Episode 29 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 29 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

 پھر یزید ابطحی بڑے گھمنڈ سے آگے بڑھا اور چاہا کہ امام کے مقابل بہادری کے جوہر دکھا کر یزیدیوں کی جماعت میں شاباشی حاصل کر لے اور انعام و اکرام کا مستحق بنے۔آپ  کے سامنے پہنچ کر ایک نعرہ مارا اور کہا کہ شام و عراق کے بہادران کوہ ِ شکن میں میری بہادری کا غلغلہ ہے۔میں روم و مصر میں شہرئہ آ فاق ہوں۔بڑے بڑے بہادروں کو آنکھ جھپکنے میں موت کے گھاٹ اُتارتا ہوں۔
اور ساری دنیا کے لوگ میری شجاعت و بہادری کا لوہا مانتے ہیں۔اور میرے سامنے بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگتے ہیں۔کسی میں مجھ سے مقابلے کی طاقت نہیں۔آج تم میری قوت اور میرے داؤ پیچ دیکھو۔ امامِ عالی مقام  نے فرمایاتم مجھے جانتے نہیں میں اپنی رگوں میں حسینی قوت رکھتا ہوں۔فاتحِ خیبر شیرِخدا علی مشکل کشا کا شیرِنر ہوں۔

(جاری ہے)

تم جیسے نامرادوں کی میری نگاہ میں کوئی حقیقت نہیں۔

میرے نزدیک مکھی اور مچھر سے زیادہ تیری کوئی حیثیت نہیں۔شامی جوان یہ سن کر آگ بگولا ہو گیا اور فوراً گھوڑا کدا کر آپ پر تلوار سے وار کر دیا۔حضرت امامِ حسین  نے اس کے وار کو بیکارکر دیااور پھر جھپٹ کر اس کی کمر پر تلوار ایسی ماری کہ وہ کھیرے کی طرح کٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا اور منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ بدر بن سہیل یمنی اس منظر کو دیکھ کر غصے سے لال پیلا ہو گیا اور ابن ِ سعد سے کہا کہ تم نے کن گنواروں کو حسین  کے مقابلے میں بھیج دیا جو دو ہاتھ بھی جم کر مقابلہ نہ کر سکے۔
میرے چاروں بیٹوں میں سے کسی ایک کو بھیج دو۔ پھر دیکھو ابھی منٹوں میں حسین کا سر کاٹ کر لاتے ہیں۔ابنِ سعد نے اس کے بڑے بیٹے کو اشارہ کیا۔ وہ گھوڑا کداتا ہوا امامِ عالی مقام  کے سامنے پہنچ گیا۔آپ  نے فرمایا بہتر ہوتا کہ تیرا باپ مقابلے میں آتا تاکہ وہ تجھے خاک و خون میں تڑپتے نہ دیکھے۔پھر آپ  نے ذوالفقار ِ حیدری سے ایک وار میں اس کا کام تمام کر کے جہنم رسید کر دیا۔
بدر نے جب اپنے مشہور شہسوار بیٹے کو اس طرح ذلت کے ساتھ قتل ہوتے دیکھاتو غیض و غضب کا پتلا بن کر دانت پیستے ہوئے گھوڑا دوڑا کر امام ِعالی مقام  کے سامنے آیا اور پہنچتے ہی نیزے سے وار کیا۔ آپ  نے اس کے نیزے کو قلم کر دیا۔اس نے فوراََ تلوار سنبھال لی اور کہا حسین  دیکھنا میں وہ شمشیر مارتا ہوں کہ اگر پہاڑ پر ماروں تو وہ سرمہ بن جائے۔
اور یہ کہتے ہوئے امام  پر تلوار چلا دی۔آپ  نے اس کے وار کو خالی کر دیا۔اور اس پر ذوالفقار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ بدر کا سر کٹ کر گیند کی طرح دور جا گرا۔ اسی طرح شام و عراق کے ایک سے ایک بہادر حضرت امامِ حسین  کے مقابلے میں آتے رہے مگر جو بھی سامنے آیا ۔آپ  نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کوئی بھی اس سے زندہ بچ کر نہیں گیا۔شیر ِ خدا کے شیر نے تین دن کے بھوکے پیاسے ہونے کے باوجود شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ زمینِ کربلا میں بہادرینِ کوفہ و شام کا کھیت بو دیا۔
کسی کے سینے میں نیزہ مارا اور پار نکال دیا اور کسی کو نیزے کی انی پراٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور اس کی ہڈیاں توڑ دیں اور گھوڑے کی ٹانگوں سے ان کو روند دیا ۔کسی کی کمر پر تلوار ماری تو وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرا، کسی کی گردن پر ذوالفقار ِ حیدری چلائی تو اس کا سر گیند کی طرح دور جا گرا۔اور کسی کے سر پر تلوار چلائی تو وہ زین تک کٹ گیا۔ اس معرکے کے دوران جب آپ کو بہت ہی پیاس لگی تو آپ  نے پانی کے لیے دریائے فرات کا رخ کیا۔
مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا ۔اچانک ایک تیر آیا اور آپ  کے چہرے کو زخمی کر دیا۔آپ  نے تیر کھینچ کر نکالا۔پھر ہاتھ چہرے کی طرف اُٹھائے تو ہاتھ کا چلُو خون سے بھر گیا۔آپ  نے اپنا خون آسمان کی طرف اُچھال دیا۔اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہاالٰہی !میرا شکوہ تجھی سے ہے۔ دیکھ تیرے رسول ﷺ کے نواسے کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔اس کے بعد شمر بن ذی الجوشن کوفہ کے تقریبا دس آدمیوں کو ساتھ لے کر حضرت امام ِحسین  کے خیمے کی طرف بڑھا۔
جہاں آپ  کے اہل و عیال اور مال و اسباب تھا۔حضرت امام ِ حسین  اپنے اہل خانہ اور قافلہ کی طرف آنے لگے تو شمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آپ  کے اور آپ کے قافلہ کے درمیان حائل ہو گیا۔اس پر حضرت امام حسین  نے فرمایا”افسوس ہے تم پراگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے تو کم از کم دنیا کے ذی حسب اور شریف انسان تو بنو۔
اور اپنے اوباشوں اور جاہلوں کو میرے اہل و عیال اور مال و اسباب سے دور رکھو“ اس پر شمر نے جواب دیا کہ اے فاطمہ کے بیٹے !تیرا یہ مطالبہ منظور ہے۔ عبداللہ بن عمار سے مروی ہے کہ جب امام ِ عالی مقام کا محاصرہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میمنہ پر حملہ آور ہوا اور حضرت امامِ حسین کے حملے سے تمام سپاہی ڈر کر بھاگ گئے۔خدا کی قسم !میں نے حسین  سے پہلے اور حسین کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو کثیر دشمنوں میں اس حالت میں گھرا ہو کہ اس کی اولاد اور ساتھی قتل ہو گئے ہوں۔
مگر وہ پھر بھی حضرت امامِ حسین کی طرح شجاع، دلیر اور مطمئن ہو۔(البدایہ و النہایہ) حضرت امامِ حسین  دن کا طویل حصہ میدان میں کھڑے لڑتے رہے۔ اگر لوگ چاہتے تو فوراً آپ کو قتل کر دیتے لیکن ہر شخص دوسرے پر ٹالتا رہا۔آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہاتمہارا بُرا ہواکیا،انتظار کررہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟اس پر ہر طرف سے آپ کو گھیرا جانے لگا۔آپ  نے پکار کر کہاکیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو اُبھارتے ہو؟ واللہ !میرے بعد خدا تعالیٰ کسی بندے کے قتل پرنا خوش نہیں ہو گاجتنا میرے قتل پر نا خوش ہو گا۔ (ابن اثیر) 

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan