Episode 30 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 30 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

جب دست بدست جنگ میں بُری طرح شکست کھائی تو چاروں طرف سے گھیر لیا اور سینکڑوں کی تلواریں بیک وقت چمکنے لگیں۔نیزے آپس میں ٹکرانے لگے اور دشمن بڑھ بڑھ امامِ عالی مقام  پر وار کرنے لگے۔حضرت امامِ حسین  اپنے جوہر دکھا رہے تھے۔اور جس طرف حملہ کرتے صفوں کی صفیں اُلٹا دیتے اور دشمنو ں کے سروں کو اس طرح اُڑاتے جیسے بادِ خزاں کے جھونکے درختوں سے پتے گراتے ہیں۔
ابنِ سعد کو جب اس طرح بھی کامیابی نہ ملی تو اس نے حکم دیا کہ چاروں طرف سے تیروں کا مینہ برسایا جائے۔اورجب خوب زخمی ہو جائیں تب نیزے سے حملہ کیا جائے۔تیر اندازوں نے آپ کو گھیر لیا اور بیک وقت ہزاروں تیر کمانوں سے چھوٹنے لگے اور تیروں کی بارش شروع ہو گئی۔آپ کا گھوڑا اس قدر زخمی ہو گیا کہ اس میں کام کی طاقت نہ رہی۔

(جاری ہے)

مجبوراََ امامِ عالی مقام کو ایک جگہ ٹھہرنا پڑا۔

ہر طرف سے تیر آ رہے تھے۔اور امام ِ عالی مقام کا جسمِ اقدس زخموں سے چور چور اور لہو لہان ہو گیا۔بے وفا کوفیوں نے جگر پارئہ رسول ﷺ فرزند ِ بتول کو مہمان بلا کر اُن کے ساتھ یہ سلوک کیا۔اتنے میں زہر میں بجھا ہوا ایک تیر آپ کی اس مقدس پیشانی پر لگا جسے نبی ِ کریم ﷺ نے ہزاروں بار چوما۔تیر لگتے ہی چہرئہ انور پر خون کا دھارہ بہہ نکلا۔
آپ گھوڑے سے نیچے آ گرے۔ ان ظالموں نے نیزوں سے حملہ کیا سنان بن ابی عمرو بن انس مخفی نے ایک ایسا نیزہ مارا جو تنِ اقدس سے پار ہو گیا۔اور اس طرح جب امامِ عالی مقام  شہید ہوئے تو آپ  کے بدن مبارک پہ نیزے کے تینتیس اور تلوار کے چونتیس زخم تھے۔
زندگی کے آخری لمحات آ پہنچے امام ِ عالی مقام  نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے؟ جواب ملا نماز کا وقت ہے۔
فرمایامجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کر لینے دو۔خون آلود ہاتھوں سے تیمم کیا اور بارگاہ ِ خدا وندی میں سجدہ ریز ہوئے اور باری تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے۔اور اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں۔اے خالقِ کائنات !میرا یہ آخری سجدہ قبول کرنا۔
بد بخت شمر آگے بڑھااور چاہا کہ امامِ عالی مقام کا سر تن سے جدا کر دے کہ حضرت امامِ حسین  نے فرمایا کہ میرے قاتل ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا کیونکہ نانا جان ﷺ نے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی۔
امام ابنِ عساکرنے سیدنا حسین بن علی  سے روایت کیا ہے کہ حضورنبیِ اکرمﷺ نے فرمایا ”گویا کہ میں ایک سفید داغوں والا کُتا دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل ِ بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے“
محمد بن عمرو بن حسین بیان فرماتے ہیں کہ ” ہم سید نا امامِ حسین  کے ساتھ کربلا کے دریا پہ موجود تھے تو آپ  نے شمر کی طرف دیکھا تو فرمایااللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا۔
رسولﷺ نے فرمایا کہ ”گویا کہ میں ایک سفید داغوں والا کُتا دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل ِبیت کے خون میں منہ مار رہا ہے“ چنا چہ آپ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بد بختی تیرے ہی مقدر میں ہے۔وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر ِ اقدس کوتن سے جُدا کر دیا۔
ادھر روح قفس ِ عنصری سے پرواز کی اُدھر ندا آئی” اے اطمینان پا جانے والے نفس !تو اپنے رب کی طرف اس طرح لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی“ (گویا اس کی رضا تیرا مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب) حسین  میں تجھ سے راضی ہو گیا۔
اے روحِ حسینی  !میرے پاس لوٹ آ۔جنت کے دروازے کھلے ہیں۔حور و غلمان تیرے منتظر ہیں۔قدسیان وملک تیرے انتظار میں ہیں۔
اس قدر ظلم ڈھانے کے بعد بھی یزیدیوں کا جذبہٴ بغض و عناد ختم نہ ہوا بلکہ انہوں نے امام ِ عالی مقام  کے جسمِ اطہرکو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا ۔پھر خیمے کی طرف بڑھے تمام اسباب اور سامان لوٹ لیا اور پردہ نشین خواتین کا بھی خیال نہ کیا۔
اور خیموں کو بھی آگ لگانے لگے اور حد یہ کہ امام ِ عالی مقام  کا جسمِ اقدس سے کپڑے بھی اتار لیے۔آپ  کاجُبہ جو کہ خرم عصر ی کا تھا وہ قیس بن محمد اشعث نے تن ِ بے سر سے اتار لیا ۔بحربن کعب نے پاجامہ لیا۔اسود بن خالد نے نعلین اتار لیے۔عمر بن یزید نے عمامہ مبارک اتار لیا۔یزید بن شبل نے چادر لے لی ۔سنان بن انس مخفی نے زِرہ اور انگوٹھی اتار لی۔
بنی ِ نہش کے ایک شخص نے تلوار لے لی۔جو بعد میں حبیب بن بدیل کے خاندان میں آ گئی۔
حضرت امامِ حسین کو شہید کرنے کے بعد شمر نے حضرت زین العابدین کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جو ابھی گیارہ یا تیرہ سال کے تھے اور بیمار بھی تھے۔مگر حمید بن مسلم نے جو شمر کے ساتھیوں میں سے تھا، نے شمر کو روک دیا۔پھر عمر بن سعد خیموں میں آ گیا ۔اور اس نے کہا کہ خبردارکوئی ان عورتوں کے قریب نہ جائے اور نہ کوئی اس لڑکے کو قتل کرے اور جس نے ان کے مال میں سے جو چیز لی ہو واپس کر دے۔راوی کا قول ہے کہ خدا کی قسم کسی نے بھی کوئی چیز واپس نہ کی۔
(البدایہ و النہایہ)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan