Episode 33 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 33 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

سرِ انور پر نور اور سفید پرندے
اہل ِ بیت نبوت کے قافلے کے باقی افراد گیارہ محرم الحرام کو کوفہ پہنچے۔جب کہ شہداء کے سر مبارک پہلے ہی پہنچائے جا چکے تھے۔امام ِ عالی مقام  کے سرِانور کو ابن سعد نے خولی کے ہاتھ ابن ِ زیاد کے ہاتھ بھیجا تھا۔جب خولی حضرت امامِ حسین کا سر مبارک لے کر پہنچا تو گورنر ہاؤس کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔
چنانچہ وہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر پہنچا ۔اور ایک برتن کے نیچے ڈھانپ کے رکھ دیا۔پھر اپنی بیوی نوار کے پاس جا کر کہا کہ تیرے لیے زمانے بھر کی عزت لایا ہوں۔اس نے پوچھا وہ کیا؟خولی نے کہا کہ حسین  کا سر لے کر آیا ہوں ۔اس کی بیوی نے کہا لوگ سونا چاندی لے کر آتے ہیں اور تو رسول ِ خدا ﷺ کے نواسے کاسر لایا ہے۔

(جاری ہے)

خدا کی قسم میں آئندہ کبھی تیرے ساتھ شب باش نہیں ہوں گی۔

یہ کہہ کر وہ بستر سے اٹھ گئی ۔اس پر خولی نے اپنی دوسری بیوی کو جو بنو اسد سے تھی کو بلا لیا۔
نوار جب خولی کے پاس سے اٹھ گئی تو وہاں آ بیٹھی جہاں حضرت امام حسین  کا سرِ انور رکھا تھا۔وہ کہتی ہے کہ خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ ایک نوربرابر آسمان سے اس برتن تک ایک ستون کی مانند چمک رہا ہے۔ اور میں نے سفید پرندے دیکھے جو برتن کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔
صبح ہوئی تو خولی سرِانورکو ابن زیاد کے پاس لے گیا۔(ابن اثیر۔ طبری)
امامِ عالی مقام کا سرِ انور اور ابن زیاد
اگلے دن ا بن زیاد کا دربار لگا اور لوگوں کو بھی اذن ِ عام ہوا تو بھرے دربار میں اس کے سامنے حضرت امام حسین  کا سرِانور ایک طشت میں رکھ کر پیش کیا گیا۔حمید بن مسلم نے کہا کہ عمر بن سعد نے فتح و نصرت کی خوشخبری اوراپنی عافیت کا پیغام دے کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوفہ بھیجا۔
جب میں وہاں پہنچا تو ابن زیاد دربار لگائے ہوئے تھا۔اور ملاقاتیوں کا ایک وفد بھی اس کے پاس بیٹھا تھا۔میں بھی ان کی مجلس میں جا کر بیٹھ گیا۔میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین کا سرِمبارک اس کے سامنے رکھا ہوا تھا وہ تھوڑی دیر اپنی چھڑی سے آپ  کے سامنے کے دانتوں اور لبوں کو کریدتا رہا۔جس پر رسول اللہ ﷺ کے ایک بوڑھے صحابی زید بن ارقم جو اس وقت وہاں موجود تھے۔
ان سے نہ رہا گیا۔اور وہ اس گستاخی کو دیکھ کے تڑپ گئے ۔اور روتے ہوئے فرمایا کہ چھڑی کو ان دانتوں سے دور ہٹاؤ۔قسم ہے اس خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ان لبوں کو چوما کرتے تھے۔یہ کہہ کر ابن ارقم  پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ ابن زیاد نے کہا خدا تجھے رُلائے۔خدا کی قسم تو اگر بوڑھا نہ ہوتا اور تیری عقل نہ ماری گئی ہوتی تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔
راوی کہتا ہے کہ اس پر ابن ِ ارقم اٹھ کر چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو لوگوں نے کہا خدا کی قسم !خدا کی قسم زید بن ارقم نے جو بات کہی ہے وہ اگر ابن زیاد سن لیتا تو وہ انہیں ضرور قتل کر دیتا۔حمید بن مسلم نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کہ :
ایک غلام غلاموں کا بادشاہ بن بیٹھا اور حکومت کو اس نے جاگیر بنا لیا ہے۔
اے اہل ِ عرب آج کے بعد تم غلام ہو کہ تم نے ابن فاطمہ کو شہید کر دیا۔مگر ابن مرجانہ کو اپنا حاکم بنا لیا۔اب وہ تمہارے بہترین لوگوں کو قتل کرے گا اور تم سے بڑوں کو اپنا غلام بنا لے گا۔پس تم اس ذلت و رسوائی کی زندگی پر راضی ہو۔ اس کے مقدر میں محرومی ہے۔(البدایہ و النہایہ)
ابن زیاد اور اسیرانِ کربلا 
حضرت امامِ حسین  کے سرِمبارک کے بعد اہلِ بیت ِ نبوت کے بقیہ افراد کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔
حضر ت زینب  نے معمولی سا لباس پہنا ہوا تھا اور لونڈیوں کے جھرمٹ میں تھیں ۔ا س لیے پہچانی نہیں جا تی تھیں۔جب انہیں ابنِ زیاد کے سامنے پیش کیا گیا ۔تو اس نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟حضرت زینب  کچھ نہ بولیں اس پر ایک لونڈی نے کہا کہ یہ زینب بنتِ علی  ہیں۔
ابن ِ زیاد نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے تمہیں رسوا کیا اور قتل کیا اور تمہارے دعوی کو جھوٹا کیا ۔
حضرت زینب  نے فرمایا بلکہ ہمیں سب سے زیادہ عزت بخشی اور پاک و طاہر بنایا بلاشبہ۔ اور فاسق کو رسوا کرتا ہے اور فاجر کو جھٹلاتا ہے۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے اہل ِ بیت کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ حضرت زینب  نے فرمایا کہ ان کے لیے شہادت مقدر ہو چکی تھی۔اس لیے وہ اپنی شہادت گاہ کی طرف خود نکل کر آگئے۔عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو اور تجھ کو ایک جگہ جمع کرے گا۔
اس وقت وہ تیرا معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے۔اس پر ابن زیاد بھڑک اٹھا اور کچھ کارروائی کرنے کا ارادہ کیا تو عمرو بن حریث نے کہا کہ خداتعالیٰ بہتری کرے یہ تو ایک عورت ہے ۔کیا آپ ایک عورت کی باتوں پر گرفت کریں گے؟عورت کی بات پر مواخذہ نہیں کیا جاتا۔اور نہ ہی ان کی نادانی پر ان پر ملامت کی جاتی ہے۔(البدایہ و النہایہ)
جب ابن زیاد نے علی بن حسین  (امام زین العابدین )کو دیکھا تو ایک سپاہی سے کہا اس لڑکے کو دیکھو اگر بالغ ہو گیا ہے تو اسے قتل کر دو۔
سپاہی نے امام زین العابدین کی بلوغت کی تصدیق کی تو ابن زیاد نے کہا کہ اسے لے جاؤ اور قتل کر دو۔اس پر امام زین العابدین  نے فرمایا کہ اگر تیرا ان عورتوں سے قرابت داری کا کوئی واسطہ ہے تو کوئی محافظ بھیج دے جو ان کی حفاظت کرے۔ابن زیاد نے ان سے کہا کہ تم ہی آ جاؤ اور پھر حضرت زین العابدین  کو ہی عورتوں کے ساتھ بھیج دیا۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan