Live Updates

ماضی میں صوبائی اسمبلی کے اسی ایوان میں قدآور سیاسی شخصیات بیٹھتی رہی ہیں لیکن آج یہاں موبائل چور گھس آئے ہیں جو ایک خاتون کا دوپٹہ کھنچتے ہیں،حلیم عادل شیخ

پیر 27 جون 2022 23:40

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2022ء) سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ ماضی میں صوبائی اسمبلی کے اسی ایوان میں قدآور سیاسی شخصیات بیٹھتی رہی ہیں لیکن آج یہاں موبائل چور گھس آئے ہیں جو ایک خاتون کا دوپٹہ کھنچتے ہیں، سندھ اسمبلی میں جمہوری روایات کا قتل کیا جارہا ہے ۔مراد علی شاہ کے وزیر اعلی بننے کے بعد سندھ میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے لیکن اگلے عام انتخابات کے بعد مراد علی شاہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار پیر کو سندھ اسمبلی میں آئندہ مالی سالے صوبائی بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ سندھ اسمبلی میں بجٹ پر پانچویں روز بھی بحث جاری رہی۔ آج مختلف پارلیمانی لیڈروں اور سندھ کابینہ کے کئی اہم وزرانے بھی بحث میں حصہ لیا اور صوبائی بجٹ کو متوازن اور سندھ کے عوام کے مفاد میں قراردیا۔

(جاری ہے)

سندھ اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ نے کہا کہ یہ ایوان تو قائد اعظم، قائد ملت کا ایوان تھا،یہاں بڑے وزرااعلی، اسپیکر گزرے،آغا بدرالدین، آغا صدرالدین درانی، عبداللہ شاہ، بڑا نام تھے،ان بڑے ناموں کے چھوٹے بیٹے آج یہاں بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج اسمبلی کے تقدس پامال کیا جارہا ہے،ڈھٹائی سے لوٹوں کو اس طرف بٹھادیا گیا ہے،اسی ایوان میں آج جمہوریت کا قتل عام ہورہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ موبائل چور اسمبلی میں گھس گیاایک خاتون کا بازو پکڑ کر دوپٹہ اتارا گیا،کیا کسی نے یہاں معافی مانگی ۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ پچھلے برس تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن لیڈر کو تقریر کا موقع نہیں دیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں بڑے نام رہ رہ چکے ہیں ۔اس وقت چھوٹے لوگ اسمبلی میں موجود ہیں ۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ٹنڈو آدم میں ہمارے کارکن کو شہید کیا گیا، بلدیاتی الیکشن میں پولیس گردی کی گئی ۔ان کا کہنا تھا کہ آر او گردی میں جو الیکشن ہوا اسے نہیں مانتے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی کو مچھلی بازار نہیں بنایا جائے ۔رولز آف پروسیجر کے تحت سندھ اسمبلی کو چلایا جائے۔

قائد حزب اختلاف نے نشادہی کی کہ ماضی کی روایات کے برعکس سندھ اسمبلی کا پری بجٹ اجلاس نہیں بلوایا گیا،سال میں سو دن ہونے چاہیے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ،کٹ موشن بھیجتے ہیں سب کو فارغ کیا جاتا ہے ،آڈیٹر جنرل سمیت کوئی بھی رپورٹ سندھ اسمبلی فلور ہر جمع نہیں ہوتی ،پبلک اکانٹس کمیٹی میں ہماری نمائندگی نہیں ہے۔اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی ،کال اٹینشن نوٹس سمیت کسی بھی اپوزیشن کی قرارداد نہیں سنی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ عزت زلت زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے وزیر امپورٹڈ حکومت کی غلامی کرتے ہیں ،فوج کے لئے ہمارے دل میں بہت عزت ہے ،فوج نے ہمیشہ ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں ۔نواز شریف ایاز صادق مریم نواز نے ہمیشہ افواج پاکستان کے خلاف بات کی ۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ ہماری فوج شہدااور غازیوں کی فوج ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اپیکس کمیٹی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ۔بتایا جائے اپیکس کمیٹی پر کیا عمل ہوا ہے ۔حلیم عادل شیخ نے کہاکہ معیشت ڈوب چکی ہے سندھ حکومت نے آمدن بجٹ میں بڑھانے کا ذکر کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بنک قرضوں میں اضافے کا ذکر ہے ،اے ڈی پی 259 بلین رکھی گئی ہے ،بجٹ میں اضافہ کیسے ہوا حالانکہ پچھلے برس تو اربوں روپے خرچ نہیں کئے گئے ۔

وفاق نے 37ارب زیادہ رقم سندھ کو دی ۔ہماری حکومت تھی اس وقت سندھ نے اپنا ٹیکس حدف سے کم حاصل کیا۔گزشتہ برس پچاس ارب کم خرچ ہوا ہے ۔اگلی بار کس طرح زیادہ خرچہ کریں گے بتا دیں حلیم عادل شیخ اگلے سال سے 125 بلین اس بار وفاق سے زیادہ ملیں گے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اپنی آمدن نہیں بڑھایا14 برس میں 10389 بجٹ آیا 8414 غیر ترقیاتی 1975ارب ترقیاتی بجٹ تھا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ سندھ میں 1400 ارب کی کرپشن کی گئی ۔پلاننگ ڈیولپمنٹ کی رپورٹ 44 فیصد اسکیم غیر معیاری ہیں ۔ہماری حکومت نے ساڑے تین سالوں میں گیارہ سو ارب کا پیکیج دیا۔ ہم نے نالوں کی صفائی کروائی گرین لائن بس سروس شروع کی 14سالوں میان 1727 تعلیم پر خرچ ہوئے .۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ہونے دو سب کی چھٹی ہوجائے گی ۔انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔

غلامی آزادی کا مطلب مہاجرین سے پوچھیں۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ میرے ورکر راحیل کو گھر سے اٹھایا گیا ،ایک لاکھ رشوت لی گئی ؛۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے بچوں کو اسکولوں میں ہونا چاہیے تھا،سندھ میں ان بچوں کے ہاتھ میں راکیٹ لانچر دیئے گئے ہیں ،اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے ،امن امان تباہ ہے 13 کروڑ کے آنسو گیس خریدنے پر خرچ کئے گئے ۔ہٹلر فرعون کوئی بھی ظالم نہیں بچا،اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں مراد علی شاہ کے وزیر اعلی بننے کے بعد کرپشن میں اضافہ ہوا۔انہوں نے وزیر اعلی سندھ کے متعلق کہا کہ اگلا نتخاب ہوگا آپ کو گھر جاتے دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اب انتخاب ہوگا یا انقلاب آئے گا۔آج میں بھی کہتا ہوں ہوشیار ہوشیار ہوشیار۔۔۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ اس امپورٹڈ بھکاری حکومت کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے کہ جی ڈی پی 5 فیصد سے اوپر جائے۔

قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران وزیر پارلیمانی امور مکیش کمار چالہ نے کہا کہ پوزیشن لیڈر مقررہ وقت تک تقریر ختم کریں۔ جس پر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ کبھی ایسانہیں ہوا کہ اپوزیشن لیڈر یا لیڈر آف دی ہاو س کی تقریر کا وقت مقرر کیا گیا ہو۔اس موقع پر وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ میڈم اسپیکر جب تک اپوزیشن لیڈر بولنا چاہئیں بولیں کوئی اعتراض نہیں۔

حلیم عادل شیخ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی طرح بجٹ بک میں بھی صرف اعلان نظر آرہے ہیں پرانی اسکیمز تو مکمل ہوئی نہیں۔ آپ کا جانا ٹھرگیا ہے کیوں کہ انتخابات کے بعد آپ نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ سندھ میں جو 5 ہزار اسکول غلط بنائے گئے ان کا ذمہ دار کون ہے ۔بتایا جائے کہ پانی نل سے ملے گا یا ٹینکر ز سے ہی پانی خریدنا ہوگا۔

بتایا جائے کہ غریب ہاری کی زمین کو زراعت کے لئے پانی ملے گا قائد حزب اختلاف نے کہا کہ آپ 14 برس میں بسیں لائیں ہیں جس پر اتنا ڈھول پیٹ رہے ہیں ۔ یہ بسیںاونٹ کے منہ میں زیرہ برابر ہے ۔اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ جیلوں کا نظام قیدی چلارہے ہیں۔ماہی گیروں کیلیے 50 کروڑ روپے رکھے گئے۔سبسڈی غریبوں کے گھر تک نہیں پہنچے گی۔ قبل ازیںسندھ اسمبلی کا اجلاس پیر کوقائم مقام اسپیکر ریحانہ لغاری کی صدارت میں 47 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ایوان میں آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ جاری رہا۔

پیپلز پارٹی کی خاتون رکن حنا دستگیر نے سندھ حکومت کی کارکردگی کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے کہا کہ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ تمام پاکستانیوں کا اسپتال ہے۔ہم تنقید میں سے اصلاح ڈھونڈتے ہیں۔بے نظیر بھٹو ایجوکیشن اسکل پروجیکٹ جاری ہے۔اس وقت ساڑھے چار لاکھ بچوں کے لئے سینٹرز چل رہے ہیں۔بچوں کو پیسے بھی دیتے ہیں۔ہم اپنے کام گنوانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں۔

ہم کسی کے قائدین کی بے عزتی نہیں کرتے ہیں۔صوبائی وزیرریونیو مخدوم محبوب الزمان نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سندھ انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے لیے 1691 ملین رکھے ہیں۔کے کے نظامانی روڈکے لئے بھی پیسے رکھے گئے ہیں۔آئی بی اے کیمپس ٹھٹھہ 979 ملین روپے مختص ہوئے ہیں۔سندھ حکومت نے 15 فیصد تنخواہیں بڑھائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ریوینیو نے ای اسٹیمپنگ سے 70 ملین روپے جمع کیے ہیں۔

یہرقم ایک ماہ میں یہ جمع ہوئی ہے۔پرانے سسٹم میں ٹیکس چوری تھی۔اب وہ ختم ہو جائے گی ۔صوبائی وزیر جام خان شورو نے اپنی تقریر میں کہا کہ جس دن بجٹ پیش ہورہا تھااس روز اپوزیشن کا رویہ افسوس ناک تھا۔وہ لیڈر آف دی ہاو س کی تقریر سنے بغیر سب کچھ کررہے تھے۔اپوزیشن اس پر بات کر کے کی حکومت کو کیا کرناچاہیے ۔صوبائی وزیر نے کہا کہ خرم شیر زمان نے بہت اچھی تقریر کی ہے۔

برسوں بعد مجھے لگا کہ انہوں نے اچھی تقریر کی ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ نے کیا یہ وعدہ نہیں کیا تھا کراچی کو 11 سو ارب دیں گے ،سمندر سے تیل نکالنے کا لالی پاپ بھی آپ لوگوں نے ہی دیا تھا۔ جام خان شورو نے کہا کہ قائد اعظم کو سندھ کے لوگ لیکر آئے۔صرف سندھ میں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔آپ سندھ کے لوگوں کو غلام کہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 1991 کے معاہدے پر سندھ کے لوگوں کو شدید اعتراض تھاجس پر ارسا ایکٹ بنایا گیا۔

ارسا کا صرف آبی معاہدے پر عملدرآمد کرنا تھا۔2013 میں ایک فارمولا دیا گیا آج تک وہ زیادتی جاری ہے ،تھل کینال پر اسمبلی نے قرارداد منظور کی۔کینجھر جھیل ڈیڈ لیول کے قریب تھی ،اس وقت کوٹری بیراج پر صرف پینے کا پانی ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ نے اپنے مخصوص بجٹ سے 300 لائنیں دی ہیں۔18 چھوٹے ڈیم کے پروجیکٹ چل رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حیدر آباد لطیف آباد میں پہلا فلٹر پلانٹ سندھ حکومت لگا رہی ہے ۔

حیدر آباد میں داخل ہونے والے روڈ سندھ حکومت نے بنائے ہیں۔ بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ عوام کی قسمت میں تبدیلی انقلابی سیاست سے آتی ہے۔اگر انتخابی سیاست کا سسٹم یہی رہاتو پھر کبھی بھی اس ایوان میں تبدیلی کی امیدنہیں کی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی اپنی تقریر میں ہمارا ذکر بھول گئے۔پچھلی بار بھی وزیر اعظم سات نشستوں پر تھے۔

اس بار بھی سات نشستیں ہی ہیں۔انہوں نے حکومت سندھ سے کہا کہ آپ کی ساری اسکیمیں چار چار پانچ پانچ سال پرانی ہوتی ہیں۔ہر حکومت پچھلی حکومت پر بوجھ ڈال کر چلی جاتی ہے اورکوئی حکومت ذمہ داری نہیں لیتی ہے ۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ چھوٹیملازمین کو پیٹرول کی سبسڈی دی جائے۔16سے 22 گریڈ کے افسران کی پیٹرول سبسڈی ختم کی جائے۔ان کو پیٹرول کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی ریکوری بڑھتی جارہی ہے۔ملک میں بحران ضرور ہے۔صوبوں کی محصولات میں کمی کوئی نہیں آئی۔صوبائی فنانس کمیشن فوری طور پر تشکیل دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ 1713ارب میں آپ صوبہ نہیں چلا سکتے ہیں۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ محکمہ صحت کے بجٹ اعدادوشمار آگے پیچھے ہیں،اگر کسی غریب آدمی کو این آئی سی وی ڈی جانا ہوتو ایک نمبر دے دیں۔

وہاں کوئی بھی بات نہیں سنتا ہے۔اسپتال کا ایم ایس عوامی نمائندوں کے فون نہیں اٹھاتا ہے ۔کوئی نمبر ایسا دے دیں جس سے بات کرلیں۔خواجہ اظہار نے کہا کہ جب پرائیویٹ بلاک رکھا گیا ہے تو پھر بجٹ کیوں رکھا ہے۔سندھ گورنمنٹ اسپتال میں نہ ادویات نہیں ملیں گی۔ہمارے ملک میں تعلیم اور صحت دونوں منافع بخش کاروبار ہیں صحت میں اس سال کی صرف 6 ارب روپے کی اسکیمیں ہیں۔

866 اسکول بیرون ملک کی فنڈنگ سے بنے ہیں۔اپنی فنڈنگ سے کوئی اسکول نہیں بنا ہے۔نواز شریف ، شہباز شریف اور زرداری سے پوچھنا ہے ۔آپ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کی بات کرتے ہیں ۔آپ کے بچوں کو کون پڑھائے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو نہیں پڑھا رہے ہیں۔یہ جو مشکل فیصلے کررہے ہیں ہمارے محلے کے ایک بندے کو کہیں وہ بھی یہ مشکل فیصلے کرلے گا ۔مشکل فیصلے یہ ہیں کہ اکنامی کو درست کریں۔

انہوں نے کہاکہ جن کو پلاٹ دئیے ہیں ان سے پلاٹ واپس لیں۔جن کے قرضے معاف کیے ہیں ان سے قرض واپس لیے جائیں۔ان کے نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔یہ ہیں مشکل فیصلے اس پر کام کریں۔صوبائی وزیر تعلیم سیدسردار شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں کلین سوئپ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک دن مختص کیا جائے۔جس میں ایک ایجوکیشن پر ایک روڈ میپ بنائیں۔

آج تک کسی نے نہیں پوچھا ایجوکیشن منسٹری کیوں قائم کی ہیں۔ہمارے 40 ہزار اسکول ہیں۔5ہزار غیر فعال اسکول ہیں ،وہ اسکول ہمارے گلے میں آگئے ہیںایک ایک گاو ں میں 20 ، 20 اسکول ہمارے گلے میں پڑے ہوئے ہیں۔ان کا بوجھ خزانے پر پڑ رہا ہے۔وزیر تعلیم نے کہا کہ 36لاکھ ہمارے اسکولوں میں انرولمنٹ ہے۔47 ہزار سیٹوں پر ساڑھے تین ہزار پاس ہوئے۔45لاکھ بچے آج بھی کے پی کے میں اسکولوں سے باہر ہیں ،ابھی جو اساتذہ بھرتی ہورہے ہیں ان میں ایک بھی سفارش پر نہیں ہے۔

ضلع جنوبی میں 0.8 فیصد پاس ہوئے۔ضلع جنوبی میں ٹاپ کے اسکول کیبٹچرز نے اپلائی کیا تھا۔وہ پاس نہیں ہوسکے۔ہمارے 11 ہزار اسکول کو بند تھے وہ یکم اگست سے کھل جائیں گے ۔صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے کہا کہ کچھ عرصے پہلے ایکٹ منظور ہوا تھا۔وہ ایجوکیشن سسٹم کے لیے بڑا اہم ہے۔انہوں نے نشادہی کی کہ استاد کے پاس کوئی بھی لائسنس نہیں ہے۔جو بھی ٹیچر بننا چاہتا ہے بن جاتا ہے۔

اگر کوالٹی کا استاد ہمارے پاس آگیا ہے تو ہم پورے سماج کو تبدیل کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ اسکول کو۔مافیا نہیں کہوں گا۔پرائیویٹ اسکول ایکٹ موجود ہے اس میں اچھی چیزیں ہیں۔جتنی بھی انرولمنٹ ہے۔10فیصد بچوں کو فری تعلیم دینی ہے۔ہمیں ایکٹ پر عمل کرانا ہے۔پرائیویٹ اسکول کی سنسز ہورہی ہے۔اس کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کروں گا۔انہوں نے کہاکہ نجی اسکولوں کو سندھی اور اردو دونوں پڑھانی ہے لیکن بہت سارے نجی اسکولز نہیں پڑھاتے۔

صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت صوبے کے لئے پانی بہت اہم مسئلہ ہے ،بہت سے علاقوں میں پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔اس حوالے سے بجٹ میں اسکیمیں رکھی گئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس دفعہ ماڈل ولیج ہر ڈسٹرکٹ میں بنائیں گے۔بلدیاتی انتخابات میں بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت نے ٹکٹ ہی نہیں دئیے۔

چار ڈویژن میں کتنے لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا ۔یہ پھر آکر الزامات لگاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر بلدیاتی الیکشن پرامن ماحول میں ہوئے ایک واقعہ ضرور ہوا ہے ،جہاں ڈاکوں آئے تھے۔ وہاں پولنگ روک دی گئی۔کہیں بھی ایسا نہیں ہو اہے جہاں اعتراض ہو ہو اورپھر وہاں الیکشن بھی ہوا ہو۔امریکہ کے غلام ہونے کی بات ہوئی ہے۔ایک لیٹر کا موازنہ ذوالفقار علی بھٹو سے کیا گیا۔

توشہ خانہ پر حد ہوگئی ہے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ جب یہ حکومت میں تھے ملک کی معاشی حالات ہمارے خارجہ تعلقات اور سیاسی اخلاقیات کو تباہ کیا،جب حکومت میں نہیں ہیں تو عوام پر ایٹم بم مارنے کی بات کی میرے منہ میں خاک ا ور کہنے والے کے منہ پر دھول ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا کوئی بھی ملک ایک جملے کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوسکتا ہے۔: ناصر حسین شاہ نے کہا کہ آپ نے جو معاہدے کیے تھے ۔

معیشت پر اب اس کے آفٹر شاک آرہے ہیں۔جب فیٹف پر اچھی خبر آئی ہے تو انہوں نے کریڈٹ لینا شروع کردیا۔ان کے معاہدوں کی وجہ سے مہنگائی آئی ہے۔وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے اپنی تقریر میں کہا کہ بجٹ پر بحث اصلاح کے لئے ہونی چاہیے مگرکسی دوست بھی نے اصلاح کی بات نہیں کی ۔اچھی تجویز پر ضرور عمل کرتے ہیں ۔انہوں نے کہ اکہ سندھ کا محکمہ اطلاعات بہتری کیلئے کام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

صحافیوں کی فلاح و بہبودکیلئے اقدامات کررہے ہیں ،صحافیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں ۔ہماری جماعت صحافیوں کیلئے اسکیموں پر کام کررہی ہے۔صحافیوں کو عمر بھر کی لائف انشورنس دینے جارہے ہیں ،رجسٹرڈ صحافیوں کو ہیلتھ کارڈ اور انشورنس دی جائیگی ۔انہوں نے کہا کہ کراچی کی عوام کو مبارکباد دینا چاہتا ہو کہ پیپلزبس سروس کا آغازہوگیاہے ،پیپلز بس سات روٹس پر چلے گی پہلے روٹس پر بس کا آغاز کردیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ انٹرا بس سروس کے آغاز پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو صاحب کو کریڈٹ دونگا ۔دیگر بس سروس بھی جلد شروع ہونگی ۔شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیٹرول مہنگا ہونے کے بعد ایسی بس سروس لانا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ بسیں جو باہر سے لارہے ہیں اس کیلئے پلانٹ کراچی میں لگایا جائے تاکہ بسیں کم قیمت پر مل سکیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہماری کے سی آر کو سی پیک اور سندھ حکومت کے حوالے کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ کے سی آر سندھ حکومت کے حوالے کرنے پر وزیراعظم سے مراد علی شاہ نے بات کی ہے ۔حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو بہتر سہولیات میسر ہوں۔حیدر آباد کے لیے بھی پبلک ٹرانسپورٹ بی آر ٹی لا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میںوفاق نے سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں کا ساسلوک کیا۔انہوں نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ بجٹ پر اپنی تجاویز پیش کرے ، اگر تجاویز اچھی ہوئیںتوانہیں شامل ضرور کیا جائے گا۔

کے فور کا ڈرائن غلط تھا اس کا ذمہ دار سابق میئر تھاپیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کسی صورت کے فور کی تاخیر کی ذمہ دار نہیں ۔انہون نے کہا کہ غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے لیکن جو ذمہ دار ہیں ان کا بتادیا۔شرجیل میمن نے کہا کہ جس دن سے تحریک انصاف بنی ہے ،سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کلچر شروع ہوا ہے ،اب یے سلسلہ اسمبلی کے اندر بھی شروع ہوگیا ہے ۔تحریک انصاف کی وفاقی حکومت میں جو سب زیادہ گالی دیتا تھا وہ وزیر بنادیا جاتا تھا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ اسلام آباد میں رینجرز اہلکاروں پر پتھروں سے حملے ہوئے ،ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو کس طرف لیکر جانا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاست کو کس طرف لیکر جانا ہی روز ٹوئیتر ٹرینڈ چلائے جارہے ہین کہ ان کو کون لیکر آیا ہے۔شرجیل نے سوال کیا کہ آپ کو کون لیکر آیا تھا کس طرح جیت کر آئے بھارت اور اسرائیل کس کو فنڈنگ کرتا ہے ۔

شواہد موجود ہیں۔انہوں نے معران خان سے کہا کہ اپنے ملک اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف باتیں نہ کریں۔ایم کیو ایم کیپاریمانی لیڈر کنور نوید جمیل نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میںایم کیو ایم نے جتنی بھی اسکیمز دی تھیں بدقسمتی ایک بھی اسکیم نہیں آئی حالانکہ ملک کے بجٹ میں کراچی سب سے زیادہ حصہ دیتا ہے ،کراچی وفاق کو 70 فیصد حصہ دیتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق کراچی دنیا کے 5 بدترین سہولیات کا شہر قرار پایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بجٹ بک کو پڑھا ہے 250 ارب سالہ دینے کے باوجود کراچی کے لئے کوئی نیا کالیج اسکول اسپتال نہیں رکھا گیا۔لیاری کے اسپتال کو اپ گریڈ کیا گیا ہے وہاں بھی ہمارے جیسے لوگ رہتے ہیں ،اچھی بات ہے مگر لیاقت آباد بھی غریب لوگوں کی بستی ہے جو لاہور سے زیادہ بڑا ہے ۔

اسے کیا ملا کنور نوید جمیل نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری جب 90 آئے تھے تو کہا تھا کہ لسانی نفرتوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔اآنے والی نسلوں تک یے نفرتیں نہیں جانی چاہئیں۔کنور نوید نے کہا کہ : ماضی میں جی ایم سید نے بھی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کے پمفلٹ بناکر رکھے تھے ،ہمارے بزگوں نے انہیں سمجھایا کہ ایسا نہ کریں ہم ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ پیپلزپارٹی کی ہر سال لوگوں کو دیکھانے اور تسلی کے لئے کراچی کی اسکیمز رکھی جاتی ہیں بعد میں وہ اسکیمز بھی نکال دی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلی سندھ و دیگر سے درخواست کروں گا کہ محبتوں سے محبت جن لیتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ کراچی حیدرآباد و دیگر شئروں کے لوگوں کے مسائل حل کریں گے تو یہ کوئی احسان نہیں ہوگا کیونکہ عوام ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے کہ ان کے مسائل حل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ واٹر بورڈ کو پینے کے پانی کا بل ادا کرتے ہیں لیکن نلکے سے پانی کی جگہ ہوا آتی ہے ۔کراچی کے لوگ پانی ٹینکر ز سے ہی خرید کر استعمال کرتے ہیں۔کنور نوید جمیل نے کہا کہ مہنگائی کی یے صورتحال ہے کہ اگر کراچی میں سماجی تنظیمیں نہ ہوتیں تو لوگ بھوکے سوتے اس وقت ہر چوک پر فلاحی تنظیمیں کھا کھلاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی بلڈنگ کنٹرول کو سندھ بلڈنگ کنٹرول میں تبدیل کرکے ان لوگوں کی پوسٹنگ کی گئی ہیں جنہوں نے شہر میں غیر قانونی تعمیرات میں اضافہ کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے کراچی کے شہریوں کو ایک گریڈ کی بھی نوکری نہیں دی ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا صوبہ ترقی کرے لیکن یہ ترقی پورے سندھ میں بلا امتیازہونی چاہیے نہ کہ سلیکٹڈ افراد کی ترقی ہو۔ کنور نوید جمیل نے کہا کہ یہ بد نصیب شہر ہے اور میں اس کا ایک نمائندہ ہوں۔صوبائی وزیر سعید غنی نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ بالکل غلط بات ہے کہ کراچی کے لوگوں کو ایک بھی نوکری نہیں ملی۔

47ہزار نوکریوں میں حکومت کی کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔مزدور کارڈ میں کام سست روی ہے۔ہماری کوشش ہے جلد مزدور کارڈ مل جائے گا۔پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے کم از کم تنخواہ 25 ہزار مقرر کی ہے۔آج بھی ورکرز بورڈ کے اربوں روپے کے عدالتوں میں کیسز چل رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کنور نوید سے توقع کررہا تھا کہ وہ کہیں گے کہ کراچی میں بس سروس کا آغاز ہوگیا۔

وہ کہیں گے کہ کراچی ایمبولینس سروس شروع ہوئی ساڑھے 36 ارب روپے مختلف اسپتالوں کو دئیے جاتے ہیں۔سعید غنے کہا کہ بی آر ٹی 66 ارب کی اسکیم ہے۔یہ دو سو ارب کے منصوبے صرف کراچی کے منصوبے ہیں ۔تین صوبوں میں بتائیں کہ وہاں کتنے اردو بولنے والے ہیں۔یہاں پر لوگ رہ بھی رہے ہیں اور تنقید بھی کرتے ہیں۔اگر یہ بہتر نہیں ہے تو جائیں پھر جہاں بہتر لگے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ووٹوں میں اضافہ ہورہا ہے۔این اے 240 میں ہمارے ووٹ کم نہیں ہوئے ہیںیہ کراچی کے لوگوں کا پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار ہے۔آج بھی جو جماعتیں وفاقی حکومت کا حصہ ہیں۔ان جماعتوں نے 70 فیصد ووٹ لیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی بلکہ پی ٹی آئی کا اسکے اتحادیوں نے ساتھ چھوڑا تو ان کی حکومت ختم ہوگئی ۔

صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ آئین توڑنا بہت بڑا جرم ہے۔عمران خان اس ملک اور اداروں پکا دشمن ہے۔وہ فوج کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔جس آدمی کی یہ سوچ ہو اس کو نارمل کہہ سکتے ہیں۔ہمارے لوگوں کی دو دو سال تک ضمانت نہیں ہوئی۔یہ گوگی اور گوگو کو کب واپس لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال نے ان کو ریلیف دیا انہوں نے نیب کو اپنے گھر کی لونڈی بنا کر رکھاتھا۔
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات