دنیا کا ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز ملک

پاکستان کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے ۔ ورلڈ بنک کی 2016کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی دیہی آبادی % 60.78فیصد، جب کہ شہری آبادی 39.2% تھی ، لہٰذا پاکستان کی دیہی آبادی کے حوالے سے 70% پر اتفاق کیاجاتا ہے۔ انڈو نیشیا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی 95.98%کے تناسب سے پاکستان میں آباد ہے

Hasnat Ghalib Raaz حسنات غالب راز پیر 11 نومبر 2019

duniya ka aik ajeeb o ghareeb aur herat angaiz mulk
 72برسوں کا پاکستان دنیا کا ایک عجیب اور غریب ملک ہے۔ 1930میں اس کا تصور علامہ اقبال نے دیا ، 23مارچ 1940کو پہلی قرار داد ابوالقاسم فضل حق المعروف اے کے فضل الحق نے پیش کی ۔1947میں محمد علی جناح  اس کے بانی اور بابائے قوم بنے ۔پاکستان کا نام چودھری رحمت علی نے رکھا اورپرچم کا ڈیزائن سید امیرالدین قدوائی نے تشکیل دیا۔حفیظ جالندھری نے قومی ترانہ لکھا، جب کہ اس کی موسیقی احمدغلام علی المعرف احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دی ۔

اس ملک کی 70فیصد آبادی زراعت اورتیس فیصد دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہے ،لہٰذا یہ ایک زرعی ملک ہے۔ 
ایک اندازے کے مطابق2019کا پاکستان 22کروڑ آبادی کا ملک ہے ، اس میں عورتوں کی تعداد 48.54%اور مردوں کی % 51.46 ہے ۔ 1947میں بشمول مغربی پاکستان ،پاکستان کی آبادی صرف 75ملین تھی ،جس میں سے مشرقی پاکستان( بنگلہ دیش) کی آبادی 42 ملین ،جب کہ مغربی پاکستان موجودہ پاکستان کی آبادی 33ملین کے لگ بھگ تھی،جو بفضل تعالیٰ اب 22کروڑ کو چھور رہی ہے یعنی ترقیاتی کاموں میں اگر کسی شعبے میں ہم نے خاطر خواہ ترقی کی ہے تو وہ آبادی میں حیران کن اضافہ یا ترقی ہے ،جو کہ ہمارے خاصے کی چیز ہے ۔

(جاری ہے)

آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے توپاکستان میں پانچ سے سات سیکنڈ بعد ایک بچے کی پیدائش اور ہر 21 سیکنڈ بعد ایک وفات ہوتی ہے ۔اس طرح ایک دن میں تقریباً 16433افراد خوشی خوشی پیدا ہوتے ہیں جبکہ 4069لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی وفات پاجاتے ہیں ۔ ہسپتالوں میں بظاہر بہت زیادہ دکھائی دینے والی نرسوں کا تناسب 1نرس 3700افراد کی نرسنگ کے لیے مختص ہے جبکہ 1000مریضوں کے لیے 6بیڈ ز کا انتظام موجود ہے ۔

پاکستان کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے ۔ ورلڈ بنک کی 2016کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی دیہی آبادی % 60.78فیصد، جب کہ شہری آبادی 39.2% تھی ، لہٰذا پاکستان کی دیہی آبادی کے حوالے سے 70% پر اتفاق کیاجاتا ہے۔ انڈو نیشیا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی 95.98%کے تناسب سے پاکستان میں آباد ہے ۔ اس میں کئی قومیں ،کئی مذاہب اور کئی مسالک کے لوگ آباد ہیں ۔

شرح خواندگی کے حوالے سے دیکھاجائے تو سال 2014ء کے مطابق اس میں شرح خواندگی57فیصد تھی ۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی شرح خواندگی 60فیصد کو چھو کر واپس آتی جاتی رہتی ہے ۔ اوسطاً 60فیصد سے اوپر کی اُڑان قابلِ اعتبار نہیں۔ ایک حسرت کے مطابق ایک دن آئے گا کہ دنیا دیکھے گی شاید ہم 100فیصد ہوجائیں گے مگر بقول فیض’ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا ‘ کے مصداق ہماری مصروفیات اور بھی ہیں ، تاہم امید پر دنیا قائم ہے۔

 
یہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہے ۔اس کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد دوسری سنچری مکمل کرنے کی طرف گامزن ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں یہ انڈیا کے مقابلے می کبھی چھٹی تو کبھی ساتویں پوزیشن پر متمکن ایٹمی طاقت ہے ۔حتف III المعروف غزنوی میزائل 230 کلو میٹر،حتفVIII راڈ 350 کلو میٹراور 700کلو میٹر کے کروز میزائل ،شاہینIV ،750کلو میٹر ،غوری V،1550کلو میٹر،شاہین ٹو2000کلو میٹر،شاہین 3،2750کلو میٹرتک ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل بنا کر پاکستان نے اپنے دائمی دشمن بھارت کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار کر رکھا ہے اور بفضلِ تعالیٰ بھارت کے کئی شہر ،نئی دلی ،ممبئی ،بنگلور ،چنائی،احمدآ ٓباد ، ناگپور ،بھوپال اور لکھنوٴ وغیرہ پاکستان کے ہروقت نشانے پر ہیں ۔

یہ الگ بات ہے کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہیں ۔ یہ سرحدوں کا احترام کرتا ہے۔ یہ محبتوں کا سفیر ہے ۔ یہ اپنے دوست ملکوں کے لیے ہمیشہ چشم براہ ہوتا ہے حتیٰ کہ دشمن کے لیے بھی ہمیشہ خیرسگالی کا پیامبر ہے۔
 ابھی 9 نومبریوم ِ اقبال کے روز ہی بابا گرو نانک صاحب کے مزار کو ہنگامی بنیادوں پر تیار کرکے انڈیا کے سینے پرپر امن پاکستان کا جھنڈا لہرا یا تو دشمن بھی اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا ۔

بھارت سمیت دنیا بھر سے سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور راہداری کا افتتاح کر کے پاکستان نے انتہا پسند ہندو وٴں اور مودی ایسے تنگ نظر کو یہ بتا دیا ہے کہ ہم بڑے دل والے ہیں ۔ہم نے ہندوستان کی عوام اور میڈیا کو عملی طور پر کر کے دکھا دیا ہے کہ باتیں بنانا اور کچھ کر کے دکھا نا الگ الگ کاوشیں ہیں ۔ کاش کشمیر کے معاملے میں ہندوستان بھی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کر سکتا مگر اخلاقیات کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں ۔

جیسا کہ جغرافیائی حوالے سے ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے مشرق میں ہمسایہ مگر مکار ، عیار اور بدتر ین دشمن ہے ۔ پاکستان ایٹمی صلاحیت کے باوجود اس کی کارستانیوں کا شکار رہتاہے ۔ ان دو ممالک کے مابین لائن آف کنٹرول کے تقریباً تمام سیکٹرز سے بھارت کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور جارحیت روز کا معمول ہے ۔ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو بلا کر احتجاجی مراسلے تھمانا پاکستان کا روزکا معمول ہے ۔

بھارت کی پاکستان سے متعدد چھوٹی بڑی جنگیں ہو چکی ہیں ۔ پہلی جنگ 1947ء ،دوسری ستمبر 1965ء کی معرکہ آرائی ،جس میں دشمن کے ٹینک تباہ کرنے میں کمال جذبوں کا مظاہر کیا گیا ۔ آج کل 6ستمبریومِ دفاع کے نام سے منایا جاتا ہے اور بھارت کو اس کی پسپائی یاد کرائی جاتی ہے ۔ تیسری1971ء ہے ،جس میں پاکستان کو بھارت نے اپنی عیارانہ چالوں سے دو لخت کرنے میں اپنے مکروہ عزائم میں کامیابی حاصل کی ۔

عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن اور اور پیپلز پارٹی کے ذوالفقارعلی بھٹواقتدار کی بھینٹ چڑھے اور مشرق سے مغرب کے دوری پر جا پہنچے ۔ دنیا کے نقشے پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے بجاے بنگلہ دیش اور پاکستان کے نام اجاگر ہوئے ۔ ۔اپناہی نشیمن اپنے ہی جلانے والے ، میر تقی میر بولے :
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میر
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پر ے پرے
اس جنگ میں تقریباً 8000فوجی کام آئے اور 25000کے لگ بھگ زخمی ہوئے ۔

فوجی جوانوں کی شہادت،اپنوں کی دوری کا دکھ ، کل کیے مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی بھینی بھینی خوشبومیں جلتے لہو کی بساند کو کون ہے ،جوبھول سکتا ہے ۔ تاہم اس یاد کو اہلِ درد اپنے اپنے طور پر خاموشی سے محسوس کرتے ہیں ۔ اس کے بعد جولائی 1999 میں کشمیر ی ضلع کارگل سیکٹر اور لائن آف کنٹرول پر پنجہ آزمائی۔ تاحال مابین ہندو وپاک نت نئی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

27 فروری 2019 ء بھارت کی طرف سے بالا کوٹ میں دہشت گردوں کے نام سے درختوں پر حملہ کیے جانے کے جواب میں پاکستان کی طرف سے دو جہاز گرانے کا کارنامہ اور اس کے بعد بدحواسی میں بھارت کا اپنے ہی دو ہیلی کاپٹروں کو تباہ کربیٹھناکسی جنگی لطیفے سے کم نہیں ۔عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی سے روایت کہ ’ جن کی فطرت میں ڈسنا وہ ڈسا کرتے ہیں ‘ ،بھارت رکا نہیں ۔

’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ کے مصداق اپنے ناپاک عزائم کے بدلے میں 5 اگست2019ء کو کشمیر پربھارت نے غاصبانہ قبضہ جما لیا ،جو آج تک جاری ہے ۔
آرٹیکل 370 اور35 A کی منسوخی اور کشمیر کے تشخص کے خاتمے کے خلاف پرامن خارجہ پالیسی اور جنگ کے بجائے بین الاقوامی سطح پرمسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا قصد ، میڈیا ٹاک شوز میں چند روز مباحث اور بعد ازاں فضل الرحمن کے دھرنے کی فل کوریج کے باعث کشمیر فراموشی میں میڈیا کی سرد مہری ، نواز شریف کی صحت ، بیماری ، پلیٹ لٹس کی کمی بیشی ، نواز شریف اور مریم نواز شریف کی آزادی، بیرون ملک علاج کی سہولت کا نیک اقدام ،صدر مملکت خداداد صدر زرداری کی نقاہت اور بیرون ملک علاج کی گردشی خبریں کسی بے نصیبی سے کم نہیں ۔

پاکستانی میڈیا کا کشمیر کو ثانوی حیثیت دے دینا مضحکہ خیزی سے کم نہیں۔کاش عوام ، دھرنا پارٹی اوراربابِ اختیار ماضی کے زخموں کو محسوس کریں اور میڈیا اصل مقصد کی بجائے ثانوی معاملات پر اپنی ریٹنگ کا انحصار محسوس نہ کرے ۔ 
بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان واقعی عجیب ملک ہے۔ 1947ء سے آج تک اس میں بڑے بڑے فرض شناس لوگ پیدا ہوئے۔

ارباب اختیار بنے اور چلتے بنے ۔ قائد اعظم کے بعد پوری قوم کسی قائد اعظم کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتی رہی لیکن دوسرا قائداعظم پیدا نہ کر سکی ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے قائم یہ ملک فوجی اور صدارتی نظاموں کے تحت چلتا رہا ۔جمہوریت نے ہمیشہ بیساکھیوں پر گزارا کیا ۔ مرجانے والے اور چپ چاپ بیرونِ ملک چلے جانے والے لیڈرزاور سربراہانِ مملکت باعزت قرار پائے ۔

زندہ حالت میں گرفتار کیے گئے اکثر اشتہاری ، کرپٹ اوربدترین عناصر میں شمار ہوئے ۔ کئی تعزیراتِ پاکستان ، کئی نیب اور کئی منشیات و دیگر الزامات میں پابند سلاسل کیے گئے ۔کئی پر محض الزامات لاگو ہوئے ،کئی بے عزت ہوکر گرفتار ہوئے اور باعزت رہا کر دیے گئے ۔
 این آر او، نیب اور اینٹی کرپشن جیسے قانون بنائے گئے ، کہیں انتقام تو کہیں سچ مچ مجرموں کو دردِ دل ، دردِ گردہ ،امراضِ معدہ ومثانہ ،کسی کو ہرنیا تو کسی کو پلیٹ لٹس کی کمی بیشی کا سامنا ہوا ، کسی کو گھبراہٹ کا مرض لاحق ہوا تو کسی کو اقتدارسے وچھوڑے کے دکھ نے گھیرا ۔

کسی کے سر پر وزارت کا تاج پہلی بار سجا تو کسی کو اسمبلی حال میں بیٹھنے کے لیے پہلی پہلی بار کرسی عطا ہوئی ۔ کسی نے دھاندلی کا راگ الاپا تو کسی نے شفافیت کی قوالی گائی ۔ کسی نے تبدیلی کا نعرہٴ مستانہ بلند کیا تو کسی نے آلو، ٹماٹر، روٹی کی کمیابی کا مرثیہ پیش کیا ۔ کوئی پولیس کے ہاتھوں یرغمال ہوا تو کسی کو دہشت گردوں نے مرگِ مفاجات عطا فرمائی ۔

کوئی ڈاکٹروں کی نذر چڑھا تو کوئی نرسوں کی ہڑتال سے بے حال ہوا، الغرض جتنے منھ اتنی باتیں ، کسی سیانے کا قول ہے ’لوگوں کا کیا ،لوگ تو باتیں کرتے رہتے ہیں ۔
پاکستان بلاشبہ عجیب اور غریب ملک ہے ۔ اس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہے ۔ اس ملک کے کل 13صدور اور 22 وزرائے اعظم ہو گزرے ہیں، کاش کسی نے تجسس کیا ہوتا کہ ہمارے ہمراہ آزاد ہونے والا ملک انڈیا بین الاقوامی منڈی میں کتنا بڑا تاجر بنتا جارہا ہے ، کسی نے یہ نہ سوچا کہ ہماری شہ رگ اس کے مکروہ پنجے میں ہے ۔

کسی نے یہ نہ سوچا کہ معیشت کا استحکام ملکو ں کا حقیقی استحکام ہوتا ہے ۔ہمارے عجب پن کی اس سے بڑی کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ہم دنیا کی ہر چیز کی نقل کر سکتے ہیں ، ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں مگراپنے انجینیئرز کے گلے میں ڈالنے والے کارڈز کے پلاسٹک کورسیسلائی کڑھائی کے سوئیاں تک چین سے درآمد کرت ہیں ۔ہم اپنی عبادت کے لیے جائے نماز،ٹوپی اور تسبیح تک چین سے برآمد کرتے ہیں ۔

مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ یکم اکتوبر 1949ء کو ہم سے دو سال بعد آزاد ہونے والے چین کی معیشت کے کس درجے پر ہے ۔
ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود انڈیا کی جارحیت کا جواب احتجاجی مراسلوں کے صورت میں دیتے ہیں۔ہم ہزاروں افغانیوں کی میزبانی کے باوجود افغانستان کی سرحد وں سے پریشان رہتے ہیں۔ ہم ہمیشہ نیکی کے کام کرنے میں پہل اور اخیر کرتے ہیں ۔

ہم کشمیر کے ظلم کے باوجود تنگ نظری کا شکار نہیں ہوتے ، ہم نوجوت سنگ سدھو اور من موہن سنگھ کے لیے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ہم گرونانک کے امن کے پیغام کی تجدید میں کرتار پور راہ داری کا افتتاح کر کے دنیا کو بتا تے ہیں کہ ہم صرف عجیب وغریب قوم نہیں بلکہ زندہ وپایندہ قوم ہیں ۔ ہم امریکا کی تشفی کے لیے ستر ہزار افراد کی قربانی دیتے ہیں ۔

ہم چاہیں تو اسامہ بن لادن ایسے آدمی کی موت کا رسک بھی لے جاتے ہیں ۔ہم چاہیں تو اپنے دشمن ملک کے پائلٹ ابی نندن کو چائے کا کپ پلا کر باعزت رخصت کردیتے ہیں ،ہم ریاستہائے متحدہ امریکا کی مرکزی خفیہ ایجنسی کے ٹھیکے دار ریمنڈ ایلن ڈیوس کوآزاد کرکے اپنی سادگی ، شرافت اور صبر کا مظاہر کرتے ہیں مگر دوسری جانب نیوروسائنس پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور سائنسدان پاکستانی بیٹی عافیہ صدیقی ،جسے افغانستان میں امریکی افسروں کو زیر حراست رکھنے، القاعدہ کی ایک سہولت کار اور رکن ہونے جیسے الزامات میں 2003سے اپنے تین بچوں سمیت غائب کردیاجاتا ہے ، برسوں بیت جاتے ہیں ،ہم سے نہ تو عافیہ کا جرم کھل کر سامنے آسکتا ہے نہ ہم اس کی آزادی کا فیصلہ ہی کرا پاتے ہیں ۔

بہرحال ہم محسوس ضرور کرتے رہتے ہیں کہ ایک خاتون کی طویل قیدو بند مقامِ افسوس ہے ۔ادھر انڈین نیوی کا کمانڈر اور جاسوس کلبھوشن جادیو جسے عرف عام میں کلبھوشن یادیو کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ایک عرصے سے پاکستان سے اپنا دانا پانی کھا پی رہا ہے ،پابند سلاسل ہے، مگر سکون سے جی رہا ہے ۔ابھی تک زندہ ہے ۔اس تجربہ سے ثابت ہوا کہ پاکستان کا حسن ِسلوک دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔

سیانے کہتے ہیں اپنے ملک کے غدار اور غیر ملکی جاسوس کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہیے ۔اعلان ختم ہوا ۔
بات پاکستان کے عجیب و غریب ملک ہونے کی ہورہی ہے ۔ لاتعداد باتیں ہیں ،طویل قصے اور داستانیں ہیں۔ ایک ایسا موضوع ہے ،جو ختم نہیں ہوسکتا ،قصہ مختصر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم چاہیں تو صحرا ور دریا کو اپنی ٹھوکر سے دونیم کر دیتے ہیں ۔

ہم اپنے سے بڑے دشمن کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہم دنیا کا ہر کام کر سکتے ہیں ۔ ہم بڑے باکمال لوگ ہیں ۔ ہم لبرل ہونے اور روشن خیالی میں بھی کسی سے کم نہیں،ہم مذہب اور حجاب میں بھی اپنی مثال آپ ہیں ۔ ہم میڈیاپر عالمی براڈکاسٹر بیبیوں کے ڈیزائن اور انداز بھی پیش کر سکتے ہیں ۔ ہم انگریزی اور بھارتی فلموں کا تعاقب بھی کر سکتے ہیں ۔

ہم دنیا کے اچھے ڈراما ساز بھی ہیں۔ہمارے ہاں انگلش میڈیم سکولوں کے ساتھ ساتھ مذہبی مدرسوں کی بھی کوئی کمی نہیں ۔ ہم مسجدوں، مندروں ،کیلیساؤں کے ساتھ ساتھ سٹیج شو ، ڈراما اور فلم میں بھی کسی سے کم نہیں ۔ہمارے پاس ہر قسم کا لباس زیبِ تن کیا جاتا ہے ۔ ہمارے پاس مردانہ اور زنانہ دونوں قسم کے کھلاڑیوں کی ٹیمیں بھی ہیں ۔ ہم دنیا کے تمام کھیلوں میں حصہ لینے اور ہارنے جیتنے کی ڈرامائی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ۔

ہم چاہیں تو کوئی عام سی ٹرافی جیتنے پر کروڑ کروڑ روپے ایک ایک کھلاڑی کو انعام دے دیتے ہیں ،ہم چاہیں تو بدترین کارکردگی پر بھی پھولوں کی پتیاں نچھاور کر دیتے ہیں ۔ہم کھلاڑیوں کو سرزنش اور جرمانہ کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ہمارے ملک میں ہرسال کئی پی ایچ ڈی ، ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنائے جاتے ہیں ۔نجی ہسپتال اور پرائیویٹ سکول ہماری جسمانی اور روحانی تربیت کرتے ہیں ۔

ہم دس دس لاکھ کے بیل اور دودولاکھ کے بکروں کی قربانی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،مگر ٹیکس ادا کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں ۔ ہماری ہاں ٹیکس اور کرپشن کے حق میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالی جاتی ہیں ۔ ہمارے ڈاکٹروں اور نرسوں کو ٹیکے لگانے کے علاوہ احتجاج کرنا بھی آتا ہے ۔ ہم اگر محسوس نہ کریں تو 72سال کے مسئلہ کشمیر کو نہ محسوس کریں مگر جو محسوس کرنے پہ آجائیں تو ایک سال کی حکومتی کارکردگی کے سامنے دھرنا دے ڈالتے ہیں ۔

ہم کچھ دھرنوں کو حلال اور کچھ کو حرام بھی قرار دیتے ہیں،جس طرح نصیب اپنا اپنا ہوتا ہے اسی طرح مزاج بھی اپنا ہوتا ہے ۔
ہمارا مزاج رب نے بہت عمدہ بنایا ہے ۔ دنیا کے بڑے رحم دل ، سخی اور دریا دل لوگ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور بے رحم ،سفاک ،بھتہ خور اور’ ٹارگٹ کلر‘ بھی ہماری آبادیوں سے برآمد کیے جاتے ہیں ۔ہم بہت شریف لوگ ہیں ۔

ہم مجرموں کو ٹی وی پر پیش کرتے وقت منھ پر پردہ ڈال دیتے ہیں ۔ ہم بے گناہ معصوم بچوں اور بچیوں کی ویڈیوز یو ٹیوب کی نذر کر دیتے ہیں ۔ اغواہ برائے تاوان ، سفاکانہ قتل کرنے والے بھائیوں اور بیٹوں کے ضمانت کراتے وقت ہم اپنے ضمیر کو مسخ کر دیتے ہیں ۔ ہم راہ چلتے مسافروں سے موبائل فون چھین لیتے ہیں ،ہم نماز ،قربانی، حج، زکواة میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔

ہم شاندار مسجدیں تعمیر کرنے کے شوقین ہیں مگرنماز اور روزے کے معاملے میں سست بھی ہیں ۔
 ہم دنیا کی ہر چیز بنا سکتے ہیں ۔ ہم ایٹمی ٹیکنالوجی میں انڈیا کے دانت کھٹے کر سکتے ہیں ۔ ہم امریکا تک کو اپنا ہدف بنا سکتے ہیں ۔ ہم اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں ۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی ہنر مند اور باصلاحیت قوم ہیں ۔ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں مگر ہم بڑے مجبور بھی ہیں ۔

ہم دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے بچے بھی مار سکتے ہیں ۔ ہم غریبوں کے خیراتی ہسپتال ، لنگر خانے بھی کھول سکتے ہیں ۔ ہمارے پاس ہر موسم ہے ، ہمارے پاس ہر نعمت ہے ،مگر ہم دوسروں کے محتاج ہونے میں آسانی بھی محسوس کرتے ہیں ۔ ہمارا ملک دنیا کا خوبصور ت ملک ہے مگر ہم دوسرے ملکوں کی سیاحت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ہم وطن کی محبت پر کٹ مرنے والے لوگ ہیں لیکن وطن کی معیشت کے لیے ٹیکس دینے سے ہچکچاتے ہیں۔

ہمیں جھوٹ ، کرپشن اور بددیانتی سے نفرت ہے مگر کبھی کبھی مصلحت میں سچ سے شرما جاتے ہیں ۔ہم چھوٹے قد کے بڑے لوگ ہیں ۔ہم بڑے قامت کے بونے بھی ہیں ۔ہم ایک وقت میں ہزارداستان لوگ ہیں ۔ہم حیرت انگیز اور حیران کن قوم ہیں ۔ 
ایک مخمصہ جواب طلب ہے ایک معما حل طلب ہے ، امیر خسروکی پہیلی ہے یا کوئی انمل ہے ۔ ہم غریب ملک کے امیر لوگ ہیں۔ہم امیر ملک کے غریب لوگ ہیں۔ہم کیسے عجیب لوگ ہیں ، کیا واقعی ہم عجیب لوگ ہیں ؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

duniya ka aik ajeeb o ghareeb aur herat angaiz mulk is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 November 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.