
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- میر افسر امان
- قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ برعظیم میں نشاة ثانیہ کا پہلا پتھر
قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ برعظیم میں نشاة ثانیہ کا پہلا پتھر
بدھ 23 دسمبر 2020

میر افسر امان
(جاری ہے)
عام مسلمان، مدینہ کی اسلامی ریاست ،جو انسانیت کے لیے ایک مثالی حکومت تھی اور ہے، کے ہمیشہ خواہش مند رہے ہیں۔جس میں ریاست اور عوام کے حقوق و فرائض صاف صاف بیان کر دیے گئے تھے۔ جسے اللہ جل جلالہ کی ہدایات کے مطابق رسول صلی اللہ علیہ وسلام نے مدینہ میں قائم کیا ،جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے رول ماڈل ہے۔ رسول اللہ کے بعداسی حکومت الہیٰا کو خلفائے راشدین نے کامیابی سے چلایا۔ پھر اسی نظام کی برکت نے ۱۹۲۳ء تک مسلمان خلفاء نے دنیا کے چار براعظوں کی ہزاروں زبانوں، تہذیبوں ،تمدنوں او ثقافتوں والے عوام کو ملائے رکھا۔ اسی حکومت کے، پھر سے قیام کے لیے سید مودودی رحمہ اللہ ۱۹۳۲ء سے برعظیم کے مسلمانوں کو اپنے رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے بلاتے رہے۔ اس خیال کو عملی جامعہ پہنانے کے ۱۹۴۱ء لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیادرکھی۔ سید مودودی رحمہ اللہ نے مسلمانوں کی بربادیوں کا حل مسلمانوں کی اصل رول ماڈل مدینہ کی اسلامی ریاست کی طرف لوٹنے میں بہتر سمجھا۔ کافی سوچ وبچارکے بعد مسلمانوں کے ذہن صاف کرنے کے لیے اکتوبر۱۹۶۶ء میں ایک کتاب” خلافت ملوکیت “لکھی۔ جو اب تک تقریبا! اسی ہزار(۸۰) سے زاہد کی تعداد میں شائع ہو چکی ہے۔ خلوفت ملوکیت کتاب کئی تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہے۔ اس میں ثابت کیا کہ مسلمانوں کی بربادی کی بنیادی وجہ خلافت سے ملوکیت کی طرف جانے کی وجہ سے ہے۔ حکومت الہیٰا قائم کرکے مسلمان پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔مسلمان اور اسلامی حکومت بنیادی طور پر مشنری ہیں۔لہٰذا اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کو نافذکر نے کے لیے ہر مسلمان کو مشنری بن کر ڈٹ جانا چاہییے۔
قائد اعظم رحمہ اللہ کو اللہ نے یہ اعزاز بخشا کہ وقت کی کئی طاقتوں،جن میں برعظیم سمیت دنیا پر حکمران سیکولرزم اور سرمایہ دارانہ کے پرچارک انگریز، قوم پرست ہندو، اُبھرتے ہوئی دین بیزار کیمونسٹ تحریک اور مسلمانوں میں انگریز کی اشیر آباد پر نقب لگا کر نئی نبوت والے قادیانیوں کو بغیر جنگ کے، دلیل کی بنیاد پر اور مروجہ جمہوری طریقے سے شکست دے کر اُس وقت کی اسلامی دنیا کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی مثل مدینہ اسلامی ریاست پاکستان حاصل کی۔ جو اب ما شاء اللہ ایٹمی اور میزائل طاقت بن چکی ہے۔ کیا اتنی بڑی کامیابی کچھ کم اعزاز ہے؟
ہندوؤں لیڈر تحریک پاکستان کے دوران کہتے تھے کہ اب تو مسلمانوں کے سر پر قائد اعظم کا اسلامی جنون سوار ہو گیا ہے۔ابھی پاکستان بننے دو۔ اس کے بعد ہم آہستہ آہستہ سیکولرزم کا جادو ان پر طاری کر کے واپس اَکھنڈ بھارت میں شامل کر لیں گے۔قادیانیوں نے کہا تھا ہم وقتی طور پر پاکستان میں شامل ہو رہے واپس بھارت میں شامل ہو جائیں۔کیمونسٹ گھات لائے بیٹھے تھے کہ وقت ملنے پر اس نئی حکومت پر اپنے طریقہ پر قبضہ کر کے کیمونسٹ نظام قائم کر دیں گے۔
قائد اعظم رحمہ اللہ نے پاکستان بننے کے ساتھ ہی اپنے فرمودات کے مطابق مدینہ کی اسلامی رفاحی ریاست قائم کرنے کے اقدامات شروع کر دیے تھے۔قائد اعظم رحمہ اللہ نے علامہ اقبال رحمہ اللہ کی سوچ کے مطابق پہلے ” ری کنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹ“ کی بنیاد رکھی۔ اس کا ہیڈ ایک نو مسلم علامہ اسد رحمہ اللہ کو لگایا۔ یہ وہی علامہ اسد رحمہ اللہ ہے جو علامہ اقبال رحمہ اللہ کی تحریک پر چوہدری نیاز علی صاحب کے وقف پٹھان کوٹ جمال پور میں بیٹھ کر علامہ اقبال رحمہ اللہ کے تصورات کے مطابق ”فقہ کی تدوین جدید“ پر کام کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے سید مودودی رحمہ اللہ کو بھی اپنا آبائی وطن حیدر آباد دکن چھوڑ کر پنجاب پٹھان کوٹ جمال پور آنے کی دعوت دی۔سید مودودی رحمہ اللہ صرف اللہ کے لیے، علامہ اقبال رحمہ اللہ کے کہنے پر ۱۹۳۸ء میں ہجرت کر پٹھان کوٹ آئے ۔ جب پاکستان بن گیا تو قائد اعظم رحمہ اللہ نے ان یہ دو نوں شخصیتوں، علامہ اسد رحمہ اللہ اور سید مودودی رحمہ اللہ کو پاکستان میں اسلام کے عملی نفاذ کے طریقے وضع کرنے پر لگایا۔علامہ اسد رحمہ اللہ نے
۲
”ری کنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹ“۔ کے ذریعے اسلامی آئین،تجارت،معاشرت اور اسلامی نظام عدل پر کا فی کام کیا۔سید مودودی رحمہ اللہ نے ریڈیو پاکستان سے کئی تقریریں کر کے پاکستان میں اسلام کے عملی نفاذ کے طریقے بتائے۔ مگر قائد اعظم رحمہ اللہ کی موت کے بعدعلامہ اسد رحمہ اللہ کو اس کام سے ہٹا کر اقوام متحدہ میں سفیر لگا دیا۔ ذرائع کہتے ہیں علامہ اسد رحمہ اللہ کے کیے گئے کام کو ایک قادیانی بیروکریٹ نے جلا دیا۔ سید مودودی رحمہ اللہ کو سیفٹی ایک کے تحت نظر بند کر دیا۔ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چودہ سو سالہ پرانی اسلامی نظام اس دور میں نافذ نہیں ہو سکتا؟جماعت اسلامی نے سیکولر سوچ کے خلاف مہم چلائی۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب شہید ملت نے قراراد پاکستان کو آئین کے دیباچے کے طور پر داخل کی۔ پاکستان بننے کے بعد کیمونسٹوں نے مشہورشاعر فیض احمدفیض صاحب کو ملا کر پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی بغاوت کی۔ مگر اللہ نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ان پربغاوت کا مقدمہ چلا۔ لیاقت علی خان کو کیمونسٹوں نے ایک سازش کے تحت راولپنڈی لیات باغ میں شہید کر دیا۔
بھارت نے اپنے ڈاکٹرائن کے مطابق سرحدی گاندھی غفار خان کو قومیت کے نام پر پشتونستان بنانے پر لگا کر اپنے سیکولر ایجنڈے میں رنگ بھرنا شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں پاکستان کے ترقی کے ضامن کالا باغ ڈیم کو آج تک نہیں بننے دیا۔ولی خان نے پشتونستان بنانے کے لیے افغانستان کے قوم پرست سردار داؤد سے پاکستان توڑنے کے لیے مدد مانگی۔ اس کو پیغام بھیجا کہ پاک فوج بھارت سے شکست کے بعد کمزور پڑھ گئی ہے وہ پشتوں اور بلاچوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گے۔کچھ پشتون پائلٹ پاک ایئر فورس کے جیٹ جہاز اغوا کر کے افغانستان میں لینڈ کریں گے۔ انہیں پاکستان کو واپس نہ کرنا۔سردار داؤد نے جمعہ خاں صوفی کو جو اجمل خٹک کے کہنے پر افغانستان میں بیس سال سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا، کو ولی خان کے پاس پیغام دے کر بھیجا کی میں پشتون زلمے کو دہشتگردی کی ٹرینیگ دینے کے تیار ہوں۔ پھر پشتورن زلمے، بلوچ اور سندھ کے کیمونسٹ کابل دہشت گردی کی ٹرینیگ لینے افغانستان گئے۔ ولی خان نے کابل میں ان کی دہشت گرد فورس سے سلامی بھی لی۔یہ بھارت، عراق اور روس کے سفارتخانوں سے فنڈ لیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کا منحرف اور پنجاب کا سابق گورنر غلام مصطفے کھر بھی کابل جانے والوں میں شامل تھا۔ بھٹو نے اسی بنیاد پر ولی خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی قائم کیا تھا۔ جو جنرل ضیاء نے بھٹو دشمنی میں ختم کیا۔(حوالہ کتاب فریب ناتمام۔مصنف ولی خان پارٹی کا منحرف لیڈر جمعہ خان صوفی)۔ جب امریکی فوج نے افغانستان میں افغان طالبان کی جائز امارت اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے حملہ کرنا چاہا، تو اس کی کانگریس سے اجازت لینی چاہی۔کانگریس نے واپس کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ افغانوں نے برطانیہ اورسویت روس کے حملہ آوروں کو شکست فاش دی ہے۔امریکا فوج نے کہا کہ اس کا ہم نے اس کا علاج کر لیا ہے۔وہ علاج یہ تھا کی بزدل کمانڈو جنرل ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے امریکا کے خفیہ اداروں کو فاٹا کے اندر قوم پرستوں کو افغانستان کی امارت اسلامی کے طالبان کے خلاف قوم پرست حکومت اور پشتونستان بنانے کے وعدے پر ٹرینیگ دینے کی سہلوت دے رکھی تھی۔( حوالہ کتاب یہ خاموشی کب تک۔مصنف (ر)جنرل شایدعزیز) اس سے قبل اخبارات میں خبر لگی تھی کہ اسفند یار ولی نے امریکاکا دورا کیا ہے۔ اوباما سے ملاقات میں افغان طالبان کی جائز امارت اسلامی کو ختم کر کے وہاں قوم پرستوں کی حکومت اور پاکستان کے قوم پرستوں کو ملا کر پشتونستان کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کاکوئی خفیہ معاہدہ کیا۔ اسفند یا ولی خان نے اس الزام کی آج تک تردید نہیں کی۔ بیگم نسیم ولی خان نے اسفند یار ولی سے اختلافات کیے۔ ایک پریس کانفرنس میں اسفند یار ولی پر الزام لگا یا کہ بتایا جائے کہ پشتون قوم کو امریکاکے ہاتھوں کتنے ڈالروں میں فروخت کیا ہے۔ پاکستان کے دوست نما دشمن امریکا نے تحریک طالبان پاکستان بنائی۔ اس کا اعتراف امریکی وزیر دفاع نے پریس میں کیا تھا۔ اس نے پاکستان میں دہشت گردی پھیلائی ۔ پاک فوج نے الطاف حسین اور تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کا صفیا کر کے پاکستان میں امن و امان قائم کیا۔ اب بھی امریکا ، بھارت اور اسرائیل افغانستان کے ذریعے دہشت گردی کروا رہا ہے۔ بھارت نے بلوچی گاندھی عبدلاصمد اچکزئی کو قومیت پر لگا کر سیکولر کے ایجنڈے کو پوار کرنے پر لگایا۔ سندھ میں غلام مصطفے شاہ(جی ایم سید) جس نے سندھ اسمبلی بھی قراداد پاکستان پیش کی تھی کو سندھی قومیت کا پرچارک بنا کر سامنے لایا۔ جی ایم سید نے تو اندرا گاندھی کو پاکستان پر حملہ کر پاکستان سے آزادی دلانے کی درخواست کی تھی۔ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں جعلی مہاجر قومیت کے نام پر غدار وطن الطاف حسین کو کھڑا کیا۔ اس کو اعلانیہ فنڈ اور دہشت گردی کی ٹرنینگ دی۔ الطاف حسین نے ساری حدیں پار کر کے پاکستان کو ناسور کہا اور بھارت، اسرائیل اور امریکا سے پاکستان توڑنے کی اپیل کی۔ اب اس کو اللہ نے نشان عبرت بنا دیا ہے۔ وہ بھارت کی شہریت کے لیے ہندو مذہب اختیار کے بھارت کا شہری بننا چاہتا ہے۔ جب پاکستان بنا تو قادیانی پوری حکومت، یعنی فوج اور بیروکریٹس میں شامل تھے۔ جنہیں انگریزوں نے بھرتی کیا تھا۔ کسی کو حکومتی عہدہ پر لگنا ہوتا تو قادیا نیوں سے سفارش کی ضرورت ہوتی تھی۔ بھٹو کے دور میں تو فضائیہ، بحری کے چیف قادیانی تھے۔ بری فوج کا ڈپٹی چیف بھی قادیانی تھا۔ قادیانی قائد اعظم کی اسلامی وژن کے ہمیشہ مخالف رہے۔ بھارت نے اپنے پرانے نمک خوار صوبہ بلوچستان کے بلوچ علیحدگی پسندوں کو قومیت کاراگ الاپنے اور پاکستان سے علیحدہ ہونے پر لگایا۔ جو آج بھی بھارت میں بیٹھ کر بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذا کو تعلیمی اداروں میں دو قومی نظریہ کے خلاف تیارکرنے کے کام پر لگایا۔اسی کی کوک سے بنگالی قومیت نے جنم لیا، جو بعد میں بنگالی زبان اور حقوق کے نام پر غدار وطن شیخ مجیب کی
۳
اگر تلہ سازش اور بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی شروع کی۔ غیر بنگالیوں کاقتل عام کیا۔بھارت فوج نے بین لاقوامی سرحد عبور کر پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ بھارت کے ڈاکٹرائین کے مطابق سیکولر بھات کا طفیلی ملک بنگلہ دیش بنا دیا۔ پاکستان بچانے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دینے پر اب بھی جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو ایک ایک کر کے بھارتی کٹ پتلی حسینہ واجد وزیر اعظم بنگلہ دیش نے سولی پرچڑھا دیا۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی بنگلہ دیش اب بھی قائد اعظم رحمہ اللہ کے دوقومی نظریہ کو زندہ کی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش بنانے پر وزیر اعظم اندرا گاندھی نے گھمنڈ میں ا ٓکر بیان دیا۔ میں نے قائد اعظم رحمہ اللہ کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں دفنا دیا۔ مسلمانوں سے ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ بھی لے لیا۔ اب بھی پاکستان میں بھارت کے پے رول پر سیکولر لوگ منظم طریقے مہم چلائے ہوئے اور قائد اعظم رحمہ اللہ کو جھوٹ کی بنیاد پر سیکولر ثابت کرنے کی بے کار کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ سورج کو انگلی دیکھانے والی بات ہے۔ حکمران چاہے پیپلز پارٹی کے ہوں یا نون لیگ کے ، سب بھارت کے بیانیہ پر پاکستان کو سیکولر بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا عوام ان کو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی بولی بولنے والی سیاسی پارٹیوں کو رد کر کے پاکستان میں قائد اعظم رحمہ اللہ کے اسلامی وژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے والی جماعت اسلامی کے ہاتھ مضبوط نہیں کرنے چاہیں؟ قوم پرستوں نے پاکستان کو دو ٹکڑے کیا۔کیا باقی پاکستان میں بھی قومیتوں کے راگ اپانے والوں کو کھلی چھٹی دیانا قائد اعظم کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے؟کیا ان کا عوام کو محاسبہ نہیں کرنا چاہے؟ پاکستان میں صرف ایک جماعت اسلامی ہے جو قائد اعظم کی حقیقی جان نشین ہے۔ جو دو قومی نظریہ اور قائد اعظم رحمہ اللہ کے اسلامی وژن کی پشتی بان ہے۔اگر پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم رحمہ اللہ کے وژن اور برعظیم کے مسلمانوں کے خوابوں کے مطابق اسلامی نظام قائم کر دیا جاتا تو نہ پاکستان کے ٹکڑے ہوتے نہ ہی بھارت میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا۔ اب تک کشمیر بھی پاکستان میں شامل ہو چکا ہوتا۔ پاکستان میں قائد اعظم رحمہ اللہ کے وژن کے مطابق عمران خان اسلامی نظام اسلامی نافذ کرنے کو وعدے پر جیت کر آئے ہیں۔ مگر عمران خان نے اب تک کوئی ٹھوس کام، نہیں کیا۔جماعت اسلامی جو اس کام کے لیے برسوں سے تیاری کی ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام کوچاہیے کہ جماعت اسلامی کو الیکشن میں کامیاب کریں تاکہ وہ اس ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ کر دے۔ سید مودودی رحمہ اللہ نے ۱۹۳۲ء میں صدا لگائی تھی ۔بس عوام کی الیکشن میں کامیاب کرنے کی دیری ہے۔ آئی جے آئی کے وقت نواز شریف نے کہا تھا جس دن آئی جے آئی جیتے گی۔ پاکستان میں اسلامی نظام رائج کر دیا جائے گا، مگر جب اقتدار ملا تو کہنے لگے نماز ، زکوٰة،روزہ اور حج کریں، بس یہ ہی اسلامی نظام ہے۔ میں انتہا پسند مسلمان نہیں(حوالہ پروفیسر عبدالغفور کتاب نواز شریف کا پہلا دور) ۲۰۱۳ء کے انتخابات جیتنے کے بعد اعلانیہ کہا تھا کہ میں سیکولر ہوں۔ قاعد اعظم رحمہ اللہ کے ۱۹۴۰ء کی لاہور مینار پاکستان پر تاریخی تقریر جو قرا ردادمقاصد اور بعد میں ہندو پریس نے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا۔ قائد اعظم رحمہ اللہ نے اس تقریر میں کہا تھا کہ ہندو مسلم دو قومیں ہیں۔ ان کے کھانے پینے،تہذیب تمدن ثقافت سب علیحدہ ہے۔ ایک کے ہیرو، دوسرے کے ولن ہیں۔ اس کی نفی کرتی ہوئے نواز شریف نے لاہور میں کہا کہ ہندو ؤں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں۔ہم ایک ہی قوم ہیں۔ کھاتے پیتے ایک جیسا ہیں۔ ہماری تہذیب تمدن ثقافت ایک جیسی ہیں۔
انگریز نے مسلمانوں سے تجارت کے فریب کے ذریعے اقتدادچھینا تھا۔ اس نے خوف کی وجہ سے کہ کہیں مسلمان ان سے واپس حکومت نہ چھین لیں، مسلمانوں کو دبا کے رکھنے بلکہ دوسرسے نمبر کا شہری بنانے میں اپنی پوری قوت لگا دی۔ پھر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد تو مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ برعظیم کی سڑکوں کے کنارے درختوں کے تنوں سے لٹکی جنگ آزادی کے مجائدین کی لاشوں کو دنیا نے دیکھا۔ انگریزوں نے اپنی تو پوں کے دہانوں کے سامنے باندھ کر مسلمانوں کو زندہ اُڑا دیا۔ رہی سہی کسرمسلمان غداروں نے ریکی کر کے پوری کی۔ انگریز فوج کو مجائدین آزادی کے ٹکانوں کا پتہ بتا کر ان کے قاتل عام میں شریک ہوئے۔ ان غداروں کو بعد میں انگریزوں نے مسلم دشمنی میں جائیدادیں دیں۔ کالے پانی اور اثاثوں کا ضبط ہونا بھی تاریخی حقیقت ہے۔ آج بھی ہی جاگیردار پاکستان کی سیاست پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
صاحبو! قائد اعظم رحمہ اللہ نے بر اعظیم کے مسلمانوں کو وقت کی بڑی طاقتوں کی غلامی سے نکال کر، اُس وقت کی اسلامی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست مثل مدینہ” مملک اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، دلیل اور مروجہ جمہوری اور پر امن طریقے سے حاصل کر کے دی۔ واقعی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ برعظیم میں اسلامی نشاة ثانیہ کے پہلے پتھر ہیں۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کا کام تھا کہ پاکستان کو قائد اعظم کے دو قومی نظریہ اور اسلامی وژن کے مطابق مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بناتے تو ملک دو لخت نہ ہوتا۔پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہمیں ختم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ قائد اعظم رحمہ اللہ کے اسلامی وژن کے مطابق ملک میں اسلام کا بابرکت اسلامی نظام حکومت قائم کر دیا جائے۔ بھارت کو اعلانیہ کہہ دیا جائے کہ اگر پاکستان نہیں تو بھارت بھی نہیں۔ملک کے عوام ایٹمی میزائل قوت والے مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے جانوں کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔اللہ پاکستان کو ترقی کے راستے پر گامزن کرے آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.