشاعت اخبار میں ایک کالم لکھا” نارملائزیشن “کے خلاف فلسطینیوں اور عربوں کے مسلمہ موقف کے برعکس عبرانی روزنامہ ”یدیعوت احرونوت“ میں شائع ہونے والے اس کالم کو“انضمام یا نارملائزیشن“ کا عنوان دیا گیا.

بظاہر مضمون کا مقصد فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے خلاف اسرائیلی عوام کے ردعمل کو غیر موثر کرنا تھا شاید سفیر محترم عتیبہ کو یہ یقین تھا کہ کالم کی اشاعت کے اگلے روز اسرائیلی عوام سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومت کو فلسطینی علاقے ہتھیانے سے باز رہنے کا مطالبہ کر رہے ہوں گے اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا، تو پھر کالم شائع کرانے کا کیا مقصد تھا؟.

کالم میں اسرائیلی حکومت کو دشمن کی بجائے” موقع“ کہہ کر مخاطب کرنے والے اماراتی سفیر اس بات پر پریشان تھے کہ انضمام کی کارروائی فلسطینی مزاحمت کو ہوا دے گی جس سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں پر عرب ردعمل سامنے آ سکتا ہے اس سے اسرائیل، امریکہ، خلیجی ریاستیں اور دوسرے عرب ملکوں کے ساتھ مل کر تہران کے خلاف ایران مخالف اتحاد بنانے کی ایک مدت سے جاری کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے.

ماضی میں نیشنل سکیورٹی کے فکیلٹی کے طلبہ کی گریجویشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کھلے طور پر کہا تھا کہ عرب ممالک یہ راز جان گئے ہیں کہ اسرائیل سے تعاون کرنے میں وہ توانائی موجود ہے جس سے خطے میں اسلامی انتہا پرستی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے یہ کہنے یا بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسلامی انتہا پسندی کے معنی ہر ملک میں مختلف ہیں اسرائیل کے لیے یہ معنی بالکل مختلف ہیں.

اندریں حالات عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات مضبوط کر کے ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے خطرے سے بچنا چاہتے ہیں دوسری طرف انہیں یقین ہے کہ وہ اس طرح اسلامی انتہا پسندی کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان دو بنیادوں پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا نیا منصوبہ سامنے آیا ہے‘انہی مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے امریکی سرپرستی میں 13 اگست باہمی تعلقات معمول پر لانے کی خاطر ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ میں ”ایک تاریخی امن معاہدہ“ کیا جسے پردہ ”ریاض“کی مکمل آشیرباد حاصل تھی.

فسلطینیوں کی مرضی کے خلاف جمعرات کو طے پانے والے معاہدے سے 2002میں سامنے آنے والے ”عرب امن منصوبے“ کا خاتمہ ہو گیا ہے عرب لیگ نے اس امن منصوبے کی توثیق 2017 میں کی تھی جس کے تحت فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی اور 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے زیر قبضہ جانے والے عرب علاقے واگذار کرائے جانے تھے جس کے بعد دنیا میں اسرائیل کی سفارتی قبولیت کی راہ ہموار ہوناتھی.

اس قبل نیتن یاہو نے گذشتہ دنوں سوڈان کی حکمران عبوری کونسل کے چیئرمین عبدالفتاح البرھان سے یوگنڈا میں ملاقات کی، جس میں دونوں راہنماؤں نے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے ضمن میں تبادلہ خیال کیا سوڈان کا اسرائیل سے تعلقات” نارملائزیشن “کا اعلان بھی متحدہ عرب امارات کی طرح خرطوم کی دیرنیہ پالیسی میں واضح تبدیلی ہے معزول صدر عمر البشیر نے اقتدار خاتمے سے قبل انکشاف کیا تھا کہ انہیں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا مشورہ دیا گیا تھا جو انہوں نے ماننے سے انکار دیا تھا خرطوم کے بعد اب اسلام آباد کی باری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس دباؤ کو قبول کرتا ہے یا رد کرکے کسی نئے بلاک کی طرف جاتا ہے مگر یاد رہے کہ پاکستان کے پاس وقت اور آپشنزدونوں محدودہیں.


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :