جماعت اسلامی کے بغیر اتحاد کامیاب نہیں ہوتے

ہفتہ 10 اپریل 2021

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

پاکستان کی سیاسی جماعتیں الیکشن میں اقتدار کی خاطر اور ملک کو کسی بڑے خطرے سے بچانے کے لیے ایک دوسرے سے اتحاد کرتیں رہتیں ہیں۔ مگر اسلامی نظریات کی حامل، جماعت اسلامی نے ہمیشہ ملک کے وسیع تر مفاد اور اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے لیے پاکستان کے سیاسی اتحادوں میں حصہ لیتی رہی۔ پہلا بڑا اتحاد، متحدہ پاکستان میں ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف” کمبائنڈ اپوزیش الائینس“(سی او پی) کے نام سے بنا تھا۔

سکندر مرزا اور کمانڈر انچیف ایوب خان نے ، ۱۹۵۸ء ملک میں مارشل لاء نافذ کیا۔ پھر ایوب خان نے سکندر مرزا کو فارغ کر کے ملک اقتدار خود سنمبھال لیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کا بنایا ہوا،۱۹۵۶ء کا متفقہ آئین جس میں پاکستان کے لیے” اسلامیہ جمہوریہ“ کے الفاظ اور اردو کو پاکستان کی قومی زبان تسلیم کیا گیا تھا کو منسوخ کر دیا۔

(جاری ہے)

اس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پڑی۔ ایوب خان نے خود ساختہ ۱۹۶۲ء کا سیکولر آئین نافذ کیا، جس میں پاکستان کے لیے” اسلامی جمہوریہ“ کے الفاظ تک ترک کر دیے۔ اس عمل نے جمہوریت کو مذا ق بنا دیا۔ اسی دوران ایوب خان سے یہ بات بھی منسوب ہوئی، کہ ُاس نے اپنے وزیر قانون سے کہا کہ بنگالیوں سے کہو کہ ہماری جان چھوڑیں ۔ ہم سے علیحدہ ہو جائیں۔

جب وزیر قانون نے یہ بات مشرقی پاکستان سے ایک ممبر قومی اسمبلی سے کہی۔ تو اس نے واپس جواب دیا کہ پاکستان میں آپ کی آبادی زیادہ ہے یا ہماری۔ وزیر قانون نے جواب دیا، آپ کی آبادی زیادہ ہیں۔ تو پھر مشرقی پاکستان کے ممبر قومی اسمبلی نے کہا کہ اقلیت اکثریت سے علیحدہ ہو جائے(حوالہ کتاب وزیر قانون)۔ ایوب خان نے سارے اختیارات اپنے پاس رکھنے کے لیے صدارتی نظام ٹھونس دیا۔

ڈکٹیٹر ایوب خان نے بالغ رائے دہی کے معروف جمہوری طریقہ سے ہٹ کر بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا ۔ پھر اس کے ذریعے اسی ہزار سے زاہد بلدیاتی ممبران ( بی ڈی ممبران)کی بنیاد پرپاکستان کی صدارت حاصل کی۔ امریکا کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کے عاہلی قوانین کو تبدیل کیا ۔ ڈکٹیٹر جنرل یخییٰ او ر سولین ڈکٹیٹرذوالفقار علی بھٹو کی مشترکہ غلط پالیسیوں کی وجہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک نے زور پکڑا اور پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔

جماعت اسلامی کی شوریٰ نے آئین، جمہوریت ، اسلام کے تحفظ اور ڈکٹیٹر سے جان چھڑانے کے بڑے مقاصد کے لیے مخالف نظریات کی جماعتوں سے سیای اتحاد کیا۔ مقصد پاکستانی قوم کو ڈکٹیٹر کے ہاتھوں میں جانے کے بجائے جمہوریت پسند قوتوں کے ہاتھ میں دینا تھا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح  اس اتحاد کی روح رواں تھی جسے پاکستانی عوام کی حمایت حاصل تھی۔


 سولین ڈکٹیٹر ذوالفقار علی بھٹو جو ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کی حکومت میں وزیر خارجہ تھاجو ڈکٹیٹر ایوب خان کو ذیڈی کہتا تھا۔ ۱۹۶۵ء کی سترا روزہ پاک بھارت جنگ کے خاتمہ کے بعدتاشقند کے معاہدے کی آڑ میں ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف ہو گیا۔ جب پاکستان کی عوام ڈکٹیٹر ایوب خان کے مخالف ہو گئے تو وہ دوسرے ڈکٹیٹر یخییٰ خان کو حکومت حوالے کر کے ایک طرف ہو گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ڈکٹیٹر جنرل یخییٰ خان سے دوستی کی۔ بھٹو اور یخییٰ کے گٹ جوڑ اور غلط پالیسیوں اور غدار وطن شیخ مجیب کی بغاوت کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا۔۱۹۷۰ء کے الیکشن جنہیں سیکولر حضرات آزادانہ اور غیر جانبدرانہ الیکشن کہتے ہیں ، بلکل غلط ہے ۔ یہ الیکشن پاکستان کے بنیادی اسلامی وژن کے خلاف مغربی پاکستان میں اسلامی سوشلزماور مشرقی پاکستان میں، ، جبر ، قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر لڑے گئے۔

مشرقی پاکستان میں غدار وطن شیخ مجیب بنگلہ زبان اور قومیت کی بنیاد ، جبر دھونس دھاندالی سے کامیاب ہوا۔ مغربی پاکستان میں بھٹو نے بانی پاکستان کے اسلامی وژن کے خلاف ،اسلامی سوشل ازم اور روٹی کپڑا مکان کے نعرہ سے اکثریت حاصل کی۔ بھٹو نے فسطائی طریقے سے حکومت کی ۔ اپنی حفاظت کے ایف ایس ایف بنائی۔ پیپلز پارٹی کے بنیادی ارکان پارٹی سے نکالااور حزب اختلاف کے لوگوں کو سیاسی اختلاف کی بنیاد پر قتل کروایا۔

ایسے ہی ایک سیاسی مخالف کے قتل کے احکامات جاری کرنے پر پھانسی کی سزا بھی پائی۔ ۱۹۷۷ء میں بھٹو نے جعلی انتخابات کروائے۔ الیکشن میں دھاندلی کے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ بھٹو کی فسطایت اور الیکشن میں دھاندالی کے خلاف ”پاکستان قومی اتحاد“ کے نام سے اتحاد بنا۔ شوریٰ کے فیصلہ پر جماعت اسلامی اس اتحاد میں شامل ہوئی۔ اس اتحاد نے نظام ِ مصطفےٰ کی شکل اختیار کر لی۔

اس اتحادمیں بھی پاکستان میں جماعت اسلامی نے مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کیا۔ مقصد اس میں بھی پاکستان کی سیاست کو خالص جمہوریت کی پٹری پر ڈالنے اور ملک میں قائد اعظم کے اسلامی وژن، اسلامی نظام کی رہ ہموار کرنا تھا۔ پاکستان قومی اتحاد میں بھی جماعت اسلامی اس کی روے رواں تھی۔ بھٹو نے پریس پر کنٹرول حاصل کیا ہوا تھا ۔

پریس پاکستان قومی اتحاد کی خبروں کا بائی کاٹ کرتی تھی۔جماعت اسلامی نے اس زمانے جلسے جلوسوں کا انتظام کرنے کے علاوہ عوام تک خبریں پہنچانے کے لیے” خبر نامہ“ کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر سائیکلو اسٹائل کے ذریعے خبر نامہ تیار کرتی تھی۔ اپنی تنظیم کے ذریعے تازہ خبروں کے ساتھ خبر نامہ روزانہ کی بنیاد پر ہر جگہ پہنچ جاتا تھا۔ راقم اس زمانے میں کراچی ضلع جنوبی میں مقیم تھا۔

ہم کارکن خبر نامہ کو برنس روڈ کراچی میں جماعت اسلامی کے دفتر کے باہر دیوار پر چپساں کر دیتے تھے۔ایک دفعہ کچھ فوجی جماعت اسلامی کے دفتر میں گھس آئے۔راقم جماعت اسلامی کے دفتر انچارج مرحوم ظفر صاحب کی ٹیبل کے سامنے بیٹھا کسی بات پر مشورے میں مصروف تھا۔ پاک فوج کے جوان فوجی انداز میں بولتے ہوئے کہنے لگے یہ خبر نامہ کس نے چساں کیا ہے؟ظفر صاحب مرحوم نے کہاں ہم نے چپساں کیا ہے۔

خیر فوجی ہمیں ڈرا دھمکا کر واپس چلے گئے۔ اس اتحاد کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پہلی اور آخری بار پہیا جام تاریخی ہڑتال ہوئی تھی۔ بد قسمتی کے نظام مصطفےٰ کے مطالبے کو روکنے کے لیے امریکا کی شہ پر فوج نے ایک بار پھر مار شل لا لگا دیا۔ اس اتحاد کو بھی پاکستانی عوام کی حمایت حاصل تھی۔
بھٹو کی پھانسی پر بھی معدود اور ذاتی مقصد کے لیے تحریک بحالی جمہورت (ایم آر ڈی ) کے نام سے اتحاد بنا تھا۔

گوبظاہر یہ فوجی حکومت کے خلاف تھا ۔ اس اتحاد میں پیپلز پارٹی آگے آگے تھی۔کیوں کہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے فوجی دور حکومت میں اس کے لیڈر کو عدالت نے محمد احمد قصوری صاحب کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے نے فوجی حکومت سے اپنے باپ کی پھانسی کا بدلہ لینے کے لیے دہشت گرد تنظیم الذوالفقار بنائی۔ دشمن ملکوں سے رابطے کیے۔

جہاز اغوا کیا جہاز سے ایک میجر کو جہاز سے گھرا دیا۔ ڈکٹیٹرجرنل ضیا الحق بہاول پور میں جہاز کے حادثے میں شہید ہو گیا۔پھر یہ تحریک بھی دم توڑ گئی ۔ بحر حال اس اس ذاتی مقاصد کے اتحاد میں جماعت اسلامی شریک نہیں ہوئی۔
 بے نظیر بھٹوکے دور حکومت میں ایک اور ا تحاد” پاکستان جمہوری اتحاد“ ُ(پی این اے)ے نام سے وجود میں آیا۔ اس میں بھی جماعت اسلامی شامل ہوئی۔

جماعت اسلامی کے پاس سیکرٹری شپ تھی۔ مرحوم نائب امیر جماعت اسلامی محترم عبدالغفور صاحب پاکستان جمہوری اتحاد کے سیکر ٹیری تھے۔ یہ اتحاد بھی پیپلز پارٹی کے قومی مفادات سے ہٹ جانے کی وجہ سے بنا تھا۔پیپلز پارٹی نے بھارت کے ساتھ پاکستان کے مفادات کے خلاف رویہ اپنا تھا۔ پاکستان کی قومی پالیسیوں کے خلاف بھارت میں جاری خالصتان کی تحریک کے سکھوں کی لسٹیں بھارت کو فراہم کیں۔

بھارت نے اس لسٹ کی بنیاد پر خالصتان کے فعال سکھوں کو تلاش کر کے قتل کر دیا۔ بھارت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دورے کے دوران اسلام آباد کی سڑکوں سے کشمیر کے بورڈ ہٹا دیے گئے۔ پیپلز پارٹی کے اس دور میں فحاشی نے زور پکڑا۔ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی کی روشن خیالی ، سیکولر اور غیر اسلامی رجانات کی وجہ سے ہمیشہ مخالف رہی ہے۔ اس اتحاد میں بھی جماعت اسلامی نے مثبت کردار ادا کیا۔

نواز شریف صاحب اس اتحاد کے صدر تھے۔ اسی اتحاد کی وجہ سے نواز شریف وزیر اعظم پاکستان بنے۔جماعت اسلامی کے پر زور مطالبے کے باوجود شریعت بل کو سینیٹ سے پاس نہیں کروایا۔ سود کو ختم کرنے کے شریعت کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی جو آج تک لٹکی ہوئی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد صاحب نے اتحاد بنتے وقت نواز شریف صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے اثاثے پاکستانی عوام کے سامنے ظاہر کریں ویں۔

یا اپنے اثاثوں کو ٹرسٹ کی شکل دے دیں۔ مگر نواز شریف نے اپنے والد سے مشورے کے بعد قاضی حسین احمد کو جواب دیا کہ ہم تجارت پیشہ لوگ ہیں ایسانہیں کر سکتے۔کیا اسی سوچ کی وجہ ہے کہ اس کے بعد نواز شریف کے اثاثوں میں بے انتہااضافہ ہوتا رہا؟۔بقول عمران خان وزیر اعظم پاکستان کہ ایک اتفاق فوئنڈری سے نواز شریف نے گیاہ ملیں بنائیں۔ لندن میں قیمتی فلیٹ اور بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔

نواز شریف کرپشن کے مقدمات میں سزا یافتہ ہے۔ نواز شریف خاندان کے کئی لوگ کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے ملک سے فرار ہیں۔اب بھی کرپشن کے مقدمات میں تاریخوں پر تاریخیں بھگت رے ہیں۔ کاش!قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی کا مشورہ مان لیتے تو شاید یہ دن نے دیکھنے پڑھتے۔ مگر دولت کی ہوس مقتدر لوگوں کو یہ دن دکھاتی رہتی ہے۔ نواز شریف کی پاکستان کے سارے فوجی سربراہوں کے ساتھ نہیں بنتی تھی۔

مخالف الزام لگاتے ہیں کہ نواز شریف کا مزاج ہی ایسا ہے۔ وہ پاک فوج کو بھی پنجا ب کے گلو بٹ پولیس کے طرح دیکھنے کے خواہش مند رہے ہیں۔ لیکن پاک فوج دنیا کی منظم ترین اور بہترین فوج مانی جاتی ہے۔ وہ نواز شریف کی خواہش پر پوری نہیں اُتر سکتی۔ کیا دنیا نے نواز شریف کے فوج دشمن رویہ کا مشاہدہ اس وقت نہیں کیا کہ پاک فوج کا سربراہ جنرل پرویز مشرف جو سری لنکا کے سرکاری دورے سے پاکستان واپس آرہا تھا ۔

اس کے جہاز کو پاکستان کے ایئر پورٹ پر نہیں اُترنے دیا۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے کسی ایئر پورٹ پر اُترنے کا کہا۔ پھر پاک فوج نے اپنے سربراہ کی عزت کا خیال کرتے ہوئے اسے کراچی ایئر پورٹ پر اُتارا۔ ڈکٹیٹر مشرف پرویز نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے پاکستان میں مارشل لا لگا دیا۔ فوج سے سو اختلافات کے باوجود یہ نواز شریف کا پاکستان فوج کو ذلیل کرنے کا بودا طریقہ نہیں تھا؟ فوج کے سربراہ کی عدم موجودگی کے وقت دوسرے جنرل کو پاکستان کی فوج کا سربراہ لگا دیا۔

اس واقع پر ڈکٹیٹر پروپز مشرف کا یہ بیان وزن رکھتا ہے کہ سرکاری کلرک کو بھی نکالتے وقت ایک ماہ کو شو کاز نوٹس دیا جاتا ہے۔ اس سے جواب مانگا جاتا ہے۔ پھر مناسب کاروائی عمل میں لائی جاتی۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ مجھے مارشل لاء لگانے کا شوق نہ تھا ۔ بلکہ یہ سوچانا چاہیے کہ مجھے دھکا کس نے دیا ہے؟( راقم ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی ملک دشمنیوں سے وجہ سے مخالف ہیں)
 اس کے بعد پاکستان میں ایک اور اتحاد” متحدہ مجلس عمل“ کے نام سے وجود میں آیا۔

اس اتحاد میں ساری دینی جماعتیں شامل تھیں ۔ اس اتحاد میں صدرات جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور سیکرٹیری شپ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے ہاتھ میں تھی۔ یہ اتحاد ڈکٹیٹرمشرف اور بردار اسلامی ملک افغانستان پر امریکا اور چالیس ملکوں کی نیٹو اتحاد کی فوجوں کا حملہ اور افغان طالبان کی جائز حکومت” امارت اسلامیہ افغانستان“ کو بزور قوت ختم کر کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے خلاف ایم بڑے مقصد کے لیے بنا تھا ۔

اس اتحاد کو افغانوں کے خون کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں پذیرائی ملی ۔متحدہ مجلس عمل نے الیکشن میں اچھی خاصی کامیابی حاصل کی۔پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختونخواہ اور بلو چستان میں صوبائی حکومتیں بنائیں۔مرکز میں لیڈر آف اپوزیشن کی سیٹ متحدہ مجلس عمل کے سیکر ٹیری، مولانا فضل الرحمان صاحب کو ملی۔ فضل الرحمان صاحب ڈکٹیٹر مشرف کے حامی تھے۔

یہ اتحاد ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی نہ توڑنے کے اختلاف پر ختم ہوا۔ فضل الرحمان صاحب نے ایک دفعہ جماعت اسلامی کے بغیرمتحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے) بحال کرنے کے لیے پھر اتحاد بنایا۔ اس پر ہم نے کالم لکھا تھا کہ بغیر ڈرئیور کے گاڑی کیسے چلی گی ۔جو جماعت اسلامی کے شریک نہ ہونے کے وجہ سے واقعی نہیں چلی۔
 نواز شریف صاحب کو۲۰۱۳ء کے انتخابات میں کامیابی ہوئی۔

وہ تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔اپنے دور حکومت میں کسی کو بھی وزیر خارجہ نہیں بنائی۔ امریکن لابی کے سرتاج عزیز کو خاجہ کا مشیر بنا کر کام نکالتے رہے۔کشمیر کے کور ایشو کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے آلو پیز کی تجارت کرتے رہے۔ بھارت کے اسٹیل ٹائیکون جو پاکستان کا سخت دشمن ہے کی اپنی اوربیٹے کی ذاتی دوستی بنائی۔

اسے بغیر ویزے کے مری میں اپنی ذاتی خاندانی محفل میں ملاقات کی۔ میڈیانے شور مچایا تو مریم صفدر صاحبہ نے کہا کہ ان سے ہماری ذاتی دوستی ہے۔میڈیا نے خدشہ ظاہر کی کہ مودی کا پیغام لے کر آیا ہوگا کہ کلھلبوشن یادیو جاسوس پرہلکا ہاتھ رکھنا۔ مودی را کے انچارج اجیت دول اسٹیل ٹائیکون کو وغیرہ کوبغیر قانونی کاروائی اورویزے کے لاہور رائے ونڈ جاتی عمرہ میں اپنی نواسی کی شادی کے موقعہ پر بلایا۔

جس کا وازرت خارہ کو اتا پتا نہیں تھا۔ شیخوپورہ کی شوگر مل میں بھارت کے لوگوں کو ملازم رکھنے کا الزام لگا۔ گلبھوشن یادیو بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر زبان بند رکھی۔ بھارت اعلانیہ کہتا رہا کہ پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے اب دس کریں گے۔بھارت کے اس جارحانہ رویہ کے برعکس معذرتانہ رویہ رکھا۔ اپنی فوج پر انتہا پسندوں کا ساتھ دینے کی مہم چلائی ۔

ڈان لیک سامنے آئی ۔ قومی رزا فاش کرنے کی کوشش کی۔ فوج کے ا عتراض پر اپنے کئے ساتھیوں کو پارلیمنٹ کی ممبر شپ اور پارٹی سے نکالا۔ ملک دشمن پالیسیوں کی کی ایک لمبی داستان ہے۔میڈیا نے تبصرہ کیا کہ نواز شریف تیس برس لمبے اقتدار میں رہ کر مغل بادشاہ بن بیٹھے۔ آف شور کمپنی سپریم کورٹ کو خود خط لکھا کہ مقدمہ سن کر دودھ کادودھ اور پانی کا پانی کر دیں۔

سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اقامہ پر سیاست سے تا حیات نا اہل قرار دیا۔ آف شور کمپنی کیس میں رشتہ داروں کے نام نکلنے پر دو دفعہ میڈیا اور ایک دفعہ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا، جناب اسپیکر یہ ہیں ثبوت۔جب عدالت نے منی ٹرائیل طلب کی تو نہ پیش کر سکے، بلکہ جعلی ڈاکومنٹ پیش کیے۔ اس پرعدالت سے کرپشن میں سزا پائی۔نواز شریف نے اپنی نا اہلی اور کرپشن بچانے کے لیے پیپلز پارٹی مولانا فضل الررحمان صاحب کو ملا کر پاکستان ڈیموکرٹک الائنس ( پی ڈی ایم) بنائی۔

کہنے کو تو جمہورت اور آئین کی بلادستی کی بات کی مگر ذاتی مقاصد اورملک دشمن ایجنڈے پر اتحاد بنایا۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی اس اتحاد میں شریک نہیں ہوئی ۔ اوپزیشن نے اس اتحاد کو ابو، چچا،پھوپھی کرپشن بچاؤ اتحاد کہہ کر مذاق اُڑایا۔کرپشن بچاؤ اتحاد کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ اس اتحاد میں اختلافات اتنے بڑھے کہ پیپلز پارٹی اورنیشنل عوامی پارٹی کو شو کاز نوٹس جاری کیے گئے۔

اس پر نیشنل عوامی پارٹی نے تو پریس کانفرنس کرکے پی ڈی ایم سے نکلنے کا اعلان کر دیا۔ اب پیپلز پارٹی بھی یہ اتحاد چھوڑنے کے لیے کے اعلان کر چکی ہے۔ صاحبو!کوئی بھی اتحاد جو ذاتی مقاصد کے لیے بنا اور جس اتحاد میں جماعت اسلامی شریک نہیں ہوئی وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو ا۔پی ڈی ایم کا بھی اتحاد بھی اب وینٹیلیٹر پر ہے۔ آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :