Episode 42 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 42 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

# عاشقوں کا صبر 
# الصبرعن اللہ:
اللہ کے وصال سے محروم ہوتے ہوئے بھی ہجر و فراق کی گھڑیوں میں صبر کرنا عاشقوں کا صبر کہلاتا ہے۔اسے الصبر عن اللہ کہتے ہیں۔
مرد ِ مومن ہر وقت اپنے مولیٰ کی ملاقات و وصال اور اس کے بے نقاب جلوے کا خواہشمند رہتا ہے۔
لیکن یہ جلوہ اسے اس وقت نصیب ہوتا ہے جب اس کی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کرتی ہے۔اور سارے حجابات کو دور کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دی جاتی ہے۔جب تک وصال اورقربت کی یہ گھڑیاں نہ آئیں ۔اس وقت تک محرومیوں کی گھڑیوں میں صابر و شاکر رہنا اور اپنے احوال عشق و محبت ملغوب نہ ہونا ’ الصبر عن اللہ ‘ ہے۔

(جاری ہے)

زاہدوں کا صبر یہ تھا کہ وہ اوامر و نہی کی پیروی کریں ۔
تکلیف ، مصیبت اور اذیت کے انتہائی لمحوں میں صابر و شاکر رہیں مگر عاشقوں کا صبر یہ ہے کہ محبوب ِ حقیقی سے وصال اور محرومی اور ہجر و فراق کے لمحوں میں صبر کریں ۔صبر کی یہ کیفیت زاہدوں کے صبر کی کیفیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔کیونکہ عاشق ہر چیز برداشت کر لیتے ہیں ان کے لیئے فرحت و سکون، یا اذیت و مصیبت یکساں ہے۔اوامر و نہی پہ عمل ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
وہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ۔لیکن اگر کوئی بات وہ گوارا نہیں کر سکتے تو یہ محبوب کے وصال سے محرومی ہے۔ ہجر و فراق کی گھڑی عاشق پر بھاری ہوتی ہے۔
# مشکل ترین صبر:
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص شبلی کے پاس گیا۔اور آپسے پوچھا کہ کون سا صبر ، صبر کرنے والوں پہ سب سے مشکل اور گراں ہے؟ حضرت شیخ شبلی  نے فرمایا ” الصبر فی اللہ“( اللہ کے سوا سب سے رک جانا )اس شخص نے کہا نہیں۔
آپ  نے فرمایا ”الصبرللہ “ اس شخص نے کہا جی یہ بھی نہیں ۔ یہ سن کر شیخ شبلی  کہنے لگے پھر تم ہی بتاؤ وہ کون سا صبر ہے ؟اس شخص نے کہا وہ ”الصبر عن اللہ “ ہے۔
روای کا بیان ہے کہ جواب سن کر شیخ شبلی  نے اتنی زور سے چیخ ماری کہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ان کی جان نکل جائے گی۔( عوارف المعارف، شیخ شہاب الدین سہروردی )
یہ ہے بھی حقیقت کہ اپنی کٹھن منزلوں کے اعتبار سے عاشقوں کے صبر کے مقابلے میں عبادت گزاروں کا صبر کو ئی حقیقت نہیں رکھتا۔
حضرت مولانا غوث علی شاہ  پانی پتی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص کسی عاشق درویش کی خدمت میں جاتا ان کی صحبت میں بیٹھا رہتا اور اپنی کوئی مراد یا حاجت پیش نہ کرتا ۔ایک روز درویش پوچھنے لگا کہ تم روزانہ آتے ہو اور بیٹھ کر چلے جاتے ہو۔ہر کوئی اپنی مراد یاحاجت کہتا ہے تم کبھی کچھ نہیں کہتے۔آخر تم کس لیے آتے ہو؟ وہ شخص کہنے لگا کہ حضور میں تو عشق کی چنگاری لینے آتا ہوں ۔
میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ مجھے عشق کی آگ لگ جائے۔یہ سن کر وہ درویش چپ ہو گیا۔کچھ دن بعد انہوں نے دوبارہ پوچھا اس شخص نے کہا کہ میرا تو بس ایک ہی مطالبہ ہے۔وہ بزرگ درویش چپ ہی رہے۔اس طرح کچھ دن بعد انہوں نے پھر پوچھا تو اس شخص نے اپنا وہی مطالبہ دہرایا کہ مجھے عشق کی چنگاری چاہیے۔اور کچھ نہیں۔اس پر وہ بزرگ فرمانے لگے کہ کل جنگل میں فلاں جگہ جانا وہاں ایک شخص پڑا ہوا نظر آئے گا مجھے آ کر اس کا حال بتانا ۔
اگلے دن وہ شخص جنگل کے اس مقام پر گیا ۔وہاں اس نے دیکھا کہ ایک شخص پڑا ہوا تھا ۔جس کا سر بازو اور ٹانگیں دھڑ سے جدا پڑی تڑپ رہیں ہیں۔یہ حالت دیکھ کروہ شخص واپس اس بزرگ کے پاس آیا اور لوگوں کے جانے کے بعد بزرگ سے کہنے لگاکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس شخص کا ہر عضو دھڑ سے جدا ہے اور تڑپ رہا ہے۔یہ سن کر درویش نے کہا کہ عاشقوں کا یہ حال ہوتا ہے اگر یہ حال قبول ہے تو عشق کی چنگاری دے دیتے ہیں۔
وہ لوگ جو عشق و محبت کا دعوی نہیں کرتے اس سے محبوب اور طرح سے پیش آتا ہے اور جب وہ عشق و محبت کا دعوی کریں تو محبوب کا وطیرہ بدل جاتا ہے۔اور وہ اور طرح سے آزماتا ہے۔انہی عشق ومحبت والوں کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
” اور ہم تم کو کچھ خوف سے ، کچھ بھوک سے ، کچھ مالوں سے ، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے۔
“(البقرة ۲:۱۵۵)
جوعشق و محبت کا دعوی کرتے ہیں انہیں آزمائشوں کی بھٹی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔اور خوف اور بھوک کے ساتھ جان و مال اور دوسری نعمتوں میں کمی کر کے آزمایا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ لوگ اپنے دعوی محبت میں کہاں تک سچے ہیں۔
# صابرین کی جزا:
اوامر و نہی پر عمل کرتے ہوئے تکلیف برداشت کرنا ، ہر قسم کی خوشی اور غم پر صبر کرنا، بڑے بڑے مصائب کو برداشت کرنا ، محبوب ِ حقیقی سے وصال کی محرومی اور ہجر و فراق کے لمحوں میں صبر کرنا، الغرض صبر کے تمام مراحل اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں ۔
اس لیے صابرین کی جزا بیان کرتے ہوئے قرآن ِ پاک کہتا ہے۔
” بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ ( ا لبقرہ۲:۱۵۳)
یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں انہیں اللہ کی معیت ( ساتھ ) نصیب ہو جاتی ہے۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کے ارشاد فرمایا :
” اپنے لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے“
 (البقرہ ۲:۱۵۷ )
صبر کرنے والوں پر اللہ کی رحمت نچھاور کی جاتی ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں تکلیف برداشت کر کے صبر پر پورا اترتے ہیں ۔
ہر قسم کے جان و مال کے خوف کی مشکل منزلوں سے گزرتے ہیں ۔جو زندگی کی ہر محبوب چیز لٹا دیتے ہیں ۔مگر اللہ کی خوشنودی کے حصول کی منزل ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔یہ لوگ اس بات کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ ان پر رحمتوں کا نزول ہو۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan