Episode 28 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 28 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

شہادت ِ امام عالی مقام 
اب جگر پارئہ رسول ﷺ ...
شہزادئہ بتول ...علی  کے نورالعین.... 
مومنوں کے دلوں کے چین ....
حسینی نوجوانوں کے سردار ...مجاہدوں کے قافلہ سالار...ابنِ حیدر ِ کرار…
شہنشاہ ِ کربلا ....پیکر ِ صبر و رضا...حضرت امام ِ حسین کی شہادت کا وقت آ گیا۔
جب آپ  نے میدان ِ جنگ میں جانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت زین العابدین اپنی بیماری اور نقاہت اور کمزوری کے باوجود نیزہ لیے ہوئے حضرت امامِ حسین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا ابا جان !پہلے مجھے میدانِ کربلا میں جانے کی اجازت دیجیے۔

(جاری ہے)

میرے ہوتے ہوئے آپشہید ہو جائیں یہ نہیں ہو سکتا۔امامِ عالی مقام  نے اپنے نور ِ نظر کو اپنی آغوش ِ محبت میں لیا اور پیار کیا ۔

فرمایا:
بیٹامیں تمہیں کیسے اجازت دے دوں ؟ علی اکبر بھی شہید ہو گیا ۔قاسم بھی دنیا سے چلا گیا۔ اور تمام عزیز و اقارب جو ہمراہ تھے سب راہ ِ حق میں نثار ہو چکے ہیں۔میں اگر تمہیں اجازت دے دوں خواتین ِ اہل ِ بیت کا کوئی محرم نہیں رہ جائے گا۔ان بیکسان غریب الوطن کو مدینے کون پہنچائے گا؟تمہاری ماؤں بہنوں کی نگہداشت اور خبر گیری کون کرے گا؟میرے پیارے بیٹے !تمہیں زندہ رہنا ہے ۔
تمہیں شہید نہیں ہونا۔ورنہ میری نسل کس طرح چلے گی؟حسینی سادات کا سلسلہ کس سے جاری رہے گا؟میرے پاس جو امانتیں ہیں وہ کیسے سپرد کی جائیں گی؟ میرے لخت ِ جگر !یہ ساری امیدیں تم سے وابستہ ہیں۔دیکھو میری طرح صبر و استقامت سے رہنا۔راہ ِ حق میں ہر آنے والی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرنا اور ہر حالت میں اپنے نانا جان ﷺ کی شریعت اور اُن ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا۔
میرے بعد تم ہی میرے جان نثار ہو۔تمہیں میدان ِ کارزار میں جانے کی اجازت نہیں ۔پھر امام ِ عالی مقام  نے ان کو تمام ذمہ داریوں کا حامل کیا۔اپنی دستار مبارک اتار کر ان کے سر پر رکھ دی اور ان کو بسترِعلالت پہ لٹا دیا۔
اب امامِ پاک اپنے خیمے میں تشریف لائے۔ صندوق کھولا۔قبائے مصری زیبِ تن فرمائی اور تبرکات میں سے اپنے نانا جان ﷺ کا عمامہ مبارک اپنے سر پر باندھا۔
سید الشہداء حضرت امیر حمزہ کی ڈھال پشت پر رکھی… شیرِ خداکی تلوارِ ذوالفقار گلے میں حمائل کی اور جعفرطیار کا نیزہ ہاتھ میں لیا۔اور اس طرح تاجدارِ کربلا ، پیکرِ صبر و رضاسب کچھ راہِ حق پر قربان کرنے کے بعد اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔بیبیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے چہروں کے رنگ اڑ گیااور آنکھوں سے موتی ٹپکنے لگے۔
سب دُکھی دل بیبیوں کو ایک نظر دیکھ کر فرمایااللہ تم لوگوں کا حافظ و نگہبان ہے۔اور تمام اہل ِ خیمہ کو صبر و شکر کی وصیت فرماکے اپنا آخری دیدار کرا کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔سب کو اللہ کے حوالے کر کے دشمنوں کے سامنے پہنچ گئے۔کئی دن کے بھوکے پیاسے اور بیٹوں ، بیٹیوں ، بھتیجوں اور جانثار ساتھیوں کے غم سے نڈھال ...مگر اس کے باوجود پہاڑوں کی طرح جمی ہوئی فوجوں کے مقابلے میں شیر کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔
ایک ولولہ انگیز رجز پڑھی۔جو آپ  کے ذاتی نسب اور فضا ئل پر مشتمل تھی۔پھرآپ  نے فصیح و بلیغ تقریر کی۔اس میں آپ  نے حمد و صلوٰة کے بعد فرمایا:
اے لوگو!تم جس رسول ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہواسی رسول ﷺکاارشاد ہے کہ جس نے حسن و حسین  سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ۔تو اے یزیدیو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
اور میری دشمنی سے باز آ جاؤ۔اگر واقعی خدا اور رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہوتو سوچو کہ اس خدائے شہید و بصیر کو کیا جواب دو گے؟ اور رسول اللہ ﷺ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ بے وفاؤ!تم نے مجھے خطوط بھیج کر بلایا اور جب میں یہاں آیا تو تم نے میرے ساتھ ایسا بُرا سلوک کیاکہ مظالم کی انتہا کر دی۔ظالمو!تم نے میرے بیٹوں ،بھائیوں اور بھتیجوں کو خاک و خون میں تڑپایا۔
چمن ِ زہراء  کے ایک ایک پھول کو کاٹ ڈالا۔میرے تمام ساتھیوں کو شہید کر دیا اور اب میرے خون کے پیاسے ہو۔اپنے رسول ﷺ کا گھر برباد کرنے والو! اگر قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اپنے انجام پر غور کرو اور اپنی عاقبت پر نظر ڈالو۔پھر یہ بھی سوچو کہ میں کون ہوں؟ کس کا نواسہ ہوں؟ میرے والد کون ہیں؟ اور میری والدہ کس کی لختِ جگر ہیں؟ میں فاطمہ زہرہ  کا فرزند ہوں کہ جن کے پل صراط سے گزرتے وقت عرش سے ندا کی جائے گی۔
اے اہلِ محشر!اپنے سروں کو جھکا لو اور اپنی آنکھیں بند کر لو کہ خاتون ِ جنت ستر ہزار حوروں کے ساتھ گزرنے والی ہیں۔بے شرمو! اب بھی وقت ہے شرم سے کام لو۔اور میرے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین نہ کرو۔
حضرت امامِ حسین  کی تقریر سن کر یزیدی لشکر کے بہت سے لوگ متاثر ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئی۔لیکن شمر وغیرہ بدبخت یزیدیوں نے کوئی اثر نہیں لیا۔
بلکہ جب انہوں نے دیکھا کہ امامِ عالی مقام کی تقریر کا اثر ہونے لگا ہے تو انہوں نے شور و غل مچانا شروع کر دیاکہ آپ یا تو یزید کی بیعت کریں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں سننا چاہتے۔
امام عالی مقام  نے فرمایا :
 اے بد بختو!مجھے خوب معلوم ہے کہ تمہارے دلوں پر بد بختی کی مہر لگ چکی ہے اور تمہاری غیرت ِ ایمانی مردہ ہو چکی ہے۔
لیکن میں نے یہ تقریر صرف اتمام ِ حجت کے لیے کی ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم نے حق اور امام بر حق کو پہچانا نہ تھا۔اللہ کا شکر ہے کہ میں نے تمہارا یہ عذر ختم کر دیا۔اب رہا یزید کی بیعت کا سوال ؟تو یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہو سکتا کہ میں باطل کے سامنے سر جھکا دوں۔
امامِ عالی مقام  نے جب دیکھا کہ یہ بدبخت میرے قتل کا وبال اپنی گردنوں پر ضرور لیں گے۔
اور میرا خون بہانے سے کسی طرح باز نہیں آئیں گے تو آپ  نے فرمایا: 
اب تم لوگ جو ارادہ رکھتے ہوپورا کرواور جسے میرے مقابلے کے لیے بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ بڑے بڑے مشہور بہادر جو شیرِ خدا کے شیر کے لیے محفوظ رکھے گئے تھے ان میں سے ابنِ سعد نے سب سے پہلے تمیم بن قحطبہ کو حضرت امام حسین سے جنگ کے لیے بھیجا۔جو ملک شام کا نامی گرامی پہلوان تھا۔وہ غرور و تمکنت سے ہا تھی کی طرح جھومتا ہوا اور اپنی بہادری کی ڈینگیں مارتا ہوا حضرت امام ِ حسین  کے سامنے آیا اور پہنچتے ہی آپ  پر حملہ کر دیا ۔ابھی اس کا ہاتھ اٹھا ہی تھا کہ شیرِخدا کے شیر نے ذوالفقار ِ حیدر سے ایسے جچا تلا وار کیا کہ اس کا سر جسم سے اڑ گیا۔اور اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan