مچھ اور پاکستان کا اندھا قانون

پیر 11 جنوری 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

گزشتہ سال کے آخری مہینے میں کچھ گھریلو کاموں میں مصروفیت اور انہیں سرانجام پہنچانے کیلئے کچھ ایسا سرگرداں رہا کہ پاکستان کے ملکی حالات کو صرف ٹی وی خبروں میں ہی تکتا رہا، اپنے پسندیدہ ٹی وی شوز اور مختلف محب وطن تجزیہ نگاروں کے خیالات کو سن اور دیکھ نا سکا، اس لئے اپنے ہفتہ وار کالم کو لکھنے کیلئے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ قائم نا کر سکا۔

اب تقریباً ایک ماہ بعد اپنا دوبارہ سے کالم لکھ رہا ہوں۔
پچھلے ہفتے بلوچستان کوئٹہ کے قریبی علاقے مچھ میں ہزارہ برادری کے 11 مزدور کان کنوں کو پہلے اغوا اور پھر بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ جس کے بعد پورے ملک میں غم و غصہ کے ساتھ ساتھ غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی۔ ہزارہ برادری کے بے گناہ مزدوروں کے قتل کے بعد پورے ملک کی ہزارہ برداری نے ان کی میتوں کو کوئٹہ کے مین چوک میں رکھ کر احتجاجی دھرنا شروع کیا اور ان کا یہ احتجاج ابھی دو روز پہلے ہی صوبائی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد ختم ہو گیا۔

(جاری ہے)

اور انہوں نے اپنا احتجاج ختم کرتے ہوئے ان شہدا کی جلد از جلد تجیز وتکفین کا فیصلہ کیا۔ اب اگر ہزارہ برادری کے حکومت سے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے اس سلسلے میں 10 مطالبات میں سے 5 مطالبات کو تو حکومت نے فوراًمنظور کر لیا ہے اور دوسرے 5 مطالبات کو زیر غور رکھتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومت نے اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے۔ پہلے مطالبہ میں ہزارہ برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت فی الفور آئی جی ایف سی بلوچستان کو اپنی ڈیوٹی میں غفلت برتنے پر برطرف کر دیا جائے۔

دوسرے مطالبہ میں ان کا کہنا ہے کہ متعلقہ ونگ کمانڈر ایف سی ، ڈی ایس پی اور ڈپٹی کمشنر کو برطرف کرکے اس واقعہ میں شامل تفتیش کیا جائے۔ تیسرے مطالبہ میں انہوں نے کہا ہے کہ سانحہ مچھ میں شامل تمام دہشت گردوں کو گرفتار کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ گزشتہ تمام واقعات میں ملوث دہشت گردوں کو فوراً ایک نوٹیفیکشن جاری کرتے ہوئے تختہ دار پر لٹکایا جائے۔

پانچویں مطالبہ میں کہا گیا ہے کہ اس سانحہ کے اوپر فوراً جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ چھٹے مطالبہ میں ان کا کہنا ہے کہ سانحہ مچھ کے شہداء کے لواحقین کو پچاس لاکھ روپے فی کس کے حساب سے امداد فراہم کی جائے۔ ساتویں مطالبہ میں ان کا مطالبہ ہے کہ ہزارہ برادری کے تمام لاپتہ افراد کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔ اور جن افراد کو عدم ثبوت کی وجہ سے گرفتار کیا ہے انہیں فوراً رہا کیا جائے۔

آٹھویں مطالبہ میں ان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اور کراچی کے روٹس پر کول مائینز اور دیگر ہزارہ برادری کے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ نویں مطالبہ میں انہوں نے درخواست کی ہے کہ بلوچستان کے نواحی علاقے علی آباد کے سانحے میں شامل 9 بے گناہ افراد کو فوراً رہا کیا جائے۔ اور دسویں مطالبہ میں ان کا کہنا ہے کہ نادرا نے جن شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کے نام کے شناختی بنانے کیلئے جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور انہیں بلاک کیا گیا ہے انہیں فوراً ان بلاک کیا جائے۔

مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ اب ان دس مطالبوں میں سے آدھے مطالبوں کو توحکومت نے مان لیا ہے اور کچھ مطالبہ ایسے بھی ہیں جن کو ماننا اصولی طور پر ناممکن ہے۔ان کے اس فیصلے کے ساتھ ہی وزیراعظم پاکستان نے فوراً سے پہلے ان ہزارہ برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کوئٹہ جانے کا فیصلہ کیا اور وہ کوئٹہ روانہ ہوگئے۔ان کی روانگی سے ایک روزقبل پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت بلاول زرداری اور مریم صفدر نے بھی لوہا گرم دیکھتے ہوئے اپنا سیاسی ہتھوڑا وار کرتے ہوئے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی جس کو پورے پاکستان کی عوام نے دیکھا اور سنا۔

اسی احتجاجی دھرنے کو پی ڈی ایم کا جلسہ سمجھتے ہوئے اس میں اپنی اپنی سیاسی تقریروں میں بلاول زرداری اورخاص کر مریم صفدر نے ان غم زدہ عوام سے افسوس کم اور اپنے سیاسی مخالف عمران خان کو زیادہ نشانہ بنانے کی کوشش کی جس پر پاکستانی باشعور عوام نے اسے سیاسی دکان چمکانے کا نام دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔اپنے احتجاجی دھرنے سے واپسی پر مریم صفدر کراچی پہنچی اور اپنے ہی اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے میں شرکت کی اور اسی ظہرانے میں سندھی محفل موسیقی سے لطف اندوز بھی ہوتی رہیں۔

اس سے قبل انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں پورا ماحول بناتے ہوئے عمران خان پر تنقید کے بند کھول دیئے اور اپنے بھاشن میں جب اپنا ذہنی انتشارکی صورت میں دباؤ نکال لیا تو وہاں موجود مقامی صحافیوں کے سوالوں کے جواب بھی دینے کیلئے صحافیوں کو سوالات کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے ایسی شرمندہ ہوئیں کہ اپنی پریس کانفرنس درمیان میں سے ہی چھوڑ کر چلتی بنی۔

ٹی وی رپورٹروں نے چند ہی سوالات میں نانی 420 کو نانی یاد کرا دی۔ ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ ''آپ کے پاپا کے دور حکومت میں بھی ہزارہ برادری کے سینکڑوں افراد اسی طرح دہشت گردی کرتے ہوئے شہید کر دیئے گئے تھے، کیا آپ یا آپ کے پاپا بھی ان کے افسوس کیلئے گئے تھے ؟ '' ایک اور رپورٹر نے جب یہ سوال کیا کہ '' ماڈل ٹاؤن میں بھی آپ کے چچا مریض اعلٰی شہباز شریف اور پاپا نواز شریف نے ان بے گناہ افراد سے اظہار افسوس کیا تھا ؟'' اس کے جواب میں مریم نواز کو سمجھ نہیں آ رہا تھااور اس کے جواب میں انہوں نے کہا '' اگلا سوال'' اس سوال کو اسی صحافی نے دہرایا کہ ''آج آپ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کے قتل کی مذمت کرتی ہیں''لیکن اس سوال کا جواب انہوں نے یہی کہہ کردیا کہ '' اگلا سوال '' مریم صفدر کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے کہ وہ ایسا کیا کریں کہ جلداز جلد اس مقام سے نکل جائیں ، ان کے جواب میں وہ صرف مسکراتی رہیں اور انہوں نے اسی میں عافیت جانی اور اس کا جواب پرویز رشید اور احسن اقبال سے دلوانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور سوال گندم اور جواب چنا کے مصداق پر صحافیوں کو چکر دینے میں لگے رہے لیکن جب یہ لوگ جواب دینے سے قاصر رہے تو ان سب نے وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی۔


ویسے بھی حضور اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ تین عمل کرنے میں جلد بازی سے کام لیا کرو۔1۔جب نماز کا وقت ہو جائے تو نماز ادا کرنے میں جلدی کرو۔ 2۔ جب گھر میں بیٹی جوان ہو جائے تو اچھا سا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی اور رخصتی میں دیر نا کی جائے۔ 3۔ اوراگر گھر میں کسی فرد کی موت واقع ہو جائے تو اس کی تجہیز و تکفین جلد از جلد ادا کر دی جائے۔

اور ہزارہ برادری نے ان 11 میتوں کو چھ روز تک بیچ چوراہے پر رکھ کر دھرنا دیئے رکھا۔ وزیراعظم اور صوبائی حکومت کی جانب سے ان کی میتوں کے تقدس کو پامال نا کرتے ہوئے انہیں جلد از جلد سپردخاک کرنے کی ہدایت کی لیکن ہزارہ برادری کا ایک ہی مطالبہ یہ تھا کہ وزیراعظم خود یہاں تشریف لائیں اور ان کے مطالبات منظور کئے جائیں، لیکن ان کے مطالبات وزیراعظم اور صوبائی حکومت نے پہلے ہی منظور کر لئے تھے اور وزیراعظم عمران خان نے انہیں ہر طرح کی یقین دہانی بھی کروا دی کہ آپ کے سارے مطالبات منظور کئے جائیں گے لیکن پہلے ان میتوں کو سپردخاک کرتے ہوئے انہیں سپرد خدا کر دیا جائے، تاکہ شہدا کی بے حرمتی نا ہو لیکن ناجانے کیوں وہ مطالبے پر ڈٹے رہے کہ عمران خان خود یہاں آئیں اور پھر ہم اپنا دھرنا ختم کریں گے۔

اب اس مطالبے پر ڈٹے رہنے کیلئے کون انہیں مجبور کر رہا تھا، اور کس کی شہ پر ہزارہ برادری اور میتوں کے لواحقین دھرنا دینے پر کاربند تھے ، اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اس دہشت گردی اور ملکی حالات کو خراب کرنے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے ، آئی ایس آئی اور ملکی قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا بہت جلد پتہ لگا لیں گے۔

اسی دھرنے کے حق میں ملک کے تمام بڑے شہروں میں بھی ہزارہ برادری کا ساتھ دیتے ہوئے شیعہ برادری نے بھی دھرنے دیئے جس کے باعث تمام مرکزی شہروں کی مصروف سڑکوں پر ٹریفک بلاک رہا اور ان شہروں کی متعدد سڑکوں پر ٹریفک جام دیکھنے میں آئی،اور عام شہریوں کو ذرائع آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اوپر سے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کرونا وباء کے جرثومے اپنی ایک نئی شکل میں آشکار ہو چکے ہیں جس کے باعث کہیں بھی کرونا پر قابو پانا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ایسے وقت میں اتنی بڑی تعداد میں کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر پر عمل نا کرتے ہوئے کیسی کیسی مشکل پیش آ سکتی ہے اس بارے میں ہر ذی شعور خوب اچھی طرح سے جانتا ہے۔
ایک لمبے عرصے قبل کراچی میں سندھی وڈیرے کے ولی عہد شاہ رخ جتوئی نے ایک معصوم نوجوان کو قتل کر دیا تھا۔ یہ کیس ملک کے تمام لیڈنگ اخبارات میں شہ سرخیوں میں شائع کیا گیا اور سوشل میڈیا پر بھی ٹاپ ٹرینڈ میں وائرل ہوا، اور اسی سوشل دباؤ کے جواب میں شاہ رخ جتوئی کو گرفتار بھی کر لیا گیا، اور پھر کیا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ٹی وی اور اخبارات میں شروع بھی ہو گیا۔

اس سارے واقع پر بھی پورے ملک میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور متعدد نوجوانوں تنظیموں نے بھی احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس ہتھیارے شاہ رخ جتوئی کو سندھ کی عدالت نے ضمانت دیتے ہوئے رہا کر دیا۔ اس ضمانت پر رہائی کے بعد ٹی وی چینل پر ویڈیو خوب وائرل ہوئی، جس میں شاہ رخ جتوئی کے عدالت میں پیش ہونے کیلئے آتے جاتے ہتھکڑیوں میں قید وہ مجرم صفت وکٹری کے نشان بناتا رہا اور اپنے ساتھ عدالت میں ان کے حامیوں کے لاؤلشکر میں ایسے ظاہر کرتا رہا کہ وہ کسی جیل یا عدالت سے نہیں بلکہ کشمیر کو فتح کرنے کے بعد لوٹ رہا ہے۔

جب سوشل میڈیا، انسانی حقوق اور نوجوانوں کی تنظیموں نے دوبارہ احتجاج کیا تو سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسے دوبارہ گرفتار کیا گیااور اس کیس کو دوبارہ سماعت کیلئے سننے کیلئے 11جنوری 2021 کا دن مقرر کیا گیا ہے۔اس میں اس ملزم شاہ رخ جتوئی نے مئوقف اختیار کیا ہے کہ اسے فوراً سے پہلے رہا کیا جائے اور اس پر لگائی جانیوالی سزا کو کالعدم قرار دیا جائے۔

اب ایسے ہی کیس سے ملتا جلتا کیس کچھ ہی عرصہ پہلے بلوچستان کے ایک ایم پی اے مجید خان کا بھی عدالت میں سنا اور پھر خارج ہو چکا ہے جس میں اس شراب کے نشے میں دھت ایم پی اے مجید خان نے سڑک کے بیچ ڈیوٹی سرانجام دینے والے ایک ٹریفک پولیس کے کانسٹیبل کو اپنی لینڈکروزر سے کچل کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کی ٹی وی فوٹیج بھی دنیا بھر میں وائرل ہوئی، لیکن مبینہ طور پر عدالت نے ثبوتوں کے ناکافی ہونے کے باعث اس کیس کو خارج کرتے ہوئے اس ایم پی اے مجید خان کو رہا کر دیا۔

ایسے ہی بے شمار کیس پاکستانی عدالتوں میں ابھی تک زیر سماعت ہیں، لیکن اس کا فیصلہ سب کو پتہ ہے کہ اسی کے حق میں آئیگا جس کا '' کلا'' مضبوط ہو گا۔ اور جس طرح پاکستان اور دنیا بھر کی عدالتوں کے باہر علامت کے طور پر ایک مجسمہ کے ہاتھ میں ترازو دے کر کھڑا کیا ہوتاہے اور اسی مجسمہ کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے، ایسے کیسوں کے فیصلے دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ واقعی '' قانون اندھا ہی ہوتا ہے'' جسے وہ ہلکی سے ہلکی بات بھی دیکھتے ہوئے بھی نظر نہیں آتی جو ایک عام آدمی کو ناصرف سمجھ آتی ہے بلکہ صاف طور پر دکھ بھی جاتی ہے، لیکن کیونکہ پاکستان میں بے شمار کیسوں کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں جن کو دیکھ اور سن کر اچھے سے اچھا باشعور آدمی اپنی انگلیوں کو اپنے جبڑوں دے کر حیران و پریشانی کا اظہار کئے بنا نہیں رہ پاتا ۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :