Episode 10 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 10 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

علی الصبح اس بڑھیا کے بیٹے نے بھاگم بھاگ عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کو امام مسلم  کے اپنے گھر میں موجودگی کی اطلاع جا پہنچائی۔جس نے اپنے والد سے ابن ِ زیاد کے دربار میں سرگوشی کی ۔ عبدالرحمن کا باپ اس وقت ابن ِ زیاد کے پاس بیٹھا تھا۔ابن ِ زیاد نے پوچھا کہ تم سے کیا کہا گیا ہے۔ تو اس نے مسلم بن عقیل کی خبر کے بارے میں بتا دیا۔ابن ِ زیاد نے اپنی چھڑی سے اس کوپہلو میں ہلکا سا ٹھوکا دیا اور اسے کہا کہ اٹھو اسے ابھی میرے پاس لے آؤ۔
ابن ِ زیاد نے عمر بن حریث مخزومی جو کہ اک پولیس افسر تھا کو ستر ،اسی آدمیوں کے ساتھ عبد الرحمن اور محمد بن اشعث کے ہمراہ حضرت مسلم بن عقیل  کی گرفتاری کے لیے بھیج دیا۔حضرت مسلمکو اس وقت خبر ہوئی جب اس مکان کا گھیراؤ کر لیا گیا۔

(جاری ہے)

جس میں آپ  موجود تھے۔جب وہ لوگ مکان میں داخل ہوئے تو آپ  تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور3 بار انہیں مکان سے باہر دھکیلا ۔

مگر آپ  کے اوپر اور نیچے کے دونوں ہونٹ زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد وہ پتھر برسانے لگے اور آگ کے گولے اندر پھینکے جس سے آپ کا دم گھٹنے لگا۔ اس لیے آپ تلوار لے کر باہر آ گئے اور ان سے مقابلہ کرنے لگے۔ اس پر عبدالرحمن نے آپ سے امان اور پناہ دینے کا اعدہ کیا اور اس طرح سے آپ کو گرفتار کرنا آسان ہو گیا۔
ابن ِ زیاد کے سپاہیوں نے آپ  سے تلوار چھین لی اورسواری کے لیے اک خچر لے آئے۔
اب آپ  کی ملکیت میں سوائے آپ کی ذات کے اور کوئی چیز باقی نہ رہی۔ اس وقت آپ نے سمجھ لیا کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا ۔کچھ سوچ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ یہ دیکھ کر اک شخص عبداللہ بن عباس سلمی نے کہا کہ جس چیز کے طلبگا ر ہو اس کے طلب گاروں پر جب کوئی مصیبت آن پڑے تو وہ رویا نہیں کرتے ۔آپ  نے جواب دیا ”بخدا میں اپنے لیے نہیں روتا اور نہ ہی اپنی موت پر روتا ہوں بلکہ میں تو حضرت امام ِ حسین  اور آل ِ امام  کے لیے روتا ہوں“
پھر آپ محمد بن اشعث کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے بندے ! میرا خیال ہے کہ تم مجھے پناہ دینے کا عہد پورا نہ کر سکو گے۔
کیا تم بھلائی کر سکتے ہو کہ میری طرف سے امامِ حسین کی طرف کسی آدمی کو بھیج دو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ گزشتہ کل یا آج اپنے اہل و عیال کے ساتھ تمہاری طرف روانہ ہو چکے ہوں گے ۔مجھے ان کی بہت فکر ہے۔ قاصد انہیں جا کر کہے کہ مجھے ابنِ عقیل  نے بھیجا ہے جو کہ قوم کے ہاتھوں گرفتا رہے ۔ اور جو معلوم نہیں صبح یا شام کو قتل ہو جائے گا۔ آپ  اپنے اہل و عیال کے ساتھ واپس چلے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اہل ِ کوفہ آپ کو بھی دھوکہ دیں ۔
یہ آپ  کے والد کے وہی اصحاب ہیں جو ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں خواہ ان کی طبعی موت کی صورت میں واقع ہوتا خواہ ان کے قتل کی صورت میں ۔اہلِ کوفہ نے آپ سے اور مجھ سے جھوٹے وعدے کیے تھے اور دروغ گو کی کوئی رائے نہیں ہو تی۔
اس پر ابن اشعث نے کہا کہ خدا کی قسم میں یہ کام ضرور کروں گا ۔ابن اشعث نے وہ ساری باتیں جو حضرت مسلم بن عقیل  نے کہی تھیں اک خط میں لکھ کر اک شخص کو سواری کا جانور اور اہل و عیال کا خرچ دے کر روانہ کر دیا۔
وہ شخص کوفہ سے روانہ ہو کر چار راتوں کی مسافت پر حضرت امام حسین  سے ملا۔انہیں حضرت مسلم بن عقیل کا خط دیا اور سارے حالات گوش گزار کیے۔ اس پر حضرت امام ِ حسین  نے فرمایا جو مقدر ہو چکا ہے وہ نازل ہو کر رہے گا۔ ہمارا اور ہمارے حمایتیوں کا فیصلہ خدا کے حضور ہو گا۔ 
جب حضرت مسلم بن عقیل  زخمی حالت میں اور خون آلود چہرے اور لباس کے ساتھ تشنہ لب گورنر ہاؤس پہنچے تو وہاں امراء اور کچھ دوسرے لوگ بھی ابن ِ زیاد سے ملنے کے لیے اجازت کے منتظر تھے جن سے حضرت مسلم بن عقیل  کی جان پہچان تھی۔
وہاں اک طرف ٹھنڈے پانی کا اک مٹکا پڑا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیل  نے اس میں سے پانی پینے کا ارادہ کیا تو اک آدمی نے کہا کہ خدا کی قسم جہنم کا کھولتا ہوا پانی پینے سے پہلے تو اس مٹکے کا پانی نہیں پیئے گا ۔آپ  نے اسے کہا کہ کھولتا ہوا پانی پینے اور ہمیشہ کے لیے بھڑکتی آگ میں داخل ہونے کا تُو زیادہ حق دار ہے۔ آپ  تھکاوٹ اور پیاس کی شدت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
اس پر عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط نے اپنے غلام کو بھیج کر گھر سے ٹھنڈے پانی کا اک پیالہ منگوا لیا۔عمارہ کا غلام پانی بھربھر کے آپ  کو دینے لگا۔ مگر ۳ بار کی کوشش کے باوجود آپ  پانی حلق سے نیچے نہ اتار سکے ۔کیوں کہ اس میں چہرے کا خون مل جاتا تھا ۔کافی کوشش کے بعد جب آپ  نے پانی پیا تو پانی کاپیالہ ہٹاتے ہی آپ  کے سامنے کے دو دانت نیچے گر گئے۔
اس پر آپ نے فرمایا کہ الحمد للہ... رزقِ مقسوم میں سے پانی پینا ابھی میرے لیے باقی تھا۔
اس کے بعد حضرت مسلم بن عقیل کو ابنِ زیاد کے سامنے پیش کیا گیا جب آپ  اس کے سامنے پیش ہوئے تو آپ  نے سلام نہ کیا ۔دربان نے پوچھا ”کیا تم امیر کو سلام نہیں کرتے ؟ آپ نے کہا نہیں ۔ اگر اس کاارادہ مجھے قتل کرنے کا ہے تو مجھے اس کی حاجت نہیں ۔
اور اگر اس کا ارادہ مجھے قتل کرنے کا نہیں تو اسے سلام کرنے کے اور بہت سے مواقع پڑے ہیں“
اب ابنِ زیاد آپ سے مخاطب ہوا کہ اے ابنِ عقیل !لوگوں میں اتفاق اور یکجہتی تھی اور ان کی بات ایک تھی۔ تم آئے اور ان میں پھوٹ ڈال دی ۔ ان کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔ آپ  نے کہا ”ہرگز نہیں ۔میں اس کام کے لیے نہیں آیا بلکہ میرا آنا تو اس لیے ہے کہ عدل و انصاف قائم ہو اور اللہ کی کتاب کا حکم نافذ ہو“ (البدایہ و النہایہ ۸:۱۵۴’ ۱۵۶)
حضرت مسلم بن عقیل  کی شہادت 
حضرت مسلم بن عقیل  اور ابن ِ زیاد کے درمیان طویل گفتگو ہوئی ۔
جس میں ابن ِ زیاد مختلف الزامات لگاتا رہا اور آپ  ان الزامات کا جواب دیتے رہے۔اور آخر کار آپ  نے جان لیا کہ اس نے آپ  کو قتل کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے تو آپ  نے اسے کہا کہ مجھے وصیت کرنی ہے مہلت دو۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ آپ  وصیت کر سکتے ہیں ۔آپ  نے حاضرین پر نظر ڈالی تو ان میں عمر بن سعد بن ا بی وقاص بھی موجود تھا۔آپ  نے اسے کہا کہ عمر! تم سے میری قربت داری ہے۔
میرے ساتھ محل کے ایک گوشے میں چلو تاکہ تم سے اکیلے میں بات کر سکوں۔ لیکن عمر بن سعد نے آپ  کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
آخر ابن ِ زیاد نے اس کی اجازت دے دی اور وہ ابن ِ زیاد کے قریب ہی علیحدگی میں کھڑا ہو گیا ۔ حضرت مسلم بن عقیل نے کہا کہ مجھے 700 درہم قرض دینے ہیں تم میری طرف سے یہ قرض ادا کر دینا۔ ابن ِ زیاد سے میری لاش مانگ کر دفن کر دینا۔
اور حضرت امام حسین کو میرا پیغام دے دینا کہ وہ کوفہ کی طرف ارادہ نہ کریں ۔میں نے انکو لکھا تھا کہ لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ روانہ ہو گئے ہوں گے۔کوفہ میں میرے دو بچے کسمپرسی کی حالت میں ہیں جو ابھی کچھ دیر بعد یتیم ہو جائیں گے۔ ان کومیرے بھائی حسیب کے پاس پہنچا دینا۔ 
عمر بن سعد نے حضرت مسلم بن عقیل  کی تمام باتیں ابن زیاد کو بتا دیں۔
اس نے تمام وصیتوں پر عمل کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد ابن ِ زیاد کے حکم سے حضرت مسلم بن عقیل کو گورنر ہاؤس کے اوپر لے جایا گیا۔ وہ تکبیر و تہلیل اور تسبیح و استغفار اور درود ِ پاک پڑھتے اوپر چڑھ گئے ۔ اور دعا مانگی کہ” اے اللہ !تُو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے جس نے ہمیں دھوکہ دیا اور ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں“ اس کے بعد جلاد نے آپ  کا سر مبارک تن سے جدا کر دیا۔
ابن ِ زیاد نے ہانی بن عروہ  کے قتل کا حکم دیا ۔ہانی کو قتل کر دیا گیا اور ان کی لا ش کوفہ کے مقام ِ کناسہ پر لٹکا دی گئی۔بعد میں ابن ِ زیاد نے کچھ دوسرے لوگوں کو بھی قتل کیا اور شام کی طرف سارے واقعات یزید کو لکھ کر بھیج دیے۔(البدایہ و النہایہ ۸:۱۵۷)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan