بحرانوں کے بھنور میں گھرا پاکستان

جمعہ 29 نومبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

ہنگامہ خیز وحیرت انگیز سیاسی طوفان ،بھرپور ہیجانی کیفیت اور بے یقینی کی صورتحال کے بعد ملک ایک اور آئینی بحران سے نکل گیا ہے ۔پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں پر ایک بحران ابھی ختم نہیں ہوتا تو نیا بحران سر اٹھانے کے لئے تیار کھڑا ہوتا ہے۔بہت سارے بحران تو حکمرانوں کی نااہلی و نالائقی ،غیر سنجیدگی و من مرضیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔

پاکستان کو اس وقت بدترین سیاسی ،معاشی و انتظامی بحرانوں کا سامنا تھا مگر اچانک سے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی ایکسٹینشن کیس کی وجہ سے نیا آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہوگیا ۔پورے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا ہونے کے باوجود حکومت کی غیر سنجیدگی و معاملات میں ناتجربہ کاری نے اس معاملے کو مزید الجھا دیااور اپنی اہلیت پر بہت سے سوال کھڑے کردئیے ۔

(جاری ہے)

جوحکومت وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج و اتنی بڑی لیگل ٹیم کے باوجود قواعد و ضوابط کے مطابق آرمی چیف جیسی اہم ترین آئینی عہدے کی تقرری کا نوٹیفکیشن صحیح طرح جاری نہ کرسکے اور بار بار غلطیاں کرے اس کی قابلیت و اہلیت پر سوال تو اٹھیں گے ۔ خیر یہ بحران تو وقتی طور پر ٹل گیا ہے اور بال ایک بار پھر سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی کورٹ میں پھینک دی ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر قانون سازی کریں ۔

مگر یہ کیس بہت سارے اہم سوالات کے جوابات تشنہ چھوڑ گیا ہے جن کے جواب قوم کے سامنے آنا بہت ضروری ہیں ۔ سب سے اہم سوال کیا یہ محض نوٹیفکیشن میں غلطی کی وجہ سے اتنا بڑابحران پیدا ہوا یا اس بحران کو پیدا کرنے کی دانستہ یانا دانستہ کوشش کی گئی ؟کیا یہ کوئی سازش تو نہیں تھی ؟ کیا ہمارے آئینی و قانونی ماہرین اتنے اہم امور وآئین وقانون میں موجود سقم سے لاعلم تھے یا سابقہ حکومتوں کی قانونی ماہرین نے تجاہل غافلانہ برتی ؟ وزیراعظم کو سمری بنا کر دینے والے اور دیگر اہم بیوروکریٹس یا مشیروں میں سے کس نے وزیراعظم کو درست طریقہ کار کیوں نہیں بتایا ؟ یہ کس کی ذمہ داری تھی کہ وہ وزیراعظم کو بتائے کہ آئین و قانون کے مطابق یہ پراسیس ہے ؟ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے کیوں وزیراعظم کو لاعلم رکھا ؟ اور بہت سی افواہیں ہیں ، خدشات کا اظہار کیا برملا کیاجارہا ہے اور تانے بانے ملائے جارہے ہیں ۔

اس سارے معاملے میں پوری دنیامیں ملک وقوم اور ہمارے قومی اداروں کی جو جگ ہنسائی ہوئی اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس کا ازالہ کون کرے گا ؟ اورموجودہ حکومت کے آنے کے بعد یہ کوئی پہلا بحران نہیں تھا بہت سے سیاسی طوفان کھڑے ہوئے جس میں یہی لگتا تھا کہ بس ابھی ملک میں کوئی نیا ہنگامہ برپا ہونے والا ہے ۔ بہت سے معاملات حکومتی ناتجربہ کاری و نااہلی کی وجہ سے عدالتوں میں گئے اور حکومت کو ہر موقعہ پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔

وقتی طور پر یہ بحران بھی ٹل گیا مگر ابھی بہت سے بحرانوں کاراستہ روکنا باقی ہے ۔منیر نیازی صاحب نے شاید انہیں حالات کے بارے میں کہاتھا
اک اور دریا کا سامناتھا منیر مجھ کو
میں اک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا
 چند دنوں کے بعد چیف الیکشن کمشنر سردار رضاخان ریٹائرڈ ہوجائیں گے ان کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈلاک پیدا ہونے کی صورت میں ایک اور بحران جنم لینے کاخدشہ ہے ۔

اس ساری صورتحال میں وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انا وذات کی سحر انگیزی کے کھول سے باہر نکلیں اورمعاملات کو تدبر و حکمت کے ساتھ سنبھالیں ۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلے ۔حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کی گاڑی کے دوپہیے ہیں جن کے بغیر یہ گاڑی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی ۔ وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر ان تمام معاملات کا سنجیدہ و فوری حل تلاش کریں اور مفاہمت کے ساتھ ایک نیک نام چیف الیکشن کمشنر پر اتفاق کریں تاکہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملے پر کوئی نیاسیاسی طوفان نہ کھڑا ہو ۔

اس سے پہلے میاں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے پورے ملک میں ایک عجیب قسم کا سیاسی طوفان و بے یقینی کی فضا بنائی گئی جس سے لگتا تھا کہ پاکستان میں شاید صرف ایک ہی مسئلہ حل طلب ہے وہ ہے نوازشریف کی صحت ۔اسی دوران مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پس پشت چلاگیا جس کا احساس کسی کوبھی نہیں ہے۔
وائے ناکامی متاع کاروان جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
جس وقت حکومت کی پوری توجہ خارجی محاذ پر مرکوزہونی چاہئے تھی وہ سارا وقت اپنوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے داخلی مسائل کوحل کرنے میں گزر گیا ۔

جب تک ہمارے سیاستدان و مقتدر طاقتیں یہ نہیں سمجھیں گی کہ داخلی استحکام و معاشی خوشحالی کے بغیر آج کے دور میں کوئی جنگ نہیں جیتی جاتی اور نہ سیاسی ومعاشی طور پر کمزورقوموں کے مقدمے کوپوری دنیاکوئی اہمیت دیتی ہے ۔تبدیلی کے نام پر ووٹ لیکر آنی والی یہ حکومت جب سے آئی ہے تبدیلی کی بجائے پورے ملک میں عجیب وغریب وحیرت انگیز انکشافات اور شغل ہوتے ہیں ۔

کسی نے بلکل درست کہاتھا کہ یہ ”شغلیہ دور حکومت “ ہے جس میں ہروز کوئی نیاشغل و چٹکلہ سننے کوملتا ہے ۔ اس حکومت کی ایک اور مہارت ہے کہ اپنی غیرسنجیدگی و نامعاملہ فہمی ،بدتدبیری کی وجہ سے ”نان ایشو“کو ”ایشو “بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔وہ سانحہ ساہیوال ہو ،ڈی پی او پاکپتن کی تبدیلی ہو،آئی جیز کی باربار تبدیلی ،نوازشریف کی صحت ،مولانافضل الرحمن کا مارچ ، شہبازشریف کی بطور چئیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تقرری ہو ،ممبران الیکشن کمیشن کا تقرر یاپھر پارلیمنٹ چلانے میں وزرا ء کی غیرسنجیدگی اور سب سے بڑھ کر ایسے مزاحیہ بیانات کے ہر شخص ہنسنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور سوشل میڈیا پر جگ ہنسائی الگ ہوتی ہے ۔

فواد چوہدری کا 55 روپے ہیلی کاپٹر کا بیان ہو یا پھر فیصل واڈا کا ایک ہفتے بعد لاکھوں نوکریوں کا بیان ،مراد سعید کا دوسوارب ڈالر بیرون ملک سے پاکستان لانے کا بیان ، مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا 17 روپے کلو ٹماٹر کا بیان ہویا فردوس عاشق اعوان کے نت نئے اور بدلتے ہوئے انوکھے،غیر منطقی بیانات سب حکومت کی جگ ہنسائی کرواتے ہیں ۔ رہی سہی کسر عمران خان خود اپنی تقریروں میں پوری کردیتے ہیں بیرون ملک کبھی کسی ملک کی سرحد کسی اور ملک سے ملادیتے ہیں کبھی کوئی غلط حوالہ دے دیتے ہیں ۔

کبھی امریکہ میں غیر محتاط بیان دے دیتے ہیں جس پر دشمن ملک چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کردیتے ہیں ۔ کبھی وزیراعظم مخالفین کی دشنام طرازی میں اتنی حدیں پار کرجاتے ہیں جو بطور وزیراعظم انہیں زیب نہیں دیتیں ۔ اس حکومت کے آنے کے بعد ایک اور ٹرم کوبہت شہرت ملی ہے وہ ہے ”یو ٹرن “ ۔اس حکومت کا وطیرہ ہے کہ ہر بیان کے بعد نیا بیان اور پرانے بیان سے یوٹرن اور اس یوٹرن کا وزیراعظم خود دفاع بھی کرتے ہیں ۔

یہ یوٹرن اب اس حکومت کی چھیڑ بن چکا ہے مگر اب وزیراعظم کو اپنے ان نالائق و نااہل وزیروں وغیر سنجیدہ خوشامدی مشیروں سے جان چھڑوانی ہوگی بصورت دیگر امور مملکت کوخوش اسلوبی سے چلانا بہت مشکل ہوجائے گا ۔ہر روز نیا بحران ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہوتا اور اقتدار کے بے رحم کھیل میں طوفان حکومت وقت کے لئے ُبری خبرہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بروقت ،تدبر وحکمت سے حل کرلینا ہی بہترین لیڈر کی نشانی ہوتی ہے ۔

ورنہ اس طرح کے بحرانوں سے اپوزیشن و خفیہ طاقتیں اپناکھیل کھیلنے کے لئے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں ۔مگر سوال پھر وہی آتا ہے کہ ملک کوان طوفانوں سے نکالے گا کون ؟ کیا عمران خان کی اس ٹیم میں ان بحرانوں سے نکالنے کا ویژن وپروگرام اورحکمت عملی ہے تو جواب آئے گا ”نہیں “ ۔ہر شہری کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ ملک میں یہ طوفانوں کا سلسلہ کب تھمے گا ؟ہم تو داخلی بحرانوں کا حل ہی تلاش نہیں کرپارہے خارجی بحرانوں کاحل کیسے نکالیں گے ؟ملک سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ کب ہوگا؟ ایف اے ٹی ایف کی تلوار ابھی پاکستان پر لٹک رہی ہے ،آئی ایم ایف کی کڑی شرائط و ہماری ناگفتہ بہ معاشی حالت ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا مستقبل قریب میں کوئی لانگ ٹرم حل نظر نہیں آرہا ابھی تک تو صرف ڈھنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے کام چلایا جارہا ہے۔

ناکام معاشی پالیسیوں اور معاشی بحران کی وجہ سے عام آدمی کی مہنگائی ،بے روزگاری ،غربت سے زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔کاروبار تباہ ہورہے ہیں اور لوگ بیروزگارہورہے ہیں ،کاروباری طبقے سے لیکر کسان ،مزدور ہر کوئی پریشان ہے اور حکومت ہے کہ اس کی ہر تدبیر معاملات کودرست سمت کی بجائے الٹ سمت میں لے جاتی ہے
بقول مرزا غالب
کوئی امید برنہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
تو اس ساری صورتحال میں عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں اور سیاسی دنگل کا اکھاڑہ بنانے کی بجائے پارلیمنٹ کو درپیش سنگین بحرانوں سے نکلنے کا مرکز بنائیں ۔

سیاسی محاذ آرائی ختم کرکے یکسو ہوکر مسائل کے حل پر توجہ دیناوقت کی ضرورت ہے ۔اگر عمران خان نے اپنے پیش رووٴں والی غلطیاں دوبارہ دہرایں توان کا انجام بھی پہلے والے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہوگا ۔عمران خان اگر تاریخ میں نام لکھواناچاہتے ہیں تو ان کو نظام میں اصلاحات کا اپناوعدہ پورا کرناہوگا ورنہ حبیب جالب نے بہت پہلے اس وقت کے حکمرانوں کو ایک پیغام دیا تھا جس کو وہ سمجھنے سے قاصر رہے آپ کے لئے بھی وہی پیغام
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کوبھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا
کوئی ٹھہراہوجولوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
عمران خان صاحب آپکو بھی آج چند خوشامدیوں نے وہاں پہنچادیا ہے کہ آپکو اصل حقائق و معاملات سے بے خبر رکھاجارہا ہے آپ سے پہلے نوازشریف و زرداری صاحب کو بھی ایسے ہی خوشامدیوں اور ابن الوقت لوگوں نے گھیراہوا تھا ان کے انجام سے ہی سبق سیکھ لیں ۔

اقتدار کی غلام گردشوں سے دوراب نوازشریف صاحب لندن میں اور زرداری صاحب قیدمیں علاج کروارہے ہیں۔ وہ بھی اپنے اقتدار میں کسی کو درخوراتنانہیں سمجھتے تھے اور آج آپ کا طرز حکمرانی بھی ان سے مختلف نہیں ہیں
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سرعرش بریں تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :