ریڈ لائن اور نا معلوم افراد

جمعرات 22 اپریل 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

وفاقی دالحکومت اسلام آباد میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم ”نامعلوم“ افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے تا ہم زندہ بچ گئے ہیں۔اس سے قبل حامد میر کراچی میں ”نامعلوم“ افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے،عمر چیمہ، مطیع اللہ جان اور سرمد سلطان سمیت کئی قلم کار اورصحافی بھی”نامعلوم“ افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار اور ہلاک ہو چکے ہیں۔

مذکورہ صحافیوں اور قلمکاروں کے ہم خیال افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ریاست کی جانب سے کھینچی گئی ریڈ لائن یعنی سرخ لکیر عبور کرتے ہیں۔کئی لوگ ابھی بھی ”ریڈ لائن“ کے معنوں سے واقف نہیں۔ایسے لوگوں کے لیئے سلیس اردو اور آسان الفاظ میں ”ریڈ لائن“ کے معنی پیشِ خدمت ہیں۔لیکن اس سے پہلے ابصار عالم کی وہ ٹویٹ ملاحظہ فرما لیں جس کے بعد وہ نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

(جاری ہے)


”نومبر 2018 میں جب میں چیئرمین پیمرا تھا، چینل 92 کو نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی پر لائیو سیکورٹی آپریشن دکھانے اور سیٹلائٹ وین کی سہولت دھرنے والوں کو مہیا کرنے پر بند کر دیا گیا۔جنرل فیض نے مُجھے فون کر کے کہا کہ یا تو چینل 92 کو کھول دیں یا باقی سب چینلز بھی بند کر دیں۔میں نے کہا دونوں کام نہیں ہو سکتے، کُچھ ہی دیر بعد وفاقی حکومت نے اپنے اختیار کے تحت تمام چینلز بند کرنے کا حُکم نامہ بھیج دیا۔

کوئی پوچھے گا جنرل فیض سے کہ کیا مفاد تھا جو آگ لگانے اور بھڑکانے والے چینل92 کو اس وقت کھلوانا چاہتے تھے؟سمجھ آیا چینلز اور اینکرز کیسے چلتے، بند ہوتے؟“    
اگر آپ تمام سرکاری اداروں، محکموں بشمول فوجی سربراہان، انہیں ملکی آئین اور قانون کے مطابق چلنے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنے کی بات کریں گے تو اس کا مطلب ہوا کہ آپ ریاست کی جانب سے کھینچی گئی”ریڈ لائن“ کراس کر رہے ہیں۔

اگر آپ ملک میں جمہوریت، سیولین یا عوامی بالا دستی کی بات کرتے ہیں تو بھی آپ ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں،اگر آپ اپنے ہی ملک میں لاپتہ کیئے گئے افراد کے لیئے آواز بلند کر رہے ہیں اور انتخابات میں دفاعی اداروں کی کھلی مداخلت کی بات کریں گے تو سمجھیں آپ ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔اگر آپ جمہوریت سے متعلق قائدِ اعظم کے اقوال کو نمایاں اور آپ بانیِ پاکستان کے آخری ایام اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ روا رکھے گئے ریاستی سلوک سے متعلق لب کشائی کریں گے تو بھی یقینا آپ سرخ لکیر عبور کر رہے ہیں۔

اگر آپ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں سقوطِ ڈھاکہ سے متعلق لکھے گئے”واقعات“ قوم کو سنائیں گے اور ملک کا آئین بار بار توڑ کر مارشل لاء لگانے والے آمروں پر تنقید کریں گے تو بھی آپ سرخ لکیر کراس کر نے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔
یہی نہیں بلکہ اگر آپ سہیل وڑائچ کی بین شدہ کتاب”یہ کمپنی اب نہیں چلے گی“ اور پاکستان میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ  جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی شہرہ آفاق لیکن ملک میں بین شدہ کتب ”The Spy Chronicles “ اور   Honour Among Spies  کا حوالہ دے کر کوئی سوال اٹھاتے ہیں یا اس ضمن میں اپنی تشویش پر مبنی کوئی مضمون تحریر کرتے ہیں تو بھی آپ سیدھے سیدھے ریاست کی جانب سے کھنچی گئی سرخ لکیر عبور کر رہے ہیں۔

    
اگر آپ کورونا وائرس کے حوالے سے پاکستانی غریب عوام کے لیئے دی گئی غیر ملکی اربوں ڈالرز کی نقد امداد سے متعلق سوال اٹھائیں گے اور جنرل ریٹائرڈ عاصم باوجوہ پاپا جونز پیزا اسکینڈل سے متعلق سوال اٹھائیں گے تو جان لیں آپ ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔ اگر آپ ڈیم فنڈ کے نام پر عوام کی جانب سے بطور چندہ دیئے گئے بارہ ارب روپے کا حساب مانگیں اور پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے پاک بھارت خفیہ مذاکرات سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کریں گے تو بھی آپ سرخ لکیر عبو کر رہے ہیں۔

اگر ممبرانِ پارلیمنٹ دفاعی بجٹ سے متعلق خرچ کی تفصیلات جاننا چاہیں تو بھی اسے ریڈ لائن عبور کرنا سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ نیشنل اور سوشل میڈیا پر لگائی گئی حکومتی پابندیوں اور حالیہ سائبر کرائم ایکٹ پر تنقید کریں گے اور آئی ایم ایف کے ملازم کو گورنر اسٹیٹ بینک لگانے اور ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے پر اپنی تشویش ظاہر کریں گے تو بھی آپ ریاست کی لگائی گئی ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


اگر آپ روس اور امریکہ کی لڑائی یعنی سرد جنگ اور پھر نائن الیون کے فوری بعد افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں پاکستان کے بے دردی سے استعمال ہونے اپنی تشویش کا اظہار کریں گے اور اس ضمن میں ملنے والی اربوں ڈالرز کی امریکی نقد امداد کا حساب مانگیں گے تو بھی ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔اگر آپ کارگل جنگ اور سابق آمر پرویز مشرف کے حکم پر اکبر بگٹی کو ہلاک کیئے جانے،ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس اور لال مسجد آپریشن پر سوال اٹھائیں گے تو سمجھیں آپ نے ریاست کی جانب سے کھینچی گئی سرخ لکیر عبور کی ہے۔


اگر آپ سنگین غداری کیس کے مفرور سابق آمر پرویز مشرف کو دبئی سے پاکستان واپس لا کر اسے قانون کے مطابق سزا دینے کا مطالبہ کریں گے اور ریاستی اثاجات یعنی اچھے والے طالبان، حافظ سعید،لشکرِ طیبہ، جماعت الدعوہ،سپاہِ صحابہ اور تحریکِ لبیک پاکستان وغیرہ پر پابندیاں لگانے سے متعلق پوچھیں گے تو بھی آپ ریڈ لائن کراس کر رہے ہوں گے۔اگر آپ ماضی قریب میں تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنوں کو فیض آباد کے مقام پر ایک ایک ہزار روپے ”انعام“ دینے پر سوال اٹھائیں تو بھی یقینا آپ نے سرخ لکیر عبور کی ہے۔


اگر آپ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تاریخی دھاندلی اور آ ر ٹی ایس کی اچانک خرابی سے متعلق سوال اٹھائیں گے اور اگر آپ قادیانیوں کو غیر مسلم لکھیں اور پکاریں گے تو آپ پر ایف آئی آر درج ہو گی گویا آپ نے ریڈ لائن عبور کی۔
اگر آپ سی پیک کی بندش، حالیہ تین سالوں میں ملک کی تباہ شدہ معیشت اور کشمیر کی بندر بانٹ اور ناکام خارجہ پالیسی سے متعلق سوال اٹھائیں گے او آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق سوال اٹھائیں گے تو بھی آپ ریڈ لائن کراس کرنے کے مرتکب ٹھرائے جائیں گے۔


 ریاست کی جانب سے لگائی گئی مذکورہ بالا سرخ لکیر عبور کرنے کا مطلب ملک سے غداری،ملک دشمنی کرنے یا دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا لیا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز بات طور پر مذکورہ سرخ لکیر لگانے والے اور اس کے خالق از خود ریڈ لائن عبور کرنے کی پابندی سے ہمیشہ مبرا رہے ہیں،وگرنہ اس ملک میں نہ بار بار مارشل لاء لگتے، نہ ایمرجنسی لگتی، نہ بار بار ملک کا آئین معطل ہوتا اور نہ ہی عوام کے کسی منتخب وزیرِ اعظم کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جاتا اور بعد ازاں جلا وطن کر دیا جاتا اور نہ ہی تحریکِ طالبان، تحریکِ لبیک پاکستان اور لشکرِ طیبہ جیسی دیگر ایسی جہادی تنظیمیں بنائی جاتیں جن پر بعد میں فسادی اور دہشت گردی کرنے کا الزام لگا کر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔


 آخر میں عرض کروں گا کہ اگر حامد میر کو گولیاں مارنے کے بعد اگر”نامعلوم افراد“ کی”پریشانی“ ختم ہو جاتی تو آج انہیں ابصار عالم پر گولی چلانے کی تکلیف نہ کرنا پڑتی۔بالفاظِ دیگر نامعلوم افراد کی پریشانی کم ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ بڑھی ہے،اس ضمن میں انہیں گولیاں مارنے سے زیادہ بدلتے حالات میں سوچنے اور سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔      
امیدِ قوی ہے کہ اب ان احباب کو ریاست کی”ریڈ لائن“ اور اس کے تخلیق کاروں کے معنی بخوبی سمجھ آ چکے ہوں گے جو وہ پہلے نہیں جانتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :