Episode 7 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 7 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

کوفہ میں مسلم بن عقیل  کا والہانہ استقبال
ٍ حضرت مسلم بن عقیل  اپنے کچھ ساتھیوں اور دو بیٹوں ،جو آپ کو بہت پیارے تھے، ان کو ساتھ لے کر کوفہ روانہ ہوئے۔آپ  نے کوفہ پہنچ کر مختار بن عبید  کے مکان پر قیام فرمایا۔کوفہ کے شیعانِ علی نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور حضرت امام حسین  کے نمائندہ کے طور پر جوق در جوق آپ  کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔
یہاں تک کہ پہلے ہی دن بارہ ہزار افرادنے حضرت مسلم بن عقیل  کے ہاتھ پر حضرت امام حسین  کے حق میں بیعت کر لی ۔پھر اس تعداد میں اضافہ ہو تا گیا حتیٰ کہ ان کی تعداد اٹھارہ ہزار تک پہنچ گئی ۔آپ  نے لوگوں کے شوق ، عقیدت و محبت ، جوش ولولہ دیکھ کر حضرت امام حسین کو خط لکھا کہ بھائی جان !حالات دعوتِ حق اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ساز گار ہیں۔

(جاری ہے)

آپ  بلا تامل اور بلا جھجک تشریف لائیں ۔
(البدایہ و النہایہ ۸: ۱۵۲ )
یزید کو اطلاع 
اس وقت کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر تھے۔آپ  صحابیٴ رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ محب ِ اہل ِ بیت بھی تھے۔اس لیے آپ  نے حضرت مسلم بن عقیل  کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی اور خاموشی سے سب کچھ گوارہ کیا۔
جب یزیدی حکومت کے حامیوں نے دیکھا کہ حالات پلٹ جانے کا امکان ہے تو وہ نعمان بن بشیر  کے پاس آئے اور کہا کہ کوفہ شہر یزید کی حکومت سے نکلا جا رہا ہے ۔اور تو خاموشی سے تماشہ دیکھے جا رہا ہے۔مسلم بن عقیل  کو گرفتار کر اور قتل کر کے ان کا صفایا کر دو تاکہ فتنہ و فساد کا امکان نہ ہو ۔نعمان بن بشیر  نے کہا کہ :
” میرے ساتھ جو جنگ نہیں کرے گا میں بھی اس کے خلاف جنگ نہیں کروں گا ۔
جو مجھ پر حملہ نہیں کرے گا میں بھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ۔اور نہ ہی میں ان کو محض گمان کی بنا پر پکڑوں گا ۔لیکن خدائے واحد کی قسم !اگر تم اپنے امیر سے جدا ہوئے اور اپنی بیعت توڑی تو میں تم سے اس وقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھ میں میری تلوار کا قبضہ ہے۔“
یہ سن کر ایک آدمی عبد اللہ بن مسلم نے کہا کہ اے امیر ! یہ کام اندھی لاٹھی کے بغیر نہیں سلجھے گا اور آپ  نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ کمزوروں کا طریقہ ہے ۔
اس پر نعمان بن بشیر  نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کمزوری، مجھے اس کی نافرمانی میں طاقت سے زیادہ محبوب ہے۔
جب یزید کے حامیوں نے دیکھا کہ نعمان بن بشیر ، حضرت امام ِ حسین  کے خلاف کوئی اقدام کرنے پر تیار نہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی بیعت کرتے جا رہے ہیں تو انہوں نے اپنا ایک وفد یزید کے پاس بھیجا کہ نعمان بن بشیر قطعاََ تیری حکومت کے مفادات کے حق میں نہیں ہے ۔
امام حسین  کی آمد آمد ہے اور لوگ مسلم بن عقیل  کے ہاتھ پر جوق در جوق بیعت کر رہے ہیں ۔کوفہ اور بصرہ ہاتھ سے نکل جانے کو ہے ۔تم فوراً اس کے لیے کوئی بند و بست کرو۔عمار بن عقبہ اور عمر بن سعد نے بھی اس مضمون کے خطوط لکھے جن پر یزید بہت غضب ناک ہوا ۔
نعمان بن بشیر  کی معزولی اور ابن ِ زیاد کا تقرر
کوفہ کی صور تحال کے بارے میں اطلاع کے حوالے سے یزید نے اپنے ایک خاندانی غلام سرجون کو بلایا۔
سرجون امیر معاویہ کا خاص اعتماد والا غلام اور خاندان کا راز دار تھا ۔یزید نے اس کی گود میں پرورش پائی تھی۔یزید نے اس کو تمام حالات بتائے اور پوچھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سرجون نے کہا کہ امیر معاویہ زندہ ہوتے تو کیا آ پ ان کا مشورہ قبول کر لیتے؟ یزید نے کہا کہ ہاں ! سرجون نے کہا کہ تو میرا یہ مشورہ بھی قبول کر لیں کہ کوفہ کی امارت کے لیے عبید اللہ بن زیاد سے بہتر کوئی آدمی نہیں ۔
اس لیے کوفہ کی امارت اس کے سپرد کر دیں۔
(البدایہ و النہایہ ۸:۱۵۶ )
ابن زیادبصرہ کا گورنر تھا۔ کوفہ میں شیعان ِ علی و حسین  کا زورتوڑنے کے لیے یزید نے اسے کوفہ کا بھی گورنر مقرر کروایا اور اسے حکم نامہ جاری کیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل  کو تلاش کرو۔ اور جب وہ تمہارے ہاتھ آ جائیں تو انہیں قتل کر دو یا جلا وطن کر دو۔
(البدایہ و النہایہ ۸:۱۵۶ ۔ ابن اثیر۴:۲۳ )
جس دن بصرہ میں ابن زیاد کو یزید کا حکم نامہ ملا اسی دن بصرہ میں حضرت امام ِ حسین  کا قاصد بھی اہل بصرہ کے نام آپ  کا ایک خط لایا۔کیونکہ اہل بصرہ بھی آ پ  کی طرف مائل تھے اس لیے آپ  نے اس خط میں اہلِ بصرہ کو لکھا تھا کہ:
” میں نے اپنے قاصد کو یہ مکتوب دے کر بھیجا ہے میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔
اس لیے کہ سنت مٹا دی گئی ہے اور بدعت زندہ کر دی گئی ہے۔اگر تم لوگ میری سنو گے اور میرے علم کی اطاعت کرو گے تو میں تمہیں راہ ِ ہدایت پر چلاؤں گا“
بصرہ کے سرداروں میں جس شخص نے امام حسین  کا خط پڑھا اس نے اسے پوشیدہ رکھا۔ مگر منذر بن الجارود کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ قاصد عبید اللہ بن زیاد کا کوئی جاسوس نہ ہو اور اس نے اشرافِ بصرہ کے پاس بھیجا ہو ۔
جس صبح کی رات ابن زیادنے کوفہ کے لیے روانہ ہونا تھا ، اس رات منظر بن الجارود قاصد کو لے کر ابن زیاد کے پاس آیا اور مکتوب اسے پڑھایا۔ابن زیاد نے اسی وقت امام ِ حسین  کے قاصد کو قتل کروا دیا ۔اوربصرہ میں لوگوں کے سامنے سخت تہدیدآمیز تقریر کی اور کہا :
خدا کی قسم ! مجھے مصیبت، دشواری یا دشمن کے اسلحہ سے ڈرایا نہیں جا سکتا ۔
جو مجھ سے دشمنی رکھے میں اس کے لیے عذاب ہوں ۔ اور جو مجھ سے جنگ کرے اس کے لیے میں جنگ کی آگ ہوں ۔امیر المومنین (یزید) نے مجھے کوفہ کی ولایت سونپی ہے۔میں کل وہاں جانے والا ہوں اور اپنے پیچھے عثمان بن زیادہ بن ابو سفیان کو تم پر نائب بنائے چھوڑے جا رہا ہوں ۔تم لوگ اختلافات اور بغاوت سے اجتناب کرو ۔ورنہ قسم اس ذات کی کہ جس کے سوا اور کوئی خدا نہیں، اگر میرے پاس تم میں سے کسی کی مخالفت کی خبر پہنچی تو میں اس کو اور اس کے حامیوں اوردوستوں کو بھی نہیں چھوڑوں گا ۔
میں بعید( دور) کے بدلے قریب کو پکڑوں گا ۔یعنی روپوش مجرموں کے وارثوں اور حامیوں کو پکڑوں گا جو موجود ہوں گے۔یہاں تک کہ معاملہ سلجھ جائے اورتم میں کوئی مخالفت کرنے والا اور پھوٹ ڈالنے والا باقی نہ رہے۔یاد رکھو ! میں اپنے باپ کے مشابہ ہوں ، اس باپ کے جس نے کنکر پتھر روند ڈالے تھے۔
(الطبری ۶:۲۵ ۔ ابن اثیر ۴:۲۳ ۔ البدایہ و النہایہ ۸: ۱۵۸ )

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan