Episode 19 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 19 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

رفقا ء سے حضرت امام حسینکا خطاب 
ابن ِ سعد کے دستے کے واپس لوٹ جانے کے بعد حضرت امامِ حسین  نے اپنے رفقاء کو جمع کیا۔ آپ  کے فرزند سیدنا زین العابدین  فرماتے ہیں کہ میں بیماری کی حالت میں بھی اپنے والدِ گرامی کے قریب جا بیٹھا تاکہ سنوں کہ وہ کیا فرماتے ہیں ۔اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ پر درود و سلام کے بعد آپ  نے نہایت ہی فصیح و بلیغ الفاظ میں اپنے احباب سے فرمایا کہ:
” میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہترین نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل ِ بیت کو اپنے اہل ِ بیت سے نیکو کار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں ۔
اللہ تعالی تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔

(جاری ہے)

میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا کل کا دن دشمنوں سے مقابلے کا دن ہوگا۔میں تم سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ رات کی اس تاریکی میں چلے جاؤ۔ میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہو گی۔ایک ایک اونٹ لے لو اور تمہارا ایک ایک آدمی میرے اہل ِ بیت کے ایک ایک آدمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لے۔ اللہ تعالی تم سب کو جزائے خیر دے۔

پھر تم سب اپنے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں منتشرہو جاؤ۔یہاں تک کہ اللہ تعالی یہ مصیبت ٹال دے۔بیشک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں۔جب یہ مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو کوئی طلب نہ ہو گی“
آپ  کے بھائیوں ، بیٹوں اور بھتیجوں نے عرض کیا کہ آپ  کے بعد ہماری زندگی بیکار ہے۔اللہ تعالی آپ  کے بارے میں ایسا بُرا دن کبھی نہ دکھائے کہ آپ  موجودنہ ہوں اور ہم ہوں۔
آپ  نے باقی بنی عقیل سے فرمایا”اے اولاد ِ عقیل! تمہارے لیے تمہارے بھائی مسلمکا خون بہا ہی کافی ہے۔تم واپس چلے جاؤمیں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔ “باہمت اور غیرت مند بھائیوں نے کہالوگ کیا کہیں گے ہم نے عشرت ِدنیاکی خاطر شیخ سردار اور اپنے بہترین بھائی کا ساتھ چھوڑ دیا۔نہ تیر پھینکا ،نہ نیزہ مارا ،نہ تلوار چلائی، فقط اس دنیا کی زندگی کی خاطر! ہرگز نہیں! خدا کی قسم!ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ اپنے جانوں ، مالوں اور اپنے اہل ِ عیال کو آپ  پر قربان کر دیں گے۔
آپ کی ہمراہی میں جنگ کریں گے اور جو انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا ہو گا۔آپ  کے بعد زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں۔آپ  کے دوسرے احباب نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا اور کسی نے بھی آپ کواس حالت میں چھوڑ کر جانے کی رضامندی ظاہر نہ کی اور کہا کہ خدا کی قسم! ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ہم آپ  پر اپنی جان بھی قربان کر دیں گے۔
ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں، ہاتھوں اور اپنے جسموں سے آپ کا دفاع کریں گے۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
سعید بن عبداللہ  نے عرض کیا اگر مجھے یقین ہو جائے کہ ستر بار مارا جاؤں گا اور ہر بارمیری خاک بھی اڑا دی جائے گی تو بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔دوسرے ساتھی مسلم بن عوسجہ نے کہا کہ باخدااگر میرے پاس ہتھیار نہ بھی ہوں تو پتھروں سے یزیدیوں کا مقابلہ کروں گا اور آپ  پر فدا ہو جاؤں گا ۔
زہیر بن قیس نے عرض کیا کہ اگر مجھے ہزار بار بھی آرے سے چیرا جائے تو بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ۔اگر آج ان درندوں کے سامنے آپ کو چھوڑکر چلے گئے تو کل آپ  کے نانا ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے اور کس منہ سے انﷺ سے شفاعت کی بھیک مانگیں گے۔
روایت میں آتا ہے کہ آپ  بار بار چراغ بجھاتے اور ساتھیوں سے فرماتے کہ جس نے جانا ہے اندھیرے میں چلا جائے۔
اس میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں ۔میں خود اجازت دے رہا ہوں تو اس پر ایک بوڑھے ساتھی نے کہا حسین  آپ  ہزار بار بھی چراغ بجھائیں تو بھی آپ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے۔اپنے ساتھیوں اور اپنے اہل و عیال کے ان جذبات کو دیکھ کر حکم دیا کہ تمام رات خیمے قریب قریب کر دوحتیٰ کہ ان کی طنابیں ایک دوسرے میں گڑھی ہوئی ہوں تاکہ دشمن ہم تک صرف ایک جانب سے آ سکے۔
ہمارے دائیں بائیں اور پیچھے کی جانب خیمے ہوں ۔حضرت امامِ حسین  کے حکم کو پورا کرنے کے بعد آپ  کے رفقاء آپ  کے ساتھ ساری رات نوافل پڑھتے رہے اورعاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگتے رہے۔
دسویں محرم کی صبح
دس محرم ، اکسٹھ ہجری کا سورج طلوع ہوا اور عاشورہ کی رات ختم ہوئی ۔امام ِ عالی مقام  نے اہلِ بیت اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فجر کی نماز ادا کی۔
عمر بن سعدنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ لی تو قتال کے لیے تیار ہو گیا۔حضرت امام ِ حسین  اور ان کے ساتھی تین دن سے بھوکے پیاسے اور ایسے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے لیے بائیس ہزار کا تازہ دم لشکر موجود ہے۔حسینی فوج کے 72جان نثار 32 گھڑ سوار اور 40پیدل پر مشتمل تھے ۔آپ  نے میمنہ پر زہیر بن قیس اور میسرہ پر حبیب ابن مظا ہر کو مقرر فرمایا۔
علم اپنے بھائی حضرت عباس بن علی  کے سپرد فرمایا اور عورتوں کے خیمے کی طرف پشت کر لی۔
حضرت امام ِ حسین  کے حکم پر آپ  کے ساتھیوں نے راتوں رات خیموں کے عقب میں خندق کھود لی تھی۔اور اسے لکڑیوں سے بھر دیا۔آپ  کے حکم پر خندق میں ڈالی گئی لکڑیوں کو آگ لگا دی گئی تاکہ عقب میں سے کوئی خیموں میں داخل نہ ہو سکے ۔
حضرت امام ِ حسین  خود گھوڑے پر سوار ہوئے ۔قران ِ مجید منگوا کر سامنے رکھا اور دونوں ہا تھ اٹھا کر بارگا ہ ِ خدا وند میں یوں دعا کی :
”اے باری ِ تعالی !ہر مصیبت میں تو ہی میرا سہارا اور ہر تکلیف میں تو ہی میری امید ہے۔تمام حوادث میں تو ہی میرا مدد گار ہے اور ڈھارس ہے۔بہت سے غم ایسے ہوتے ہیں جن میں دل بیٹھ جاتا ہے اور ان غموں سے رہائی کی تدبیریں کم ہو جاتی ہیں ۔دوست اس میں ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور دشمن اس سے خوش ہوتے ہیں ۔لیکن میں نے ایسے تمام اوقات میں صرف تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تجھ ہی سے اپنا درد ِ دل بیان کیا ہے۔تیرے سوا کسی اور سے کہنے کا دل نہیں چاہا۔تو ہی ہر نعمت کا ولی ، ہر بھلائی کا مالک اور ہر خواہش کا منتہی ہے“

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan