جوبائیڈن کے وعدے اور داستان پی ڈی ایم

پیر 9 نومبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

اور آخر کار 20اگست 1942ء میں امریکہ کی ریاست پنسلوینیا کے ایک چھوٹے سے شہر دلویر میں پیدا ہونیوالابچہ امریکہ کا صدر بننے جا رہا ہے، اس کا نام جوبائیڈن ہے۔ پچھلے ہفتے جوبائیڈن نے پہاڑ جیسے عصابوں کے مالک ٹرمپ کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ گزشتہ ہفتے ہونیوالے امریکی الیکشن میں بہت زیادہ کانٹے دار مقابلے کے بعد ٹرمپ الیکشن کی دوڑ سے باہر نکلتا نظر آ رہا ہے اور نکلتے نکلتے نواز شریف کی طرح '' مجھے کیوں نکالا'' والا شور ڈالنے کی کوشش کی، امریکہ کی سپریم کورٹ میں الیکشن میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی رکوانے کی بھرپور کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے ٹرمپ اور اس کے وکلاء کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کیس کو خارج کر دیا۔

ان کی اکثریت سے قوی امیدہے کہ جوبائیڈن امریکہ کے اگلے صدر ہونگے۔

(جاری ہے)

جوبائیڈن اس وقت تک امریکہ کے صعیف ترین یا بوڑھے ترین صدر ہیں ۔ جب تک یہ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ان کی عمر 78 سال ہو چکی ہو گی۔اس سے پہلے یہ 1968ء میں قانون کی اعلٰی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے بعد جوبائیڈن 1970-71 ء میں اپنی ایک الگ لاء فرم بھی قائم کرچکے ہیں۔اسی عرصہ میں یہ ڈیموکریٹک جماعت میں شامل ہو کر سیاست کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے۔

انہی دنوں جب جوبائیڈن نے سینیٹر کا الیکشن جیتا انہی دنوں ان کا ایک بڑا خطرناک کار ایکسیڈنٹ ہوا جس میں ان کی بیوی اور ایک بچی ہلاک ہو گئے، جبکہ یہ خود اور ان کے دو بیٹوں کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا ، اور اس حادثے کے بعد یہ اور ان کے دو بیٹے ایک لمبے عرصے تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ بلکہ انہوں نے اپنی سینیٹرشپ کا حلف بھی ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے لیا۔

1977ء میں جوبائیڈن نے دوسری شادی جل جیکب نامی عورت سے کی جو اب اگلے چند روز بعد امریکی خاتون اول بن جائیں گی۔ جل جیکب میں سے ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی نے ہمیشہ ان کو پارٹی کے اہم عہدوں پر فائزرکھا، کئی ایک کمیٹیوں کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ بلکہ جن الیکشن میں براک اوبامہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے اس الیکشن میں اوبامہ سے پہلے جوبائیڈن کا نام لیا جاتا رہا ہے ۔

اگر براک اوبامہ اس الیکشن میں حصہ نا لیتے تو ان الیکشن میں جوبائیڈن ہی صدارتی انتخابات میں حصہ لیتے۔اوبامہ کے ہی دور میں تقریباً 8 سال تک یہی جوبائیڈن امریکہ کے نائب صدربھی رہے، اسی دوران اوبامہ حکومت نے ان کی حکومتی خدمات کے اعتراف کے طور پر امریکہ کے سب سے بڑے سول ایوارڈ '' میڈل آف فریڈم'' سے بھی نوازا ۔اب اگر دیکھا جائے تو جوبائیڈن ایک ذہین ، زیرک اور سیاست کے میدان میں نہایت تجربہ کار سیاست دان کے طور پر مانے جاتے ہے۔

انہوں نے اپنی الیکشن کمپین میں جن باتوں کو مدنظر رکھ کرامریکی عوام سے جو وعدے کئے ہیں ، اور امریکہ کے عوام نے امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ انہیں دیئے ہیں۔ ان الیکشنز میں جوبائیڈن نے اپنے الیکشن منشور میں پہلے نمبر پر یہ وعدہ کیا ہے کہ امریکہ میں گرین ٹرمالوجی یعنی موسمیاتی اورماحولیاتی نظام کی تبدیلیوں اور پالوشن سے لڑنے اور ان پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی جائیگی ، امریکہ اور دنیا بھر میں ایسی انرجی بنائی جائیگی جس میں پالوشن پر قابو پایا جائیگا۔

کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وباء نے تباہی پھیلا رکھی ہے،دنیا بھر کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی متاثرہ ممالک میں صف اول میں ہے، جس کے باعث امریکہ میں ہیلتھ کا شعبہ بھی کھل کر دنیا بھر کے سامنے ایکسپوز ہوا ہے اور اس کی ناقص کارکردگی سامنے آئی ہے، جہاں انسانی صحت کے حوالے سے بہت سارے ایسے شعبے ہیں جہاں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

دوسرے وعدے میں بائیڈن نے صحت کی پالیسی میں سختی سے نبٹنے کیلئے وعدہ کیا ہے کہ امریکہ اور دنیا بھر میں ہیلتھ کیئر کے شعبہ کو ترقی دی جائیگی، کیونکہ ایسے ہی وعدوں سے الیکشن میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے جا سکتے تھے۔ تیسرا وعدہ امیگریشن کے حوالے سے ہے، امریکہ ایسا ملک ہے جہاں بے شمار لوگ امیگریشن کے حصول کیلئے کوشاں رہتے ہیں، دنیا بھر سے مختلف قوموں،نسل،اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگ امریکہ میں بسیرا کئے ہوئے ہیں، ٹرمپ ایسے تمام غیرملکی امیگرینٹس کے حق میں نہیں، اور پچھلے دور حکومت میں ٹرمپ نے امریکہ میں مقیم اور دنیا بھر سے آنے والے امیگرینٹس کیلئے دن بدن امیگریشن پالیسیاں سخت سے سخت کئے رکھیں اور ان کیلئے امریکہ کی زمین تنگ کر دی، لیکن اس الیکشن میں جوبائیڈن کا اگلا وعدہ ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ناصرف وہاں مقیم بلکہ دنیا بھر سے امریکہ میں امیگریشن حاصل کرنے کے خواہاں امیگرینٹس کیلئے امریکی قانون میں نرمی کی جائیگی تاکہ وہ یہاں سیٹل ہو سکیں ، اور ان کیلئے آسانیاں پیدا ہوں، ان کا اپنے منشور میں یہ بھی ماننا ہے کہ اگر کوئی دنیا بھر سے امریکہ میں آ کرمستقل رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے تو وہ ضرور آئے ، جس سے امریکہ کو یہ فائدہ ہو گا کہ ہر آنے والا اپنے ساتھ پیسہ بھی لائے اور ذہین ترین افراد بھی امریکہ میں اپنی ذہانت کے جوہر دکھائیں جس کا امریکہ کو ہی فائدہ ہو گا۔

پچھلے ٹرمپ دور حکومت میں پولیس کے ہاتھوں جارج فرائیڈ کی موت کے بعد کئی ہفتوں تک امریکہ میں نسلی فسادات کے باعث کئی ریاستوں میں کرفیو بھی لگادیا گیااور ان نسل پرستی ، ذات پات اور کالے گورے کے بھید بھاؤ نے امریکہ بھر میں ٹرمپ کے کروڑوں ووٹوں کو بہت بڑا دھچکا لگا، پورے امریکہ میں اس وقت 13 فیصد آبادی سیاہ فام ، حبشی کالوں کی ہے جنہوں نے ٹرمپ کے ووٹ بینک کو بہت بڑا ڈینٹ ڈالا ہے، موجودہ کامیاب ہونیوالے صدر جوبائیڈن نے ان نسل پرستوں سے بھی ان کے تمام حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا ہے، جس کے باعث انہیں موجودہ الیکشن میں ایک بہت بڑی تعداد نے ووٹ کاسٹ کیا ہے۔

اور ان کے منشور میں سب سے بڑا وعدہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل لیڈر شپ اوردنیا بھر سے تجارت کو بڑھاوا دینا۔ امریکہ اور اس کے تھنک ٹینکس کو پچھلے کئی ماہ سے یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ امریکہ کی سپر پاور شپ آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے ۔ جس کے باعث امریکہ کا امیج دنیا میں کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، جس کا اظہار کچھ عرصہ قبل چین کے صدر نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کر دیا ہے کہ دنیا میں اور بھی کئی دوسرے ممالک ہیں جن کے پاس لیڈر شپ کی وہ تمام کوالٹی موجود ہیں جو ایک سپر پاور لیڈر شپ میں ہونی چاہئے۔

اب دنیا امریکی قیادت کو والڈ سپرپاور کی واحد آپشن کے طور پر نہیں دیکھ رہے امریکی قیادت یا امریکہ اب دنیا بھر میں سپرپاور کے طور پر اکیلا نہیں ، اس بات کو یورپ کے کئی ممالک بھی مانتے ہیں۔ منشور میں نئے صدر جوبائیڈن کا اپنی امریکی قوم سے پانچواں وعدہ یہی ہے کہ اب ہم دنیا بھر سے منوائیں گے کہ ہم ہی سپر پاور تھے ، ہیں اور رہیں گے، کیونکہ امریکن صدر ہی دنیا بھر کی سب سے مضبوط شخصیت ہیں۔

یہ دعویٰ ایک خطرناک بات ہے، کیونکہ ان عقل کے اندھوں کو کوئی یہ سمجھائے کہ ''اس دنیا میں سپر پاور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے''۔۔۔
 اگلے ہفتے پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے الیکشن کادوردورا ہے۔ پاکستان کی تین مضبوط سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے تئیں زور آزما ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اس سے قبل پاکستان کی 11 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اپنے طور پر ملک بھر میں خوب دھیماچوکڑی کئے رکھی۔

پہلے ہی جلسہ میں مریض اعظم نواز شریف کی تقریر نے ان کی اپنی پارٹی کے علاوہ دوسری بہت سی پارٹیوں میں آگ سی لگا دی۔ لیکن پیپلز پارٹی نواز شریف کی چال نما تقریر کو بخوبی سمجھ گئی ۔ کہ یہ اپنی ذاتی لڑائی کے جواب میں بندوق پی ڈی ایم کے کندھوں پر رکھ کر چلانے کا سوچ رہے ہیں، اس کے بعد کراچی جلسہ میں کیونکہ پی پی پی ہی اس اتحادی جلسے کی میزبان تھی ، انہوں نے سرے سے نواز شریف کو تقریر کرنے سے روک دیا۔

اس سے اگلے کوئٹہ جلسہ میں بلاول بھٹو نے خود ساختہ مصروفیت کا دعویٰ کر کے اپنے آپ کو جلسہ سے علیحدہ کر لیا، اور خودکو گلگت بلتستان کے الیکشن میں کمپین کا بہانہ بنا کر مصروف کر لیا۔ جب نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر گوجرانوالہ اور کوئٹہ میں تقریر کی تھی اسی وقت پاکستان کے تجزیہ نگاروں سمیت بہت سے سیاست دانوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ بہت جلد پی ڈی ایم میں دراڑیں پڑنے والی ہیں ، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ نواز شریف اپنے خاندان کو اس سارے معاملے سے نکالنے کیلئے کچھ بھی کرنے سے باز نہیں آئیں گے، اور سیدھے آرمی چیف جنرل باجوہ اورڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کیخلاف جھوٹے الزامات سے کوشش کریں گے کہ ملک میں بے چینی اور انارکی پھیلے۔

ان کی پہلی تقریراور کوئٹہ جلسہ کی تقریر کے بعد پیپلز پارٹی نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو الگ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اور آج ہی اس کے اثرات ایسے دیکھنے کو ملے ہیں کہ بلاول بھٹو نے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہہ دیا ہے کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کی تقریر میں ان کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ تقریر نواز شریف کی افواج پاکستان کے سربراہان کے متعلق ان کی اپنی ذاتی رائے ہے۔

اس کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ کوئی بھی ہرگز یہ نا سوچے کہ پیپلزپارٹی ناراض ہے یا غصے میں ہے، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سیاست کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ جو تقریریں ہو رہی ہیں یہ دراصل وہی مثل ہے کہ '' ناخود کھیلیں گے نا آپ کو کھیلنے دیں گے '' ۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے بلاول ہے تو بچہ لیکن اس کے پیچھے زرداری جیسے شاطر دماغ کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بھی اس انٹرویو میں اپنے آپ کو الگ کر کے نوازشریف کو پاک افواج اور عدلیہ کے سامنے اکیلا کھڑا کر دیا ہے۔پی پی پی نے بھی وہی سیاست کھیلی جو چند سالوں پہلے نواز شریف نے زرداری کے ساتھ اپنے دور حکومت میں کھیلی تھی۔ نوازشریف نے زرداری کو ہلاشیری دی تھی کہ جائیں زرداری صاحب آپ پاک فوج کو آنکھیں دکھائیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، اور زرداری صاحب نے بھی اپنی ایک تقریر میں فوج کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ '' ہم آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے'' اس کے بعد زرداری صاحب نے نواز شریف سے ملاقات کی کئی بار کوشش کی لیکن ملاقات تو دور کی بات کسی فون کا بھی کوئی جواب تک نا دیا اور اپنے آپ کو پی پی پی سے علیحدہ کر لیا تھا۔

آج بلاول بھٹو کے بی بی سی کے انٹرویو میں بیان دے کر اس پرانے سیاسی قرضے کا حساب کو چکتا کر دیا ہے جو کئی برسوں پہلے نواز شریف نے چڑھا دیا تھا۔کیونکہ پی پی پی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اوران کے بعد آصف علی زرداری بھی یہ کہتے سنے جاتے تھے کہ '' جمہوریت ایک دن بہترین بدلہ لیتی ہے'' اور آج پی پی پی نے بھی نواز شریف سے بدلہ لے لیا ہے۔آسان لفظوں میں کہا جائے تو آج پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو پی ڈی ایم سے علیحدہ کر لیا ہے، اس کے نتیجہ میں پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔

نواز شریف نے ایسی تقاریر کر کے خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مار لیا ہے، انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اپنی تقاریر میں ملکی معیشت ، بے روزگاری،مہنگائی ، غربت اور حالات کی خرابی پر زور دیتے تو شائد آج پی ڈی ایم کے اتحاد کی کچھ اور ہی صورتحال ہوتی۔مگر بیمار اعظم نواز شریف نے اسے اپنی اور اپنے خاندان کی ذاتی جنگ میں بدل دیا۔ نواز شریف نے سوچا ہو گا میں اس گیارہ پارٹی اتحاد کو اپنی ذاتی لڑائی کیلئے استعمال کروں گا اور اب اس گیارہ پارٹیوں کے اتحاد میں سب سے بڑی پارٹی پی پی پی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

اس ساری صورتحال کا آغاز جنوری 2020 ء میں ہوا جب نواز شریف لندن میں حامد کرزئی کے علاوہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ ، انڈین انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگوں کو ملے ، اور پاکستان کے قومی سلامتی کے رازوں سے پردہ اٹھایا ، جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوا، جن کے سامنے انہوں نے اپنا رونا رویا اس کے بعد انہوں نے بھی انہیں دوبارہ منہ نہیں لگایا اور انہیں کسی بھی طرح کوئی گھاس نہیں ڈالی، جس کے بعد وہ مایوس ہوئے اور اپنے بھائی مریض اعلٰی شہباز شریف کو پاکستان اس نیت سے بھیجا کہ آپ وہاں جا کر فوج کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاتے ہوئے استوار کریں ۔

چھوٹے بھائی نے اندر کھاتے پاکستانی افواج کو اس موضوع پر بات کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کی رپورٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی افواج کے سرابرہان نے انہیں دوٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ جس طرح انہوں نے پاکستانی حساس رازوں کو افشاں کیا ہے انہیں کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے بعد مسلم لیگ ن کے سرکردہ لیڈر محمد زبیر نے بھی دو ملاقاتوں میں کوشش کی کہ بات دب جائے لیکن ان کی ملاقاتیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے نواز شریف اور مسلم لیگ ن میں مایوسی حد سے تجاوز کر گئی جس کے نتیجہ میں نواز شریف نے پاکستان کے قومی ریاستی اداروں کے خلاف زہر اگلناشروع کر دیا۔انہوں نے گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کو ساتھ لیکر چلنے میں یہ سوچا ہو گاکہ پورے پاکستانی سڑکوں پر نکالوں اور پاکستان آرمی اور عدلیہ کے خلاف ایک بڑا محاذ بنا لوں گا، ابھی 3/4 روز قبل نواز شریف نے لندن میں مقامی صحافیوں کو مائیکس میں بولا کہ میں جو بھی بیان دیتا ہوں اسے سوشل میڈیا پر وائرل کیا کریں۔

میاں صاحب پاکستان میں چند لفافہ صحافیوں کے ذریعے یہی سب کچھ کرتے بھی رہے ہیں، اور اب یہی لفافہ صحافی کے منہ کو جو حرام کا نوالہ لگا تھا اسی کے نا ملنے کے باعث وہی صحافی آج کل بھی اپنے کالمز اور ٹی وی ٹاک شوز میں انہیں مظلوم ثابت کرنے کے حیلے بہانے تلاش بھی کرتے ہر پاکستانی کو نظر آتے ہیں۔اللہ ان سب کو ہدایت دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :