نواز رضاپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے نو منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے بعد نئے پارلیمانی سال کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب پارلیمانی روایت ہے جس میں وہ موجودہ حکومت کو ایک سال کی گائیڈ لائن دیتے ہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت اپنے صدر کا بڑے ’’دھوم دھام‘‘ سے خطاب کا اہتمام تو کرتی ہے لیکن اس پر بحث کرانے میں حکومت اور اپوزیشن کی عدم دلچسپی صدر کے خطاب کی اہمیت کو یکسر ختم کر دیتی ہے۔
نواز شریف حکومت نے تو ایک دو بار صدر کے خطاب پر بحث کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی اور ان کے خطاب پر’’شکریہ‘‘ کی قرار داد منظور کر لی گئی۔ صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج ،ہنگامہ آرائی اور شور شرابا بھی پارلیمانی روایت کا حصہ بن گیا۔
(جاری ہے)
بہت کم مواقع پر صدر مملکت کو سکون کے ساتھ خطاب کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔
غلام اسحاق خان ہوں یاسردار فاروق لغاری، محمد رفیق تارڑ ہوں یا جنرل پرویز مشرف، اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح آصف علی زرداری اور ممنون حسین بھی اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی سے محفوظ نہیں رہے۔
قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کے دوران اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ صدر مملکت کے خطاب سے قبل حکومت عام انتخابات میں دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن قائم کر دے گی لیکن حکومت نے مقررہ تاریخ تک اپوزیشن کو کمیشن کے قیام کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جس کے باعث صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر کچھ بدمزگی دیکھنے میں آئی ، صدر مملکت کے خطاب کے آغاز میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے حکومت کو پارلیمانی کمیشن کے قیام کی یاد دہانی کرانے کے لئے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت مانگی مگر سپیکر قومی اسمبلی نے انھیں قواعد کی آڑ میں بات کرنے کی اجازت نہ دی جس کے بعد مسلم لیگ ن، ایم ایم اے، اے این پی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ارکان نے ایوان کی کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا لیکن تحریک انصاف جسے تازہ تازہ حکومت ملی نے اپوزیشن کو منانے میں ’’غیر معمولی دلچسپی ‘‘ نہیں لی بس رسمی کارروائی کی۔
سپیکر اسد قیصر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پیغام بھجوایا کہ’’ وہ اپوزیشن کو منا کر واپس لائیں جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ساتھ بیٹھے وزیر اعظم عمران خان سے اجازت مانگی جس پر عمران خان نے ’’نفی‘‘ میں سر ہلا دیا بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپوزیشن کو منانے کیلئے لابی میں گئے لیکن ناکام واپس آئے ۔ اپوزیشن نے کہا ہے کہ’’ اگر صدر مملکت کے خطاب کے بعد بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو اپوزیشن اپنا واک آئوٹ ختم کرکے ایوان میں آنے کو تیار ہے ‘‘ لیکن شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک سے مشورے کے بعد اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کر دیاجس پر اپوزیشن نے رسمی احتجاج کر کے صدارتی خطاب کا بائیکاٹ کر دیا۔
صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر اپوزیشن منقسم رہی۔ پیپلز پارٹی نے حسب معمول مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کا بائیکاٹ میں ساتھ نہیں دیا بلکہ ایوان میں موجود رہ کر حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں ہے جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی ایوان میں بیٹھے رہے انہوں نے اپوزیشن سے الگ تھلگ بیٹھے رہنے کا یہ استدلال پیش کیا ہے کہ’’ راجہ محمد ظفر الحق نے بتایا تھا کہ اپوزیشن واک آئوٹ نہیں کرے گی اور پھر مسلم لیگ (ن) نے واک آئوٹ کر دیا جب کہ اپوزیشن کے کئی ارکان ایوان میں بیٹھے رہے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی قیادت کا متحدہ اپوزیشن سے الگ تھلگ رہنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے وہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں۔
صدر مملکت عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے سوا مسلم لیگ (ن) ، اے این پی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی نے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرنے کے لئے پارلیمانی کمیشن نہ بنائے جانے کے خلاف احتجاجاً صدر مملکت کے خطاب کا بائیکاٹ کر دیا ۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے صدر کے خطاب کے دوران’’ خلائی صدر نامنظور نامنظور ‘‘کے نعرے بھی لگائے ۔
صدر مملکت کے انتخاب کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بامعنی مذاکرات ہوئے، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان اور حکومتی جماعت کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے قومی اسمبلی کے اپوزیشن چیمبر میں سردار ایاز صادق ،خواجہ آصف ، سید خورشید شاہ اور دیگر رہنمائوں سے ملاقات کی جس میں حکومت کی جانب سے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے لئے پارلیمانی کمشن تو نہیں کمیٹی کے قیام کی یقین دہانی کرائی گئی۔
اس اہم پیش رفت کے بعد اگلے روز اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں احتجاج کا ارادہ ترک کر دیا۔ منگل کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عام انتخابات 2018ء میں دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے خصوصی کمیٹی کے قیام پر اتفاق رائے غیر معمولی سیاسی پیش رفت ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی اور ارکان کی نمائندگی پر حکومت اور اپوزیشن میں اختلافات کے باعث کمیٹی قائم کرنے کی تحریک کو کچھ دیر کے لئے موخر کردیا گیا لیکن حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کے درمیان قومی اسمبلی کی لابی میں پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی اور ارکان کی نمائندگی پر پارلیمنٹ میں کامیاب مذاکرات ہوئے مسلم لیگ (ن)کی جانب سے ایاز صادق ،خواجہ محمد آصف،رانا تنویر ،ایم ایم اے کی جانب سے مولانا اسعد محمود، پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری، خورشید شاہ ،سید نوید قمر جبکہ حکومت کی جانب سے شاہ محمود قریشی،شفقت محمود ،ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، علی محمد خان ،عامر ڈوگر مذکرات کئے ۔
حکومت پہلے کسی ایشو پر ہارڈ لائن اختیار کرتی ہے پھر دبائو کے سامنے ’’پسپائی ‘‘ اختیار کر لیتی ہے۔ پہلے حکومت کمیٹی میں اپوزیشن کے مقابلے میں حکومتی ارکان کو زیادہ نمائندگی دینے پر مصر تھی لیکن اپوزیشن کے سخت طرز عمل کے سامنے اپوزیشن ’’ڈھیر‘‘ ہو گئی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان برابر ارکان پر اتفاق رائے ہو گیا البتہ حکومت اپوزیشن کو کمیٹی کی چیئرمین دینے پر آمادہ نہیں ہوئی کمیٹی 2018ء کے انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں ، دھاندلیوں کے بارے میں تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کرے گی ۔
قومی اسمبلی سے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک کا متفقہ طور پر منظور کیا جانا ایک بڑا سیاسی فیصلہ ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت ،پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کے احتجاج کو برداشت کرنے کا یارا نہیں رکھتی اس لئے اس نے اپنے آپ کو اپوزیشن کے سامنے ’’سرینڈر‘‘ کر دیا ہے حکومت نے اپوزیشن سے بہتر تعلقات کار قائم کرنے اصولی فیصلہ کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے حکومت کب تک بہتر تعلقات کار قائم کرنے کی پالیسی پر کار بند رہتی ہے فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے تحریک انصاف کی قیادت کی جانب کی جانے والی ’’بدحواسیوں ‘‘ نے نئے سیاسی لطائف کو جنم لیا ہے سیاسی حلقوں میں عمران حکومت کے30دن 30لطائف کا بڑا چرچا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں صرف ارکان قومی اسمبلی شامل ہوں گے اس میں سینیٹ کے کسی رکن کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
اس سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہونے امکان ہے کیونکہ ایوان بالا میں کمیٹی میں ایوان بالا کو رکنیت نہ دینے کی بازگشت سنی گئی ہے حکومت اور اپوزیشن اتفاق رائے سے کمیٹی کے ٹی او آرز تیار کریں گے ۔ٹی او آرز طے ہونے کے بعد خصوصی کمیٹی آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی ، سپیکر قومی اسمبلی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈٖر سے مشاورت کے بعد کمیٹی تشکیل دیں گے جبکہ سپیکر کووزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد کمیٹی کے ارکان میں ردوبدل کا بھی اختیار ہو گا۔
یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی ہے حکومت اور اپوزیشن نے عدلیہ سے رجوع کرنے کی بجائے انتخابی دھاندلیوں پر تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس لحاظ سے یہ فیصلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اپوزیشن نے ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کروا کر ایک بڑی سیاسی کامیابی حاصل کر لی ہے حکومت نے اپوزیشن کامئوقف تسلیم کرکے اپنے لئے آسانی پیدا کر لی ہے یہی وجہ ہے اپوزیشن نے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو سکون سے ’’منی بجٹ ‘‘ پیش کرنے دیا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے بارے میں جو تحریک قومی اسمبلی سے منظور کرائی ہے اس کے قیام میں کس حد تک اپوزیشن کے مطالبات کو سمو پاتی ہے۔ آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی کہ انتخابی دھاندلیوں پر اٹھنے والا طوفان ساحل پر پہنچ پاتا ہے یا پھر ساحل سے ٹکرا کر جمہوری ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔